ملا منصور کا پاسپورٹ جلنے سےکیسے بچا ؟

889

پاکستانی مشین ریڈ ایبل پاسپورٹ کو کہیں سے بھی باآسانی ٹریک کیا جا سکتا ہے ،یہ حقیقت ملا منصور کو آخری وقت میں معلوم ہوئی

گاڑی جل کر خاکستر ہو گئی مگر پاسپورٹ “نواں نکور” پڑا ہوا ملا ۔

ایسا کیسے ہوا ؟

اس سوال کے جواب کے لئے میں آپ کو اپنا ایک ذاتی واقعہ سناتا ہوں جو 2013ء میں امریکی ریاست  ٹیکساس کے شہر ڈیلس میں رو نما ہوا ۔ میں نے پاکستان آنے  کا پروگرام بنایا ۔جب پاسپورٹ دیکھا تو وہ زائد المعیاد ہو چکا تھا ۔سفر کے لئے اس کی تجدید ضروری تھی ۔ میں نے پاکستان کے قریبی قونصلیٹ جو اسی ریاست کے شہر ہیوسٹن میں واقع تھا وہاں رابطہ کیا ۔ڈیلس سے ہیوسٹن کا سفر تقریباً ساڑھے تین گھنٹوں کا ہے ۔قونصلیٹ نے مجھے بتایا کہ اس کے لئے آپ کو لمبا سفر کرنے کی قطعی  کوئی ضرورت نہیں بس آپ فیس کے ساتھ اپنا پاسپورٹ پوسٹ کر دیں ہم اس کی تجدید کے بعد آپ کو بذریعہ ڈاک واپس بھیج دیں گے ۔ امریکہ میں تقریباً دس لاکھ پاکستانی آباد ہیں ۔وہاں واشنگٹن ڈی سی  کی  ایمبیسی سمیت پاکستان کے چار قونصلیٹ کام کر رہے ہیں جو نیویارک ، شکاگو، ہیوسٹن اور لاس اینجلس میں ہیں۔

پاکستان کا  پاسپورٹ مشین ریڈایبل ہے ۔جس کے کور میں ریڈیو ایکٹو مٹیریل استعمال ہوا ہے ۔اس لئے جب اسے سکیننگ سے گزارا جاتا ہے تو اسے مشکوک سمجھ کر ایک سرکاری  لیبارٹر ی بھیج دیا جاتا ہے جو اس پیکٹ کو کھول کر جانچنے کی مجاز ہے ۔ 

میں ہیوسٹن پاسپورٹ بجھوانے کے لئے قریبی پوسٹ آفس  گیا اور اسے پوسٹ کر دیا ۔ معمول کے مطابق اگلے دن پاسپورٹ قونصلیٹ پہنچ جانا چاہئے تھا لیکن جب تین دنوں میں بھی میرا پاسپورٹ وہاں نہیں پہنچا تو مجھے کھٹکا لگا ۔میں  دوبارہ پوسٹ آفس گیا ۔انھیں ٹریکنگ نمبر دیا اور بتایا کہ میرا پاسپورٹ ابھی تک منزل پر نہیں پہنچ سکا ۔پوسٹ آفس کا اہلکار میرا ٹریکنگ نمبر لے کر اپنے سسٹم پر بیٹھ گیا اس نے مجھے بتایا کہ میری ڈاک  ہیوسٹن کی بجائے نیویارک چلی گئی ہے اور وہاں سے آگے وہ کہاں گئی اس کے بارے میں کمپیوٹر کچھ نہیں بتا رہا ۔جب ہمیں معلوم ہو گا تو ہم آپ کو آگاہ کر دیں گے ۔ اب واقعی میری پریشانی دیدنی تھی پانچ دن بعد میری فلائیٹ تھی اورمیرا پاسپورٹ گم ہو چکا تھا ۔ میں نے واپس آکر ڈیلس میں اپنے کچھ دوستوں سے اپنی پریشانی شیئر کی تو مجھے معلوم ہوا کہ پاسپورٹ کبھی بھی یو ایس پوسٹ سے نہیں بلکہ پرائیویٹ کورئیر سے بھجوانا چاہئے ۔ جن لوگوں نے اپنے پاکستانی پاسپورٹ یو ایس پوسٹ سے بھجوائے ان کے بارے میں آج تک معلوم نہیں ہو سکا کہ وہ کدھر گئے ۔میں اس بات پر بڑا حیران ہوا کہ کیا سارے پاسپورٹوں کے ساتھ ایسا ہوتا ہے یا پھر یہ سلوک صرف پاکستانی پاسپورٹ کے ساتھ ہی ہوتا ہے ۔ تومجھے بتایا گیا کہ کچھ دوسرے ممالک بھی ہیں جن میں سعودی عرب ، یمن ،ایران اور دیگر ممالک شامل ہیں ۔ وجہ پو چھی تو معلوم ہوا کہ امریکہ کے ڈاکخانوں سے پوسٹ ہونے والی تمام ڈاک کی سکیننگ ہوتی ہے  کہ کہیں اس میں منشیات ، انتھراکس یا پھر کوئی ریڈیو ایکٹو مٹیریل تو نہیں ہے ۔ پاکستان کا  پاسپورٹ مشین ریڈایبل ہے ۔جس کے کور میں ریڈیو ایکٹو مٹیریل استعمال ہوا ہے ۔اس لئے جب اسے سکیننگ سے گزارا جاتا ہے تو اسے مشکوک سمجھ کر ایک سرکاری  لیبارٹر ی بھیج دیا جاتا ہے جو اس پیکٹ کو کھول کر جانچنے کی مجاز ہے ۔ اس لیبارٹری میں ایسی ڈاک کی بہت لمبی لائن ہوتی ہے جہاں اس پیکٹ کی باری آتے آتے  کئی ماہ لگ جاتے ہیں ۔ اس لئے اب آپ اس پاسپورٹ کی فکر چھوڑیں اور نیا پاسپورٹ بنوا لیں ۔

ولی محمد کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا ۔وہ کوئی عام مسافر بھی نہیں تھا ۔ اس کی زندگی گولیوں کی تڑتڑاہٹ ،جہازوں اور ڈرون کی گھن گرج میں گزری ۔ جب انسان ایسے ماحول میں زندگی گزارتا ہے تو اس کی ان دیکھے خطروں کو بھانپنے کی حس عام آدمی سے کئی گنا تیز ہوجاتی ہے۔ جب اس کی گاڑی  ایران سے واپسی پر کوئٹہ تفتان روڈ پر نوشکی کے قریب احمد وال سے  گزر رہی تھی تو اس نے ڈرون دیکھا ۔جسے  دیکھتے ہی اس نے خطرے کو بھانپ لیا ۔یہ علاقہ ڈرون کی پروازوں کے لئے مختص نہیں تھا اور اگر یہاں ڈرون موجود تھا تولازمی طور پر اس کا ٹارگٹ ولی محمد ہی تھا ۔ یہ سوچ آتے ہی اس نے گاڑی سے اپنا پاسپورٹ نکال کر پھینک دیا۔کیونکہ ولی محمد کا خیال تھا کہ اس کا کھوج اسی پاسپورٹ سے لگایا گیا ہے اس لئے اگر وہ یہ پاسپورٹ پھینک دے گا توہو سکتا ہے کہ ڈرون کا نشانہ خطا ہو جائے اور وہ بچ جائے ۔مگر اس فیصلے میں  بہت دیر ہو چکی تھی ۔ڈرون کو کنٹرول کرنے والے یہاں سے ہزاروں میل دور، ورجینیا میں بیٹھے اس گاڑی کا نشانہ لے چکے تھے ۔ جیسے ہی پاسپورٹ کھڑکی سے باہر آکر گرا ۔ ایک میزائیل گاڑی کو آکر لگا اور پل بھر میں یہ گاڑی خاکستر ہو گئی ۔

وہ کوئی عام مسافر بھی نہیں تھا ۔ اس کی زندگی گولیوں کی تڑتڑاہٹ ،جہازوں اور ڈرون کی گھن گرج میں گزری ۔ جب انسان ایسے ماحول میں زندگی گزارتا ہے تو اس کی ان دیکھے خطروں کو بھانپنے کی حس عام آدمی سے کئی گنا تیز ہوجاتی ہے۔ 

اس راکھ سے اب طرح طرح کی کہانیاں گھڑی  جا رہی ہیں ۔یہ کہانیاں اس وقت تک گھڑی جاتی رہیں گی جب تک کوئی نئی کہانی سامنے نہیں آ جاتی اور قوم اس کو بھول کر کسی نئی کہانی کی کھوج میں نہیں لگ جاتی ۔یہاں کوئی بحران حل نہیں ہوتا بس ایک نئے بحران پر پہلے والے کو بھلا دیا جاتا ہے ۔”مٹّی پاؤ”۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...