بلوچستان میں بلوچ اور پختون بحث پھر سے شروع
افغان مہاجرین نے بلوچستان میں بلوچ اور پختون سیاست پر کیا اثرات مرتب کیے؟ ضیاء الرحمن کی رپورٹ
بلوچستان کے وزیربرائے داخلہ اورقبائلی امورسرفرازبگٹی کے افغان مہاجرین کے حوالے سے حالیہ بیان نے صوبے میں بلوچ اورپختون سیاسی جماعتوں کے مابین آبادی (demography)کی تبدیلی کی پرانی اورتلخ بحث دوبارہ شروع کردی ہے۔
سرفرازبگٹی نے افغانستان کی خفیہ ایجنسی نیشنل ڈائریکریٹ آف سیکیوریٹی (این ڈی ایس) کے لئے مبینہ طورپرکام کرنے والے چھ افراد کی گرفتاری کے موقع پرکہا کہ ’بلوچستان میں رہنے والے افغان مہاجرین صوبے میں دہشت گردی کی کاروائیوں میں ملوث ہے۔ پاکستان نے لاکھوں افغان شہریوں کی دہائیوں تک میزبانی کی ہے لیکن اب وقت آگیا ہے کہ افغان مہاجرین واپس چلے جائیں‘۔
بلوچ اورپختون بلوچستان میں آباد دوبڑی لسانی اکائیاں ہے جبکہ سندھی، پنجابی، ہزارہ اوراردوبولنےوالے کمیونٹی (مہاجر) بھی بڑی تعداد میں صوبے میں رہتے ہیں۔ بلوچستان کی افغانستان کے صوبوں قندھار، زابل اورہلمند کے ساتھ 700 میل سرحدہے۔ بلوچ اورپختون جماعتیں شروع ہی سے صوبے میںاپنی تعداد کے حوالے سے اپنے اپنے دعوے کئے جارہے ہیں مگر1998 ء سے مردم شماری نہ ہونے کی وجہ سے بلوچستان کی لسانیت کی بنیاد پرآبادی پرکوئی مستند اعدادوشماربھی موجود نہیں ہے جبکہ 1998ء کے اعدادوشماربھی پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کی جانب سے مردم شماری کے کامیاب بائیکاٹ مہم کی وجہ سے متنازعہ سمجھاجاتاہے۔
بلوچ جماعتوں کی شکایتیں
بلوچ سیاسی تنظیمیں، خصوصا سرداراخترمینگل کی بلوچستان نیشنل پارٹی، شروع ہی سے یہ شکایت کرتی چلی آرہی ہے کہ 1979ء سے افغانستان سے مہاجرین کی لاکھوں کی تعداد میں بلوچستان کے پختون علاقوں میں آباد ہے جہنوں نے پختون قوم پرست جماعت پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کی مدد سے قومی شناختی کارڈز اوردیگرقانونی دستاویزات حاصل کرلی ہے جس کی وجہ سے صوبے بالخصوص دارلخلافہ کوئٹہ کی آبادی کا تناسب تبدیل ہوچکاہے جوبلوچوں کواپنے ہی صوبے میں اقلیت میں تبدیل کرنے کی سازش ہے۔
بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی سیکریٹری اطلاعات آغا حسن بلوچ اس حوالے سے ’تجزیات‘ کوبتاتے ہیں کہ ’’2011ء کے خانہ شماری کے اعدادوشمارکے مطابق بلوچستان کی آبادی 65 لاکھ سے بڑھ کرایک کروڑ30 لاکھ تک پہنچ گئی ہے۔ صوبے کے پختون اکثریتی اضلاع میں آبادی میں 250 سے لے کر 350 فیصدتک آبادی میں آضافہ ہواہے جولاکھوں افغان مہاجرین کو پاکستانی شہری بنانے کے بغیرناممکن نہیں ہے جبکہ بلوچوں کی آبادی میں کافی حد تک کمی ہوئی ہے۔حکومتی اعدادوشماریہ ظاہرکرتے ہیں کہ صوبے کے چارپختون اکثریتی اضلاع قلعہ عبداللہ، ژوب، پشین اورلورالائی میں یہ اضافہ دیکھنے میں ایاہے‘‘۔ انہوں نے کہاکہ افغان مہاجرین ایک جانب بلوچستان کے ساحل ووسائل و بلوچ سرزمین کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہے تو دوسری جانب سنگین جرائم اور کلاشنکوف کلچر کے خالق بھی یہی افغان مہاجرین ہیں ایک سازش کے تحت افغان مہاجرین کو بلوچستان میں آباد کیا گیا وہ مہمان بن کر آئے اب ہماری شرافت سے ناجائز فائدہ اٹھا کر ہمارے لیئے مشکلات پیدا کر رہے ہیں ۔
انگریزی اخبار دی نیوز کی ایک حالیہ رپورٹ میں کہاگیاہے کہ ڈی جی نادرابلوچستان میر عجم خان درانی نے چیئرمین نادراکوایک خط میں شکایت کی ہے کہ پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کے رہنما ہزاروں کی تعداد میں شک کی بنیاد پربلاک ہونے والے شناختی کارڈزکوجاری کرنے کے لئے دباؤڈال رہے ہیں۔
پختون جماعتیں کیاکہتی ہے؟
البتہ پختون سیاسی جماعتیں، خصوصا پختونخواہ ملی عوامی پارٹی، ان تمام الزامات کوردکرتے ہوئے کہتی ہے کہ صوبے میں ماضی کی حکومتوں نے ایک سازش کے تحت صوبے میں پختون آبادی کو جان بوجھ کرکم ظاہر کرنے کی مسلسل کوششیں کی ہے جس کی وجہ سے پختونخواہ ملی عوامی پارٹی نے 1998 ء کی مردم شماری کا بائیکاٹ کیا اورپختون آبادیوں میں گھرگھرجاکر پختونوں کومردم شماری میں حصہ نہ لینے پرآمادہ کیا جس کی وجہ سے 1998ء کی مردم شماری میں پختونوں کی آبادی کم ظاہرہوئی ہے۔ پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کے ایک مرکزی رہنما کے مطابق ’’2011 ء کی آبادی میں پختون اضلاع کی آبادی میں اضافہ ظاہرہونے کی اہم وجہ افغان مہاجرین کی وجہ سے نہیں بلکہ 1998ء میں حصہ نہ لینے والے پختونوں کا اس بارخانہ شماری میں حصہ لیناتھا‘‘۔
پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کے رکن بلوچستان اسمبلی مجیدخان اچکزئی نے ڈی جی نادرابلوچستان کے حوالے سے بیان پرحیرت اورافسوس کااظہارکرتے ہوئے کہاکہ انہوں نے اسمبلی کے فلور پر ازخود یہ شکایت حکام بالاکے سامنے رکھی ہے جس میں نادرا کی کرپشن اورجعلی شناختی کارڈوں میں تفصیلی بات کی گئی ہے۔ نادرا کے کرپٹ افسران نے پیسوں کی خاطر ہمارے حلقے کے سینکڑوں خاندانوں میں ایک ایک جعلی نام ڈال کر ان کا جعلی شناختی کارڈ بنایاہے جبکہ ان لوگوں کاہمارے حلقوں یا علاقوں کے لوگوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس کی وجہ سے ہمارے حلقوں کے سینکڑوں معزز گھرانوں کے شناختی کارڈز بلاک ہوچکے ہیں‘‘۔ انہوں نے بلوچ قوم پرست جماعتوں کے بیانات پرکہا کہ ’’چند لوگ اخباری بیانات کے ذریعے شناختی کارڈزکوایشو بناکرصوبے کے پختونوں کے حقوق پرمزید ڈاکہ ڈالنے کی کوشش کررہے ہیں اورانہیں مزیدتیسرے درجے کاشہری رکھنا چاہتے ہیں‘‘۔ انہوں نے کہاکہ افغان مہاجرین بلوچستان کے پختون علاقوں میں اقوام متحدہ کی مرضی اورمنشا کے تحت آباد ہوئے ہیں اور ان کا ریکارڈ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یواین ایچ سی آر کے پاس موجود ہے۔ انہوں نے کہاکہ آج یہ ثابت ہورہی ہے کہ جن ان افغان بھائیوں کو اپنے ہی بھائیوں کے خلاف استعمال کرناتھا توان کے لئے جعل سازیاں کرکے نہ صرف جعلی شناختی کارڈز بنائے گئے بلکہ ان کے پاسپورٹ تک بنائے گئے‘‘۔
این اے 268 اورکوئٹہ سے صوبائی اسمبلی کی کی دونشستوں کامسئلہ :
دونوں جماعتوں کے آبادی کامسئلہ اس وقت سنگین ہواجب 2013ء کے عام انتخابات میں پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کوئٹہ کم نوشکی کم چاغی پرمشتمل این اے 260 کے ساتھ ساتھ کوئٹہ کی دوبلوچ اکثریتی صوبائی اسمبلی کی نشستیں جیتنے میں کامیاب ہوگئی۔ بلوچ جماعتوں خصوصا بلوچستان نیشنل پارٹی کاکہناہے کہ این اے 260 کے حلقے میں ایرانی سرحدسے لے کرکوئٹہ ایئرپورٹ تک علاقہ 650 کلومیٹرپرمشتمل ہے جو بلوچ اکثریتی علاقہ ہے اوروہاں سے پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کے امیدوار کوووٹ نہیں ملے مگر کوئٹہ میں چھ کلومیٹر کے علاقے سے ووٹ لے کرپختونخواہ ملی عوامی پارٹی کے امیدوارکامیاب ہوئے۔ بلوچ قوم پرست جماعتوں کاکہناہے کہ این اے 260کے نتائج یہ ظاہرکرتے ہیں کہ پختون آبادیوں میں آبادی میں کتنا اضافہ ہواہے جوافغان مہاجرین کوشناختی کارڈبنانے اوران کے نام ووٹرلسٹوں میں ڈلوانے سے ہی ہواہے۔
البتہ انتخابات کا آزادانہ جائزہ لینے والے سیاسی مبصرین کاکہناہے کہ کوئٹہ میں پختونوں کی آبادی میں اضافے کے ساتھ ساتھ عبدالمالک بلوچ کی جماعت نیشنل پارٹی کا اسی حلقے سے حصہ لینے کی وجہ سے بلوچ ووٹوں کا تقسیم ہونا اورآٹھ جماعتوں پرمشتمل بلوچ نیشنل فرنٹ کی جانب سے بائیکاٹ کے موثراپیل بھی پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کے امیدوارکے جیتنے کاسبب بنی۔
بلوچ پختون سیاست : ایک جائزہ
بلوچستان پرتحقیق کرنے والے ماہرین کاکہناہے کہ بلوچستان میں بلوچوں اورپختونوں کے مابین آبادی کے اعدادوشمارکامسئلہ 1879 ء میں شروع ہواجب برطانوی حکمرانوں نے معاہدہ گندمگ کے تحت اس خطے کے پختون علاقوں کو بلوچستان میں شامل کردیا۔ برطانوی نوآبادیاتی دورمیں آج کے دورکا بلوچستان انتظامی طورپر دوعلیحدہ یونٹس پرمشتمل تھا۔ ایک یونٹ برٹش بلوچستان یا چیف کمشنرصوبہ کہلاتا تھا جوآج کے بلوچستان کے پختون علاقوں پرمشتمل تھا جبکہ دوسرا قلات ریاست یونین تھی جو بلوچ آبادیوں پرمشتمل تھا۔ برطانوی دورحکومت میں افغانستان سے سرحد شیئرہونے کی وجہ سے جنگی حکمت عملی کے تحت بلوچ علاقوں کی نسبت جدید انفرااسٹرکچرتعمیرکیاگیا جبکہ قلات ریاست کو پس ماندہ رکھاگیا۔
نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) کے پلیٹ فارم سے بلوچ اورپختون سیاسی گروپوں کی مشترکہ جدوجہد کی مثال ملتی ہے جن میں بزرگ سیاست دان مرحوم میرغوث بخش بزنجو، سردارعلطاء اللہ مینگل، مرحوم خیربخش مری اورمرحوم عبدالصمدخان اچکزئی نے مشترکہ سیاست کی مگر ان کے بچوں نے اپنے والدین کی مشترکہ سیاسی جدوجہدکی روایات برقرار نہ رکھ سکے۔ جب سترکی دہائی میں جب بلوچستان کوایک صوبہ بنایاگیا توپختون اوربلوچ جماعتوں کے اختلافات مزید گہرے ہوگئے اور عبدالصمداچکزئی نے نیپ کوچھوڑتے ہوئے پختونخواہ نیپ کے نام سے علیحدہ جماعت تشکیل دی۔ نیپ سے علیحدگی کی وجہ یہ بتائی گئی کہ نیپ نے بلوچستان کے پختونوں کے لئے الگ صوبے کی مطالبے کی حمایت نہیں کی۔
فیس بک پر تبصرے