لندن میں خوف پر امید کی فتح
انڈونیشیا کے دارالحکومت جکارتہ کے پہلے عیسائی گورنر باسوکی جحاجا پرناما کا ٹویٹر پیغام اہمیت رکھتا ہے۔ انھوں نے اپنے پیغام میں لکھا کہ صادق خان! آپ کو لندن کا میئر بننا مبارک ہو۔ یہ جمہوریت، میرٹ اور رواداری کی ایک متاثر کن کہانی ہے۔
لندن کے نومنتخب مسلمان میئر صادق خان نے اپنی کامیابی پر خود جو تبصرہ کیا ہے وہ ہرتبصرے سے گہرا، بامعنی اور حقیقت پر مبنی ہے۔ یہ اس لیے بھی زیادہ اہمیت کا حامل ہے کہ ان کے لیے یہ انتخابی عمل فقط دیدہ و شنیدہ نہ تھا بلکہ چشیدہ تھا۔ انتخابات میں اپنی کامیابی کے بعد صادق خان نے اپنے خطاب میں کہا کہ وہ کبھی تصور بھی نہیں کر سکتے تھے کہ ان جیسا کوئی شخص لندن کا میئر منتخب ہوگا۔ انھوں نے وعدہ کیا کہ وہ تمام لندن والوں کے میئر ثابت ہوں گے۔ انھوں نے کہا کہ انتخابی مہم تنازعہ سے عاری نہ تھی تاہم ان کا کہنا تھا کہ میں فخر محسوس کرتا ہوں کہ لندن نے آج خوف کے بجائے امید کا انتخاب کیا ہے۔
خوف اور وحشت کی تھیوری کے خالق آخری وقت تک اپنے طرز عمل پر قائم رہے۔ لندن جو جمہوریت کا گھر کہلاتا ہے وہاں پر بھی وہ تمام حربے دیکھنے میں آئے جو متعصب سمجھے جانے والے معاشروں میں دیکھنے میں آتے ہیں۔ نفرتیں بیچنے والے وہاں بھی نفرتوں کے ہی سوداگر رہے بلکہ یہاں تک ہوا کہ لندن کے نومنتخب مسلمان میئر صادق خان کو وکٹری اسپیچ کے دوران بھی نسلی تعصب کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ 7مئی 2016کی بات ہے جب لندن کے میئر کے الیکشن کے نتائج کا سرکاری اعلان کیا جارہا تھا تو اس موقع پر اسٹیج پر جارج گیلوے کے علاوہ میئر شپ کی دوڑ میں شامل تمام امیدوار موجود تھے۔ اس موقع پر صادق خان کی کامیابی کے اعلان کے بعد جب انھیں وکٹری اسپیچ کی دعوت دی گئی تو اس موقع پر قوم پرست اور متعصب نظریات کی حامل جماعت بریٹن فرسٹ کے شکست خوردہ امیدوار پال گولڈنگ کو ایک مسلمان اور پاکستانی نژاد امیدوار کی فتح ہضم نہ ہوئی اور اس نے صادق خان کی تقریر شروع ہوتے ہی منہ دوسری طرف پھیر لیا اور اس وقت تک اپنے چہرے کو حاضرین کی جانب نہیں گھمایا جب تک دوسرے نمبر پر آنے والے امیدوار زیک گولڈ اسمتھ خطاب کے لیے نہیں آئے۔
متعصب سیاستدان پال گولڈنگ کے اس عمل پر لندن کے شہریوں نے شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے انھیں شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ شہریوں کا کہنا تھا کہ پال گولڈنگ نے صادق خان کو پیٹھ دکھائی ہے جب کہ پورے لندن نے فرسٹ بریٹن پارٹی سے اپنا رخ موڑ لیا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ لندن کے عوام نے یہ فقط زبان سے دعوی نہیں کیا بلکہ پہلی اور دوسری ترجیح کے ووٹوں کی گنتی کے بعد جو نتائج سامنے آئے ا س کے مطابق 57فیصد ووٹ صادق خان کو دے کر تعصب، نفرت اور خوف کی سیاست کو نہ کہہ دی بلکہ نفرت اور خوف کی سیاست کرنے والوں سے منہ پھیر لیا۔
یہ امر نہایت افسوسناک ہے کہ زیک گولڈ اسمتھ نے اپنی انتخابی مہم میں صادق خان کے خلاف جس منفی پراپیگنڈے اور کردار کشی کا مظاہرہ کیا اس نے ان کے بارے میں تمام تر حسن ظن کی نفی کردی۔ یہاں تک کہ اس کی اپنی بہن جمائما گولڈ اسمتھ جو ہمارے ہاں جمائما خان کے نام سے شہرت رکھتی ہیں اور لندن کی ایک نامور صحافی ہیں کو بھی اپنے بھائی کے طرز عمل پر حیرت ہوئی اور وہ بھی انھیں تنقید کا نشانہ بنانے سے نہ رہ سکیں۔ انھوں نے صادق خان کو کامیابی پر مبارکباد کا پیغام دیتے ہوئے لکھا کہ:” صادق خان! آپ کو لندن کا پہلا مسلمان میئر بننا مبارک ہو۔ ایک شہر جو تمام ثقافتوں، پس منظر اور مذاہب کے ماننے والوں کا شہر ہے، یہ مسلمان نوجوانوں کے لیے ایک عظیم مثال ہے۔“
متعصب سیاستدان پال گولڈنگ کے اس عمل پر لندن کے شہریوں نے شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے انھیں شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ شہریوں کا کہنا تھا کہ پال گولڈنگ نے صادق خان کو پیٹھ دکھائی ہے جب کہ پورے لندن نے فرسٹ بریٹن پارٹی سے اپنا رخ موڑ لیا ہے۔
ایک دوسرے پیغام میں انھوں نے اپنے چھوٹے بھائی اور ٹوری کے امیدوار زیک گولڈ اسمتھ کی منفی انتخابی مہم کے حوالے سے بھی تنقید کی۔ انھوں نے کہا کہ ”افسوس کہ زیک کی انتخابی مہم زیک کی شخصیت کی عکاسی نہیں کر سکی، جیسا کہ میں اسے جانتی ہوں کہ وہ دوستانہ اور آزاد ذہن کا سیاستدان ہے۔“
پاکستان کے قارئین کے لیے یہ بات بہت حیران کن ہو گی کہ ایک بہن نے ہی اپنے بھائی کے غلط طرز عمل کو تنقید کا نشانہ نہیں بنایا بلکہ برسراقتدار کنزرویٹیو پارٹی کے ممتاز راہنماﺅں نے بھی زیک گولڈ اسمتھ اور اس کی انتخابی مہم چلانے والوں پر سخت تنقید کی ہے۔ ان میں کنزرویٹیو جماعت سے تعلق رکھنے والی سابقہ قانون ساز اور برطانیہ کی کابینہ کی پہلی مسلمان خاتون وزیر سعیدہ وارثی بھی شامل ہیں جنھوں نے زیک گولڈ اسمتھ کی انتخابی مہم کی ناکامی کے حوالے سے کہا کہ ”لندن میئر کے لیے ہماری گندی انتخابی مہم کی وجہ سے ہم الیکشن ، نسل اور مذہب کے مسائل پر اپنی عمومی ساکھ بھی ہار گئے ہیں۔“
کنزرویٹیو جماعت کے ایک اہم رہنما اور وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کے سابق حکمت عملی کے ڈائریکٹر اسٹیو ہلٹن نے ڈیلی میل سے کہا کہ زیک گولڈ اسمتھ نے کنزرویٹیو پر واپس ایک بری جماعت کا لیبل لگا دیا ہے۔
دوسری طرف لیبر پارٹی کے راہنماﺅں نے بھی زیک گولڈ اسمتھ کی منفی مہم جوئی کو ہدف تنقید بنایا ہے۔ شیفیلڈ میں خطاب کرتے ہوئے لیبر پارٹی کے راہنما جرمی کوربن نے کہا کہ کنزرویٹیو پارٹی کے امیدوار زیک گولڈ اسمتھ نے صادق خان کے خلاف کردار کشی کی مہم شروع کی اور انھیں شدت پسندوں سے جوڑنے کی کوشش کی جس سے لیبر پارٹی کو فائدہ ہوا۔
انھوں نے کہا کہ کنزرویٹیو پارٹی کی طرف سے چلائی جانے والی ”زہریلی مہم“ اور جس طرح صادق خان کو بدنام کرنے کی کوشش کی گئی اور جو ہتھکنڈے استعمال کیے گئے اور جو زبان استعمال کی گئی اس کا انتخاب پر بہت اثر پڑا۔
لیبر جماعت کے سابق راہنما ایڈملی بینڈ نے صادق خان کے حوالے سے یہ پیش گوئی کردی ہے کہ صادق خان لندن کے ایک بہترین میئر ثابت ہوں گے۔ انھوں نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ صادق خان! آپ ایک شاندار میئر ثابت ہوں گے۔ آپ کے مثبت وژن اور وقار نے خوف اور تقسیم کو شکست دی ہے۔
لیبر پارٹی کے رہنما جرمی کوربن نے کہا کہ بہت سے لوگ اس منفی پراپیگنڈے کے ردعمل میں گھروں سے نکلے اور انھوں نے صادق خان کو ووٹ ڈالے۔ یاد رہے کہ لندن شہر کا موجودہ ٹرن آﺅٹ گذشتہ انتخابات کی نسبت کہیں زیادہ ہے۔
برطانیہ کے ایک رکن پارلیمان میتھیو پینی کک نے صادق خان کو مبارک باد دیتے ہوئے کہا کہ صادق خان کی کامیابی باعث مسرت ہے اور ان کی جیت لندن شہر میں پائی جانے والی تقسیم کی سیاست کو مسترد کرنے کے مترادف ہے۔
لیبر جماعت کے سابق راہنما ایڈملی بینڈ نے صادق خان کے حوالے سے یہ پیش گوئی کردی ہے کہ صادق خان لندن کے ایک بہترین میئر ثابت ہوں گے۔ انھوں نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ صادق خان! آپ ایک شاندار میئر ثابت ہوں گے۔ آپ کے مثبت وژن اور وقار نے خوف اور تقسیم کو شکست دی ہے۔
کنزرویٹیو جماعت کے ایک اہم رہنما اور وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کے سابق حکمت عملی کے ڈائریکٹر اسٹیو ہلٹن نے ڈیلی میل سے کہا کہ زیک گولڈ اسمتھ نے کنزرویٹیو پر واپس ایک بری جماعت کا لیبل لگا دیا ہے۔
صادق خان نے فقط خوف، تقسیم اور نفرت کو شکست نہیں دی بلکہ اُس نے اس منصب کا خواب نہ دیکھ کرنئے خوابوں کووجود بخشا ہے ۔ انھوں نے تو کہہ دیا کہ میں نے اپنے خواب میں بھی کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ میں آج یہاں لندن میئر کی حیثیت سے کھڑا ہوں گا لیکن ہم کہیں گے کہ صادق خان! تم نے خواب نہ دیکھ کر بھی آج کی دنیا کو نئے خوبصورت خواب دکھا دیے ہیں۔
بیرونس ڈورین لارنس نے ان کے تعارف کے حوالے سے کہا کہ ” یہ ایک بہت ہی شاندار دن ہے اور میں یہ کبھی سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ لندن کا میئر اقلیتی نسلی پس منظر سے ہو سکتا ہے۔ یہ اس بات کی ایک حیرت انگیز علامت ہے کہ لندن شہر بہت آگے نکل چکا ہے۔“انھوں نے مزید کہا کہ ”ایک شہر جس نے خوف کے بجائے اتحاد کا انتخاب کیا ہے، ایک شہر جس نے تمام لندن والوں کا میئر منتخب کیا ہے۔“
لیبر پارٹی سے تعلق رکھنے والے ایک ایم پی ڈیو لامے نے پیشگوئی کی کہ صادق خان کی فتح نے نسلی اقلیتی پس منظر سے تعلق رکھنے والے امیدواروں کے لیے ٹین ڈاوننگ کا راستہ ہموار کیا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ اگر کبھی ہمیں اقلیتی نسلی پس منظر سے ایک وزیر اعظم ملتا ہے تو یہ صرف اس وجہ سے ہوگا کیونکہ صادق خان نے کامیاب ہو کردکھایا ہے۔
لیبر جماعت کے سابق راہنما ایڈملی بینڈ نے صادق خان کے حوالے سے یہ پیش گوئی کردی ہے کہ صادق خان لندن کے ایک بہترین میئر ثابت ہوں گے۔ انھوں نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ صادق خان! آپ ایک شاندار میئر ثابت ہوں گے۔ آپ کے مثبت وژن اور وقار نے خوف اور تقسیم کو شکست دی ہے۔
صادق خان کو پوری دنیا سے مبارکباد کے پیغامات موصول ہو رہے ہیں لیکن ہمارے موضوع کی مناسبت سے انڈونیشیا کے دارالحکومت جکارتہ کے پہلے عیسائی گورنر باسوکی جحاجا پرناما کا ٹویٹر پیغام اہمیت رکھتا ہے۔ انھوں نے اپنے پیغام میں لکھا کہ صادق خان! آپ کو لندن کا میئر بننا مبارک ہو۔ یہ جمہوریت، میرٹ اور رواداری کی ایک متاثر کن کہانی ہے۔
پاکستان سے بھی بہت سے مبارکباد کے پیغامات صادق خان کو دیے گئے ہیں جن میں مذہبی راہنماﺅں کے پیغامات بھی شامل ہیں۔ یہ ایسی دنیا سے جانے والے پیغامات ہیں جہاں نفرتیں بارود کی شکل اختیار کر لیتی ہیں، جہاں زبان اور قلم کی کاٹ پیچھے رہ جاتی ہے اور تلوار کی کاٹ آگے بڑھ جاتی ہے۔ ہم اپنی دھرتی پر انتظار کررہے ہیں کہ کب خون تلوار پر غالب آئے گا اور اہل لندن کو مبارکباد پیش کرتے ہیں جہاں خوف پر امید کو فتح نصیب ہوئی ہے۔
فیس بک پر تبصرے