ایک دن کی زندگی کا روزنامچہ

987

’آزاد مہدی کے ناول ’ایک دن کی زندگی‘ پر تبصرہ

ناول کا بنیادی موضوع اس کے عنوان کی پٹاری میں بند ہے۔ اس پٹاری کو کھولئے، تو پورا ناول اس کے ساتھ کھلتا چلا جاتا ہے۔ لیکن ایک اور اشارہ ہمیں ناول کے انتساب سے ملتا ہے جسے خواتین کے نام کیا گیا ہے۔ آزاد مہدی کا موضوع منٹو کی طرح عام عورتیں نہیں ہیں جو ایک لگے بندھے طریقے سے معمول کی زندگی گزارتی ہیں، جو شوہروں کی وفادار اور اچھی مائیں ہوتی ہیں۔

اس کے بجائے آزاد مہدی نے اپنے ایک سے زائد ناولوں اور کہانیوں میں طوائفوں اور عصمت فروش عورتوں کے طبقے کو اپنا موضوع بنایا۔ نہ صرف یہ عورتیں بلکہ وہ علاقہ بھی جہاں یہ رہتی ہیں اور وہ لوگ جو ان کی برادری کو مکمل کرتے ہیں۔آزاد مہدی اس سے پہلے دلال کے عنوان سے بھی ایک ناول لکھ چکے ہیں، یوں اس خاص برادری کو فکشن میں تصویر کرنے کی ذمہ داری آزاد مہدی نے فی زمانہ اپنے سر لے رکھی ہے۔ ایک حقیقت پسند فن کا ر کی طرح وہ اس برادری کے لوگوں کی زندگیوں کا ایک حقیقی خاکہ پیش کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ وہ یہ خاکہ ایسی مہارت کے ساتھ تصویر کرتے ہیں کہ اسی میں وہ پیغام بھی پوشیدہ ہوتا ہے، جو وہ قارئین کو دینا چاہتے ہیں۔ ان عورتوں کی کسمپرسی کی زندگی، ان کے طبقے کے مسائل، معاشرے کا ان سے رویہ، اور ان کی حالت میں سدھار کی راہیں، سبھی کچھ ہمیں ان کے تیز بیانیہ میں واضح دکھائی دیتا ہے۔

آزاد مہدی ایسی عورتوں کے لیے فاحشہ کا لفظ استعمال کرتے ہیں جب کہ وہ اپنے کردار کو ’ہماری فاحشہ‘ کہہ کر پکارتے ہیں۔ وہ اپنے کرداروں کو جو انھوں نے ایک مخصوص علاقے یا مخصوص وضع و قماش کے مختلف علاقوں سے حاصل کیے ہیں، دل سے لگا کر رکھتے ہےں۔ وہ انھیں اپناتے ہی نہیں، ان کی پرورش بھی کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک ان عورتوں کا پیشہ نہیں، بلکہ اس پیشے سے متعلق لوگوں کا رویہ قابل اعتراض ہے۔ مثلاً وہ ایک جگہ اس بات کو یوں بیان کرتے ہیں،”یوں سمجھ لیجئے موچی بننا کسی کو بھی گوارا نہیں لیکن ننگے پاؤں رہا بھی نہیں جاتا تو پھر موچی کتنا ضروری ہوا۔۔۔“

زاہد حسن نے اس ناول پر اپنے تبصرے میں درست کہا ہے کہ یہ ناول ایک ہی نشست میں چاہے نہ لکھا گیا ہو، لیکن یہ قاری سے ایک ہی نشست میں پڑھے جانے کا تقاضہ کرتا ہے۔ 

ان کا کہنا ہے کہ کوئی پیشہ ذلیل نہیں ہوتا، ذلت کسی پیشے میں آتی ہے، بے ہنروں اور نااہل لوگوں کے باعث۔ وہ ہمیںان عورتوں کے عظمت کی داستانیں سنا کر متاثر کرنے کی کوشش نہیں کرتے اور نہ ان کے پیشے کو رنگوں سے سجا کر اور روشنیوں سے آراستہ کرکے خوشنما بناکر پیش کرتے ہیں۔ اس کے برعکس وہ اس پیشے سے وابستہ کجیوں اور خرابیوں کے بیان کو سفاکانہ حقیقت پسندی کاخاردار لبادہ اوڑھاتے ہیں۔ان عورتوں کی زندگیوں کے بارے میں پڑھتے ہوئے ہمیں کسی طرح کی شہوت کا تجربہ نہیں ہوتا، بلکہ کراہت محسوس ہوتی ہے اور ان عورتوں کے لیے ہمدردی بھی جو کہ مصنف کا اصل مطمح نظر ہے۔

اس جبر کے ڈانڈے پورے معاشرتی نظام میں موجود ہیں، جب کہ یہ معاشرتی نظام تاریخ کے طویل عمل کے نتیجے میں ظہور پذیر ہوا ہے۔ سو اگر اس جبر کو ختم کرنا ہے تو پورے نظام کو بدلنا ہوگا اور پورے نظام کو بدلنے کے لیے پورے تاریخی عمل کی ترتیب بدلنے کی ضرورت ہے۔ جو ممکن نہیں ہے۔ 

آزاد مہدی ان فاحشاؤں میں چھپی ہوئی عورتوں کو کھوج نکالنے کی کوشش کرتے ہیں جو عام گھروں کی عورتوں سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہوتی ہیں۔ان کی خواہشیں ہرگز غیر معمولی نہیں ہوتی ہیں، وہ بھی خوبصورت دکھائی دینا اور محبوب بننا چاہتی ہیں۔ انھیں بھی دھتکارے جانے پر تکلیف ہوتی ہے اورایک زبوںحال اور پسماندہ زندگی ان کے لیے بھی قابل قبول نہیں ہوتی۔

آزاد مہدی اس پیشے میں ان عورتوں کی آمد کو ہر صورت میں ایک ناگزیر نتیجہ قرار دیتے ہیں جس سے مفر ممکن نہیں ہے۔ اگر وہ کسی جبر کے نتیجے میں اس بازار میں پہنچی ہیں تو اس جبر کے ڈانڈے پورے معاشرتی نظام میں موجود ہیں، جب کہ یہ معاشرتی نظام تاریخ کے طویل عمل کے نتیجے میں ظہور پذیر ہوا ہے۔ سو اگر اس جبر کو ختم کرنا ہے تو پورے نظام کو بدلنا ہوگا اور پورے نظام کو بدلنے کے لیے پورے تاریخی عمل کی ترتیب بدلنے کی ضرورت ہے۔ جو ممکن نہیں ہے۔ ایک موقع پر جب ایک گاہک ایک فاحشہ سے پوچھتا ہے کہ وہ کہاں کی ہے تو اس کا جواب ہے،”جہاں ہوں وہاں کی رہنے والی ہوں۔“

یہ تلخ حقیقت اس کی زندگی کا سچ ہے جس سے وہ فرار نہیں ہوسکتی۔ چاہے وہ اسے قبول کرے یا رد۔

آزاد مہدی کے لیے یہ ایک عملی اور حقیقی صورت حال ہے، کہ یہ پیشہ ہمیشہ سے موجود ہے اور اس میں عورتیں بھی۔ تاریخ کا شاید ہی کوئی دور اس پیشے یا اس سے وابستہ عورتوں سے خالی رہا ہو۔

زندگی کی تلخیوں کا سامنا کرکے اور ہر نوع کے انسان سے معاملہ بندی کے نتیجے میں ان عورتوں میں زندگی کا ایسا فہم جاگتا ہے، جس سے آزاد مہدی کے بقول عام عورت محروم ہے۔ معاشرے کی جیسی نباض یہ عورتیں ہوتی ہیں، اور مرد کی فطرت کا جیسا ادراک یہ رکھتی ہیں، کم ہی دانشور ان معاملات میں ان کے ہم پلہ ہونے کا دعوی کرسکتے ہیں۔ مثلاً ایک موقع پر ایک فاحشہ اور اس کے گاہک کے درمیان ہونے والے طویل مکالمے میں سے یہ چند فقرے دلچسپی کے لائق ہیں۔

”کیا تم انسان سے انسان تک کا فاصلہ جانتے ہو؟

میں ریڑھے بان ہوں، صرف سڑک پر لگے پتھر کے میل کو جانتا ہوں۔

وہ اس کی سادگی پر مسکرائی اور کہنے لگی۔”یہ فاصلہ نہیں ہوتا، یقین دہانی ہوتی ہے۔“

”پھر فاصلہ کیا ہوتا ہے؟“ اس نے بچوں کی طرح سوال کرتے ہوئے پوچھا۔

وہ کچھ دیر متفکرانہ انداز میں خاموش رہی اور خود سے کہنے لگی۔ ”میں اسے فاصلہ کے معنی کیسے سمجھاؤں۔ بالآخر اس نے ایک مثال دیتے ہوئے اس سے پوچھا۔

”تم گھوڑا خریدتے ہوئے کبھی نہیں بھی خریدتے۔“

”ہاں، ہاں“

”کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ ادنیٰ گھوڑا چھوڑ کر اعلی گھوڑا خرید لیتے ہو۔“

پچھلے دنوں میں نے ایسا ہی کیا۔

یوں تم ادنیٰ گھوڑے کے روپوں میں زیادہ روپے ڈال کر اعلی گھوڑے کے مالک بن جاتے ہو۔

ہاں

”یہ حیوان سے حیوان تک کا فاصلہ تھا جو روپوں کے وسیلے سے طے ہوا۔“ پھر اس کے سینہ پر ہاتھ پھیر کر کہنے لگی، ”میرے مخلص گاہک انسان سے انسان تک کا فاصلہ یوں طے نہیں ہوتا، انسان کا فاصلہ جذبوں سے ماپا جاتا ہے۔“

آزاد مہدی ہمیں ان عورتوں کی رہائش گاؤں سے متصل تنگ اور متعفن گلیوں میں بھی لے جاتے ہیں جہاں ہماری ملاقات متنوع کرداروں سے ہوتی ہے۔اس ماحول کی ماہرانہ مرقع کشی کی چابکدستی قابل داد ہے اور ہمارے سامنے اس ماحول کو زندہ کردیتی ہے۔ ماحول کی تصویر کشی میں وہ پرانے حقیقت پسند فکشن نگاروں کی روایت کے امین ہیں جس سے دوستوئیفسکی اور منٹو جیسے نابغہ روزگار وابستہ ہیں۔اس تصویر نگاری میں وہ اپنی نثر کو بھی ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور جگہ جگہ تیز اور لشکارے مارتے فقروں سے بھی اس کی اثرانگیزی کو دو چند کرتے ہیں۔ مثلاً یہ چند سطریں دیکھئے:

”بائیں حصے میں مالکوں نے ٹوٹا پھوٹا سامان رکھا ہوا تھا جس پر کئی سالوں کی گرد پڑی تھی۔ اس سامان کے آغاز میں ایک بالشت اونچا چھوٹا سا چبوترہ تھا جس سے غسل خانے کا کام لیا جاتا تھا۔ اس کی دیواریں نہیں تھی، اندھیرا ہی اس کی دیواریں تھیں۔ “

بہت توجہ اور انہماک کے ساتھ کی گئی ماحول کی مرقع کشی سے پورا منظر اپنی تمام تر خوبصورتیوں اور بدنمائی کے ساتھ ہمارے سامنے زندہ ہواٹھتا ہے۔اس موقع پر ناول کی ایک اور خوبی کا ذکر بھی غیر ضروری نہیں ہے کہ یہ قاری کی توجہ کے تار کو باندھ لیتا ہے۔ زاہد حسن نے اس ناول پر اپنے تبصرے میں درست کہا ہے کہ یہ ناول ایک ہی نشست میں چاہے نہ لکھا گیا ہو، لیکن یہ قاری سے ایک ہی نشست میں پڑھے جانے کا تقاضہ کرتا ہے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...