ہم کب تک لاشیں اُٹھاتے رہیں گے ؟

793

ایسے واقعات کے فوری بعد سیاسی قیادت کی طرف سے سکیورٹی اجلاس بھی طلب کیے جاتے ہیں جو گھنٹوںجاری رہتے ہیں اور آخر میں بے نتیجہ ختم ہو جاتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ ہمیں نیشنل ایکشن پلان بھی یادآجاتا ہے

جہاں کوئٹہ کے سانحہ نے ایک بارپھر پوری قوم کو رنج و غم کی کیفیت میں مبتلا کر دیا ، ایک بار پھر ہمیں مجبور کردیا کہ اپنے پیاروں کی لاشیں اُٹھاتے رہیں اور اُن کو گنتے رہیں کہ تعداد کہاں تک پہنچ گئی ہے۔وہاں ہر شہری کو یہ احساس بھی دلایا کہ وہ کتنا غیر محفوظ ہے اور اِس کے ساتھ ساتھ سکیورٹی اداروں کی کارکردگی پر کئی سوالیہ نشان بھی اٹھایا۔اس سانحہ کی تمام ذمہ داری اُن تمام سکیورٹی فورسز اور انٹیلی جنس ایجنسیوں پر عائدہوتی ہے جو ملک میں امن وامان قائم رکھنے کے ذمہ دار ہیں ۔جن کا یہ فرض ہے دُشمن کی ایسی بزدلانہ کارروائیوں کو روکیں اور قوم کو تحفظ فراہم کریں اور دُشمن کے ایسے حملوں کو قبل از وقت روک کرناکام بنائیں، نہ کہ لاشیں گرنے کے بعد حرکت میں آئیں۔ثناء اللہ زہری وزیرِ اعلیٰ بلوچستان اور سرفراز بگٹی وزیرِ داخلہ ہونے کی حیثیت سے بھی اس واقعہ کی ذمہ داری قبول کرنی چاہیے۔وہ ساراالزام بھارت کی خفیہ ایجنسی را پر لگا کر اپنے آپ کو بری الذمہ قرارنہیں دے سکتے۔ایسے واقعات کے فوری بعد سیاسی قیادت کی طرف سے سکیورٹی اجلاس بھی طلب کیے جاتے ہیں جو گھنٹوںجاری رہتے ہیں اور آخر میں بے نتیجہ ختم ہو جاتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ ہمیں نیشنل ایکشن پلان بھی یادآجاتا ہے جس کے کچھ نکات یہ ہیں :

نیکٹا کو فعال کیا جائے گا۔پولیس کی Capacity Buildingکی جائے گی۔فاٹا ریفارم کی جائیں گی۔دہشت گردوں کی مالی معاونت کو روکا جائے گا۔تمام شدت پسند گروپس کے خلاف ایکشن لیا جائے گا۔کالعدم تنظیموں کو دوبارہ فعال ہونے سے روکا جائے گا۔

ان نکات کو پڑھ کر ہم یہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ہماری حکومت نیشنل ایکشن پلان پر کس حد عمل درآمد کر سکی ۔یہی ہماری ناکامی کی بنیادی وجہ ہے کہ ہمار ے ہاں عمل درآمد کا فقدان ہے ۔پلان بہت بنتے ہیں ۔میٹنگز بہت ہوتی ہیں لیکن عملدرآمد نہیں ہوتا۔ہماری ناکامی کی ایک بنیادی وجہ یہ کہ ہم نیشنل ایکشن پلان کےLong Term Measureنہیں لے سکے ،جس میں دہشت گردوں اور لوگوں کو دہشت گردبننے سے روکنا شامل تھا۔اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم وہ عارضی اقدامات تو لے رہیں جن سے دہشت گردی کا ناسور ختم ہو جائے لیکن وہ مستقل اور زیادہ دورانیہ کے اقدامات نہیں لے پارہے جن سے اس ناسور کو جڑ سے ختم کیا جاسکے۔

ایسے سانحات کے بعد بچپن کی وہ کہانی بہت شدت سے یاد آتی ہے کہ جو بوئو گے وہی کاٹو گے۔

پتا نہیں ہم نے ماضی میں ایسی کیا فاش غلطیاں کیں ۔ایسی کیا فصل بوئی جس کو اب تک کاٹ رہے ہیں اور نہ جانے کب تک کاٹتے رہیں گے۔کب تک لاشیں اُٹھاتے رہیں گے۔

پشاور کے اُن معصوم بچوں کی لاشیں جو گھر سے تعلیم کے حصول کے لیے گئے تھے۔

لاہور کے گلشن اقبال پارک میں کھیلتے ہوئے بچوں کی لاشیں جو گھر سے سیر و تفریح کے لیے گئے تھے۔

کوئٹہ کے اُن وکیلوں کی لاشیں جو گھر سے عدالت میں پیش ہونے کے لیے گئے تھے۔

اور اُن دوکیمرہ مینوں کی لاشیں جو اپنے فرائض کی تکمیل میں مصروف تھے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...