شیخ الجبل اور شام میں اسماعیلی ریاست

صلیبیوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے والے اور صلاح الدین ایوبی سے پہلے دشمنی اور پھر دوستی نبھانے والے شیخ الجبل کون تھے؟

1,229

قرون وسطی کی اسماعیلی تاریخ پر جب بھی مورخین اور ادیبوں نے قلم اٹھایا ہے تو ان کی تحریر میں تاریخی حقائق کم اور رومانوی داستانوں کا عنصر غالب نظر آتا ہے۔ آج کے جدید دور میں جبکہ یورپی مستشرقین نے قرون وسطی کے فاطمی اور پھر نزاری اسماعیلیوں پر لاتعداد تحقیقات کی ہیں اور افسانوی داستانوں کے برعکس اصل حقائق کو سامنے لانے میں کامیاب ہوئے ہیں مگر پاکستان جیسے معاشروں میں آج بھی افسانوی داستانوں ہی کو لے کر اسماعیلی تاریخی شخصیات اور واقعات کے افسانوی ورژن پر یقین رکھنے پر ہی اکتفا کرتے ہیں ۔ سیاسی حالات موافق نہ ہونے کی وجہ سے اسماعیلی عموماً روپوش رہنے کو ترجیح دیتے تھے۔ دسویں اور تیرھویں صدی کے بیچ مصر، شام اور ایران کے جن علاقوں میں اسماعیلیوں کی حکومتیں رہیں وہاں وہ سُنی اکثریتی علاقوں کے بیچ اقلیتی آبادی تھے۔ انہیں مخالف سیاسی اور مذہبی گروہوں کی جانب سے ہر وقت اپنی بقا کا ڈر رہتا تھا اس لیے وہ محتاط اور خاموش رہنے کو ترجیح دیتے تھے۔ چنانچہ مخالفین کی طرف سے ان کے خلاف پراپیگنڈہ پر مبنی افسانوی کہانیاں گھڑ لی گئیں ۔ ایران کے الموت میں 1273ء میں ہلاکو خان کے ہاتھوں آخری اسماعیلی ریاست کے خاتمے کے بعد اسماعیلی مزید پردے میں چلے گئے اور انہیں اپنے خلاف پھیلائے گئے پراپیگنڈہ کا مقابلہ کرنے کا موقع نہ ملا اور ان سے متعلق پھیلائے گئے قصے کہانیاں ہر سُوں پھیل گئیں۔

دور جدید میں دہشت گردوں کے خود کش حملوں کے تانے بانے ایران میں قلعہ الموت میں نزاری اسماعیلی ریاست کی بنیاد رکھنے والے حسن صباح سے جوڑے جاتے ہیں۔ کچھ تاریخی فکشن نگاروں بالخصوص مولانا عبدالحلیم شرر نے اپنے مشہور اردو ناول ‘فردوسِ برین’ کا مرکزی موضوع اسی قلعہ الَموت کو بنایا ہے۔ اسی طرح مشہوراطالوی سیاح مارکو پولو نے بھی اپنے سفر نامے میں اس اسماعیلی ریاست اور فدائین کا مبالغہ آمیز ذکر کیا ہے۔ حالانکہ مارکو پولو جس وقت ان علاقوں سے گزرے تھے تب تک وہاں اسماعیلی ریاست کا خاتمہ ہوئے کئی برس گزر چکے تھے۔ ان سب کی وجہ سے اسماعیلیوں کی تاریخ اور بالخصوص ایران میں حسن صباح کی سرپرستی میں 1090ء میں قائم ہونے والی نزاری اسماعیلی ریاست اور اس سے جُڑی شخصیات کے گرد افسانوں کا ہالہ قائم ہوگیا ہے ۔ ان پُراسرار شخصیات میں حسن صباح کے علاوہ شیخ الجبل کے نام سے مشہور اسماعیلی داعی اور سپہ سالار رشید الدین سنان بھی شامل ہے۔

شیخ الجبل (اولڈ مین آف ماؤنٹین ) کی اصطلاح صلیبی وقائع نگاروں نے شام کے نامور نزاری داعی و سپہ سالار رشید الدین سنان کے لئے استعمال کیا ہے، کیونکہ صلیبی جب یروشلم کو فتخ کرنے کے بعد اردگرد کے علاقوں پر بھی اپنے پنجے گاڑھنے لگے تو صلاح الدین ایوبی کے علاوہ شامی سرزمین پر اسماعیلی سپہ سالار رشید الدین سنان کے ساتھ ان کی مڈھ بھیڑ ہوتی رہی۔

رشید الدین کا پورا نام سنان بن سلمان بن محمد ابولحسن البصری تھا جنہوں نے بصرہ کے قریب ایک شیعہ اثناعشری گھرانے میں آنکھ کھولی۔ سنان کا بچپن بصرہ میں گزرا جہاں انہوں نے ابتدائی تعلیم حاصل کی اور تدریس کے پیشے سے منسلک ہوگئے۔ بعد میں اسماعیلی عقیدے میں داخل ہونے کے بعد مزید تعلیم کے لئے ایران کے میں اسماعیلی قلعہ اور علمی مرکز الموت چلے گئے۔ اپنے الموت میں قیام کے دوران انہوں نے اسماعیلی مذہب کے اصول، فقہ، فلسفہ اور “اخوان الصفہ” (جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے اس کے مولفین اسماعیلی تھے) کا مطالعہ کیا اور مستقبل کے اسماعیلی امام حسن ثانی کے انتہائی قریبی ساتھیوں میں شمار ہونے لگے۔

557ھ/ 1162ء میں حسن ثانی الموت کے حکمران اور اسماعیلی امام کی حیثیت سے برسر اقتدار آئے تو رشید الدین سنان کو بطورچیف داعی اور اپنے نمائندے کے طور پر شام کی جانب روانہ کردیا۔

تاریخی شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ سنان انتہائی احتیاط کے ساتھ موصل، رقہ اور حلب سے ہوتے ہوئے کہف پہنچے جو جبل بہرا میں اسماعیلیوں کا اہم گڑھ تھا اور یہاں اسماعیلیوں کے پاس قلعہ بھی موجود تھا۔ اس دور میں شام پر نورالدین زنگی حکومت کررہے تھے۔ سنان نے دعوت کے انتظامات سنبھالنے کے بعد اسماعیلیوں کو منظم کرنا شروع کردیا اور شام کی سیاست پر بھی گہری نگاہ رکھی۔ ایک طرف نور الدین زنگی اپنے اقتدار کو بڑھانے میں مصروف تھے تو دوسری جانب صلیبی بھی ارض مقدس پر قبضے کے بعد اپنی طاقت بڑھا رہے تھے۔

صلیبیوں کی خود مختار تنظیمیں ہسپٹلرز اور ٹمپلز شامی سرزمین پر اپنا تسلط مستحکم کرنے کی کوشش کررہی تھیں اور اپنے مفتوحہ علاقوں کے عوام سے باج وصول کرنے میں مصروف تھے۔ اسماعیلی نزاری دعوت کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے بعد سنان ایک خود مختار پالیسی پر گامزن ہوگئے۔ تاریخ میں یہ بات بھی واضح ہے کہ اقتدار سنبھالنے کے بعد سنان یروشلم کے صلیبی حکمرانوں سے اپنے علاقوں پر لاگو باج سے اپنی کمیونٹی کو خلاصی دلانے کے لئے سفارتی تعلقات استوار کرنے کی متعدد کوششیں کی مگر صلبیوں کی خود مختار تنظیمیں جیسا کہ ٹمپلز اور ہسپٹلرز نے ان کوششوں کو کامیاب ہونے نہیں دیا۔

569ھ/ 1173ء میں سنان نے یروشلم کے حکمران امالرک اؤل کے پاس سفارت بھیج دی اور ان سے اسماعیلیوں پر عائد باج کو ختم کرنے کی سفارش کی جس کو قبول کیا گیا مگر ہسپٹلرز اور ٹمپلرز کو یہ سفارش ناگوار گزری اور واپسی پر سفارتی وفد پر انہوں نے شب خون مار کر عملے کو قتل کردیا۔

جب صلاح الدین ایوبی نے شام کے پہاڑی خطوں کے اسماعیلی قلمرو کے لئےخطرے کی گھنٹی بجا دی تو صلاح الدین ایوبی اور سنان کے تعلقات خراب ہوئے تاہم براہ راست کوئی بڑا فوج تصادم نہ ہوا۔ صلاح الدین ایوبی کے فتوحات نے حلب کے نور الدین زنگی کو خوف زدہ کردیا جس کے باعث 570ھ/1174ء کو زنگی اور سنا ن کے درمیان دوستانہ تعلقات قائم ہوئے اور دونوں صلاح الدین ایوبی کے خلاف دونوں متحد ہوگئے۔ صلاح الدین ایوبی اس سے پہلے مصر میں قائم اسماعیلیوں کی فاطمی ریاست کو تاراج کرکے اس پر قبضہ کردیا تھا اور اب شام اور ایران میں اسماعیلیوں کی قائم کردہ نزاری ریاست کے در پہ تھا۔ یوں وہ اسماعیلیوں کی بقا کے لیے خطرہ بن چکے تھے اور شیخ الجبل اور اسماعیلیوں سے ان کی عداوت قابلِ فہم اور قدرتی تھی۔

جب 570ھ/ 1174ء کو صلاح الدین ایوبی دمشق میں داخل ہوئے تو اس کے خطرے کو بھانپتے ہوئے حلب کے حکمران نورالدین زنگی کا جانشین الملک الصالح نے سنان کے پاس سفارت بھیج کر انہیں ایوبی کو اپنے فدائیوں کی مدد سے قتل کروانے کی درخواست کی جس کے بدلے میں سنان کو نقد رقم اور زمین بھی دے دی گئی جسے سنان نے قبول کیا اور جمادی الاخر 570ھ/ 1174ء جنوری 1175ء میں صلاح الدین کے فدائین ایوبی کے کیمپ میں گھس کر ان کو قتل کر نے کی کوشش کی مگر ناکام رہے۔

صلاح الدین ایوبی پر فدائین کی جانب سے دوسرا حملہ 11 ذولقعد 571ھ/ 22مئی 1176ء میں کیا گیا جب صلاح الدین حلب کے شمال میں غزازکے محاصرے پر تھا جس کی وجہ سے انہیں معمولی چوٹ آئی۔ ان حملوں کے بعد صلاح الدین آگ بگولہ ہوگئے اور اسماعیلیوں سے نمٹنے کا حتمی فیصلہ کیا اور اسماعیلی قلمرو میصاف کا محاصرہ کردیا مگر یہ محاصرہ مختصر رہا اور ایوبی نے سنان کے ساتھ پرامن معاہدہ کرکے محاصرہ اٹھا دیا۔

صلاح الدین ایوبی کی اس پسپائی کی مختلف توجیہات بیان کی گئی ہیں۔ ایک مشہور مگر افسانوی طرز کی روایت یوں ہے کہ ایک رات صلاح الدین ایوبی اپنے خیمے میں سوئے ہوئے تھے کہ ایک فدائی اندر داخل ہوا اور ان کے سرہانے زمین میں خنجر گھونپ کر اس کے ساتھ ایک خط رکھا جس میں لکھا ہوا تھا کہ اگر ہم خنجر لے کر آپ کے سرہانے تک آسکتے ہیں تو آپ کا قتل بھی کوئی مشکل کام نہیں۔ اس خط میں فدائین کی ایک مخصوص علامت بھی کندہ تھی۔ ایوبی نیند سے بیدار ہونے کے بعد یہ سارا کچھ دیکھا تو ان کے اعصاب جواب دینے لگے اور انہوں نے محاصرہ اٹھا کر اسماعیلیوں کے ساتھ پُرامن معاہدے پر مجبور ہوگیا ۔ اس کے بعد صلاح الدین ایوبی اورسنان کے درمیان تعلقات کا ایک نیا دور شروع ہوا اور دونوں رہنماؤں کے درمیان دوستانہ تعلقات مستحکم ہوگئے جبکہ صلیبیوں اور سنان کے درمیان تعلقات انتہائی کشیدہ ہوگئے۔

ربیع الآخر 588ھ/ اپریل 1192ء میں شام کے نزاری اسماعیلی فدائین نے یروشلم کے نو منتخب بادشاہ امالرک اول کے داماد مارقس کونراڈ آف مونٹ فرات کو ہلاک کردیا جو اسماعیلی فدائیوں کی جانب سے کیا جانے والا سب سے بڑا قتل کا واقعہ تھا۔ ابن اثیر کی روایت کے مطابق اس قتل کے لئے صلاح الدین ایوبی نے سنان سے درخواست کی تھی اور دونوں کی ملی بھگت سے انہوں نے اپنے بہت بڑے حریف کو راستے سے ہٹانے میں کامیاب ہوئے۔ اس کے فورا ًبعد صلاح الدین ایوبی اور صلیبیوں کے درمیان امن کا معاہدہ طے پایا تو صلاح الدین کی درخواست پر شام کے نزاری اسماعیلی علاقوں کو بھی اس معاہدہ امن میں شامل کیا گیا۔

یہی سے صلیبی وقائع نگاروں نے سنان کو اولڈمن آف ماؤنٹین یعنی شیخ الجبل کا نام دیا اور ان سے متعلق مختلف قسم کی افسانوی داستانیں منسوب کی گئیں۔ خصوصا اپنے جانثار فدائین کو حشیش پلا کر ان کے ذریعے مخالفین کے قتل کی مبالغہ آمیز داستانیں انہی صلیبی وقائع نگاروں کی تخلیقات ہیں۔ شیخ الجبل کا عرف کچھ لوگ حسن صباح سے بھی منسوب کرتے ہیں جو درست نہیں ہے۔

شیخ الجبل یعنی رشید الدین سنان تیس برسوں تک شام کے نزاری اسماعیلیوں کی ولولہ انگیز قیادت کرنے کے بعد بالآخر 1192 یا 1193ء میں قلعہ کہف میں وفات پاگئے اور یوں شام کی تاریخ میں اسماعیلیوں کا یہ اہم دور اختتام پزیر ہوا۔

حوالہ جات

1۔ اسماعیلی تاریخ و عقائد، فرہاد دفتری ، مترجم ، ڈاکٹر عزیز اللہ نجیب

2۔ اسماعیلی تاریخ کاایک مختصر جائزہ ، فرہاد دفتری

3۔ ایگل نیسٹ، پیٹر ویلی

4۔ شام کے اسماعیلی ، ناصح احمد میرزا

5۔اساسین لیجنڈ ، فرہاد دفتری

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...