شناخت کی سماجیات اور ولدیت کا خانہ

1,083

انسان کی زندگی کے معاملات میں ’’اختیار ‘‘کہاں سے شروع ہوتا ہے اور ’’بے بسی ‘‘کی انتہا کیاہے ؟

انسان اپنی زندگی کے کن امور میں’’ مختار ِ کل‘‘ ہے اور کن امور میں ’’مجبورِ محض‘‘ ہے،حکمائے قدیم سے لیکر معاصر مفکرین تک کا جبرو قدر کے اس مسئلے پر طویل مباحث موجود ہیں۔ مذہبی ماخذیات اور فلسفیانہ مواد میں جبرو قدر کے حق اور مخالفت میں ضخیم منابع عام افراد کیلئے پیچیدہ بنادیتا ہے کہ انسان کی زندگی کے معاملات میں ’’اختیار ‘‘کہاں سے شروع ہوتا ہے اور ’’بے بسی ‘‘کی انتہا کیاہے ؟ انہیں پیچیدگیوں کے باعث افراد انفرادی تجربات سے اخذ شدہ نتائج کی روشنی میں زندگی سے متعلق تصورات استوار کرتے ہیں ۔

حضر ت علی کے قول کا مفہوم قدرے ذہنوں سے بوجھ ہلکا کرتا کہ انسان نہ تو مختار کل ہے اور نہ مجبو ر محض ،حضرت انسان کا اختیار یہی ہے کہ وہ زمین پر ایک ٹانگ پر کھڑا ہوسکتا ہے ۔ کسی بھی سماج میں شناخت کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے، ماہرین سماجیات کے مطابق ذات اور شناخت کاسماجی پہلو، ذات اور سماج کے دو طرفہ تعلق سے شروع ہوتا ہے۔ ذات ، افرادکے افعال سے سماج پر اثرانداز ہوتی ہے، گروہ ، تنظیمیں اور ادارے جنم لیتے ہیں۔اسی طرح سماج ذات پر مشترکہ زبان اور مفاہیم کے ذریعے اثر اندا ز ہوتی ہے، یعنی جہاں فرد سماج کی کوکھ سے جنم لیتا ہے اس طرح افراد سماج کو تشکیل دیتے ہیں ۔

زندگی کے کچھ امور میں تر میم ،تخفیف اور تبدیلی اس کے اختیار میں نہیں جبکہ کچھ امور میں تدابیر سے اپنی الگ شناخت ترتیب دینے کا اختیار بھی رکھتا ہےیعنی انسان اپنے پیدا ئش کے محل وقوع اور ماحول کو اختیارکرنے ، جیناتی ساخت ، جسمانی ڈھانچے اور والدین کے انتخاب  کو قبول کرنے، سماج کے دیئے ہوئے نام پر اکتفا کرنے پر مجبور ہے۔ اسی طر ح زمانی و مکانی حدود قیود سے کوئی مبرا نہیں ، فرد کس نسل میں آنکھ کھولے ،کس قومیت میں پیدا ہو، ان سمیت جملہ کئی امور میں انتخاب کے اختیار سے محروم، پیدا ہونے والے افراد کے مذہبی ،لسانی ، قومی، ثقافتی اور اخلاقی تصورات اس کی شناخت تشکیل کر تے ہیں۔

دیگر احتیاجوں کی سماجی توجیحات الگ الگ ہیں تاہم ولدیت شناخت اس وقت ایک سنگین صورت اختیار کر جاتی ہے جب سماج اور ریاست میں قبولیت کی گنجائش نہ ہو۔ یورپ سمیت بیشترترقی یافتہ خطوں میں ریاست سرپرستی کی ذمہ داری اٹھاتی ہے اور سماج میں قبول کرنے کی گنجائش موجود ہوتی ہے۔ بر صغیرمجموعی جبکہ پاکستانی سما ج میں خصوصی طور پر والدین کی شناخت سے محروم ہونا گالی ہے نہ ریاست شہری تسلیم کرتی ہے نہ سماج قبول۔ پاکستا نی سماج میں قومی شناختی کارڈ میں ولدیت کے خانے کی اہمیت وہی جانتے ہیں جو اس سے محروم ہیں ۔یعنی وہ ریاست کے شہری ہونے کے دیگر تمام لوازمات پورے کرنے کے باوجود ولدیت کی شناخت سے محروم ہونے کی وجہ سے شہری ہونے کے منصب پر فائز ہونے کے اہل قرار نہیں پاتے۔

معاشرے میں پیدائشی طور پر اُس وقار سے محروم ہوتے ہیں جو ولدیت کی شناخت رکھنے والوں کو نصیب ہوتاہے۔ ہوش سنبھالتے ہی ناکردہ گناہوں کی سزائیں شروع ہوجاتی ہیں ۔ سماج کے دیگر افراد جیسی جسمانی ساخت ، مذہبی اعتقادات، زبان و ثقافت کے علاوہ اخلاقی اقدار کی پاسداری کے باوجود نفسیاتی طور پر ازیت سے زندگی کے سفرکا آغاز کرتے ہیں ۔ کوئی بھی تعلیمی ادارہ اس لئے قبول کرنے سے انکار کر دیتا ہے کہ شناختی کارڈ کے بغیر کوئی بچہ رسمی تعلیم کے سفر کا آغاز نہیں کرسکتا ۔

قائد اعظم یونیورسٹی کے شعبہ سماجیات کے سربراہ ڈاکٹرمحمد زمان کے مطابق والدین کے گناہوں سے ناواقف بچہ اگرقانونی طور پر شناخت سے محروم رہتا ہے تو وہ دیگر ذرائع سے شناخت کے حصول کی کوششیں کرتا ہے اور وہ ذرائع تشدد پر بھی مبنی ہوسکتے ہیں۔ 

پاکستان کی 69سالہ تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی ریاستی ادارے، ایوان بالا نے20مئی 2016کو ہونیوالی ایک اہم قانون سازی میں لاوارث اور یتیم بچوں کی کفالت اور بحالی ریاست کی ذمہ داری قر ار دی ہے ۔ جس میں ان کی شہریت ، جان کے تحفظ اور کفالت کے حق کو تسلیم کیا گیاہے ۔لاوارث اور یتیم بچوں کی والدین کے خانے میں ان کے سرپرست کے نام لکھنے کا قانونی جواز میسر ہوگیا ہے۔ سرپرست نہ ہونے کی صورت میں نادرا کا سافٹ وئیر ازخود مختلف ناموں سے ولدیت فراہم کرے گی اور بچوں کی کفالت ،مفت تعلیم اور صحت کی سہولیات ریاستی ذمہ داری ہوگی۔اگرکسی ایسے لاوارث یتیم بچوں کی کفالت کی ذمہ داری کسی نے بھی نہ اٹھائی ہو تو اس کو حکومتی سرپرستی میں لیا جائے گا۔

پاکستان پیپلزپارٹی کے سینیٹر کریم احمد خواجہ نے بتایاکہ لاوارث بچوں کی کفالت سے متعلق قانون کا مسودہ 2013میں ایوان میں پیش کیا تھا، تین سال کے بعد تمام شراکت داروں کی مشاورت سے بلآخر قانون اتفاق رائے  سے منظور ہوا ہے ۔مذہبی سیاسی جماعتوں جن میں جمعیت علمائے اسلام (ف) اور جماعت اسلامی سمیت پاکستان پیپلزپارٹی ، پاکستان مسلم لیگ (ن) ، تحریک انصاف کے علاوہ پشتون ،بلوچ قوم پرست جماعتوں اور متحدہ قومی مومنٹ کی حمایت حاصل رہی ہے ، چونکہ اہم قانون سازی کیلئے حکومتی جماعت کی حمایت حاصل ہے اس لئے امید کی جاسکتی ہے کہ قومی اسمبلی سے منظوری میں بھی کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی۔

قائد اعظم یونیورسٹی کے شعبہ سماجیات کے سربراہ ڈاکٹرمحمد زمان کے مطابق والدین کے گناہوں سے ناواقف بچہ اگرقانونی طور پر شناخت سے محروم رہتا ہے تو وہ دیگر ذرائع سے شناخت کے حصول کی کوششیں کرتا ہے اور وہ ذرائع تشدد پر بھی مبنی ہوسکتے ہیں۔ والدین کی شناخت سے محروم بچوںمیں ریاستی اورمعاشرتی سطح پر قبو لیت نہ ملنے کی وجہ سے دہشتگردی اور تشدد کے رجحانات عام بچوں کی نسبت زیادہ ہوسکتے ہیں ۔ ریاستی شہریت کیلئے نااہل بچے دیگر بچوں کی طرح تمام ضروریات کی احتیاج رکھتے ہیں ، انہیں بھی بھوک لگتی ہے ، انہیں بھی تعلیم اور صحت کی ضرورت ہے ، انہیں بھی روزگار کے علاوہ ازدواجی اور سماجی تعلقات استوار کی فطر ی خواہشات ہوسکتی ہیں۔ ریاست کو چاہیے کہ ایسے سماجی ادارے بنائے جو ایسے بچوں کی تعلیم و صحت اور فلاح و بہبود کا خیال رکھ سکیں ایوان بالا سے منظور ہونے والی قانون سازی اس جانب ایک اہم قدم ہے ۔

 پاکستان کی 69سالہ تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی ریاستی ادارے، ایوان بالا نے20مئی 2016کو ہونیوالی ایک اہم قانون سازی میں لاوارث اور یتیم بچوں کی کفالت اور بحالی ریاست کی ذمہ داری قر ار دی ہے ۔ جس میں ان کی شہریت ، جان کے تحفظ اور کفالت کے حق کو تسلیم کیا گیاہے ۔

نہ جانے پاکستان میں ولدیت کی شناخت سے محروم لا وارث بچوں کی مشکلات میں کمی واقع ہوگی یا نہیں تعلیم ، صحت اور جان کا تحفظ میسر ہوگا یا نہیں ، جرائم پیشہ کارروائیوں اور معاشرتی برائیوں کس قدر بچ سکیں گے کچھ نہیں کہا جاسکتاکیونکہ ولدیت کی شناخت رکھنےوالوں کی زندگی میں مشکلات میں تو کوئی کمی واقع نہ ہوسکی تاہم یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ اس قانون سازی سے ولدیت کا مسئلہ ضرور حل ہوسکے گا، جس کے بعد یقینا ًان کی زندگی کو باوقار ہی سمجھناچاہیے ۔

 

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...