اُردو ناول اور غزل :چند خیالات(دوسرا حصہ)

978

اردو کا پہلا قابل ذکر شاعر ولی دکنی اٹھارھویں صدی کے آغاز میں سامنے آتا ہے۔ یہ وہ دور ہے جب برصغیر میں مسلمانوں کے سیاسی تنزل کا آغاز ہوچکا تھا، ان کی حکومت کی جڑیں اکھڑ چکی تھیں .

اردو ادب کی ابتداءالبتہ غزل سے ہوئی۔اس کی ایک وجہ تو یہ بھی تھی کہ برصغیر میں بیشتر مسلمان حملہ آوروں اور حکمرانوں کا تعلق ایران یا فارسی بولنے والے افغانی قبیلوں سے تھا۔ فارسی ادب میں قصیدے کا، جو ایک درباری صنف مانا جاتا ہے، ایک اہم جزو غزل ہے۔ سو برصغیر میں دربار نے قصیدے کے ساتھ ساتھ غزل کے فروغ کا بھی کام کیا۔ دنیا کی بیشتر بڑی زبانوں کے برعکس جن کے ادب کا آغاز نظموں سے ہوا، اردو کو شکل دینے کی ذمہ داری غزل جیسی اختصار پسند صنف کے حصہ میں آئی۔اور یہی وہ صنف تھی جس نے آنے والے دنوں میں ادب کے مجموعی مزاج کی ساخت و پرداخت اور مختلف اصناف کے قبول یا رد کئے جانے سے متعلق فضا استوار کرنے کی ذمہ داری اٹھانا تھی۔

غزل ہم نے فارسی قصیدے سے مستعار لی۔ 1799ءمیں رنجیت سنگھ نے پنجاب میں حکومت قائم کی تو اس نے بھی سرکاری زبان کے طور پر فارسی ہی کو منتخب کیا۔ تاہم یہ نہیں کہا جا سکتا کہ فارسی سے مسلمانوں کی مناسبت ہی بنیادی سبب تھا مسلم معاشرے میں غزل کے فروغ کا۔ان اسباب کو اس دور میں تلاش کرنے کی کوشش نتیجہ خیز ہوسکتی ہے، جس میں غزل کو برصغیر میں فروغ حاصل ہوا۔

اردو کا پہلا قابل ذکر شاعر ولی دکنی اٹھارھویں صدی کے آغاز میں سامنے آتا ہے۔ یہ وہ دور ہے جب برصغیر میں مسلمانوں کے سیاسی تنزل کا آغاز ہوچکا تھا، ان کی حکومت کی جڑیں اکھڑ چکی تھیں اور وہ پچھلے سات سو برسوں سے قائم مسلم سلطنت کی عمارت کو مسمار ہوتا دیکھ رہے تھے۔ 1707ءمیں اورنگ زیب کے انتقال کے ساتھ ہی مغلیہ سلطنت کا آخری مضبوط ستون بھی ڈھے گیا۔ اپنے دور حکومت کا بیشتر حصہ اورنگ زیب نے مختلف علاقوں میںپھوٹنے والی شورشوں اور انتشار کو ختم کرنے کی کوششوں میں گزارہ۔ اس کی مذہبی تعصب پر مبنی پالیسیوں نے مسلمانوں کے لیے دیگر مذہبی برادریوں کے دلوں میں نفرت کا بیچ بودیا۔ اس کی وفات کے ساتھ ہی برصغیر میں مسلم حکومت کا سورج غروب ہوگیا اور مسلمانوں کے خلاف مخاصمت کے جذبات نے بھی اس انتشار اور زبوں حالی کے ماحول میں ترقی پائی۔ مرکز کی گرفت صوبوں پر کمزور ہو گئی۔شاہی محل میں یا تو داد و دہش کی محفلیں برپا تھیں یا اقتدار کے لیے جنگ لڑی جارہی تھی۔

ظاہر ہے اس سیاسی تنزل کے اثرات سارے سماج کی نفسیات پر بھی مرتب ہوئے۔ خاص طور پر مسلمانوں میں انتشار اور ابتری کی صورت کچھ اور ہی تھی۔ وہ علیحدگی اور بیگانگی کے ماحول میں خود کو زیادہ غیر محفوظ محسوس کرتے تھے۔ اس سرزمین پر انہوں نے سات سو سال حکومت کی تھی۔ اقلیت میں ہونے کے باوجود انھوں نے خاص طورپر ہندوو

¿ں کی اکثریت پر اپنی بالادستی قائم رکھی تھی۔ بالادست حیثیت ختم ہونے پر انھوں نے خود کو غیر موافق اکثریت کے نرغے میں گھرا ہوا پایاجس سے من حیث القوم ان میں عدم تحفظ کے احساس کو تقویت ملی۔

بیرونی عناصر نامساعد ہوں تو ایک شکست خوردہ اور خوف ذدہ انسان ان سے مقابلے کے بجائے اپنے اندرایک مضبوط فصیل بنا لیتا ہے۔یہ فصیل اسے ایک خیالی مگر محفوظ دنیا کی یقین دہانی کراتی ہے۔ خود کو جھنجھوڑ کر بدلنے کی ناخوش گوار کیفیت کے بجائے اپنی من چاہی دنیا بسا کر اس میں رہا جائے تو یہ صورت سہل بھی ہے اور زوال آمادہ قوم کے لیے موافق بھی۔ برصغیر کے مسلمان ماضی میںحکمران تھے، اور بھلے ہی سلطنت چھن گئی ہو، مگر حکمرانی کا خمار ابھی باقی تھا اور حق حکمرانی تو بہرطور انھی کا تھا۔ سو حکمران تصور کرنے کی لذت سے انھوں نے خود کو محروم نہیں کیا۔ جوں جوں سیاسی شکست و ریخت کے آثار سنگین ہوئے، خود فریبی کا نشہ بھی گہرا ہوا۔

قومیں تنزل کا شکار ہوں تو اس کیفیت کی علامات مختصراً یوں بیان کی جا سکتی ہیں۔ بے جا احساس تفاخر، سامنے کی اور موجود حقیقت سے فرار کی کوشش اور ماضی پرستی، بے مقصد زندگیوں کا چھوٹے چھوٹے دائروں میں بٹ کر سطحی معاملات زندگی تک محدود ہوجانا اور مجموعی طور پر اپنے عصری حالات سے بے اعتنائی کا رویہ۔ان علامات کا اظہار ہمیں اس دور کے مسلمانوں کی سماجی زندگی کے مختلف پہلوو

¿ں میں بہت واضح دکھائی دیتا ہے۔

ادب میں ایسی صنف جو خارجی حقائق کے بجائے داخلی من چاہی دنیا پر زیادہ انحصار کرے اور آپ کو یہ موقع فراہم کرے کہ زمینی حقیقتوں سے صرف نظر کرتے ہوئے تجرید میں رہ کر بات کی جائے، غزل ہی ثابت ہوئی۔ مثلاً شعر میں پھول کی خوشبو کا ذکر کافی ہوگا۔ شاعر کے لیے یہ پابندی لازم نہیں ہے کہ وہ پھول کی وضاحت بھی کرے، کہ یہ موتیا ہے، یا یاسمین یا گلاب۔پھول کی وضاحت کے لیے موسم اور خطے کی وضاحت بھی ضروری ہے جب کہ خطے کی وضاحت کرتے ہوئے وہاں کے عصری حالات سے چشم پوشی کیوں کر ممکن ہوگی۔

اسی طرح محبوب کے لفظ سے مرد محبوب بھی مراد لیا جاتا ہے اور عورت بھی۔ فارسی ادب سے مستعار لی گئی اس صنف کی لفظیات بھی اسی کے مزاج سے متاثر ہیں۔ یہاں اسے ذومعنویت قرار دیا گیا لیکن یہ ذومعنویت نہیں تھی بلکہ اپنی کہی ہوئی بات کی مکمل ذمہ داری لینے سے فرار کا رویہ تھا۔

جبکہ یہ سہولت داستان، مثنوی اور دوسری اصناف میں موجود نہیں ہے کیونکہ وہاں حقیقت کی مبہم تصویر فنی ضعف کا اشارہ مانی جاتی ہے۔ وہاں محبوب کی تعریف کو جواز فراہم کرنے کے لیے اس کے سراپے کی وضاحت ضروری ہے اور یہ وضاحت کرتے ہوئے آپ کو ایک منطقی فریم ورک بنانے کی ضرورت پڑے گی جس میں ایک روح عصر سماجائے گی۔

مسلمانوں کی اس دور کی سیاسی اور نفسیاتی صورت حال کو بھی یہی صنف جیسا کہ پہلے بھی کہا گیا، کسی بھی دوسری صنف کی نسبت زیادہ راس آئی۔ اس کے پس منظر پر ایک نگاہ ڈالیے۔ برصغیر میں مسلم حکومت کا زوال برطانوی تسلط کے پھیلاو

¿ کے نتیجے میں ظاہر ہو رہا تھا۔ یا پھر یہ دونوں طرح کے واقعات ایک کے دوسرے کے لیے سبب اور علل بنے۔ خاص طور پر احمد شاہ ابدالی کے حملوں اور لوٹ مار نے برصغیر میں مرہٹوں کی بڑھتی ہوئی قوت کو تہس نہس کردیا تو پھر برطانوی افواج کے لیے کسی ٹھوس مزاحمت کی صورت ہی باقی نہ رہی۔ برطانوی تسلط مسلم حکومت کے زوال کا اشارہ تھا۔ جتنی مسلم حکومت کمزور ہوئی، اتنا غیر ملکی تسلط بڑھا۔خاص طور پر 1857ءکی بغاوت کی ناکامی کے بعد جب یہ واضح ہو گیا کہ برطانوی حکومت برصغیر میں مضبوطی سے اپنے پیر جما چکی ہے اور اس سے ٹکر لینا کسی طور ممکن نہیں ہے تو ایک طرح کے مجروح احساس تفاخر اور احساس مظلومیت کے ساتھ مسلمانوں نے ہر سطح پر انگریزی حکومت سے گریز کا رویہ اپنایا۔

جب آپ سامنا کرنے کی جرات نہیں رکھتے تو بہتر ہے کہ گریز کیا جائے۔ اس حقیقت کو ماننے سے گریز کیا جائے جو بہت تلخ تھی اور ہمارے ہر طرف پھیلی ہوئی تھی، اور وہ اس کے علاوہ اور کچھ نہیں تھی کہ ہم اپنے فاتحین کی نسبت پسماندہ تھے۔ان کا اسلحہ، نظام حکومت، اور ٹیکنالوجی ہم سے کئی گنا بہتر تھی۔ ہم نے برطانوی حکومت سے ہی گریز نہیں کیا بلکہ اس کی ٹیکنالوجی، جدید علوم اور جدید نظام حکومت سے بھی گریز کرنا شروع کیا۔ جب کہ یہی وہ علوم تھے جن پر ترقی کی بنیادیں استوار کی جا سکتی تھیں۔ یہ علوم ترقی کے بنیادی اجزائے ترکیبی اور تشکیلی عناصر تھے۔ ہم نے ان سب سے گریز کیا۔ یعنی ترقی سے گریز کیا۔ اپنے موجود سے گریز کیا۔ اور یہ سب کچھ بہت واضح انداز میں اور بتدریج ہوا۔ یہ گریز آج بھی جاری ہے۔

حقیقت سے گریز کا رویہ عمومیت پسندی کی اساس ہے۔ اسی عمومیت پسندی نے زندگی کے ہر شعبے بشمول ادب، میں راہ پائی۔جب کہ غزل نے عمومیت کی شرط پوری کرنے کے ساتھ ساتھ ہمارے اظہار کو قابل گزارہ حد تک ممکن بنانے کا وعدہ کیا۔ عمومیت پسندی ہی غزل میں اختصار پسندی کا باعث بنی۔عمومی انداز میں بات زیادہ وضاحتوں اور تراکیب کی متحمل نہیں ہوسکتی کیوں کہ اُس صورت میں خصوصی حوالے ناگزیر ہوجاتے ہیں۔سو یہی بنیادی معیار قرار پایا کہ بڑی سے بڑی بات کو کیسے مختصر ترین اور ملفوف انداز میں پیش کیا جائے اور ساری کاوش یہی رہی کہ بات کو کیسے کم سے کم لفظوں میں بیان کیا جائے۔ اصطلاحات اور جزئیات کی جگہ تشبیہوں، علامتوں اور استعاروں کا سہارا لیا گیا۔ وضاحتی پیرایے کے بجائے اختصار کو ترجیح دی گئی۔

نئے الفاظ، اصطلاحات اورنئی تراکیب سازی کے بجائے اس صنف سخن کے پھیلاو

¿ نے پہلے سے موجود الفاظ اور استعاروں سے ہی نئے سے نئے معانی کو تلاش کرنے کی حوصلہ افزائی کی۔ان شاعروں کو آج بھی خوب سراہا جاتا ہے جو کچھ نیا پیدا کرنے کے بجائے پرانے ہی کو نئے انداز میں پیش کرنے کی کوشش کریں اور کلاسیکی رچاو

¿ کے ساتھ اپنی بات کہیں۔ کھاد ڈالے بغیر آپ ایک ہی کھیت سے چاہے وہ کتنا ہی زرخیز کیوں نہ ہو، کتنی دیر تک اچھی فصل کی توقع کرسکتے ہیں۔ (جاری ہے)

 

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...