تصورِ پاکستان سے انحراف کیوں؟

1,199

اب سوال یہ ہے کہ پاکستان میں مفکر پاکستان اور بابائے قوم کی تفہیم القرآن پر عمل کرنا چاہیے یا ان لوگوں کے فرمودات کو مشعل راہ بنانا چاہیے، جنہیں تحریک پاکستان کے زمانے میں پاکستان کا مطلب ہی سمجھ میں نہ آتا تھا۔ جواب بہت سادہ اور آسان ہے ۔

پاکستان کی روحانی نظریاتی بنیاد کو مٹا کر ایک نئی سیکولر بنیاد کی تعمیر میں کوشاں قوتوں کے مقدر میں بھی ویسی ہی ناکامی لکھی ہے، جیسی ناکامی سے قیامِ پاکستان کی مخالف قوتیں آج سے پہلے دو چار ہو چکی ہیں۔ یہ درست ہے کہ اس وقت ہماری سیاسی اور تہذیبی زندگی پر موروثی جاگیردار سیاستدان اور مغرب کی ذہنی غلامی پر ناز کرنے والی افسر شاہی مسلط ہے مگر یہ بھی ایک تاریخی صداقت ہے کہ یہ تو وہ لوگ ہیں، جن کے آباؤ اجداد نے قیامِ پاکستان کی مخالفت میں آخر دم تک ایڑی چوٹی کا زور لگایا تھا اور خود کو قائداعظم کا ایک ادنیٰ سپاہی قرار دینے والے علامہ اقبال نے، جن کے بارے میں عامۃ المسلمین کو یوں خبردار کیا تھا:
داغم از رُسوائی ایں کارواں
در امیرِ اُو ندیدم نورِ جہاں
تن پرست و جاہ مست و کم نگاہ
اندرونش بے نصیب از لا اِلٰہ
در حرم زاد و کلیسا را مرید
پردۂ ناموسِ مارا بردرید
دامنِ اُو را گرفتن ابلہی است
سینۂِ اُو از دل روشن تہی است
اندریں رہ ، تکیہ بر خود کن کہ مرد
صیدِ آہو با سگِ کورے نکرد
اسّی برس پہلے قلمبند ہونے والا یہ محاکمہ ہماری آج کی سیاسی اور فکری قیادت پر بھی لفظ بہ لفظ صادق آتا ہے۔ یہ کل بھی سچ تھا اور آج بھی سچ ہے۔ ماضی کے ورق الٹتے ہی ۱۹۴۶ء میں مسلم لیگ کی شاندار انتخابی کامیابی تک پہنچیں تو آپ دیکھ کر پریشان ہو جائیں گے کہ اسمبلی میں مسلم لیگ کی بھاری اکثریت کو صریحاً نظرانداز کر کے صرف چھ سات نشستوں کی حامل یونینسٹ پارٹی کے سربراہ سردار خضر حیات ٹوانہ کو پنجاب کا اقتدار سونپ دیا گیا۔ برطانوی استعمار کی سرپرستی میں خضر حیات ٹوانہ نے (کہ پیدا تو حرم میں ہوئے تھے مگر مرید کلیسا کے ہیں)ہندوؤں اور سکھوں کے ساتھ مل کر حکومت بنالی اور کالے قوانین کے سہارے مسلمان عوام کو کچلنے میں مصروف ہو گئے۔ یونینسٹ پارٹی کوئی سیاسی پارٹی نہ تھی۔ یہ تو جاگیرداری نظام کی بقا اور استحکام کے ایک نکاتی پروگرام پر متحدہونے والے ہندو، سکھ اور مسلمان جاگیرداروں کا ناپاک گٹھ جوڑ تھا۔ دولت اور اقتدار کے پجاری یہ جاگیردار، مسلمان عوام کی سیاسی بیداری اور مسلم لیگ کے منشور میں زرعی اصلاحات اور معاشی انصاف کے وعدوں سے خائف تھے اس لیے الیکشن میں مسلم لیگ کی فتح مبین کے باوجود قیامِ پاکستان کو روکنے میں سرگرم عمل تھے۔ ایسے میں عامۃ المسلمین نے اقبال کے تجویز کردہ نسخۂ شفا کی روشنی میں اپنی اجتماعی بصیرت (تکیہ برخودکن) پر اس شان سے اعتماد کیا کہ پنجاب کے کھیت کھلیان اور کوچہ و بازار اس طرح کی صداؤں سے گونجنے لگے

خضر بچہ ہائے ہائے
ٹوڈی بچہ ہائے ہائے
تازہ خبر آئی اے
خضر ماں ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔
متشددانہ قوانین حرکت میں آئے۔ ریاستی تشدد کے جواب میں عوامی اتحاد پیدا ہوا، نتیجہ یہ کہ جیلوں میں تل دھرنے کی جگہ نہ رہی۔عوامی غیض و غضب کی مسلسل اونچی اٹھتی ہوئی لہر سے گبھرا کر انگریز استعمار نے خضر وزارت برطرف کر دی، مگر مسلم لیگ کو حق اقتدار سے محروم رکھنے کی خاطر اقتدار گورنر کے سپرد کر دیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب لارڈ ماؤنٹ بیٹن قائداعظم کے دلائل سے زچ ہو کر دھمکی پر اتر آئے تھے:
’’مسٹر جناح! اگرآپ نے میری بات نہ مانی تو اپنے پاکستان سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔‘‘
اس پر قائداعظم نے صوفیانہ استقامت کے ساتھ برجستہ فرمایا تھا:
’’مسٹر وائسرائے! جو ہونا ہے وہ ہو کر رہے گا۔‘‘
جو ہونا تھا وہ ہو کر رہا مگر قیام پاکستان کے فوراً بعد برطانوی استعمار کے لے پالک جاگیردار سیاستدانوں اور برطانوی استعماری اداروں کے ساختہ پرداختہ افسران کے متحدہ محاذ نے تصورِ پاکستان سے انحراف کی راہ اپنا لی۔ تب سے لے کر اب تک ہم پاکستانی معاشرے کو سامراجی اور نوآبادیاتی آلائشوں سے پاک کر کے پاکستان کے تصور کو حقیقت میں بدلنے کا کام کسی نہ کسی بہانے ملتوی کرتے چلے آ رہے ہیں۔ گزشتہ سڑسٹھ برس کے دوران ہم نے اپنی ذات پر بھروسہ کرنے کی بجائے کلیسا کے مرید سیاسی رہنماؤں پر تکیہ کرنے کی خُو اپنائے رکھی۔ گویا ہم نے، اقبال کے لفظوں میں اندھے کتے سے یہ توقع قائم کر رکھی ہے کہ وہ ہمارے لیے ہرن شکار کر لائے گا۔ نتیجہ یہ کہ سڑسٹھ برس پیشتر عدم سے وجود میں آنے والی مملکت پاکستان کے بارے میں آج ہم وجود سے عدم میں چلے جانے کی سناؤنیاں سُن رہے ہیں۔ اس صورتِ حال کے ذمہ دار یاں تو ہم سب ہیں مگر سب سے بڑی ذمہ داری موروثی سیاستدانوں اور ان کے حلیف علمائے کرام پر عائد ہوتی ہے۔
موروثی سیاستدانوں کو اپنے جاگیردارانہ مفادات پاکستان اور اسلام ہر دو سے بڑھ کر عزیز ہیں۔ قیام پاکستان کے صرف چھ ماہ بعد دولتانہ اور ممدوٹ نے وزارتوں سے مستعفی ہونے کا مشورہ ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ہر چند پنجاب کے دو یونینسٹ خاندان سے تعلق رکھنے والے یہ نوجوان سیاستدان اقتدار کی دوڑ میں ایک دوسرے کے حریف تھے مگر جاگیرداری کے تحفظ میں اس حد تک متحد تھے کہ اپنے قائداعظم کی راہ کو نہ صرف ٹھکرانے پر آمادہ ہو گئے تھے بلکہ اپنے زیرِاثر اخبارات میں ’’قائداعظم کے آمرانہ روّیہ ‘‘ پر اداریئے لکھوانے میں بھی سرگرم عمل ہو گئے تھے۔ پچھلے دنوں زرعی آمدن پر ٹیکس کے مسئلے پر کچھ ایسا ہی اتحاد فکر و عمل نوازشریف اور بے نظیر بھٹو کے پیروکار جاگیرداروں میں بھی دیکھنے میں آیا تھا۔ جاگیرداری نظام کی حفاظت میں یہ لوگ نہ صرف پارٹی حد بندیوں سے اُوپر اُٹھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں بلکہ دین و ملّت کی حدود سے ماورا ہو کر ہندو اور سکھ جاگیرداروں سے بھی اتحاد کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ اسی کا نام تو یونینسٹ ذہنیت ہے، جو ہماری سیاست میں آج تک سرگرمِ کار چلی آ رہی ہے۔
علامہ اقبال نے ۱۹۳۰ء میں اپنے تصورِ پاکستان کی فکری اور نظریاتی بنیادوں پر روشنی ڈالتے ہوئے قیامِ پاکستان کو اسلام کے حق میں فائدہ مند قرار دیا تھا۔ ان کا خیال تھا کہ برصغیر میں ایک جداگانہ مسلمان مملکت کے قیام سے اسلام کو یہ موقع ملے گا کہ وہ عرب ملوکیت کی چھاپ سے نجات پا کر اپنی اصل روح کو از سرِ نو دریافت کرے۔ اپنے کلچر، قانون اور تعلیم کی متحرک روح کو بیدار کرے اور پھر اپنی حقیقی روح کو روحِ عصر کے ساتھ ہم آہنگ کر کے ایک جدید اسلامی ریاست اور ایک سچا اسلامی معاشرہ قائم کرے۔ چند برس بعد اسلامیانِ ہند کو درپیش مسائل پر قائداعظم سے اپنی خط و کتابت کے دوران اقبال نے جواہر لعل نہرو کی بے خدا اشتراکیت کو رد کرتے ہوئے اسلامی شریعت کی دورِ حاضر کے تقاضوں کے مطابق تفسیر اور نفاذ میں عوام الناس کے روٹی روزگار کے مسائل کا حل دیکھا تھا۔ پھراپنی مثنوی ’’پس چہ باید کرد۔۔۔‘‘میں اقبال نے علمائے کرام کو اپنے حجروں کی ٹھنڈی چھاؤں سے باہر نکل کر تپتے ہوئے کارزارِ حیات میں آ کر اسرار دین بیان کرنے کی دعوت دی تھی:
اے کہ مے نازی بہ قرآن حکیم
تاکجا در حجرہ مے باشی مقیم
در جہاں اسرارِ دیں را فاش کن
نکتۂِ شرعِ مبیں را فاش کن
کس نگر دو در جہاں محتاج کس
نکتۂِ شرع متین ایں است و بست

اقبال کی نظر میں اسلامی شریعت کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ دنیا میں کوئی شخص کسی دوسرے شخص کا محتاج نہ رہے مگر اقبال کے عہد کے بیشتر علمائے کرام غریبوں کے روٹی روزگار کے مصائب کو گویا اپنے دائرۂِ اسلام سے خارج کر کے فقط حدود اور تعزیرات کی قدیمی فقہی موشگافیوں میں الجھے ہوئے تھے۔ ان میں کوئی شاہ ولی اللہ تو کجا ’’حجۃاللہ البالغہ‘‘ کے اس نکتے کو سمجھنے والا بھی پیدا نہ ہوا کہ جس معاشرے کی اقتصادی تنظیم فرعونی اصولوں پر مبنی ہو، اس میں اسلامی اخلاق نہ پیدا ہو سکتا ہے نہ پنپ سکتا ہے۔ چنانچہ اقبال نے ہم پر اسلام کی انقلابی روح کو منکشف کرنے کا فریصہ بھی خود ہی انجام دیا مگر افسوس صد افسوس کہ اس انقلابی اسلام کو ہم نے آج تک پاکستان میں داخل ہی نہیں ہونے دیا۔
اس ستم ظریفی کا خیال کرتا ہوں تو دل پر بہت گہری چوٹ پڑتی ہے کہ پاکستان میں معاشی عدل و انصاف اور معاشرتی اخوت و مساوات کے قیام کے نام پر اٹھنے والی ہر تحریک کی مخالفت میں چند علمائے کرام بھی استحصالی طبقے کی بانہوں میں بانہیں ڈالے نظر آتے ہیں۔ دسمبر ۱۹۴۸ء میں ہاری کمیٹی کی رپورٹ شائع کرتے وقت حکومت نے مسعود کھدر پوش کے اختلافی نوٹ کی اشاعت پر پابندی عائد کر دی تھی، مگر اس کے باوجود اس اختلافی نوٹ کے مندرجات علمائے کرام تک پہنچا دیئے گئے تھے۔ چنانچہ تین ماہ کے اندر اندر مولانا عبدالحامد بدایونی سمیت سولہ علمائے کرام کے دستخطوں سے ’’اشتراکیت اور زرعی مساوات‘‘ کے عنوان سے وڈیرا شاہی اور جاگیرداری کی حمایت اور مسعود کھدر پوش کی مذمت میں ایک پمفلٹ منظر عام پر آ گیا۔ اس پمفلٹ میں جہاں وڈیرا شاہی کے شرعی جواز فراہم کیے گئے ہیں، وہاں مسعود کھدر پوش کو اپنے غیر مطبوعہ اختلاف نوٹ کی بنیاد پر اشتراکی اور ملحد بھی قرار دیا گیا ہے۔ اس دوران بھارت میں جاگیرداری نظام کے خاتمہ کا خیرمقدم کرتے ہوئے مولانا مناظر احسن گیلانی نے ایک تحقیقی مقالہ سپرد قلم فرمایا جس میں اسلام میں جاگیرداری کے عدم جواز کی تلاش میں پاکستان کے شیخ الاسلام مولانا ظفر احمد عثمانی نور اللہ مرقدہ‘ نے ایک کتابچہ تحریر فرمایا۔ ’’اسلام میں جاگیرداری و زمیندار ی کا نظام‘‘ میں مولانا عثمانی نے مولانا گیلانی کو اشتراکیت دوستی اور سرکار پرستی کے الزامات دیئے ہیں۔پاکستان مسلم لیگ کی پہلی کونسل میٹنگ میں زرعی اصلاحات کا انتخابی وعدہ ایفاء کرنے کی خاطر کمیٹی قائم کرنے کا فیصلہ ہوا تو دوسرے دن کمیٹی کے قیام کی خبر کے ساتھ ساتھ چند علماء کی طرف سے جاگیرداری نظام کے شرعی جواز پر مشتمل فتویٰ بھی اخبارات میں شائع ہو گیا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اپنے تمام تر اختلافات کے باوجود اس باب میں سید ابوالاعلیٰ مودودی اور مرزا بشیر الدین محمود متفق علیہ ہیں۔ مرزا بشیر الدین محمود ’’اسلام اور ملکیت زمین‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’زمینداروں سے زمین کسی بھی صورت میں نہیں لی جا سکتی‘‘ تو مولانا مودودی مسئلۂ ملکیت زمین میں قرار دیتے ہیں کہ:
’’اسلام ایسے قوانین بنانے کی اجازت نہیں دیتا جس کے ذریعے سے کسی شخص یا گروہ کو اپنی ملکیت حکومت کے ہاتھ بیچنے پر مجبور کیا جا سکے۔‘‘(صفحہ۷۰)
اب ایک طرف قابلِ صد احترام علمائے کرام ہیں اور دوسری طرف بابائے قوم ہیں، جو سٹیٹ بینک کے افتتاح کی تقریب میں اسلام کے حریت و مساوات کے تصورات کا حوالہ دے کر خبردار کرتے ہیں:

’’ہمیں اسلام کی روح کے مطابق اپنے معاشی نظام کو ڈھالنے کا کام شروع کر دینا چاہیے اور اگر ہم نے ایسا کرنے میں مزید تاخیر کی تو ممکن ہے کہ وہ عظیم الشان موقع، جو اس وقت ہمیں حاصل ہے ہمیشہ کے لیے ہمارے ہاتھ سے نکل جائے۔‘‘
ایک طرف وہ مذہبی رہنما ہیں جو اللہ کی زمین کوفرنگ نژاد جاگیرداروں کی مقدس ملکیت سمجھتے ہیں تو دوسری طرف مفکر پاکستان علامہ اقبال ہیں جو قرآن حکیم میں غوطہ زن ہو کر پکار اٹھتے ہیں:
دیہہ خدایا، یہ زمین تری نہیں، تیری نہیں
تیرے آبا کی نہیں، تیری نہیں، میری نہیں!
اب سوال یہ ہے کہ پاکستان میں مفکر پاکستان اور بابائے قوم کی تفہیم القرآن پر عمل کرنا چاہیے یا ان لوگوں کے فرمودات کو مشعل راہ بنانا چاہیے، جنہیں تحریک پاکستان کے زمانے میں پاکستان کا مطلب ہی سمجھ میں نہ آتا تھا۔ جواب بہت سادہ اور آسان ہے مگر اس پر عمل بہت دشوار ہے کہ اس کے لیے ہمیں اپنے بہت سے ذاتی، گروہی اور جماعتی مفادات کو قربان کرنا پڑتا ہے۔ پاکستان کا تصور دینے والوں کے نزدیک تعلیمات اسلامی کا بنیادی نکتہ یہ ہے:
چیست قرآں! خواجہ را پیغام مرگ
دستگیرِ بندۂِ بے ساز و برگ
مگر ہمارے خواجگان کی مشکل یہ ہے کہ اگر ہاری کا بیٹا ہاری نہیں بنے گا تو ان کے کھیت میں کام کون کرے گا؟۔۔۔نتیجہ یہ کہ پاکستان میں روزِ اوّل ہی سے نظریات سے روگردانی اور مفادات کی پاسبانی کی سیاست رائج ہے۔ آج چونکہ ہاری کا بیٹا اسلامی معاشی انصاف اخوت و مساوات کا مطالبہ کرنے لگا ہے، اس لیے ہمارا حکمران طبقہ پاکستان میں اقبال کے دینی تصورات کے عملی ظہور کے امکانات سے خوفزدہ ہو کر کسی ایسے مصور پاکستان کی تلاش میں نکل کھڑا ہے، جو پاکستان کی روحانی اساس کو سیکولر اساس میں بدل سکے۔ اس مہم میں اسے اپنے مغربی سرپرستوں کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ اس مہم کی ناکامی بھی نوشتۂ دیوار ہے کہ پاکستانی عوام بیدار بے چین اور اسلام کی محبت میں سرشار ہیں۔
***

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...