بس کے ایک مسافر کی کہانی

1,037

معذور افراد کی جو بھی صورتیں فوری طورپر اس کے ذہن میں آئیں، ان میں سے کسی ایک کے لیے بھی بس میں داخل ہونے کا کوئی آسان راستہ ممکن نہیں تھا

بس کی بریکیں شاید ہوا خارج کرتی تھیں کیوں کہ جب انھیں لگایا جاتا تو ہوا کا بھبھکا سا شراٹے اور سیٹی مارتا خارج ہوتا اور ایسا بار بار ہونے سے اس کی توجہ کسی اور طرف جا ہی نہیں پا رہی تھی۔

وہ دروازے کے برابر ہی ایک سیٹ پر بیٹھا تھا۔ تبھی اس کی نظر کھڑکی کے پاس ہی لگی ایک تختی پر پڑی، لکھا تھا، ’معذور افراد کے لیے۔‘ تختی پر اشارہ اسی کی سیٹ کی طرف تھا جس پر وہ بیٹھا تھا۔

اس نے چہرے پر ہاتھ پھیرا۔ بیٹھے بیٹھے پہلو بدلا۔ آس پاس نظر دوڑائی۔ بس میں اب کھڑے ہونے کی بھی جگہ نہیں بچی تھی۔ آر اے بازار تک ابھی راستے میں بارہ تیرہ سٹاپ تو ہوں گے۔ جس جس رفتار سے یہ بس جا رہی تھی، لگتا نہیں تھا، اگلے چالیس پنتالیس منٹوں سے پہلے آر اے بازار تک، جو اس کا آخری سٹاپ تھا، پہنچ پائے۔

لیکن اطمینان بخش بات یہ تھی کہ آس پاس دکھائی دینے والی سواریوں میں کوئی بھی معذور معلوم نہیں ہوتی تھی۔

اس اطمینان نے اسے پرسکون کیا اور اس نے سوچا، ایک معذور فرد کے لیے کیسے ممکن ہے کہ وہ بس میں سوار ہوجائے۔ کسی سٹاپ پر یہ آدھا منٹ بھی بمشکل رکتی تھی۔ اور وہ بھی کہاں مکمل رک پاتی تھی، ہولے ہولے سرکتی رہتی، سواریاں اترتی اور تقریباً بھاگتے ہوئے چڑھتی تھیں۔ سڑکیں ایسی تھیں کہ بس کہ رکنے سے ٹریفک کا نظام درہم برہم ہوجانے کا خطرہ تھا۔ اتنی چستی کے بغیر کہ جو بس پر چڑھنے کے لیے مطلوبہ تھی، کوئی معذور چاہے وہ کیسی ہی پھرتی کا مظاہرہ کرے، نہیں چڑھ سکتا تھا۔

وہ جب تک بس تک پہنچ پائے گا، بس سٹاپ کی حد سے آگے نکل چکی ہوگی۔ اور کہاں لکھا تھا کہ ہر بس پر لازم ہے کہ وہ سٹاپ پر موجود ہر سواری کو سوار کرائے۔ کوئی ٹائم شیڈول بھی ہوتا ہے، آخری بس سٹا پ پر دیر سے پہنچنے پر جرمانہ بھی ہوسکتا ہے ڈرائیور پر۔ خیر بالفرض اگر وہ معذور سواری بس تک اتنی کم مہلت میں پہنچ جائے تو اوپر کیسے چڑھے گی؟ ڈیڑھ ایک فٹ کی پہلی سیڑھی تھی، اس سے آگے کوئی پون فٹ کی دوسری۔ ایک معذور کے لیے، اگر وہ واقعی وہ معذور ہے تو ممکن نہیں تھا کہ وہ ہولے ہولے سرکتی بس میں یہ دونوں سیڑھیاں پھلانگ کر چڑھ جائے۔ معذور افراد کی جو بھی صورتیں فوری طورپر اس کے ذہن میں آئیں، ان میں سے کسی ایک کے لیے بھی بس میں داخل ہونے کا کوئی آسان راستہ ممکن نہیں تھا۔

اس نے جسم کو ڈھیلا چھوڑ کر اوپر چھت کی طرف دیکھا اور گہرے اطمینان کے ساتھ لمبا سانس لیا۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...