اقتصادی راہداری کے لیے سیاسی اتفاق رائے ضروری ہے

953

پاکستان کے لیے تو کسی امتحان سے کم نہیں کہ وہ بڑے سیاسی اور سکیورٹی دھچکوں کے بغیر اسے کیسے تکمیل تک پہنچاتا ہے۔

پاکستان  اور چین دونوں اقتصادی راہداری کو اپنے لئے ایک سنگ میل  قرار دیتے  ہیں ۔خطے میں تعمیر و ترقی کی دوڑ میں یہ منصوبہ اس حد تک اہم ہے کہ یوریشیاء  کی جیو اکنامک کو بدل کر رکھ دے گا۔دونوں اطراف اس راہداری پر جوش و خروش پایا جاتا ہے مگردونوں کے لئے اس کی وجوہات الگ الگ ہیں ۔ چینی قیادت اسے”ون بیلٹ ون روڈ ” منصوبے  کے ایک اہم حصے کے طور پر اس کو اپنے لئے بہت اہم سمجھتی ہے۔پاکستان اس کو  خطے میں اپنے جیو سٹریٹجک مفادات کے لئے اس قدر اہم سجھتا ہے  کہ اس کا خیال ہے کہ  اس کے بعد گویا سارا کھیل ہی بدل کر رہ جائے گا۔ تاہم  اس منصوبے کے بارے میں جس قدر جوش و ولولہ  پایا جاتا ہے  وہ کبھی کبھی مایوسی میں بھی بدلتا دکھائی دیتا ہے ۔چین  سمجھتا تھا کہ اس منصوبے پر برق رفتاری سے کام ہو گا لیکن پاکستان میں کام کی سست روی اور ابہام کی وجہ سے بیجنگ  کی پریشانی عیاں ہے ۔پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اقتصادی راہداری  کو  بھارت کے ساتھ خطے میں طاقت کے توازن کے طور پر دیکھتی ہے ۔اس منصوبے سے جڑے  معاشی ثمرات پر اس کی توجہ اتنی  زیادہ نہیں ہے ۔

دونوں اطراف کی اپنی اپنی الگ سوچ کے باوجود دونوں ممالک کو اس منصوبے سے ایک دوسرے کو سمجھنے میں کافی مدد ملی ہے ۔ دونوں ممالک ابھی تک کسی  ہیجان کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہتے جس سے مایوسی پھیلے ۔پاکستان اس منصوبے  کے تناظر میں بیک وقت اپنے اندرونی مسائل اور اپنی خارجہ پالیسی میں بنیادی تبدیلیوں کے مرحلے سے دوچار ہے ۔چین بھی نئے گٹھ جوڑ کے تجربے سے گزر رہا ہے جو کہ اس کے افریقی تجربے سے یکسر مختلف ہے  لیکن خطے میں “ون بیلٹ ون روڈ” منصوبے  کے لئے یہ سب کچھ ناگزیر ہے ۔

افریقہ میں چین کی  حکمت عملی کامیاب رہی  اور چینیوں نے بڑے منصوبے حاصل کیے اور پائہ تکمیل تک پہنچایا وہ قابل تعریف ہے۔ لیکن چینی سرمایہ کاروں کو یہاں وسیع مواقع محض اس وجہ سے حاصل ہوئے ہیں کہ چین نے وہاں کی خراب  اور آمرحکومتوں کی بھی کھلی حمایت کی ۔کہا جاتا ہے کہ ا س کے لئے رشوت کا بھی سہارا لیا گیا تاکہ منصوبے جلداز جلد پایہ تکمیل کو پہنچ جائیں ۔

پاکستان اور جنوبی ایشیاء افریقی خطے سے بالکل مختلف ہیں ۔اگرچہ قومی سطح پر بدعنوانی ایک بڑا مسئلہ ہے اور پانامہ لیکس جیسے سکینڈلز کی وجہ سے حکومتوں کی ساکھ مجروح ہوتی ہے لیکن پھر بھی یہ حکومتیں مطلق العنان نہیں ہوتیں اور نہ ہی  حکومت کا اثر و رسوخ حزب مخالف ، میڈیا  اور عدلیہ پر  اتنا ہوتا ہے کہ او اسے اپنی مرضی سے استعمال کر سکیں۔

سیاسی حکومت کی یہ مجبوری ہوتی ہے کہ قومی نوعیت کا کوئی بھی کام  ملکی سطح پر اتفاق رائے کی بغیر نہیں کر سکتی ۔کچھ مواقع پر اتفاق رائے پیدا کرنے میں دیر ضرور ہو جاتی ہے مگر جب یہ ہو جاتا ہے تو پھر یہ شفافیت اور سب سے بڑھ کر سماجی و سیاسی استحکام کی ضمانت بن جاتا ہے جس سے طویل المدتی اشتراک کا راستہ ہموار ہو جاتا ہے ۔

کولمبو کا پورٹ سٹی منصوبہ اس کی ایک موزوں مثال قرار دی جا سکتی ہے ۔اس منصوبے پر آمادگی سابق حکومت نے ظاہر کی تھی لیکن اندرونی تنقید اور شفافیت کی عدم موجودگی میں نئی حکومت نے اس پر کام روک دیا تھا ۔ صدر متھری پالا سرسینا کی حکومت نےاتفاق رائے پیدا کرنے اور منصوبے میںشفافیت کے لیے بعض تبدیلیوں کے بعد حال ہی میں اس پر از سر نو کام کا آغاز کر دیا ہے ۔

آمرانہ قیاد ت حساس قومی امور پر اتفاق رائے نہیں پیدا کر سکتی ۔ ماضی  فو جی آمر یت کے اثرات بہت منفی رہے  اورپنجاب کے خلاف  اور وفاق جذبات ابھر کر سامنے آئے جن کی وجہ سے سیاسی و سماجی سطح پر مایوسی بڑھی جس کے اثرات داخلی سلامتی پر بھی مرتب ہوئے ۔وسائل کی تقسیم پر اختلافات فوجی آمروں کی دین ہے ۔کالا باغ ڈیم کا مسئلہ  اس کی ایک بڑی مثال ہے جس میں فوجی حکمران اپنی تمام تر کو ششوں کے باوجود اتفاق رائے پید اکرنے میں ناکام ثابت ہوئے ۔یہ سیاسی حکومتوں کا ہی کام ہے کہ انھوں نے ماضی میں بھی کئی مواقع پر اتفاق رائے  قائم کرنے میں کامیابی حاصل کی مثلاً پانی کی تقسیم ، قومی معاشی ایوارڈ  اور اہم آئینی ترامیم اس کی چند ایک مثالیں ہیں ۔

اقتصادی راہداری  کے مسئلے پر بھی تمام سیاسی قوتوں میں اتفاق رائے موجود ہے ۔اگر کچھ صوبے اور سیاسی جماعتیں ابھی تک اپنے تحفظات کا اظہار کر رہی ہیں تو بھی ایسے فورم موجود ہیں جہاں یہ تحفظات زیر غور آ سکتے ہیں ۔

اقتصادی راہداری  اور اس سے منسلک منصوبوں کی بر وقت تکمیل کے لئے یہ ضروری ہے کہ ہمارا نظام چلتا رہے اور افسر شاہی اس میں کوئی رکاوٹ نہ ڈالے ۔حکومت کو غیر ملکی سرمایہ کاروں اور شراکت داروں کے لئے مراعات کا اعلان کرنا چاہئے تاکہ ملک میں سرمایہ کاری کے لئے ساز گار ماحول پیدا ہو سکے ۔چینی سرمایہ کاروں کی سہولت کے لئے حکومت وفاقی اور صوبوں کی سطح پر  ایک الگ طریقہ کار وضع کرے ۔صوبے خصوصی اکنامک زونز کے قیام پر کام کی رفتار تیز کریں تاکہ دوسرے ممالک سے بھی سرمایہ کاروں کو اپنی جانب راغب کیا جا سکے ۔

ضرورت اس امر کی ہےکہ مشترکہ مفادات کونسل کو متحرک کیا جائے اسی طرح سی پیک پر پارلیمنٹ کی کمیٹیا ں بھی اپنا کام کریں وہ منصوبوں  پر نظر رکھیں اور جہاں ضرورت ہو رہنمائی کریں ۔اگر ضروت ہو تو  اقتصادی راہداری کی نگرانی کے لئے ایک الگ کمیٹی بھی بنائی جا سکتی ہے جس میں تمام سیاسی جماعتوں ، چیمبر آف کامرس ، ٹیکنو کریٹس اور ماہرین کی نمائندگی ہو ۔ چونکہ اس منصوبے کی سیکورٹی بھی بہت حساس معاملہ ہے اس لئے فوجی نمائندوں کو بھی اس میں نمائندگی دی جائے ۔

ایک دوسرا مسئلہ جس کی نشاندہی چینی ماہرین کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ پاکستان میں سائنسی اپروچ کی کمی ہے  ۔وہ یہ کہتے ہیں کہ مشرقی روٹ معاشی ، سیکورٹی اور جغرافیائی منظر نامے میں زیادہ موزوں ہے ۔اس لئے اس کو ہی اولیت دی جانی چاہئے ۔اس لئے حقیقت کا تقاضا ہے کہ اس معاملے پر سائنسی سوچ اپنائی جائے ۔تاہم سیاسی حکومت ایسا کوئی خیال پیش نہیں کر سکتی کیونکہ اسے اس صورت میں بھاری قیمت چکانی پڑ سکتی ہے ۔ حکومت کے لئے بہتر یہی ہے کہ وہ دونوں راہداریوں پر توجہ دے اور ان کے لئے معاشی وسائل مہیا کرے ۔کیونکہ یہ قومی وحدت اور سیاسی استحاکام کے لئے ناگزیر ہے ۔

کئی ماہرین سی پیک کا جائزہ  خطے کی مسلسل  بدلتی ہوئی جغرافیائی صورتحال میں  بھی لیتے ہیں ۔ بحر ہند میں ابھرتے ہوئے منظر نامے میں چین اور پاکستان دونوں کے لئے اقتصادی راہداری  بڑی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ یہ انھیں اپنے مد مقابل پر برتری دلا سکتا ہے ۔لیکن یہ اسی صورت میں تزویراتی مفادات کا تحفظ کر سکتا ہے جب اس کے ساتھ جڑے معاشی مفادات بھی حاصل ہوں ۔ اگر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا جائے تو  یہ دونوں مفاد ایک ہی وقت میں حاصل ہو سکتے ہیں۔

المختصر ، پاکستان اپنی معاشی مفادات کو ایک طرف رکھ تزویراتی  مفادت کی تکمیل نہیں کر سکتا ۔ چین بھی یہ نہیں چاہے گا کہ سی پیک اور گوادر میں اس کے جغرافیائی مفادات کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جائے بلکہ وہ یہ چاہے گا کہ اس کو “ون بیلٹ ون روڈ ” کے ایک اہم حصے کے طور پر ہی دیکھا جائے ۔ اگر پاکستان اپنے جغرافیائی مفادات کو خطے کی سیاست میں توازن پیدا کرنے کے لئے یا اسے امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات کے لئے   اقتصادی راہداری کو ایک آلے کے طور پر استعمال کرے گا تو اس کا نقصان چین کو نہیں ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ پاکستان اس سے کیا حاصل کر پائے گا؟

اقتصادی راہداری پاکستان اور چین دونوں کے لیے ایک تجربہ ہے ،جس سے چین یہ سیکھ سکتا ہے کہ وہ “ون بیلٹ ون روڈ” کے منصوبے کو پاکستان سے ملتے جلتے سیاسی  سیاسی اور سماجی  ماحول والے ممالک میں کیسے پایہ تکمیل تک پہنچا سکتا ہے۔ پاکستان کے لیے تو کسی امتحان سے کم نہیں  کہ وہ بڑے سیاسی اور سکیورٹی دھچکوں کے بغیر اسے کیسے تکمیل تک پہنچاتا ہے۔

(بشکریہ : ڈان ترجمہ :سجاد اظہر)

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...