پستیوں کا شیطانی چکر
تکلیف یہی نہیں کہ سرمایہ داروں کی ٹولیوں پر مشتمل مغربی استعماری حکومتیں قومی مفادات کا نام لےکر ساری بشمول اسلامی دنیا کو مختلف حیلے بہانوں سے لوٹتی اور اس کے لیے ہر جائز ناجائز ذرائع سے ان ممالک میں جمہوری نظام کی ترویج، ادارہ جاتی اصلاحات اور صنعت و تجارت کی ترقی کو سبوتاژ کرتی رہتی ہیں۔ ظاہر ہے ان ہتھکنڈوں کے بغیر ان کی اپنی محروم آبادی وہاں کی اسٹبلشمنٹ اور دنیا بھر کی محکوم قومیں اپنی اپنی مقتدرہ حکومتوں کے خلاف سر اٹھائیں گی۔ اور پھر جنگی آلات کی کارپوریشنز، استحصالی سرمایہ دارانہ نظام اور اجارہ دارانہ عالمی سلطنت دھڑام سے گر جائے گی۔
یاد رہے ترقی پذیر اور ترقی یافتہ ممالک دونوں کے استحصالی حکمرانوں کے مفادات ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ یعنی پسماندہ ملکوں کا حکمران ٹولہ تب تک اقتدار کی گدی پر براجمان ہوگا جب تک اسے عالمی اسٹبلشمنٹ کا آشیر باد حاصل رہے گا۔ اس کی قیمت عوام کی محکومی، کمر توڑ ٹیکسز، قرضوں کی بھاری سود سمیت ادائیگی، تجارت کے نام پر لوٹ مار اور نچلے طبقے کی محنت و مشقت یا غربت و افلاس کی صورت میں چکانی پڑتی ہے۔
اس سے زیادہ تکلیف دہ یہ امر ہے کہ خصوصاً اسلامی معاشرے اپنے حصے کی غلطیوں کا کھل کر اعتراف نہیں کرتے بلکہ انہیں بھی غیروں کے سر تھوپ دیتے ہیں۔ اپنی ناکامیوں کی تاویلات پیش کرتے اور انہیں قدرت کی مصلحت سمجھتے ہیں۔ کسی انجانے مسیحا کا منتظر رہتے اور اگر بھولے سے ان کے زخموں پر مرہم رکھنے والا کوئی سیاست دان، معاشرتی مصلح یا مفکر و دانشور سامنے آتا ہے تو اسے پہچاننے کی جگہ دیوار سے لگاتے یا صفحہِ ہستی سے مٹا دیتے ہیں۔ لہٰذا اپنے اپنے مخصوص حالات کے پیش نظر سدھار کی کوئی صورت نہیں بنتی۔
علوم و فنون اور معاشرہ سازی کی جن حکمت عملیوں پر کام کرکے مغرب والے ارتقاء پذیر ہوئے ہیں انہیں اپنے حق میں استعمال کرنے کی جگہ پسماندہ اسلامی معاشرے کئی قسم کی شدید فکری و ذہنی الجھنوں میں پھنس کر مزید زوال پذیری کی طرف جاتے ہیں یا اس رفتار سے آگے نہیں بڑھ پاتے جو ترقی یافتہ تہذیب و تمدن کے لیے ضروری ہے۔
اگر عقل و خرد اور منطقی سمجھ بوجھ کو بروئے کار لایا جائے تو یہ جاننا مشکل نہیں کہ مثلاً جاپان پر ایٹمی ہتھیار گرانے اور اسے تہہ و بالا کرنے کے باوجود جاپانیوں نے اپنے سے طاقتور ممالک سے پنگا لےکر ذلیل ہونے کی جگہ انہی “دشمنوں” کے تعاون سے دنیا کی دوسری اور آج تک تیسری ترقی یافتہ ریاست ہونے کا انتخاب کیا۔ اپنی آزادی تک چین کے کئی صوبے اور علاقے مغربی نوآبادیاتی حکومتوں کے پاس تھے۔ عمر میں پاکستان سے دو سال کم عوامی جمہوریہ چین آج دنیا کی دوسری بڑی معاشی اور عسکری طاقت بن کر امریکہ کے ناکوں چنے چبوا رہا ہے، مگر مجال ہے اس کے باوجود کسی چھوٹی بڑی ریاست کے ساتھ براہ راست الجھ پڑے۔
ہماری دانائی کا منہ چڑانے یہی کافی ہے کہ ہر دوسرے تیسرے دن بھیک مانگنے مغربی ممالک یا ان کے عالمی گماشتوں کے دروازے پر دستک دیتے ہیں۔ لیکن درون خانہ نماز فجر کے بعد انہی “دشمنوں” کو سمندر برد ہونے کی بددعا دیتے، گھر آکر بھیک کا چائے پانی حلق میں انڈیل کر اپنے اپنے “کام کاج” کی طرف اس نیت سے نکل جاتے ہیں کہ بھیک، بھتہ یا قرض کی صورت مغرب سے حاصل شدہ پیسوں میں سے کس طرح حرام کا مال ہتھے چڑھ جائے گا، کیسے کسی کے حق پر ڈاکہ ڈال کر بال بچوں کی پرورش ہوسکے گی، کس کے جائز کاموں میں رخنہ ڈالا جائے گا، کیسے ذاتی اور اجتماعی زمہ داریوں سے جی چرایا جائے گا۔
فیس بک پر تبصرے