ہمارے سکول، بچے اور ڈاکٹر روبنسن

627

ہم بچوں کو اس نظام کا حصہ بننے پر مجبور کر دیتے ہیں جو ہمارے معاشرے پر حکومت کررہا ہے۔ ایسا نظام جو یک رنگا، اتھارٹی کی عزت کرنے والا اور غلطیاں کرنے سے ڈرانے والاہے

بچے کی ایک تخلیق کار سے ایک غیر تخلیق کار میں کس طرح کایا کلپ ہوتی ہے؟

اس کا مختصر جواب تو آپ کو سر کین روبنسن (Sir Ken Robinson) کی تقریر کے عنوان سے ہوجائے گا جو ان کی ویب سائٹ پر ’’سکول بچے کی تخلیقی صلاحیت کو کیسے قتل کردیتے ہیں‘‘ کے نام سے موجود ہے اور جسے اب تک 40 ملین لوگ سن چکے ہیں۔ روبنسن ہمیں بتاتے ہیں کہ یہ ہمارے سکول ہیں جو ہمارے بچے کے اندر تخلیق کو ختم کردیتے ہیں۔ ان کا اس بات پر پختہ یقین ہے کہ دنیا بھر میں تعلیم اور تخلیق کا باہمی تعلق ختم ہو چکا ہے۔ بچوں کو عمل تخلیق سے الگ رکھ کر تعلیم یافتہ بنایا جاتا ہے۔ وہ دی گئی حدود سے باہر (Out of Box ) جا کر سوچنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ ان کے خیال کے مطابق چونکہ دنیا ہمہ جہت تبدیلیوں کی زد میں ہے اس لیے تخلیق (Creativity)اتنی ہی ضروری ہے جتنی کہ خواندگی(Literacy)۔

لیکن ہمارے سکولوں میں ہوتا کیا ہے؟ ان میں ’تخلیق‘ کا مقام کیا ہے؟

جو درسی کتب سکول میں پڑھائی جاتی ہیں۔ ان کا سکوپ عمل تخلیق کے لیے قطعاً سازگار نہیں۔ وہی لگا بندھا لوازمہ (Content) اور وہی گھسی پٹی سرگرمیاں اور مشقیں۔ کتب کی تشکیل و تدوین سے لے کر ان کی درس وتدریس تک، کسی قسم کی اپج کا کوئی خیال نہیں رکھا جاتا۔ کتاب کی تصنیف دیے گئے تحریری مقاصد (Objectives) اور نصابی خاکے کے معیارات (Standards) کے مطابق کی جاتی ہے۔ اس طرح اسباق کی تدریس طے شدہ اور لگے بندھے سبقی منصوبے (Lesson Plan) کے دائرے میں رہ کر جاتی ہے۔ یہ مقاصد، معیارات اور منصوبے اتنے بے لچک ہوتے ہیں کہ تخلیق کے امکانات تقریباً معدوم ہوجاتے ہیں۔ نتیجتاً تعلیم و تعلم میں کہیں ندرت دکھائی نہیں دیتی۔ عملاً بچے کے سامنے غیر تخلیقی اور غیر دلچسپ مضامین کا ایک طومار ہوتا ہے۔ یہی مضامین اس کی تخلیقی جوہر کوچاٹ جاتے ہیں۔ بھلا ایک ناگوار مضمون میں کوئی تخلیق دکھائے بھی تو کس طرح؟

پھر سکول کا پیٹرن ایسا ہوتا ہے کہ تخلیق اساتذہ کی ترجیح ہو ہی نہیں سکتی۔ وہ بچوں کی کارکردگی کے لیے سکول انتظامیہ کو جواب دہ ہوتے ہیں۔ اور اس کارکردگی کا پیمانہ نمبر اور گریڈ ہوتے ہیں تخلیق نہیں۔ نمبروں اور گریڈ کے لیے بچے کو کتابوں، گائیڈوں، نوٹس، تدریسی معاونات اور ہدایات کی حدود میں قید کر دیا جاتا ہے۔ ان سے باہر نکلنے اور دیکھنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ ان حدود سے باہر خیالات کی کوئی پذیرائی نہیں ہوتی۔ بعض اوقات تو صورت حال اس حد تک بد تر ہوتی ہے کہ بچوں کو تصورات اپنے الفاظ میں بیان کرنے کی بھی اجازت نہیں ہوتی۔
بالفرض کوئی سکول اور اساتذہ بچوں کی تخلیقی صلاحیت کی نشوونما اور حفاظت کا اہتمام کر بھی لے تو نظام امتحانات اور طریقہ امتحانات اس کاوش کو غارت کر دے گا۔ ہمارے نظام امتحانات میں وہی کامیاب ہوتا ہے جو رٹے میں مہارت رکھتا ہے نہ کہ وہ جو تخلیقی صلاحیت رکھتا ہے۔ ہمارے امتحانات میں تخلیقی صلاحیت کی جانچ کا کوئی پیمانہ نہیں۔

دیکھا جائے تو تعلیم کے سب سے بڑے سٹیک ہولڈر (Stakeholders) بچے ہیں ۔ لیکن سب سے زیادہ نظرانداز بھی بچے ہی ہیں ۔ ان کے میلانات، رجحانات اور مزاج کا قطعاً خیال نہیں رکھا جاتا۔ ایک تیز اور شرارتی بچے کے لیے سکول کا دامن بہت تنگ ہوتا ہے۔ اس طرح ایک سست رو بچے کو بھی یہ نظام قبول نہیں کرتا۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمارا سسٹم بچوں کو ذہین اور غیر ذہین کے خانوں میں تقسیم کرکے ان کے ساتھ ظلم کرتا ہے۔ روبنسن ذہانت کی اس تعریف کو محدود اور سطحی قرار دیتا ہے۔ جس کے مطابق پڑھنے لکھنے اور ریاضی میں مہارت رکھنے والے بچے کو تو ذہین خطاب مل جاتا ہے۔ لیکن جو لکھنے، پڑھنے میں ذرا کمزور ہو اور دیگر مضامین میں کوئی قابلیت رکھتا ہواسے کند ذہن قرار دیا جاتا ہے ۔ اس کی ایک مثال ڈسلیکسیا (Dyslexia) کے شکاربچے ہیں جن کا دماغ کسی مسئلے (Disorder) کی وجہ سے کسی بھی زبان کے حروف پڑھنے اور لکھنے اور چیزوں کے مشاہدے کو عام بچوں کی طرح بروئے کار لانے میں ناکام رہتا ہے ۔ اس کا قطعاً یہ مطلب نہیں کہ ایسے بچے کند ذہن ہوتے ہیں ۔ وہ کسی اور شعبے جیسے آرٹ وغیرہ میں غیر معمولی کارکردگی دکھا سکتے ہیں ۔یہاں اس بات تذکرہ یقیناًدلچسپی کا باعث ہوگا کہ اسی موضوع پر بالی وڈ کی مشہور زمانہ ڈرامہ فلم ’’تارے زمین پر‘‘ بنائی گئی تھی۔ جس نے بہت زیادہ پذیرائی حاصل کی تھی۔

ڈاکٹر روبنسن ہی نہیں اور بہت سے ماہرین سکول میں بچوں کی تخلیقی صلاحیت کے ساتھ ہونے والے ظلم پر شور مچا رہے ہیں۔ ڈاکٹر کیونگ ہی کم (Kyung Hee Kim) امریکا کے ولیم اور میری کالج(College of William and Mary) میں پروفیسر ہیں۔ اس سے پہلے وہ مشرقی مشی گان یونیورسٹی(Eastern Michigan Universit) اور یونیورسٹی آف جارجیا (University of Georgia)میں پڑھاتی رہی ہیں۔ ڈاکٹر کم کے 70 سے زائد تحقیقی مقالے شائع ہوچکے ہیں۔ 2010 میں نیوز ویک میں اس کی تحقیق ’’تخلیقی بحران‘‘ (The Creativity Crisis )نے دنیا بھر میں بحث کا ایک موضوع چھیڑ دیا۔ انھوں نے اپنی تحقیق میں یہ ثابت کیا کہ 1990ء سے اب تک بچوں کی تخلیقی صلاحیتیں زوال کا شکار ہوئی ہیں۔

ایسا کیوں ہورہا ہے؟ اس کے مختلف جواب ہوسکتے ہیں لیکن سر روبنسن موجودہ ماڈل سکول سسٹم کو اس کی وجہ قرار دیتے ہیں جو صنعتی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے قائم کیا گیا تھا اور جس کا انیسویں صدی سے پہلے کوئی وجود نہ تھا۔ موجودہ ماڈل سکول سسٹم میں ان مضامین کا پڑھنا آپ کی مجبوری ہے جن کو پڑھ کر آپ صنعتی میدان میں کھپ سکیں۔سکول میں آپ وہ مضامین نہیں پڑھ سکتے جن کو پڑھ کر آپ لطف اٹھا سکتے ہیں کیونکہ اس طرح آپ کو کوئی ملازمت نہیں ملے گی۔ جن شعبہ ہائے زندگی میں آپ کمالات دکھا سکتے ہیں ان کی مارکیٹ میں کوئی قیمت نہیں۔

اسی بنیاد پر سر روبنسن کہتے ہیں کہ موجودہ نظام ہمیں ایک اچھا کارکن (Worker)تو بنا رہا ہے لیکن ایک اچھا تخلیق کار اور سوچنے والا نہیں۔ ہم بچوں کو اس نظام کا حصہ بننے پر مجبور کر دیتے ہیں جو ہمارے معاشرے پر حکومت کر رہا ہے۔ ایسا نظام جو یک رنگا، اتھارٹی کی عزت کرنے والا اور غلطیاں کرنے سے ڈرانے والاہے۔

روبنسن سکولوں پر تنقید نہیں کرتا بلکہ وہ اس سسٹم پر تنقید کرتا ہے جو دنیا بھر میں رائج ہے۔ جس کی ایک خاص ترتیب (Hierarchy) ہے۔ سب سے چوٹی پر ریاضی(اور سائنس)، اور زبان, اس کے بعد معاشرتی علوم(Socail Sciences) اور سب سے آخر میں فنون(Arts)۔
ہمیں یاد رکھنا چاہییے کہ دنیا ہمہ وقتی تبدیلیوں کی زد میں ہے۔ اگر ایک نسل تخلیقی صلاحیتوں سے عاری ہوگی تو دنیا اسے روند کر گزر جائے گی۔ تبدیلی کا ساتھ دینا تو کجا وہ تبدیلی کو سمجھ ہی نہ پائے گا۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...