ایک غیر متبدل حقیقت ( افلاطون اور ہیگل)، کائنات ایک ریاضیاتی تشکیل

248

ہیگل کی کتاب ذہن کی مظہریات کے پہلے باب پر چند سطریں , خفیہ مکاتب ، مشرق و مغرب ، ایک غیر متبدل حقیقت ، افلاطون کے مکالمے ٹیمائیس پر بیان اور عہد حاضر میں ایک نا گزیر انجمن کی ضرورت؛

ہیگل کی اس کتاب کا پہل باب بعنوان (شعور) ہے ، پھر آگے مزید اس کے تین حصے ہیں اور ہر ایک حصہ اپنی نفی کرتے ہوئے اگلے مرحلے پر sublate ہو جاتا ہے۔۔۔ یہ متن اسی لئے سمجھنا مشکل ہے کہ کتاب کا ایک حصہ دوسرے حصے سے آعلیٰ درجہ پر بات کر رها ہوتا ہے لیکن عناصر وہی ہوتے ہیں لیکن اظہار آعلیٰ سے آعلیٰ سطح پر ہوتا جاتا ہے۔

کتاب کے پہلے باب میں ہیگل نہ صرف کانٹ کے پروجیکٹ سے اپنا پروجیکٹ شروع کرتا ہے ساتھ ہی سب سے پہلے (حسی تیقن) کے ذیل میں انسانی تجربے کی انتہائی بنیادی اکائی اور تجریدی جہت سے شروع کرتا ہے یعنی وہ محض representation , represented اور representer پر بات کرتا ہے ہیگل کانٹ کی بنائی گئی دوئی کی نفی نہیں کرتا بلکہ کانٹین دوئی کے اندر سے نفی کے مقولے کو وارد کرتا ہے ۔
اس طرح پہلا حصہ اپنی نفی کرتا جاتا ہے اور پھر کلی طور پر پورا ایک باب اپنی determinate negation کرتا ہے۔

ہیگل کے نزدیک مقولات کی حیثیت صرف نفسیاتی یا علمیاتی نہیں ہے یعنی محض representer یعنی فوق سبجیکٹ ہی اپنے قبل تجربی مقولات کے ذیل میں conceptualized نہیں ہے بلکہ ادراک کی گئی چیز بھی conceptualized ہے نیز articulated ہے کیونکہ اس خارج میں موجود شے یا میرے سے باہر معروض اپنا ادراک کروانے میں آزاد ہے وہ شے تصوراتی کے ساتھ ساتھ موجودیاتی طور پر بھی موجود ہے اور مجھے اپنی representation فعال طور پر کرواتی ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ میں خارج میں موجود اشیا کی تفہیم نفی کی بدولت کرتا ہوں جس کی وجہ سے ان اشیا میں پہلے سے تصور موجود ہے کہ جب میں ایک لكڑی پانی میں دیکھتا ہوں تو ٹیڑھی نظر آتی ہے لیکن جب وہی لكڑی روبرو دیکھتا ہوں تو بلکل صحیح (سیدھی) نظر آتی ہے اب کانٹ دوسرے نتیجے کو قبول کر لیتا ہے آرام سے لیکن ہیگل قبول کرنے کے ساتھ ساتھ نہ صرف پہلے کی نفی کرتا ہے بلکہ دوسرے کو اس نفی کی بدولت ارتباط میں دیکھتا ہے کہ یہ اب ٹیڑھی لکڑی نہیں ہے یہ غلط تجربہ تھا ۔
اس کی ایک اور مثال جو آسان ہے یہ ہے کہ جب میں سرخ پھول دیکھتا ہوں تو سرخ سے مراد ایک متعین نفی ہے یعنی اب گلاب سرخ ہی ہے اب یہ کالا یا سبز نہیں ہو سکتا ۔

لیکن ہیگل یہ نفی کرنے کے بعد retroactively پھر سے اپنی پہلی نفی (یعنی جس چیز کی نفی کی ہوتی ہے) کی طرف پلٹتا ہے اور اس کا مزید مطالعہ کرتا ہے یہی مطالعہ پھر نفی کی نفی یا determinate negation کی بنیاد بنتا ہے اور ہم پھر سے immediate کی طرف واپس آ جاتے ہیں ۔

نتیجہ

یعنی ایک immediate تصور سے شروع کرتے ہیں پھر اس کی نفی اس سے باہر موجود شے سے کرتے ہیں دونوں کا ادراک ایک دوسرے سے ارتباط یا تضاد کی روشنی میں کرتے ہیں پھر یہ تضاد دوبارہ سے leap لگاتا ہوا پہلی نفی کی مزید جانچ پرکھ کرتا ہے تا کہ پھر سے ایک آفاقی تصور جو پچھلے سے زیادہ (فوری) نوعیت کا ہو گا اپنی بنتر ڈھونڈے ۔
میں ابھی جزیات میں نہیں گیا ورنہ ہیگل now , here اور this , that کی انتہائی تجریدی مثالیں دیتا ہے اور جیسا پہلے بتایا خام تجربے سے شروع کرتے ہوئے آفاقی تصور تک جاتا ہے پھر آفاقی تصور کی نفی کرتے ہوئے دوسرے باب یعنی (self conciousness) میں واپس ایک انفرادی شے یعنی سبجیکٹ کی طرف واپس لوٹتا ہے یہیں پھر وحی اور مذہب یا مذہبی پادری وغیرہ کی تاریخی اور شعوری حوالے سے بات کرتا ہے۔

آخری بات
آخری بات یہی ہے کہ ہیگل کانٹ کی نفی نہیں کرتا بس اس کی وجود اور شعور کی دوئی میں موجود gaps کو کلیت میں ڈھالتا ہے جدلیاتی طور پر (جو کہ اسے سب سے ممتاز بناتا ہے) ہیگل جہاں سے اپنی کتاب شروع کرتا ہے یعنی پہلے باب کے پہلے حصے (حسی تیقن) میں ۔۔۔۔۔ یھاں ہیگل ایک سبجیکٹ (جوھَر اور مظہر) کے درمیان موجود gap میں چکر لگاتا رہتا ہے اور چیزوں کے ادراک کی تصوراتی تفہیم کے لئے کوشاں رہتا ہے ہیگل یھاں here اور now کی مثالیں دیتا ہے ۔ کیونکہ here اور now محض ایک خام تجربی علم ہے ہیگل انہی دو کے اندر سے نفی نکالتا ہے اور آفاقی تصور تک بات لے جاتا ہے ۔

خفیہ، باطنی علوم
لیکن یہ بات بھی یاد رھے نفی یا نفی کی نفی سے پہلے بھی معروض fully articulated ہوتا ہے کیونکہ وہ داخلی انعکاس ہے اور مقولات محض اب صرف ایک سبجیکٹ تک محدود نہیں رھے بلکہ کلی طور پر ایک شخص بھی کائناتی فریم ورک میں ایک مقولہ ہی ہے انسان اب صرف زمین کا انسان نہیں ہے کائنات کا انسان ہے وہ کائنات کو سمجھ کے اپنی نفی کرتے ہوئے ایسی ہی کائنات کی ابتدا کر سکتا ہے جو اس سے بیگانہ ہو ۔
میرے خیال میں ہیگل بلخصوص ایک hermetic تھا بلکہ افلاطون سمیت باقی کے جتنے بھی لوگوں نے شعوری کوشش کی ہے ایک ہی غیر متبدل حقیقت کے لئے کام کرتے آئے ہیں ۔
ہیگل ، افلاطون اور سپینوزا سمیت تمام وہ فلسفی جنہوں نے ایک دیوہیکل اسٹرکچر بنایا ہے ان کا فلسفہ اس ایک maxim میں قلم بند کیا جا سکتا ہے کہ As above , So below یہ مقولہ hermenticism کے بانی ہرمن کا وضع کردہ ہے جس کی نئی لکھت Helena P Blavatsky نے کی ؛ Quod est superius est sicut quod inferius, et quod inferius est sicut quod est superius.

That which is above is like to that which is below, and that which is below is like to that which is above.

یعنی جیسا اوپر (انسانی حسیات سے ماورا – کائنات) ہے ویسا ہی نیچے (محدود حسیاتی معروض – دنیا) ہے. اس تعلق کو ہم macrocosm اور microcosm کا تعلق بھی که سکتے ہیں کہ انسانوں کی ذات بلواسطہ آفاقی تصور ذات یعنی کائنات سے تعلق رکھتی ہے یہ اس سے الگ نہیں ہے یہ دونوں وهدت میں ہیں اور ایک دوسرے میں سرائیت کئیے ہوئے ہیں. ایک microcosm (انسان) عکس ہے (macrocosm) وسیع کائنات کا.

فیٹاغورثی اعداد
فیٹاغورث بھی بلکل یہی بات کرتا ہے اس نے ایک سے لے کر دس اعداد کی تفہیم کی تھی اور ان اعداد کو کائنات کی بنیادی اکائی مانتا تھا ۔
فیٹاغورث کے مطابق عدد (ایک) موناڈ کے مماثل ہے یہ واحد ہے ۔۔۔۔ یہ کثرت کا منبع ہے اور ظن کی قطعیت کو برقرار رکھتا ہے گویا ظنیت قطعیت کو پیش قیاس کرتی ہے ایک درخت کی شاخیں لاتعداد اعداد ہیں جو ایک وهدت کا جز ہیں ۔ واحد عدد سے ہی باقی اعداد کی پہچان ہوتی ہے عدد (ایک) سب اعداد پر تقسیم ہو سکتا ہے خود پر بھی – گویا اپنی نفی آپ کر کے دوسرا عدد ترتیب دیتا ہے ۔

فیٹاغورث کے مطابق دوسرا عدد ڈایاڈ ہے یہ واحد کی نفی ہے اور (غیر) سے عبارت ہے یہ نہ صرف ملاوٹ ہے بلکہ کائناتی تنظیم کے لئے بھی ضروری ہے یہ ایک (مستحکم) دوئی ہے جو وهدت کو پیش قیاس رکھتے ہوئے واحد میں اتحاد قائم رکھتی ہے (اس سے جو کچھ جدا ہوتا ہے اسی میں واپس لوٹتا ہے) (کثرت کو وهدت سے جدا نہیں کیا جا سکتا)

اس کے بعد فیٹاغورث آگے مزید اعداد کی تفہیم کرتا ہے جیسے ؛
. Triad
. Tetrad
. pentad
. decad
. tetractys

مزید بیان
ہم یہ دریافت کر چکے ہیں کہ ہماری کائنات dual aspect substance کی تیار کردہ ہے جو قدیم یونانی نظریات Holenmerism اور Nullibism پر کار بند ہے ۔ موناڈ اس کائنات کی سب سے بنیادی اکائی ہے جو غیر منعکس ہے اپنے آپ میں پوری کائنات ہے یہ متعین شدہ ہے کلی کائنات سے لے کر ایک انسان تک ہر چیز کی بنیادی اکائی ہے یہ جس کا تعین موناد اعظم کرتا ہے لئبنز کی کتاب (موناڈ لوجی ) کے یہ سیکشن دیکھیں ؛

The basic order is three-tiered:
(1) entelechies or created monads (§48),
(2) souls or entelechies with perception and memory (§19), and
(3) spirits or rational souls (§82).
Whatever is said about the lower ones (entelechies) is valid for the higher (souls and spirits) but not vice versa.

یعنی مزے کی بات یہ ہے کہ لئبنز جب موناڈز کی hierarchy بنا رها ہوتا ہے تو کلی طور پر پوری کائنات کو ایک موناد اعظم کے under کرار دیتا ہے لیکن اس موناد اعظم کے یعنی اس مطلق ذات یا rational soul یا اس macro کی جو جزیات ہیں micro اشیا ہیں یعنی ایک انسان اس انسان میں بھی موناڈز کی hierarchy ہوتی ہے ۔۔۔۔۔ جہاں ایک انسان میں موناد اعظم اس کا دماغ ہوتا ہے اور باقی جسم کے حصے اس کے under ہوتے ہیں اور وہ دماغ جو macro کے ایک micro component یعنی ایک (انسانی مادی جسم) کا موناد اعظم ہے کو کلی کائنات کا موناد اعظم متعین کر رہا ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔

یہ باتیں as above , so below کو سمجھنے کے لئے مدد دے سکتی ہیں ، یہ ایک بہت بڑی ، اونچی ، پیچیدہ اور روشن روایات ہیں۔

فیٹاغورث سے لے کر افلاطون اور افلاطون سے لے کر سپینوزا ، سپینوزا سے لے کر لئبنز اور لئبنز سے لے کر ہیگل تک سب ہی اس کائنات کو ایک ریاضی تشکیل کرار دیتے رھے ہیں۔۔۔۔۔۔ عصر حاضر کے جدید مکاتب یہ بھی ثابت کر چکے ہیں کہ نہ صرف یہ کائنات ایک داخلی انعکاس ہے بلکہ ساتھ ہی ساتھ ہمارا معروض دوئی کی وهدت پر مبنی ہے. یہاں پھر لئبنز اور ہیگل والا بیان آ جاتا ہے کہ ہر انفرادی ذہن ایک موناد کے مماثل ہے یہ بنیادی ترین اکائی ہے اس اکائی کے گرد ہمارا جسم ایک خاص متعین کی گئی frequency کے تابع ہے جو گوشت پوست کی چادر وضع کرتا ہے گویا یہ ایک fourier mathematical frequency – realm ہے۔۔۔۔۔ میرے نزدیک اس کا ایک اور پہلو بھی ہے کہ غیر متبدل حقیقت جو خود انسانوں کی تخلیق کردہ ہے جب نفی کی نفی کا عمل کرتی ہے تو جہاں چند کی نفی کر کے چند کو متعین کرتی ہے وہیں آگے کے سفر کی بھی داغ بیل ڈال دیتی ہے ۔

یھاں ایک اور بات بھی وضع کردوں کہ (غیر متبدل حقیقت) کوئی پراسرار شے نہیں ہے بلکہ انسانی فعالیت یا کلی نسل انسانی کے تعیناتی علم کی سپرٹ ہے. اب تعیناتی علم کیا ہے یہ وہ علم ہے جس کا اظہار آج تک الفاظ کی شکل میں کیا جا چکا ہے ۔۔۔۔۔۔ یا جسے عقلایہ جا چکا ہے یعنی مقرونی حیثیت میں اس کو متعارف کروایا گیا ہو ۔۔۔۔۔۔ مشرقی روایت کے وید ، مسلم روایت کے صوفی (سہروردی ، ابن عربی وغیرہ) محض فطری معروض کو اپنی حسیات سمیت ہی اپنا معروض بنا پائے (شاعری ، اساطیری زبان) کو عام مقرونی معاملات پر وارد کرنا ہوتا ہے – [ (شاعری سماج میں موجود کثیر ذہنوں اور نچلی پرتوں تک اپنے نظریات پھیلانے کے لئے استمال کی جاتی ہے – کہ جہاں وجدان حسیات کی سطح سے اٹھ کے جذبات کی سطح پر کام کرنا شروع کر دیتا ہے) – (یہی وجدان جب عقل کے درجے پر کام کرنا شروع کرتی ہے تو تب فلسفے کی خود رو حرکت پیدا ہوتی ہے) – (غیر متبدل حقیقت یا مطلق خیال تب ہی اپنا اصلی جوھَر عیاں کرتا ہے کہ جب مادی حالات سازگار ہوں ورنہ پہلے پہل یہ خیال تجربیت کی ذیل میں اپنا جوھر عياں کرتا ہے) ] اس کے بہت سے طریقے ہیں ایک طریقہ وہ ہے جس کی بنیاد مغرب کے سر ہے یعنی منطق وغیرہ ۔۔۔۔۔۔ جیسے کہ مغرب نے فیٹاغورثی علوم سے لے کر افلاطونی اور نو افلاطونی روایت تک پھر نو افلاطونی فکر کے مفکر (Pseudo Dionysius) نے جب عیسائی ما بعد الطبیعات کی ڈال بیل ڈالی تو در اصل یہ چکر فطری معروض کے immediate علم کی ثالثی کا اظہار تھا نیز اس ثالثی نے پھر آفاقی مذہب کا روپ دھارا جو کہ بیگانگی کا نتیجہ تھا لیکن اس سارے کھیل کی نفی کی نفی تب ہوئی جب عیسائی روایات کی پندرہ سو سال پر محیط عمارت لڑکھڑا اٹھی کہ جہاں سے عیسائی روایت شروع ہوئی تھی (نو افلاطونی فکر) نیز عیسائیت کی ما بعد الطبیعاتی بنیادیں رکھنے والا مفكر (dionysius) در اصل کوئی عیسائی نہیں بلکہ ایک نو افلاطونی مفکر تھا.

یہ عظیم انسان یہ دیکھنے پر قادر تھا کہ بلند و بالا عظیم یونانی فلسفہ اب تباہ ہو جانے کے در پہ ہے تو اس نے compilation شروع کی جتنا ہو پایا کام مکمل کیا ۔۔۔۔۔۔ اور اس کو عیسایت کا لبادہ اوڑھا دیا ۔ یعنی عیسایت جہاں سے شروع ہوئی تھی اس نے واپس وھیں سے اپنی بنیادوں کی نفی کی ۔۔۔۔۔۔ اور اس نفی کی نفی کا نتیجہ (موجودہ مغرب) ہمارے سامنے ہے.

مزے کی بات یہ ہے کہ جہاں سے یہ روایت شروع ہوتی ہے کہ جس نے مغربی علوم کی اصل بنیاد رکھی (فیٹاغورث) ۔۔۔۔۔ اس کی تعلیمات کی بنیادیں خود ہندوستان ، مصر اور ایران میں دیکھی جا سکتی ہے۔ (اب ضرورت اس کھوج کی ہے کہ مشرق اس پورے دائرے میں کہاں کھڑا ہے) ؟

فیثاغورث محض علم کی خاطر مشرق نہیں آیا تھا بلکہ اس کو وہ تاریخی جبر اور زمیداری نبھانی تھی کہ جس نے آنے والے سالوں میں انسان کو خدا کے مماثل کرار دینا تھا ، گویا مذہب کی تقلیب کرنا تھی فیثاغورث جب مشرق سے واپس لوٹا تو اس کے پاس نہ صرف باطنی علوم کی کنجی تھی بلکہ مشرقی تہذیب کے گرینڈ ماسٹرز اور (Transcend beings) بھی اس کے ساتھ موجود رھے یہ وہی تھے جنہوں نے کبھی مشرقی ویدوں کی بنیاد رکھی ہو گی اور اب اگلے مراحل طے کرنے کی تیاری میں تھے نیز جنہوں نے self actualization حاصل کر لی تھی ۔

ایک اہم بات یہ ہے کہ موجودہ دنیا کی آٹھ ارب آبادی میں سے چند ہزار ہی ایسے لوگ موجود ہیں جنہوں نے آگے کا سفر طے کرنا ہے یا جن کی مشق شروع ہو گئی ہے اور ہو سکتا ہے انھی میں سے چند ایک آج سے سینکڑوں سالوں بعد یا تو منظر عام پر آ کر تعیناتی (مقرونی و منطقی) علم دیں گے یا پھر پردے کے پیچھے موجود رہ کے ارتعاش (جادو اور اساطیر) پیدا کرتے رہیں گے ۔

• افلاطون کا مکالمہ ٹیمائیس

افلاطون بھی اپنے مکالمے ٹیمائیس میں کائنات کی یہی (ریاضیاتی) بنیادی تفہیم و تشریح اور تخلیق کے حوالے سے بیان کرتا ہے ۔

اب یہاں پر اتنی جگہ تو موجود نہیں کہ افلاطون کے پورے مکالمے کا نقشہ کھینچا جائے یا حوالہ دیا جائے لیکن جو بات یھاں کرنا درکار ہے وہ کر لیتے ہیں ۔ افلاطون اپنے مکالمے ٹیمائیس میں کائنات کی کونیاتی تشکیل اور اس میں موجود نظم و ضبط کو بیان کرتا ہے ۔
افلاطون کے بقول کائنات کی تشکیل کا آغاز پہلے ایک ماورائی ہستی جسے وہ (Deimurge ) کہتا ہے کہ دماغ میں چلنے والے خواب کی صورت میں ہوئی یعنی دوسرے الفاظ میں وہ تفكر کر رہا ہے جس کی بدولت وہ likeness کا مقولہ اپنے وجود پر وارد کرتا ہے یعنی وہ اپنی خالص ہستی کی طرح کی ایک اور کائنات تشکیل دینا چاہتا ہے اس کے لئے وہ اپنے ہی وجود میں انعکاس کا عمل کرتا ہے یعنی اس کا جوھَر دائرے دار چکر میں اپنے ہی وجود کو دیکھتا ہے اس نتیجے میں اس کا عکس اس کے دماغ میں بنتا ہے جسے افلاطون (a living creature) کہتا ہے یہ عمل دائرے دار حرکت میں چلتا رہتا ہے اور ایک وقت ایسا آتا ہے کہ یہ انعکاس داخلی کی بجائے اپنا معروض تشکیل دینے لگتا ہے جس کے نتیجے میں مادی کائنات کا ظہور ہوتا ہے (اس عمل کے بیچ میں بہت سی پیچیدگیاں ہیں جنہیں طوالت مضمون کی خاطر چھوڑ دیا گیا ہے)

تخلیق کائنات
اب جب یہ عکس اپنا اظہار مادی شکل میں (اپنے سے باہر) کرتا ہے تو افلاطون کے مطابق کائنات کی تشکیل دو کرنوں کی شکل میں ہوئی پہلی کرن (جفت) اور دوسری کرن (طاق) اعداد پر مبنی تھی (وہی بات جو فیثاغورث پہلے کر چکا تھا) ۔ کیونکہ اب کائنات نہ صرف ایک مرتکز جگہ (پرمینیڈز کے متعین شدہ جامد بینگ) سے باہر پھیل رہی ہے بلکہ وهدت ۔۔ کثرت کا روپ بھی دھاڑ رہی ہے۔

اس جگہ افلاطون کہتا ہے ۔۔۔۔۔ اب کائناتی تشکیل ریاضیاتی بنیادوں یعنی
Ratios
Proportions
Analogies
کی صورت میں ہو گی جیسے ہیگل (Quantity , Quality اور Measure) کےمقولات سے شروع کرتا ہے ، کیونکہ اب مادے نے اپنا پھیلاؤ کرنا ہے نیز بنیادی خصوصیات اپنے پر وارد کرنی ہیں تا کہ ایک کو دوسرے سے ممتاز یا مختلف حیثیت حاصل ہو سکے ۔

بقول آر – ٹی ویلیس
“ The fundamental principle of Neoplatonism , that reality consists in a hierarchy of degrees of unity , is a systemization of the Pythagorean – Platonic tradition’s identification of goodness and order with (form , measure and limit) , which in there turn imply (number and mathematical ratio) and hence ultimately the presence of an organizing unity ”

چلیں اب ہم اپنے نقطے پر واپس آتے ہیں کہ جب deimurge اپنی ہستی کی طرف دائرے دار چکر لگاتا ہے تو دو طرح کی کرنیں اس کی ہستی سے باہر اخراج کرتی ہیں (پیچیدگی میں جائے بغیر) یہ در اصل اعداد ہیں جفت اعداد ( ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 8 ، 6 ، 4 ، 2) اور طاق اعداد ( ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 9 ، 7 ، 5 ، 3 ) ۔

افلاطون پھر مختلف تناسب بناتا ہے fractions ترتیب دیتا ہے لیکن فلحال ہم ابھی اس کی بنائی گئی analogies پر بات کریں گے افلاطون کے نزدیک جب یہ دونوں (جفت و طاق) اعداد مادے کی تخلیق کر رھے تھے تو ان میں ایک نظم و ضبط تھا افلاطون کے مطابق ہر دو جفتی عددوں اور ہر دو طاقی عددوں کے درمیان دو دو analogies ترتیب دی دی گئی تھیں ۔۔۔۔۔۔ اب analogy کیا ہے یعنی دو اعداد یا مادی اشیا کے بیچ relation جیسے کہ
A : B
لیکن ہم نے کہا کہ ہر دو اعداد کے بیچ دو دو analogy ہوں گی یعنی
A : B : : C : D

اب جیسے a prori اور a posteriori تراکیب کی کل چار جہتیں یا جوڑے بنتے ہیں اسی طرح ان ہر دو analogies کے آپسی تعلق یھاں دو analogies کے درمیان کے آپسی تعلق کی بات ہو رہی ہے یہ بات ہم پہلے بتا چکے کے ایک analogy ہوتی ہی وہ ہے جس کے درمیان relation یعنی تناسب ہو لیکن ہم اب دو analogies کی بات کر رھے ہیں جن میں سے ہر ایک اپنے برابر تو ہے لیکن ان دو کا آپسی کا کیا تعلق ہے تو اس کی بھی کل چار نتائج ہو سکتے ہیں ؛
Similar
Same
Different
Identical

اچھا اب افلاطون جب مادے کی تخلیق کی ذیل میں جب یہ بات کر رها ہوتا ہے تو ساتھ ہی deimurge اور اس کے ذہن میں چلنے والے تفكر (جو بعد میں خارجی انعکاس کا باعث بنا) کے درمیان بھی انہیں دو analogies کے حوالے سے مزید بیان کرتا ہے افلاطون کے نزدیک ان دو analogies کے درمیان تعلق similar ہوتا ہے جو کہ دراصل same ہی ہوتا ہے یعنی deimurge اور اس کا تفكر (ایک جیسا ہی ہے) یہ بھی ایک analogy ہی ہے میں نے پہلے ہی likeness کے مقولے کی بات اسی لئے کر دی تھی یعنی افلاطون اپنے اس مکالمے میں ریاضیاتی استخراج کرتا جاتا ہے ۔

اس مکالمے میں مزید بھی بہت سی بحثیں ہیں بینگ اور کچھ بنتے رہنے سے متعلق ابھی تو ہم نے اس کے محض ایک سیکشن کو کھولا ہے وه بھی صحیح سے نہیں ۔۔۔۔۔۔

خیر جو بات کہنا درکار تھی وہ یہ تھی کہ افلاطون کے نزدیک بھی کائنات ایک (ریاضیاتی تشکیل) ہے اور یہ نظریہ افلاطون کا فیثاغورث سے ماخوز ہے ۔ ہمیں نہ صرف یہ روایات ملتی ہیں کہ وہ ہندوستان آیا تھا بلکہ اس بات بات کا تو پختہ ثبوت ہے کہ وہ سقراط کی شہادت کے بعد نو فیثاگورثی اراکین کے ساتھ شامل ہو گیا تھا اور ان کی خفیہ رسمیں بھی سر انجام دیتا تھا (گویا افلاطون بھی فیثاغورثی دبستان سے تعلق رکھتا تھا اور ارسطو ایک افلاطونی تھا اور یہ سلسلہ پھر چل نکلا)

 اختمامیہ
اختمامیہ لکھنے سے اچھا ہے کہ اس سلسلے کی اگلی قسط لکھ لی جائے جہاں اطلاقی یا عملی پہلو وضع کروں گا ، میرے نزدیک عصر حاضر میں یہ ضرورت جبر کی حیثیت اختیار کر چکی ہے کہ ایک (انجمن) کی تخلیق کی جائے ایسی انجمن جو کہ مائہ کے مماثل ہو جس کا کوئی نظریہ نہ ہو بلکہ وہ نظریات کی تخلیق کرے اور معاشرتی ڈھانچوں کی نچلی تہوں تک ان نظریات کو راسخ کرے ۔۔۔۔۔ اگر مجھے فرصت ملی تو اس پر بھی بات کریں گے کہ ایسی انجمن تخلیق کرنے کے کیا لوازمات ہیں ۔ ہمیں چاہئے کہ اپنے ملک کا خود تجزیہ کریں اور بنی بنائی میکانکی سوچ سے بچیں ۔۔۔۔۔۔۔ لیکن پہلا قدم بھی اٹھانا ضروری ہے تب ہی تجزیے پیش کئے جا سکتے ہیں اطلاق سے پہلے ہم اپنے ماضی سے اخذ شدہ یا تاریخی جبر کے تحت عقلی نتائج تو نکال سکتے ہیں (جو کہ ایک مخصوص دائرے تک محدود ہوں گے) یعنی اطلاق کے بعد کے مراحل کیا ہوں گے یہ جب پہلا قدم اٹھایا جائے گا تب ہی دیکھا جائے گا (کچھ بھی پیشگی بات کہنا مہلک ثابت ہو سکتا ہے) ہاں لیکن عصر حاضر میں موجود لوازمات اور اپنے ماضی کو دیکھتے ہوئے تنبیہ ضرور کیا جا سکتا ہے ۔ ‘ تا کہ اگلے مراحل جلد از جلد طے کئے جا سکیں ورنہ اگر دس سال بعد گر کر تباہ ہو کر ہی سیکھنا ہے تو ہمیں تمام کتابوں ، ماضی کا تجربہ ، تاریخ اور کتابیں جلا دینی چاہئیں‘۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...