عبداللہ حسین: اردو کے پہلے پاکستانی نثر نگار

1,542

عاجزانہ طورپر یہ دعوی بھی کیا جا سکتا ہے کہ پاکستان کی سیاست کا شعور جس پختہ اور گہری سطح پر عبداللہ حسین کے ناولوں میں پایا جاتا ہے

گہرے سیاسی شعور اور خاص کر پاکستان کی سیاسی تاریخ پر گہری نظرکے حامل اہل قلم میں عبداللہ حسین سربرآوردہ ہیں۔عاجزانہ طورپر یہ دعوی بھی کیا جا سکتا ہے کہ پاکستان کی سیاست کا شعور جس پختہ اور گہری سطح پر عبداللہ حسین کے ناولوں میں پایا جاتا ہے، اردو میں اس کی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔لیکن یہ شعور محض سیاسی نہیں ہے، سماج اور فرد سے جڑا ہوا ہے۔اردو میں عبداللہ حسین پہلے ناول نگار ہیں جنھوں نے پاکستان کی سیاسی تاریخ کو فکشن کی صورت میں اپنے تبصرے کے ساتھ محفوظ کیا۔ یہ تاریخ یوں تو ان کے سبھی ناولوں میں جزواً جزواً موجود ہے، اور مجموعی طور پر اس کے سیاسی وژن کو ہم پر واضح کرتی ہے لیکن دو ناول اس حوالے سے خاص طورپر قابل ذکر ہیں، اداس نسلیں اور نادار لوگ۔

عبداللہ حسین کے یہ دونوں ناول مل کر ایک اکائی کی تشکیل کرتے ہیں۔اداس نسلیں میں ہمیں ان نسلوں کی داستان سنائی جاتی ہے، جنھوں نے آزادی کی تحریک میں حصہ لیا، اور تقسیم کے عمل سے گزرے، اور نئے آزاد ملک کی سرحد عبور کی۔ یہ ناول ہمیں ان نسلوں کی توقعات کی شکست و ریخت کی کہانی بیان کرتا ہے۔ جب کہ نادار لوگ میں ہمیں ان کے بعد آنے والی نسلوں کی داستان سننے کو ملتی ہے، جو مایوسی کی منزل سے گزر کر ناداری اور بے بسی کی سطح پر اتر چکی ہیں۔ ان نسلوں کا اگلا پڑاؤ ایسے مقام پر ہوگا جو ہر اخلاقی،قانونی اور سماجی اقدار سے آزادی کے مقام ہے اور جس کا تذکرہ عبداللہ حسین اپنے اگلے ناول ’نادار لوگ‘ میں کرنا چاہتے تھے۔ لیکن زندگی نے انھیں یہ ناول مکمل کرنے کی مہلت نہیں دی۔

ان دونوں ناولوں کے علاوہ بھی ہمیں ان کے دیگر ناول اور افسانے پاکستان کی سیاسی تاریخ کا خاکہ مکمل کرتے معلوم ہوتے ہیں، چاہے وہ باگھ ہو، جس میں کشمیر میں مجاہدانہ سرگرمیوں کا ذکر موجود ہے یا قید ہو جس میں وہ جاگیرداریت اور پیری مریدی جیسے اداروں کے درمیان گہرے گٹھ جوڑ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، جو اسٹیبلشمنٹ سے مل کر ٹرائیکا تشکیل دیتے ہیں اور یوں ملکی سیاست کی بساط مکمل ہوتی ہے۔

اس منظر نامے میں عبداللہ حسین کے ایک اور کمال کا ذکر کرنا موزوں ہے جو حقیقتاً ہمارا اصل مطمح نظر بھی ہے۔ اور وہ ہے ان سے مخصوص تخلیقی نثرجو ان کے ناولوں اور کہانیوں میں ان کے فکشن کے برانڈ کو واضح کرتی ہے۔ یہ نثر روایتی اردو نثر سے اتنی مختلف ہے کہ زبان کے معاملے میں روایت پسندی کے حامیوں نے اسے ماننے سے انکار کردیا۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ تخلیقی بہاؤ، رچاؤ اور قوت سے بھی تہی نہیں ہے۔ یہ تاریخ نگاری کی بھاری ذمہ داری پوری کرنے کے بھی اہل ہے، ناول کی پرت داری اور پیچدگی کو بھی اپنے اندر سمولیتی ہے۔ عبداللہ حسین نے اس میں مقامیت کی رنگ آمیزی کرکے نئے رنگوں کے لہریے پیدا کیے۔

وہ خود اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ اردو جیسی کہ لکھنے والے عام طورپر لکھتے تھے، وہ انھیں لکھنی نہیں آتی، نہ اسے سیکھنے ہی کی انھوں نے کبھی کوشش کی۔ ان کی تربیت غیر ملکی ادب کے مطالعے سے ہوئی تھی۔ زبان کو استعمال کرنے کی ضرورت پیش آئی تو انھوں نے مقامیت کی آمیزش سے اپنے فکشن کے لیے علیحدہ سے اپنی سہولت کے مطابق زبان تیار کرلی جسے پڑھنے والوں نے فوراً ہی قبول کرلیا اور جسے ہم عبداللہ حسین کے برانڈ کے طورپر جانتے ہیں۔
عبداللہ حسین اسے ’میری ذاتی اردو‘ کانام دیتے ہیں جو انھوں نے روایتی اردو سے ہٹ کر متشکل کی تھی۔ آپ چاہیں تو اسے پاکستانی اردو بھی کہہ سکتے ہیں۔جس میں پاکستانی زبانوں کا ذائقہ شامل ہے، ان کا مقامی آہنگ سنائی دیتا ہے اور یوں روایتی اردو سے مختلف ہونے کے باوجود وہ اُتھلے پن کا شکار نہیں ہوتی۔
عبداللہ حسین نے یہ تجربہ اداس نسلیں میں کیا اور یہی امر اس ناول کی مقبولیت کی متعدد وجوہات میں سے ایک ثابت ہوا۔جیسا کہ وہ خود اپنے ایک انٹرویو میں کہتے ہیں کہ پڑھنے والوں نے جو روایتی اردو پڑھ کر بوریت کا شکار ہوچکے تھے اور اسے اپنے ماحول سے موافق نہ پاتے تھے، اداس نسلیں میں مقامیت کی آمیزش سے تیار کی گئی نثر ملاحظ کی تو اس کے حق میں ووٹ دے دیا۔ یہ روایتی نہ ہونے کے باوجود قاری کو اپنی قرات پر مجبور کرتی ہے۔

عبداللہ حسین کی نثر کے حوالے سے محمد خالد اختر نے ’کانٹے کے تول جیسی نثر‘ جیسے الفاظ استعمال کیے۔ میں اسے مردانہ نثر کی ایک مثال تصور کرتا ہوں جس میں بظاہر کھردراہٹ اور خشکی تو ہے لیکن اندر اندر گہرا سوز اور نم بھی ہے۔حقیقتاً یہ اردو ناول میں پاکستانی اردو لکھنے کی اولین کاوش تھی۔
اس نثر کے اجآائے ترکیبی کیا ہیں، آہنگ اور لفاظی میں مقامیت پسندی، بیان کی سادگی، اور اداسی اور تنہائی کی پرسوز فضا، جو عبداللہ حسین کی شگفتگی کی تہہ میں بھی کارفرما دکھائی دیتی ہے۔جب کہ یہ نم اسے یکسر خشک ہونے سے بچاتا ہے۔جب کہ سب سے گہرا رنگ ناسٹلجیا کا ہے۔

اداس نسلیں کے بعد عبداللہ حسین کی کہانیوں اور ناولٹوں پر مشتمل کتاب نشیب منظر عام پر آئی تو اس میں نثر کے تیور کہیں مختلف تھے۔ نہ صرف نثر بلکہ موضوعات بھی، اور اسلوب نگارش بھی اس کتاب میں ایسا ملتا ہے، جس کی مثال ہمیں ان کے کسی دوسرے ناول میں نہیں ملتی۔

نشیب کی نثر ہمیں عبداللہ حسین کی ادبی شخصیت کے ایسا رنگوں اور گوشوں سے متعارف کرواتی معلوم ہوتی ہے، جن سے ان کا قاری یکسر بے خبر ہے۔ نشیب کی نثر میں یہ سوزوگداز تہہ میں نہیں رہتا، ابھر کر سطح پر آجاتا ہے، صاف محسوس ہوتا ہے۔اس نثر کے تیورسادہ اور ملائم ہیں۔جس کی وجہ ناسٹیلجیا کی فضا کا نم ہے۔ اداس نسلیں کے برعکس یہاں چوں کہ نثر کو تاریخ نگاری جیسی کسی بھاری ذمہ داری سے معاملہ نہیں کرنا ہے، اس لیے یہ کہیں زیادہ سبک اور ہلکی پھلکی ہے۔ اس لیے اس میں جاذبیت اور احساس کو گرفت میں کرنے کی طاقت بھی زیادہ ہے۔

اسی نثر کی طاقت سے ندی جیسی کہانی کا جنم ہو اجسے بہت اعتماد کے ساتھ اردو کے چند مؤثر ترین یادگار کہانیوں میں شامل کیا جا سکتا ہے۔اس میں بلانکا کا کرداراردو کے ناقابل فراموش عورت کرداروں میں شامل کیا جا سکتا ہے جو طویل عرصے تک پڑھنے والے کے تخیل کو اپنے سحر میں مبتلا رکھتے ہیں۔
عبداللہ حسین کی نثر کی داخلی ہیئت میں سب سے طاقت ور عنصر ان کا ناسٹلجیا ہی ہے۔ یہ ناسٹیلجیا اپنی زمین، اس زمین سے جڑی ہوئی شخصیات، اور جگہوں سے دوری کے سبب ہے۔ جب کہ اس ناسٹیلجیا کی کیفیت سے جڑا ہواہے سفر۔چاہے یہ جبری ہو یا ارادی، اس کے انسانی مزاج پر اثرات کم و بیش ایک سے ہوتے ہیں۔

ناسٹیلجیا کمزوری کی علامت ہے۔ جب آپ موجود سے ناخوش ہوں اور آئندہ کے بارے میں بے یقینی پن کا شکار تو آپ پیچھے مڑ کر دیکھتے ہیں۔ لیکن عبداللہ حسین ماضی پرست نہیں ہیں۔ وہ محض اس کیفیت سے اپنے حصے کا سوز اور الم، اور تنہائی اور اداسی لیتے ہیں، یعنی جو کچھ کہ ان کے برانڈ کی نثر لکھنے کے لیے ضروری ہے۔ یوں ان کی نثر ان تمام اجزا کے ملنے سے ایسا روپ اور رنگ ڈھنگ اختیار کرتی ہے، کہ جس سے وہ منفرد ہی نہیں ہوتی، بلکہ پاکستانی فکشن کی نثر کے ایک مثالی نمونے کی حیثیت اختیار کرلیتی ہے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...