تبدیلی تو شاید مکاچوک میں جنم لے چکی ہے

821

بائیس اگست سے لمحہ موجود تک ایم کیو ایم میں جو تبدیلیاں رُونما ہوئی ہیں ،اُنہوں نے جہاں خود متحدہ کے لیے مثبت اثرات مرتب کیے ہیں ،وہیں اس کی مقامی قیادت کے لیے کئی چیلنج کھڑے کر دیے ہیں ۔

ایم کیو ایم کے قائد جو بمطابق فاروق ستاراب بانی قائد ہیں،کی بائیس اگست کی تقریر ایم کیو ایم کو ایک نیا موڑ دے گئی۔جیسے ہی الطاف حسین نے تقریر ختم کی ،تو کارکنان مشتعل ہوگئے۔اُن کا اشتعال میں آنا ،متحدہ کو نئے چیلنجز کے حوالے کر گیا۔بائیس دسمبر کی شام کے بعد صورتِ حال لمحہ بہ لمحہ تبدیل ہوتی چلی گئی ۔اگلے دِن یعنی تیئس اگست کو فاروق ستار نے پریس کانفرنس کی ،جس میں پارٹی کے معاملات یہاں سے چلائے جانے کا اعلان کیا۔تو ایک نئی بحث شروع ہوگئی۔سوالات اُٹھائے جانے لگے،اندازے قائم کیے جانے لگے کہ فاروق ستار کی یہ بات کہ متحدہ کے فیصلے اب کراچی سے ہوں گے ، کس حد تک او ر کیونکر ممکن العمل ہوگی۔کہنے والے کہنے لگے کہ جو سالہا سال سے الطاف حسین کا دَم بھرتے چلے آرہے ہیں اور جن کا سیاسی وجود ہی الطاف حسین کے تصور سے قائم ہے ،وہ کیسے ایکاایکی متحدہ کے فیصلوں میں خودمختار ہو جائیں گے۔کہنے والوں نے یہ بھی کہا کہ فاروق ستار نے الطاف حسین سے قطع تعلقی کا اعلان کیا اور نہ ہی اُن پر کڑی تنقید کی،تو ظاہر یہ ہوتا ہے کہ متحدہ کی مقامی قیادت نے لندن قیادت کی مشاورت سے یہ انداز اختیار کیا ہے تاکہ موجودہ گمبھیر صورتِ حال سے نکلا جاسکے۔لیکن ہمارا خیال یہ ہے کہ اگر فاروق ستار فوری طور پر الطاف حسین کو آڑے ہاتھوں لیتے یا لاتعلقی کرتے تو ،پارٹی کے اندر فساد پھوٹ پڑتا اور معاملات کو سنبھالنا مشکل ہو جاتا۔پھر جب الطاف حسین کا برطانوی اشاعتی ادارے بی بی سی پر یہ بیان سامنے آیا کہ وہ فاروق ستار کے بیان کی توثیق کرتے ہیں ،تو صورتِ حال نے نیا رُخ لیا۔یہاں بھی کہنے والوں نے کہا کہ یہ بیان سیاسی چال اور موجودہ حالات سے نکلنے کا طریقہ ہے۔

انہی حالات کے اندر کراچی کا نیا میئر بھی متحدہ کا منتخب ہوا۔نومنتخب میئر جیل میں تھے،اب بھی ہیں ،جن پر سنگین الزامات ہیں ،یہاں کراچی کے سیاسی حالات نے ایک اور پلٹا کھایا۔صورتِ حال اُس وقت حیران کن ہوئی جب پچیس اگست جمعرات کے دن مکا چوک اور جناح گرائونڈ اور نائن زیرو قرب وجوار میں الطاف حسین کی تصویریں اور پوسٹر اُکھاڑ لیے گئے۔ایسا محض کراچی کے چند مقامات پر نہیں ہوا سندھ کے دوسرے شہروں میں بھی یہی عمل دہرایا گیا۔الطاف حسین کی کوئی تصویر کہیں رہنے نہ دی گئی۔اس قدر محیر العقول تبدیلی فوری رونما ہو جائے گی ،وہم و گمان میں نہیں تھا۔اگرچہ گذشتہ چند برس سے پی ٹی آئی تبدیلی کے نعرے لگاتی چلی آرہی ہے مگر تبدیلی کہیں وقوع پذیر نہ ہوسکی لیکن متحدہ کے اندر اور کراچی میں یہ تبدیلی تین دن کے اندر اندر رُونما ہواُٹھی۔جب یہ تصویریں اور بینرز ہٹائے جارہے تھے ،اُس سمے عدالت میں پیش ہونے والے متحدہ کے ملزمان نے پاکستان زندہ باد کے نعرے لگادیے،رینجرز کے حق میں بھی نعرے لگائے گئے۔الطا ف حسین جو لگ بھگ پینتیس برس سے متحدہ کے لوگوں کے دل و دماغ پر قابض تھے ،اچانک اس قدر کمزور نظر آئے کہ جب اُن کی تصویریں اور بینرز اُتارے جارہے تھے ،تو کوئی مزاحمت دیکھنے کو نہیں ملی۔بلاشبہ یہ ایک بڑی تبدیلی ہے۔

بائیس اگست سے لمحہ موجود تک ایم کیو ایم میں جو تبدیلیاں رُونما ہوئی ہیں ،اُنہوں نے جہاں خود متحدہ کے لیے مثبت اثرات مرتب کیے ہیں ،وہیں اس کی مقامی قیادت کے لیے کئی چیلنج کھڑے کر دیے ہیں ۔ایک لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ ساری تبدیلی انتہائی مثبت ہے۔متحدہ کی قیادت اپنے لیڈر کے مختلف بیانات کی بدولت جس اُلجھن اور مصیبت میں ایک مدت سے گھِری چلی آرہی تھی،اُس سے تو یقینی چھٹکارا مل گیا ہے ،کم ازکم آئندہ الطاف حسین کا کوئی بیان مقامی قیادت کو نہ تو مشکل میں ڈالے گا اور نہ ہی ندامت کا شکار کرے گا۔اس کے ساتھ ساتھ جو چیلنج پیدا ہوئے،وہ مقامی قیادت کے لیے خاصے کڑے ہیں ۔متحدہ کی مقامی قیادت کے لیے پہلا چیلنج تو یہ ہے کہ درپیش صورتِ حال سے خوش اسلوبی سے نکلنا بہت ضرور ی ہے ۔دوسرا چیلنج اَمن و اَمان کا قیام ہے۔تیسرا چیلنج مقامی فیصلوں کو قبولِ عام کروانا ہے۔چوتھا چیلنج فیصلوں سے یہ ثابت کرنا ہے کہ لندن کے زیرِ اثر مقامی قیادت نہیں ہے۔پانچواں چیلنج اگلے انتخابات ہیں۔چھٹا چیلنج مقامی سیاسی نمائندوں کا باہمی اتحاد کو قائم رکھنا ہے۔ساتواں چیلنج نومنتخب میئرشپ کے لیے کراچی کے انتظام و انصرام کے حوالے سے ہے۔اسی طرح مزید بھی کئی مشکلات ہیں جن سے متحدہ کی مقامی قیادت اگر عہدہ برا ہوگئی تو یقینی طور پر وہ لندن کے اثر سے مکمل طور پر چھٹکارا پالے گی۔ورنہ پارٹی کو جہاں نقصان ہو گا وہاں کراچی کے حالات بھی سنگین ہو سکتے ہیں ۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...