ترک چاند اور فصلِ بہار

199

یونہی کل بیٹھے بٹھائے ہماری ماموں زاد، جو ترکی زبان سمجھ بول لیتی ہیں، اچانک بول اٹھیں، ‘ترک سورج مکھی کو ‘ چاند کا پھول’ کہتے ہیں.’ بس پھر کیا تھا پورے خانوادے کو گفتگو کا موضوع مل گیا۔ ہم نے کہا، فارسی میں آفتاب گردان یعنی سورج کے گرد گھومنے والا کہا جاتا ہے اور عربی کی ادوار الشمس بھی یہی ہے۔ والد صاحب بولے، سلیمانی بلوچی میں غالباً روشِ پل، یعنی دن کا پھول کہیں گے۔ اچانک خیال آیا پشتو کے ‘لمر گل’ کے لفظی معنی بھی تو سورج کے پھول کے ہی ہیں۔

رات بھر ترکوں کے چاند اور سورج کے معشوق پھول کے بارے میں سوچتے پڑھتے رہے۔ پہلا انکشاف تو یہ ہوا کہ یہ ایک اور پھول ہے جسے چاند سے ویسے ہی انسیت ہے جیسے سورج مکھی کو سورج سے. اور پھر سوچوں کا تانا بانا بنتا چلا گیا۔ یہ چاند اور سورج اور پھول کا تعلق شاید کچھ اور گہرا ہو۔ تو صاحب ترک معاشرے میں چاند کو اُمیدِ نو، نئے رنگوں، نئی شروعات اور خوبصورتی سے تشبیہہ دی جاتی ہے، تو عورت بھی چاند ہوئی اور اجالا کرنے والا، رات کی تاریکی سے آزاد کرانے والا شجاع سورج ٹھہرا۔

اور پھولوں، رنگوں، چمکتے سورج سے، اس خطے کا حسین جشنِ نوروز یاد آیا۔ اور ساتھ ہی یہ خیال بھی کہ ترک ایران و آذربائیجان جیسے ممالک کے پڑوسی ہیں۔ کچھ نہ کچھ روایات تو ان کی بھی ہوں گی۔ ویسے تو نوروز کے دن تفریح کو نکلنا، قوسِ قزح اور آتش کو خوشبختی کی علامت سمجھنا، نوروز منانے والے تمام خطوں کا خاصہ ہے۔

البتہ اسکے علاوہ بھی ترک علاقوں میں بہار کی گوناگوں داستانیں بکھری پڑی ہیں۔ جیسے فرخ نامی ایک نوجوان کا عشق میں مبتلا ہونا اور خاتون کے والد کے انکار سے بیمار پڑ جانا۔ حتیٰ کہ فرخ کی نظر جنت نظیر گلِ لالہ پر پڑتی ہے اور کچھ ‘اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا’ کی سی کیفیت طاری ہوتی ہے اور بیماری یہ جا، وہ جا۔

پھر ارد گرد کے اور بہت سے علاقوں کی طرح داستانِ عنقا (پرندہ) بھی موجود ہے جو طویل عمر گزرنے کے بعد خود ہی جل کر خاکستر ہو جاتا ہے اور اسی خاک سے ایک نیا جنم لیتا ہے۔ یہ بھی تجدیدِ حیات کی علامت ہے۔ ترک علاقوں میں بہار نامی ایک حسین دوشیزہ، جس کے رقص و سرود سے چِڑیاں چہچہا اٹھتی ہیں، برف پگھل کر پھولوں کی راہ ہموار کرتی ہے، جا بجا درخت اپنی سربز تاب کے ساتھ لہلہاتے ہیں۔ جیسے بہار نامی یہ عورت، سراپا خوش کن سحر و جادو ہو۔

چاند سے خاص لگاؤ کی بات تو پہلے بھی ہو چکی ہے، اکثر ترک نوروز کا آغاز پہلے چاند کی جھلک اور چہل قدمی سے کرتے ہیں۔ پر صاحب کیا ہے نا، ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں، ہسنتے ہنستے کوئی بات ایسی یاد آ ہی جاتی ہے جو دکھ سموئے ہوئی ہو۔ جب ترکوں اور غائبانہ طور پر ایران کے فارسی بانوں کی رنگوں، خوشبو، حسن اور خوشیوں کا ذکر آیا تو نوروز کو اسی جوش و جذبے سے منانے والی ایک قوم یاد آ گئی. میں بہت لمبا چوڑا نہیں لکھوں گی۔ کرد مصنف احمد خانی کی “میم و شین” یاد آ گئی جو کرد علاقوں کی سیاسی بنیادوں پر تقسیم ہونے کے متعلق ہے۔ اس کا دیباچہ بجائے کسی حاکم وقت کے پیغام کے بجائے خانی خانی کا اپنا شعر ہے۔ خلاصہ کچھ یوں ہے کہ عثمانی و ایرانی بحروں کے درمیان ایک خون کا بحر ہے جسے کردستان کہتے ہیں۔

متفرق خیال تھے لکھ دئیے گئے، سوچا کچھ اپنے عزیز ترک برادران کے رواجوں کا ذکر ہو جائے اور ساتھ ہی کچھ لوگوں کو میم و شین سے آگاہی ہو جائے۔

نوروز سے ذرا پہلے چہار شنبہ سوری، ایک قسم کی شبِ بدھ کی ضیافت منائی جاتی ہے۔ اس میں ایک مخصوص جملہ بولا جاتا ہے، ‘سرخی تو از من، زردی من از تو ‘ یعنی تیری سرخی( اے آگ) میری ( صحت/ خوشبختی) ہو جائے اور میری زردی تو لے لے۔ بس یہی جملہ اکثر بےچین کرتا ہے کہ اتنی مماثلتوں کے باوجود سرخ رنگ کو خوشبختی اور نئی زندگی کے بجائے موت اور بدبختی کا نشان کیوں بنا دیا گیا اور اس خطے، اس نوروز منانے والے خون آلود خطے سے زیادہ بہتر سوال یہ اور کہاں کے باسیوں سے کیا جا سکتا ہے۔ کاش ہم سب ایک دوسرے کی زردی کو اپنے دمکتے قرمز کا رنگ پہنانے والے ہوتے۔

بات واقعی نکلی تو دور تلک گئی۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...