علمی بوالعجبی
پاکستان کی علمی بوالعجبیوں میں سے ایک یہ ہے کہ یہ سب سے زیادہ مذہبی معاشرہ تو ہے لیکن اس کی جامعات میں تھیولوجی، تقابل ادیان یا دوسرے مذاہب کے متعلق ایک بھی شعبہ نہیں ہے۔ اس کے برخلاف صرف سکول آف اورینٹل اینڈ افریکن سٹڈیز لندن مختلف مذاہب کے متعلق درجن بھر کوررسز آفر کرتا ہے۔ مگر پھر بھی ہمارے ہاں صورتحال یہ ہے کہ اگر پاکستانی مذہب پہ بولنے پر آئیں تو دنیا کے ہر مذہب کے متعلق مطلق رائے دیں گے، بحث کریں گے، مگر علم ندارد۔ یعنی ہم بغیر علم کے مذہب پرست ہیں۔
اگر آپ ملک کے کسی چھوٹے سے قصبے کا چکر لگائیں تو آپ کو مذہبی تنظیموں کی طرف سے جا بہ جا مقدس ہستیوں کی عظمت اور کردار کا اعلان کرتےپوسٹر زاور بینرز آویزاں ملیں گے۔یہ ان ہستیوں کے متعلق کانفرنسوں، اجلاسوں اور نشستوں میں شرکت کی دعوت دیتے ہیں۔ ان پوسٹرز اور بینرز کو دیکھ کر علم کی فروانی کا گمان ہوتا ہے۔مگر ان اجلاسوں اور نشستوں میں جاکر بیٹھیں تو یا تو کفر کی فیکٹری لگی ہوئی ہوتی ہے یا یک طرفہ بیانیے تشکیل دے کر دوسرے اور خود سے مختلف لوگوں کے متعلق چیخ چیخ کر کانوں کے اندر نفرت ٹھونسی جاری ہوتی ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ ان سرگرمیوں میں علمی رنگ نمایاں ہو مگر یہ سازشی نظریات، نفرت اور رجعت پسندی سے لبریز ذہن پیدا کرنے کا سبب بن رہی ہیں۔ یہ کتنا بڑا المیہ ہے کہ سارے پاکستانی علماء مل کر بھی اسرائیل سے شائع ہونے والے صرف ایک جریدے، یروشلم سٹڈیز ان عربک اینڈ اسلام جتنا علم پیدا نہیں کرسکتے۔ امریکہ کی انڈیانا یونیورسٹی، آکسفورڈ، سکول آف اورینٹل اینڈ افریکن اسٹڈیز، ایڈنبرا یونیورسٹی، انسٹیٹیوٹ آف عربک اسٹڈیز پیرس اور دیگر لاتعداد ایسوسی ایشنز کے جریدوں میں جتنا علم سامنے آتا ہے، اس کے سامنے ہماری کوئی اوقات نہیں۔ بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ ایک جریدہ حکیم محمد سعید مرحوم نے ہمدرد اسلامک کے نام سے شروع کیا تھا مگر ہم نے اس کے بانی کو موت کی نیند سلا کر گلوخلاصی کی۔
ہماری یہ علمی تنزلی عقلی جدیدیت کو رد کرکے محض مادی جدیدیت قبول کرنے کا نتیجہ ہے۔ اس عقلی و علمی غربت کی توضیح میں یہ کہنا کہ ہم ارتقائی عمل سے گزر رہے ہیں، اس مقام پر پہنچنے میں وقت لگے گا ، محض عذر لنگ ہے۔ اگر ارتقا والا بہانہ درست ہے تو نئے موبائل کا سیٹ اور گاڑی کا ماڈل خریدتے ہوئے کیوں لاگو نہیں ہوتا۔ اس مادی جدیدیت کو قبول کرتے تو ہم ایک سیکنڈ نہیں لگاتے مگر یہ چیزیں جس ذہن کی اختراع ہیں، اس کو اختیار کرتے ہمیں موت آتی ہے۔
ستم ظریفی تو یہ ہے کہ ہم اپنے سوا باقی سب کو مادیت پرست قرار دیتے ہیں۔ایسی جدیدیت ہمیں نقالی کرنے والے بندر کے قریب تو کر سکتی ہے مگر کسی کو عقلی انسان نہیں بنا سکتی۔اگر ہم نے بندر کی سطع سے اوپر اٹھنا ہے تو فکری جدیدیت اور مابعد الجدیدیت کو سمجھنا ہوگا۔ورنہ اس صدی کے آخر میں ہم انسانی بستیوں میں نہیں بلکہ جنگلوں یا چڑیا گھر کے پنجروں میں پائے جائیں گے۔خرد دشمنی دو پائے سے ستاروں پہ کمند ڈالنے کی صلاحیت چھین کر انھیں چوپایوں کے قریب لے جاتی ہیں۔
مجھے رہ رہ کر افلاطون کی احمقوں کی کشتی والی کہانی یاد آتی ہے۔افلاطون اس کہانی کے ذریعے ایک ایسی کشتی کی روداد بیان کرتا ہے جس کے ناخدا احمق لوگ ہوتے ہیں۔اس کا کپتان ایک مضبوط جسم کا مالک ہے مگر اس کی قوت سماعت و بینائی ناقص ہے۔ اس کو کشتی رانی کے متعلق خاص علم بھی نہیں۔اس کے ساتھ جو دوسرے ملاح ہیں وہ بھی کشتی رانی کے رموز سے ناواقف ہیں، مگر ان میں سے ہر ایک کشتی چلانے پر مصر ہے اور کشتی چلانے کے صحیح طریقہ کار پر آپس میں لڑ پڑتے ہیں۔
یہ علامتی حکایت ایک ایسے معاشرے کا منظر پیش کرتی ہے جس میں سماج اورریاست کا نظم و نسق، دین کی تفہیم اور ذہن کی تربیت جیسی کلیدی ذمہ داریاں ایسے احمق لوگوں کے حوالے کی گئی ہیں جن کو ان امور کے متعلق کچھ بھی علم نہیں ۔آج ہمارے ہاں مذہبی علم جن کے ہاتھوں میں آگیا ہےوہ مذہب کے متعلق علم کم اور مطلق جہالت زیادہ پیدا کر رہے ہیں۔ جہالت کے اس ڈھانچے کو دوام خوف سے دیا جاتا ہے۔اب تک ہمیں یہ کہہ کہ ڈرایا جارہا تھا کہ علما کے خلاف بولنا گناہ ہے کیونکہ علما پیغمبروں کے وارث ہوتے ہیں۔ میں کچھ مہینوں سے بلادالشام میں مقیم ہوں۔ کلاسیک عربی سیکھنے کی کوشش کررہا ہوں۔ادھر رہنے کا فائدہ یہ ہے کہ اس معاشرتی ذہن سے باہر ہوں جہاں میرا جسم رہتا تھا۔یہاں اپنی جہالت سے آگاہ ہونے کے ساتھ ساتھ مولویوں کے بنائے ہوئے مغالطے بھی طشت ازبام ہو رہے ہیں۔
جہاں میں رہتا ہوں وہاں قریب ہی جامعہ دمشق ہے۔جامعہ خوبصورت درختوں اور چہروں سے مزین ہے۔پچھلے دنوں جامعہ میں ایک دوست سے بات ہورہی تھی تو اس نے پوچھا، “پاکستان میں آپ کے مالک کیوں آپ کو مذہب اور معاشرے کی ہر چیز ڈکٹیٹ کرتے ہیں؟” میں سمجھا شاید وہ پاکستانی جاگیرداروں کی بات کر رہا ہے۔ مگر اس نے وضاحت میں کہا کہ وہ پاکستان مولانوں کی بات کررہا ہے۔ میں نے کہا وہ پیغمبروں کے وارث ہیں۔ اس نے میری نفی کی اور کہا کہ تمہارے ہاں مولانا کے معنی بہت محدود ہے۔ انھوں نے تعجب کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کوئی عرب اپنے نام کے ساتھ مولانا نہیں لگاتا، کیونکہ مولانا کے معنی میرے مالک اور آقا کے ہیں اور سوائے اللہ اور اس کے بر گزیدہ بندوں کے ہمارا مالک کوئی نہیں ہوسکتا ہے۔مجھ پر یہ بات بجلی بن کر گری۔ مزید ڈر لگا کہ ہم نے مذہبی ہوکر بھی جہالت میں اپنی روح اور ذہن کے مالک اوروں کو بنایا ہے۔ اس لیے تو ہم میں نہ روح رہی ہے اور نہ ہی عقل اور نہ ہی مذہب۔مذہب کے نام پر جہالت کا اندھیرا غلبہ پارہا ہے۔ مذہب اب فقط عادتوں کی ورزش بن کر رہ گیا ہے۔
ہم وہ ریوڑ ہیں جس کو جاہل چرواہا چرا رہا ہے۔ہم اس ڈر سے اس کی پناہ مانگتے ہیں کہ کہیں بھیڑیے ہمیں نہ کھا جائیں مگر آخر وہی چرواہا ہی ہمیں اپنی تنگ نظر ی کی بھینٹ چڑھا دیتا ہے۔ شام میں قیام کے دوران میں نے اپنے خوف کی تحقیق کی تو پتہ چلا کہ یہ خوف میری جہالت سے جنم لے رہا ہے۔میں مذہبی عالموں کے خلاف بولنے سے ڈرتا تھا کیونکہ حدیث نبوی میں ارشاد ہوا ہے کہ ”ان العلماء ورثۃ الانبیاء” یعنی “علماء انبیاء کے وارث ہیں”۔ علما عالم کا جمع ہے اور عالم صاحب علم، بصیرت والے، اپنے شعبے میں مہارت رکھنے والے، اسکالر اور حتی کہ سائنسدان کو بھی کہا جاتا ہے۔ یہاں دفتری کام میں جو قابل اور تجربہ کار ہوتا/ہوتی ہے اس کو احتراماً معلم کہا جاتا ہے۔ پس یہ ثابت ہوا کہ اگر آپ کسی بھی شعبہ علم میں مہارت، بصیرت اور علم رکھتے ہیں، مدبر اور مفکر ہیں تو آپ عالم ہیں اور انبیا کے وارث ہیں۔ کسی اور کو اس انمول ورثہ پر اجارہ داری کی اجازت مت دیں۔ خاص طور پر وہ لوگ جو جہالت کی قوت سے لیس ہوں۔
آج کے دور میں جدید علوم کے عالم یونیوسٹیاں پیدا کرتی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ جدید زمانے میں نئے پیام دینے والے ذہن جامعات سے ہی پیدا ہوتے ہیں۔ اب مجھے پتہ چلا ہے کہ ہمارے علما نے عالم کے معنی بہت محدود کردیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اگر آپ فسطائیت کے متاثرین میں سے ہیں تو مزید کتابیں پڑھیں اور اگر قوم پرستی کی بیماری میں مبتلا ہیں تو دوسرے اور اجنبی لوگوں سے ملیں۔ میرا خیال ہے کہ اگر کوئی مذہبی جہالت سے متاثر ہے تو سُنے کم اور پڑھے زیادہ اور دوسری ثقافتوں میں مذہب کے مظاہر کو دیکھیں۔ہمارے اذہان تب تک نئی اور اپنی سوچ سوچنے کے قابل نہیں ہو سکتے جب تک ہم “مالکوں” کے پیدا کردہ خوف کو اپنے دل و دماغ سے نکال باہر نہیں کر دیتے ۔ اپنی سوچ تب پیدا ہوتی ہے جب ہم افکار کی جگالی نہ کریں۔ اگر ہمیں اپنے دماغ کو تر وتازہ اور توانا رکھنا ہے تو ہمیں نئے افکار کی غذا کھاناہوگی جس کا پودا تحقیق سے نمو پاتا ہے، ملا کی تقلید سے نہیں۔
فیس بک پر تبصرے