نوآبادیاتی دور کا قطر (1913ء تا 1971ء)
خلیجی ممالک میں قطر کوایک خاص امتیازی حیثیت حاصل ہے جس کا اعتراف بین الاقوامی سطح پر بھی کیا جاتا ہے۔ لیکن ایک چھوٹا سا ملک باوجود تنازعات و مشکلات کے یہاں تک کیسے پہنچا، یہ ایک منفرد تاریخ ہے جس میں آلِ ثانی کا کردار بہت اہم ہے۔ عاطف ہاشمی قطر میں مقیم محقق اور مدرس ہیں، انہوں نے زیرنظر مضمون میں قطر کی تاریخ سے متعلق حقائق پیش کیے ہیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ اس چھوٹے سے ملک نے کیسے تیزی کے ساتھ ترقی کی منازل طے کیں۔ موجودہ قسط قطر کے نوآبادیاتی دور کے حوالے سے بات آگے بڑھاتی ہے۔ (مدیر)
29 نومبر 1913ء میں ہونے والے “اینگلو عثمانی معاہدے” میں عثمانی حکام قطر سے دستبردار ہو چکے تھے، لیکن عثمانی افواج بدستور دوحہ میں موجود تھیں۔ پہلی عالمی جنگ کی بھڑکتی ہوئی آگ سلطنت عثمانیہ کو اپنی لپیٹ میں لے چکی تھی۔ برطانوی افواج کی طرف سے محاصرے کی وجہ سے قطر میں موجود عثمانی افواج ہر طرح کی مالی وغذائی امداد سے محروم تھیں، ان کی اس حالت کو دیکھتے ہوئے برطانیہ کے کہنے پر شیخ عبداللہ بن جاسم نے 19 اگست1915ء کوانہیں قطر چھوڑنے کی وارننگ دی۔ عثمانیوں کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ وہ یہ پیشکش قبول کر کے بحفاظت واپسی کی راہ لیں۔ اس طرح تقريباً 43 برس پر محیط عثمانی تسلط کا تو خاتمہ ہو گیا لیکن ان کی جگہ برطانوی افواج نے لے لی جن کے تسلط کا عرصہ (1913 تا 1971ء) 58برس بنتا ہے۔ اس عرصہ میں قطری شاہی خاندان آل ثانی کے تین فرمانرواؤں ( شیخ عبداللہ بن جاسم، شیخ علی بن عبداللہ اور شیخ احمد بن علی)نے قطر پر حکومت کی جو کہ بانی قطر شیخ جاسم کے بالترتیب بیٹے، پوتے اور پڑپوتے ہیں۔ آئیے ان کے ادوار کا الگ الگ جائزہ لیتے ہیں۔
شیخ عبداللہ بن جاسم کا قطر (1913ء تا 1949)
شیخ محمد بن ثانی (1851-1878ء)نے جس ریاست کی داغ بیل ڈالی تھی اس کو الگ حیثیت سے تسلیم کروانے کا کام ان کے بیٹے اور بانی قطر شیخ جاسم بن محمد (18 دسمبر 1878-17 جولائى 1913ء)کر چکے تھے۔ شیخ عبداللہ بن جاسم کو اس نوزائیدہ ریاست کے استحکام اورترقی کا مرحلہ درپیش تھا۔ لیکن زمام اقتدار سنبھالتے ہی انہیں پے در پے مسا ئل کا سامنا کرنا پڑا جن میں سرفہرست پہلی جنگ عظیم (1914-1918ء)ہے۔ اس کے ساتھ ہی 1918ء میں سپین سے پھیلنے والی وباء قطر میں بھی عام ہو گئی جس کی وجہ سے ان گنت اموات واقع ہوئیں، اسی لیے اس سال کو دعائے مغفرت کا سال (سنۃ الرحمۃ) کہا جاتا ہے کہ ہر طرف سے اموات کی خبریں سن کر ان کے لیے رحمت ومغفرت کی دعائیں کی جاتی تھیں۔
1923ء میں سمندری طوفان آفت بن کر آیا جس سے بے شمار لوگ ڈوب کر جاں بحق ہوئے۔ چنانچہ اس سال کو “سنۃ الطبع” کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ قطر کے مقامی عربی لہجے میں “طبع” ڈوبنے کو کہتے ہیں، یعنی ڈوبنے کا سال۔ اس طوفان کا قطر کی موتیوں کی تجارت پر بهى منفی اثر پڑا، اس لیے 1925ء کو موتیوں کی تجارت کے لیے مندی کا سال کہا جاتا ہے۔
1939ء میں دخان کے مقام پر پیٹرول کی دریافت کے لیے پہلا کنواں کھودا گیا لیکن دوسری جنگ عظیم چھڑ جانے کی وجہ سے یہ منصوبہ تعطل کا شکار ہو گیا۔ یہ جنگ 1945ءتک جاری رہی جس کے اثرات باقی دنیا کی طرح قطر پر بھی پڑے۔ لیکن شیخ عبداللہ بن جاسم ان تمام مسائل کے سامنے استقامت کا پہاڑ بن کر کھڑے رہے، اسی لیے ان کے پورے دور کو ثابت قدمی کا دور کہا جاتا ہے۔
1913ء میں اینگلو عثمانی معاہدے کے بعد برطانیہ نے قطر کے ساتھ معاہدہ کرنے کی کوشش شروع کر دی تھی اور قطر کے علاوہ تمام خلیجی ریاستیں معاہدے پر دستخط کر چکی تھیں، دوسری طرف عالمی جنگ میں عثمانیوں کی شکست کے بعد برطانیہ کے ساتھ معاہدہ کرنا اب قطر کی مجبوری بن چکی تھی۔ شیخ عبداللہ جانتے تھے کہ اگر آج یہ معاہدہ نہ کیا تو آل سعود کے بڑھتے ہوئے قدم قطر کی شناخت کو بھی تہس نہس کر دیں گے۔ چنانچہ انہوں نے اپنا مستقل وجود برقرار رکھنے کی قیمت پر برطانیہ کے عارضی تسلط کو قبول کر لیا جوکہ یقینا ان کا ایک دانشمندانہ فیصلہ تھا۔
اس طرح 29نومبر 1916ء کو شیخ عبد اللہ بن جاسم اور برطانوی نمائندے سر پرسی کوکس کے درمیان 11 نکات پر مشتمل معاہدہ ہوا جس کے مطابق شیخ عبد اللہ نے تسلیم کیا کہ دیگر خلیجی ریاستوں کی طرح وہ بھی اسلحہ اور غلاموں کی خرید وفروخت ترک کردیں گے اور بحری قزاقوں سے برطانوی بحری جہازوں کو تحفظ فراہم کریں گے، نيز برطانیہ سے منظوری لیے بغیر وہ کسی بھی ملک یا ریاست سے نہ تعلقات قائم کریں گے نہ ہی کسی قسم کی تجارت کی اجازت دیں گے۔ تاہم شیخ عبد اللہ نے شق نمبر سات، آٹھ اور نو پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا جن میں بالترتیب برطانیہ کی انڈین رعایا کو تجارت کی غرض سے قطر داخلے کی اجازت، برطانوی وائسرائے کی قطر میں تعیناتی اور قطر میں برقی ولاسلکی ڈاک کا نظام قائم کرنے کی دفعات شامل تھیں۔ شیخ عبداللہ کے مطابق یہ دفعات غیر ضروری تھیں، جسے برطانوی حکومت نے بھی تسلیم کیا اور انہیں یہ کہہ کرمعاہدے سے خارج کر دیا کہ ضرورت پڑنے پر ان دفعات پر دوبارہ بات کی جا سکتی ہے۔
معاہدے کی شق نمبر 2، 10 اور 11برطانیہ کو اس بات کی پابند بناتی ہیں کہ وه قطر کو ہر قسم کے بری و بحری حملوں سے تحفظ فراہم کرے گا۔ اس معاہدے کے تحت اگرچہ قطر نے وقتی طور پر خارجہ تعلقات میں خود مختاری کو گروی رکھ دیا تھا لیکن بدلے میں دنیا کے سامنے اپنی الگ پہچان قائم کر لی۔ یہ معاہدہ اگرچہ 3نومبر کو ہو گیا تھا تاہم انڈیا میں برطانوی حکومت کی طرف سے اس کی توثیق 23 مارچ 1918ء کو ہوئی۔ ادھر جونہی عالمی جنگ اختتام کو پہنچی برطانوی حکومت نے شیخ جاسم کو 1915ء میں ترک افواج کو پرامن انخلاء پر آمادہ کرنے پر سر کا خطاب دیا اور اس طرح شیخ جاسم کو دیگرخلیجی ریاستوں کے سربراہوں میں نمایاں مقام ملا۔
قطر سعودیہ حدبندی کا قضیہ
جس سال اینگلو عثمانی معاہدہ ہوا اسی شیخ عبد العزیز بن عبدالرحمن آل سعود احساء کے مقام سے عثمانی افواج کو پسپائی اختیار کرنے پر مجبور کیا۔ برظانیہ کے لیے آل سعود کی یہ پیش قدمی غیرمتوقع تھی، انہیں خدشہ لاحق ہوا کہ کہیں سعودی افواج قطر اور عمان کی ساحلی پٹی کی طرف بھی نہ بڑھیں۔ اس لیے ابن سعود کو متعدد خطوط کے ذریعہ متنبہ کیا کہ وہ ایسے کسی بھی اقدام سے باز رہیں۔ شیخ ابن سعود نے 1915ء میں برطانیہ کے ساتھ ہونے والے معاہدہ قطیف میں یہ تسلیم کیا کہ وہ برطانیہ کی چھتری تلے آنے والی قطر سمیت کسی بھی خلیجی ریاست کی طرف پیش قدمی نہیں کریں گے۔ 2 دسمبر 1922ء کو العقیر کانفرنس کے موقع پر پرسی کوکس کی ابن سعود سے ملاقات ہوئی جس میں کوکس نے انہیں باور کروایا کہ قطر سعودیہ سے الگ ایک ملک ہے جس کی اراضی سلوی سے خورالعدید تک پھیلی ہوئی ہیں۔
27مئی 1927ء کو جدہ معاہدہ میں بھی برطانوی حکومت نے ابن سعود کو معاہدہ قطیف کی پاسداری کرنے پر زور دیا۔ تاہم جب اکتوبر 1932ء میں شیخ عبد اللہ بن جاسم نے انگلش پرشین پیٹرولیم کمپنی کو اپنی سرزمین سے پیٹرول نکالنے کی اجازت دی تو سعودیہ نے اس پر یہ کہہ کر اعتراض کیا کہ دونوں ملکوں کی حدود تاحال واضح نہیں ہیں اس لیے حاکم قطر کو کوئی حق نہیں کہ وہ ایسا کوئی معاہدہ کریں۔ برطانیہ نے اس پر احتجاج کرتے ہوئے اسے معاہدہ جدہ اور العقیر کانفرنس کے موقع پر ہونے والے اتفاق کے منافی قرار دیا۔
17 مئی 1935 ء میں انگلش پرشین پیٹرولیم معاہدے کی تجدید ہوئی جس پر شیخ عبداللہ بن جاسم نے دستخط کیے۔ جس پر ابن سعود نے پھراعتراض کیا اور 16 اگست 1935ء کو حاکم قطر کو خط لکھ کر دونوں ملکوں کے مابین حد بندی کے تصفیے تک اس معاہدے سے باز رہنے کا عندیہ دیا۔ جس کے جواب میں شیخ عبداللہ نے لکھا:
“قطر کی حدود ہر قریب و بعید کے لیے بالکل واضح ہیں، پیٹرولیم کا یہ معاہدہ طے پا چکا ہے اور دستخط بھی ہو چکے ہیں جس پر مزید کسی قیل وقال کی گنجائش نہیں۔ “
(عبدالقادر حمود، دراسات فی الخلیج العربی الحدیث، ص ۵۰)
24 جون سے 8 جولائی 1935ء تک لندن میں سعودی وفد اور برطانوی عہدیداران کے مابین قطر سعودیہ حدود پر مذاکرات ہوئے۔ جن میں برطانوی عہدیداروں نے واضح کیا کہ دخان کے جنوب میں واقع جبل نخش قطر کا حصہ ہے لیکن دوسری طرف سے بھی یہی اصرار تھا کہ یہ سعودیہ کا حصہ ہے چنانچہ یہ مذاکرات بلا نتیجہ ختم ہو گئے۔
الغرض سعودی عرب کی جانب سے احتجاج کے باوجود پیٹرول نکالنے کا کام 1940ء تک جاری رہا یہاں تک کہ دوسری جنگ عظیم شروع ہو گئی۔ 1946ءمیں جنگ کے اختتام کے بعد دوبارہ کام شروع ہوا اور بالآخر مسعید بندرگاہ سے پہلی مرتبہ یہ تجربہ کامیاب ہوا اور پیٹرول درآمد ہوا۔ حدبندی پر تصفیے کے لیے دونوں ملکوں کے مابین وقتا فوقتا مذاکرات جاری رہے یہاں تک کہ 21مارچ 2001ء میں دوحہ کے دیوان امیری میں حدبندی کی حتمی فائل پر دستخط ہوئے۔ قطر کی جانب سے وزیرخارجہ شیخ حمد بن جاسم بن جبر آل ثانی نے جبکہ سعودی عرب کی جانب سے وزیرخارجہ شہزادہ سعود بن فیصل آل سعود نے دستخط کیے۔ اس طرح تقریبا ایک صدی سے جاری حدبندی کا یہ تنازعہ انجام کو پہنچا۔
25مئی 1948ء کو شیخ عبداللہ بن جاسم کے بیٹے اور ولی عہد شیخ حمد بن عبد اللہ کا انتقال ہوا تو آپ نے دوسرے بیٹے شیخ علی بن عبداللہ کو ولی عہد مقرر کیا اور برطانیہ سے اس کی توثیق چاہی۔ اب چونکہ قطر سے پیٹرول نکلنا شروع ہو چکا تھا اس لیے موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے برطانیہ نے یہ شرط رکھی کہ 1916ء کے معاہدے کی شق نمبر 7، 6 اور 8 کو بھی معاہدے کا حصہ مانا جائے اور اس کے مطابق برطانوی وائسرائے کو قطر میں تعینات کیا جائے۔ نئے ولی عہد نے یہ شرط منظور کر لی جس کے بعد برطانیہ نے بھی انہیں ولی عہد تسلیم کر لیا۔
30جون 1948ءکو شیخ عبداللہ نے اپنی ڈھلتی عمر کے پیش نظر اقتدار اپنے بیٹے اور ولی عہد شیخ علی بن عبداللہ کو سونپ دیا جس کے تین دن بعد جون ولٹن قطر کے پہلے باقاعدہ وائسرائے مقرر ہوئے۔ شیخ عبداللہ بن جاسم 25 اپریل 1957 ء کو اپنے رب کے حضور پیش ہو گئے۔
شیخ علی بن عبداللہ کا قطر
قطر کے چوتھے حکمران شیخ علی بن عبداللہ 1896ء کو پیدا ہوئے اور 20 اگست 1949ء کواپنے والد کے سبکدوش ہونے کے بعد جب مسند اقتدار پر جلوہ نشین ہو رہے تھے تو پیٹرول کی نئی نئی دریافت کی وجہ سے قطر پوری دنیا کے لیے مرکز نگاہ بن چکا تھا۔ 1952ء میں شیخ علی نے عراق اور شیل پیٹرول کمپنی کے ساتھ معاہدے پر دستخط کیے اور 50فیصد نفع حاصل کیا۔ شیخ علی نے یہ پیسہ قطرکی تعمیر وترقی پر لگا دیا۔ شہریوں کو تعلیم، صحت اور پانی و بجلی مفت فراہم کرنا شروع کی، یہاں تک کہ اول اول گاڑیوں کے لیے پیٹرول بھی مفت تھا۔ تاوقتیکہ گاڑیوں کی تعداد میں اضافہ ہو گیا اور پیٹرول کی خریدوفروخت عام ہو گئی۔ آپ نے 1954ءمیں بجلی پیدا کرنے کے لیےگرڈ سٹیشن قائم کیا اور 1957ء میں عوامی سہولت کے لیے الرمیلہ میں ہسپتال تعمیر کیا۔ اس کے ساتھ باقاعدہ مالیات کا نظام قائم کیا اور قطر کے حالیہ امیر کے دادا شیخ خلیفہ بن حمد کو پہلا وزیر مقرر کیا۔
شیخ علی بن عبداللہ کی علم اور علما سے محبت بے مثل تھی، قطر سمیت متعدد ملکوں میں آپ نے مساجد کی تعمیر کے لیے خصوصی فنڈز جاری کیے۔ قطری شہریوں کے لیے ماہانہ وظائف کا اجراء کیا۔ نسل نو کی تعلیم ان کی توجہ کا خاص مرکز تھی، یہی وجہ ہے کہ معارف کے نام سے تعلیمی نیٹ ورک قائم کیا او ر اس کے سربراہ کو بہتر سے بہتر اساتذہ کا انتخاب کرنے کی تلقین کی۔ معارف کے مدیر کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں:
“ہمیں قطعا ایسے اساتذہ کی ضرورت نہیں جو فکری اعتبار سے راہ راست سے ہٹے ہوئے ہوں اور دینی فرائض سے غفلت برتتے ہوں، کیونکہ ہمارے لیے سب سے قیمتی سرمایہ ہماری نئی نسل ہے۔ ان کا فطرت پر قائم رہنا ایسی تعلیم سے بدرجہا بہتر ہے جو انہیں الحاد کی طرف لے جائے۔ “
(فیصل بن قاسم، قطر التی عشناھا، ص ۱۴۷)
بچیوں کی تعلیم کے لیے الگ سے ادارے قائم کیے، نیز ایک نیا شہر الریان آباد کیا۔ الغرض قطر کی سرزمین سے نکلنے والی دولت کو اسی میں بسنے والوں پر لٹا دیا۔ اکتوبر 1960ء میں اپنے بیٹے شیخ احمد بن علی کے حق میں دستبردار ہو کر حکومت سے کنارہ کش ہو گئے۔ 31اگست 1974ء میں آپ کا بیروت میں انتقال ہوا اور قطر کے شہر ریان میں مدفون ہوئے۔
شیخ احمد بن علی کا قطر
شیخ احمد بن علی قطر کے پانچویں حکمران اور پہلے امیر ہیں۔ آپ کے عہد اقتدار میں ہی قطر برطانوی تسلط سے آزاد ہوا۔ آپ 1920ء میں متولد ہوئے اور 24 اکتوبر 1960ء کو تخت نشین ہوئے، شیخ خلیفہ بن حمد کو آپ کا ولی عہد مقرر کیا گیا۔ آپ کے والد کے دور میں اگر قطر کی زمینی حدود سے پیٹرول دریافت ہوا تو آپ کا دور آتے ہی قطری سمندری حدود بھی اہل قطر کے لیے فیاض ہو گئیں۔
آپ نے مجلس شور ی قائم کی، قطر نیشنل بنک کی بنیاد رکھی اور قطر ریڈیو و ٹی وی کا اجرا ءکیا۔ اپنے والد کے دور میں شروع ہونے والے تعلیمی منصوبوں کو آپ نےآگے بڑھایا اور پیٹرول کی معیشت کو استحکام بخشا۔ 1968ء میں خلیج کی 9 ریاستوں کے انضمام پر مذاکرات شروع ہوئے جن میں شیخ احمد بن علی نے بھی شرکت کی لیکن نتیجہ خیز ثابت نہ ہوئے اور سات ریاستوں نے متحدہ عرب امارات کے نام سے اتحاد قائم کیا جبکہ قطر اور بحرین نے مستقل حیثیت باقی رکھی۔ جس کے بعد2 اپریل 1970ء کو قطر کا عبوری نظام ترتیب دیا گیااور ولی عہد شیخ خلیفہ بن حمد کی زیرنگرانی وزرا ء کی کابینہ تشکیل دی گئی۔
3ستمبر 1971ء کو قطر نے آزاد و خومختار ریاست ہونے کا اعلان کیا اور 1916ء کے اینگلو قطر معاہدے کو کالعدم قرار دے دیا، جس کے بعد شیخ احمد بن علی کے ہاتھ پر قطر کے پہلے امیر کی حیثیت سے بیعت کی گئی۔ اس طرح آپ کی امارت کے ساتھ ہی برطانوی سامراج کا 58 سالہ دور اپنے اختتام کو پہنچا اور قطر مکمل طور پر ایک آزاد اور خودمختار ملک کی حیثیت سے دنیا کے نقشے پر ابھرا۔
25 نومبر 1977ء کو لندن میں آپ کا انتقال ہوا اور اپنے والد کے آباد کردہ شہر الریان کے قبرستان میں دفن ہوئے۔ 2022ء کے فیفا ورلڈ کپ کے موقع پر الریان میں ہی آپ کی یادگار کے طور پر ایک گراؤنڈ تعمیر کیا گیا جسے ” احمد بن علی اسٹیڈیم” کا نام دیا گیا۔ یہ اسٹیڈیم جہاں شیخ احمد بن علی کی یاد دلاتا ہے وہاں قطر کی آزادی کی بھی علامت ہے کہ آپ کے دور میں ہی قطر کو آزادی و استقلال جیسی عظیم نعمت ملی۔
فیس بک پر تبصرے