اسلامک اسٹیٹ کامستقبل اور اس کی خلافت

859

اسلامک اسٹیٹ نے سب سے زیادہ رقم تیل بیچ کے جمع کی ہے ۔جو ترکی اور دمشق میں بیچتی رہی ہے ۔اس کے علاوہ قدیمی آثار کو بھی بیچ کے رقم بناتی رہی ہے

اس اسلامک اسٹیٹ کا ایک منفرد جہادی وجود ہے پہلی تمام جہادی تحریکوں کی طرح نہیں بلکہ یہ ایک ریاستی کردار کی حیثیت حاصل کر چکی ہے ۔یہ اپنے علاقے پر حکومت کرتی اور دفاع بھی کرتی ہے ۔طالبان کی طرح نہیں جنہوں نے 9/11حملوں سے پہلے افغانستان پر پانچ سال حکومت کی ، اس نے عراق اور شام کی سرحدوں کو نظر انداز کرتے ہوئے بین الملکی خلافت قائم کی ہے۔ 2015ءکے آخر سے لیکراب تک کچھ علاقوں سے محروم ہوئی ہے تاہم پھر بھی مغربی عراق اور مشرقی شام میں انتہائی مضبوط ہے۔ حال  ہی  میں اس نے بین البراعظمی خاص طور پر یورپ میں دہشت گرد حملے کر کے اپنی صلاحیت کا مظاہرہ کیا ہے۔

نتیجہ :

اسلامک اسٹیٹ جن علاقوں سے محروم ہوئی ، اس کو اس کے مخالفین کو کامیابی نہیں سمجھنا چاہئے ۔ اسلامک اسٹیٹ ،الرقہ اور دیرالزورکے درمیان دریائے فرات کے ساتھ اپنے مرکزپر کنٹرول رکھے ہوئے ہے اور اپنے اخراجات کو بھی کم کیا ہے۔ اس کی معیشت بھی چل رہی ہے، مخالفین اس کی آمدنی بند نہیں کرسکتے ۔وہ آمدنی جو یہ اپنے زیر کنٹرول آبادی سے بذریعہ ٹیکس لیتی ہے ۔ترکی واحد طاقت ہے جو اس کیلئے موجود خطرہ ہے لیکن ترکی بھی لیڈنگ رول ادا کرنے میں ہچکچا رہا ہے ۔کیوں اگراسلامک اسٹیٹ کمزور ہوگئی تو کردقوم علیحدہ ہونے کے قابل ہوجائے گی ۔

تعارف:

اسلام کا اگر سیاسی پس منظر دیکھا جائے تو مسلم دنیا پر اسلام کے شروع میں خلیفہ کی حکمرانی کا تصور موجود ہے لیکن یہاں کبھی بھی متفقہ خلیفہ نہیں رہا ۔لیکن ہم عصر جہادیوں کا اہم مقصد یہ رہا ہے کہ یہاں دوبارہ اس قسم کی خلافت قائم کی جائے لیکن غیر مسلم دنیا نے اس کو ایک چیلنج کے طور پر دیکھا ہے ۔

اسلامک اسٹیٹ نے ایک روائتی لڑاکا فورس پیدا کی ہے اور یہ کافی زیادہ علاقے پر بھی قابض ہے ہمارے نقطہ نظر سے یہ اسلامک اسٹیٹ اپنی حیثیت میں انتہائی موثر عرب لڑاکا فورس رکھتی ہے اس کی انتہائی موثر خصوصیت یہ ہے کہ یہ شکست ،پسپائی کو جذب کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے اور دوبارہ منظم ہونے اور دشمن کے کمزور محاذ پر حملہ کرنے کی موثر صلاحیت رکھتی ہے ۔

اسلامک اسٹیٹ کی فوجی حیثیت:

حالیہ مہینوں میں اسلامک اسٹیٹ کافی علاقوں سے محروم ہوئی ہے، شامی اور عراقی حکومت نے اسلامک اسٹیٹ کو شام میں تدمراور عراق میں الرمادی سے پیچھے ہٹایا ہے اور فلوجہ جو اسلامک اسٹیٹ کے قبضہ میں ہے پر حملے کئے ہیں۔ اوراس کے خود ساختہ دارالحکومت الرقہ اور موصل پر بھی حملے کی تیاری کی ہے ۔اس طرح رپورٹس بھی منظر عام آئی ہیں کہ اسلامک اسٹیٹ نے اپنے جنگجوﺅں کی تنخواہیں کم کی ہیں۔اس کے خاتمہ کی افواہ ایک بڑی مبالغہ آرائی ہے۔البتہ یہ 2014والی بلندی پر بھی نہیں ہے۔

اسلامک اسٹیٹ کی معاشی صورت حال:

ISISنے غیر معمولی طور پر فنڈ جمع کیے ہیں تاہم یہ اسلامک اسٹیٹ اپنے دولت مند چندہ دینے والوں پر انحصار نہیں کرتی اس کا سب سے زیادہ نفع بخش اور قابل اعتماد ذرائع یہ ہے کہ یہ اپنے زیر کنٹرول آبادی سے ٹیکس اور بھتہ خوری سے رقم جمع کرتی ہے۔ اسلامک اسٹیٹ نے سب سے زیادہ رقم تیل بیچ کے جمع کی ہے ۔جو ترکی اور دمشق میں بیچتی رہی ہے ۔اس کے علاوہ قدیمی آثار کو بھی بیچ کے رقم بناتی رہی ہے علاوہ ازیں انسانی سمگلنگ ،زراعت ،اور چھینی ہوئی جائیدا داور قدرتی ذرائع سے بھی اس نے کافی دولت اکھٹی کی ہے ۔اسلامک اسٹیٹ کی ساخت ایک مرکزی نظا م کے تحت بنائی گئی ہے تمام رقم اسلامک اسٹیٹ کا خلیفہ صوبوں کو تقسیم کرتا ہے اور وہ صوبے اپنے جنگجوﺅں کو تنخواہیں دیتے ہیں اور باقی جنگی مسائل کے لئے بھی پیسے تقسیم ہوتے ہیں۔ حالیہ مہینے میں اسلامک اسٹیٹ کی معیشت زوال پذیر ہوئی ۔اتحادیوں نے ہوائی حملوں کے ذریعے تیل کے میدانوں پر حملے کر کے تباہ کر دیئے ہیں اور کچھ علاقے سے بھی محروم ہوئی ہے جس کی وجہ سے اس کی معیشیت پر کافی پریشر پڑ اہے ۔ترکی نے بھی اپنی سرحد کو تنگ کیا ہے ۔جس کی وجہ سے اس کی معیشت کو کافی مشکل کا سامنا ہے لیکن اس کی معیشت تباہ نہیں ہوئی ۔RANDکارپوریشن کی ریسرچ کے مطابق جب اسلامک اسٹیٹ نے موصل پر جون 2014میں حملہ کیا تو تقریباً 875ڈالر نقدی اس کے ہاتھ لگی۔

صوبہ النبارکے بڑے حصہ پر اور موصل پر کنٹرول رکھنا بھی ان کیلئے ضروری ہے کیوں یہ اسلامک اسٹیٹ کا امدادی زون ہے ۔حالیہ رپورٹ یہ بھی ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادی موصل کے آس پاس قبائلی نان پروفیشنل جنگجوﺅں کواسلامک اسٹیٹ کے خلاف لڑنے کیلئے ان کو بھرتی کر رہے ہیں ۔اگر یہاں اس طرح ہے تو اسلامک اسٹیٹ کے خلاف صوبہ النبارمیں قبائلوں کے درمیان مخالف جذبات نشوونما پارہے ہونگے ۔

عراقی صورت حال :

عراق حالانکہ بین الاقوامی سطح پر مقبول سیاسی نظام موجود ہے۔ اگرچہ بہت کمزور ہے ۔ یہ تین طبقاتی گروپوں شیعہ ، سنی ، کرد پر مشتمل ہے ۔ جو امریکہ نے صدام حکومت کو ختم کرنے کے بعد قائم کی ۔

2007 ءمیں بغدادنے سنی گروپ کو دھوکا دیا اور سنی اپنی بغاوت ختم کرنے کے بعد اس میں شامل ہونے پر متفق ہوئے ۔

2011 ءمیں جب یونائیٹڈ سٹیٹ نے اپنے دستے واپس بلائے تو سنیوں کو شعیوں کے ہاتھوں ظلم سہنے کا تجربہ حاصل ہوا ۔

اسلامک اسٹیٹ کے ساتھ لڑائی کے ساتھ ساتھ نئی حکومت قائم کرنے کی کوشش بھی کی جاتی ہے۔ یہ دو بیک وقت تنازعوں نے شام کو ٹوٹ پھوٹ کا شکار کردیا ہے۔ 

ا س طرح کے عناصر نے اسلامک اسٹیٹ کو عراق میں واپسی کے قابل بنا یا ہے۔ اور سنیوں کو جہادی حکومت سے دور رکھنے کو بھی کافی مشکل بنایا ہے۔ سنی ، شیعہ تنازعہ نے عراقی ریاست کو بحیثیت قوم توڑ دیا ہے تاہم وہ بھی اس فرقہ واریت سے فائدہ اٹھارہے ہیں ۔

عراق کا ٹکڑے ٹکڑے ہونے کا امکان  صرف سنی شیعہ تنازعہ نہیں ہے بلکہ سنی کردش اور شیعہ کردش تنازعہ بھی ہے۔ اور مزید یہ تینوں گروپ اندرونی طور پر بھی تقسیم شدہ ہیں۔

اسلامک اسٹیٹ کے خلاف ان کوششوں میں بڑی کمزوری یہ ہے کہ یہ کوشش جنوب سے شیعہ کی قیادت میں اور شمال سے کرد قیادت سے ہورہی ہے جس نے سنیوں کے خدشات کو بڑھا دیا ہے۔

لہٰذا عراق میں ان تنازعات اور غیر موثر حکومت نے اسلامک اسٹیٹ کی اس لڑائی کو زمین دوز کردیا ہے۔ شام میں اسد کی حکومت اپنی قانونی حیثیت کھو چکی ہے ۔ اسلامک اسٹیٹ کے ساتھ لڑائی کے ساتھ ساتھ نئی حکومت قائم کرنے کی کوشش بھی کی جاتی ہے۔ یہ دو بیک وقت تنازعوں نے شام کو ٹوٹ پھوٹ کا شکار کردیا ہے۔ مزید شام میں امریکہ اور اس کے اتحادی مختلف ترجیحات رکھتے ہیں ۔ واشنگٹن کی ترجیح یہ ہے کہ اسلامک اسٹیٹ کو پہلے شکست دی جائے ۔ اسد سے بعد میں نمٹا جائے گا ۔ا س کے علاقائی اتحاد کی ترجیح یہ ہے کہ پہلے اسد حکومت کو گرایا جائے۔

حقیقت میں شامی کر دامریکہ کی سپورٹ کے ساتھ اسلامک اسٹیٹ کے خلاف لڑنے کے لئے تیار ہیں لیکن ترکی شامی کردوں کو پروموٹ کرنے کے حق میں نہیں ۔ اس ترکی مخالفت کا اسلامک اسٹیٹ فائدہ لیتی ہے۔ 

تاہم اسد حکومت کے گرنے سے جو خلا اُبھرے گا اس کا فائدہISIS کو ہوگا ۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ پہلے اسلامک اسٹیٹ کے خلاف لڑنا چاہتا ہے اور وہ شام کے کردوں پر انحصار کرنے پر مجبور ہے ۔

اسلامک اسٹیٹ کی مخالف تحریک سے کیا متوقع ہے

حقیقت میں شامی کر دامریکہ کی سپورٹ کے ساتھ اسلامک اسٹیٹ کے خلاف لڑنے کے لئے تیار ہیں لیکن ترکی شامی کردوں کو پروموٹ کرنے کے حق میں نہیں ۔ اس ترکی مخالفت کا اسلامک اسٹیٹ فائدہ لیتی ہے۔ 2جون کو طیب اردگان نے بتایا کہ امریکہ نے ان کو یقین دہانی کرائی ہے کہ اس کا ملک جو اسلامک اسٹیٹ کے خلاف سنی عرب جنگجو کی قیادت میں ان کا ساتھ دے گا اورشامی کر د چھوٹی فورس کے طور پر تشکیل ہوں گے۔

تاہم طیب اردگان نے کہا کہ ترکش انٹیلی جنس اس صورتحال کو یقینی بنانے کے لئے مانیٹر کررہی ہے۔ کیونکہ اس اسلامک اسٹیٹ کے خلاف لڑنے والی فورس اکثریت سنی عرب پر مشتمل ہے ۔ اس بات سے لگتا ہے کہ ترکی ابھی تک امریکی یقینی دہانی کے باوجود پریشانی کا شکار ہے۔ اسلامک اسٹیٹ کے خلاف اتحادیوں کی کامیابی ابھی قابل سوال ہے

ترکی واحد ملک ہے جو اس اسلامک اسٹیٹ ISIS کو نااہل اور بے دخل کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔ امریکہ نے ترکی پر زور دیتے ہوئے کہا کہ وہ زمینی حملوں میں قائدانہ کردار ادا کرے اس کے ساتھ ہوائی حملے امریکہ خود کرے گا۔ تاہم ابھی تک اس بارے کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ۔

اور اگر یہ علاقوں سے محروم ہو جاتی ہے تو اسلامک اسٹیٹ کی خلافت کے خاتمہ کا مطلب ہرگز نہیں ہوگا کہ اس نظریہ کو ختم کردیاگیا ہے ۔بلکہ پہلے سے ہی شام میں اس طرح کے بہت سے نظریاتی گروپ موجود ہیں جو اپنی اپنی اسلامک اسٹیٹ قائم کرنے کی کوشش میں ہیں۔

اس کے برعکس عراقی حکومت دلائل دینے کی کوشش کررہی ہے اور آپریشن روک رکھا ہے ۔ کیونکہ آپریشن سے ہزاروں زندگیوں کی ہلاکتوں کا خطرہ ہے۔ عراق کے شمال میں KRG کی ترجیح بھی موصل پر قبضہ حاصل کرنا ہے کیونکہ موصل عراقی کردش کے بالکل قریب ہے۔ 29مئی کی میڈیا رپورٹ کے مطابق KRG نے 5بڑے گاﺅں جو موصل میں واقع ہیں وہاں سے اسلامک اسٹیٹ کے جنگجوﺅں کو باہر دھکیل کر قبضہ حاصل کیا ہے۔عراق اور شام دونوں ملکوں میں اسلامک اسٹیٹ نے میدان جنگ میں قابل غور بہادری کا مظاہرہ کیا ہے۔

مستقبل میں کسی موقعہ پراسلامک اسٹیٹ کیخلاف اگر اتحاد مضبوط ہوجاتا ہے تو اسلامک اسٹیٹ طاقتور حملے بھی لمبے عرصے تک برداشت کرسکے گی اور اگر یہ علاقوں سے محروم ہو جاتی ہے تو اسلامک اسٹیٹ کی خلافت کے خاتمہ کا مطلب ہرگز نہیں ہوگا کہ اس نظریہ کو ختم کردیاگیا ہے ۔بلکہ پہلے سے ہی شام میں اس طرح کے بہت سے نظریاتی گروپ موجود ہیں جو اپنی اپنی اسلامک اسٹیٹ قائم کرنے کی کوشش میں ہیں۔

ترجمہ :احمد اعجاز

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...