طارق فتح کا مسئلہ کیا تھا؟

1,380
جب سن 2020 میں بھارتی شاعر اور دانشور جاوید اختر نے طارق فتح کو ایک پھل فروش کی جعلی ویڈیو پھیلانے پر کھری کھری سنائیں تو انہوں نے طارق فتح کو ھندو پریشد (VHP) کا ترجمان بھی کہا.
طارق فتح اپريل 2023 میں چوہتر سال کی عمر میں اس جہان سے گزر گئے۔ ان کا انتقال کینیڈا میں ہوا جسے وہ اپنا نیا وطن بنا چکے تھے۔ خود جاوید اختر اپنے بے باکانہ خیالات کے اظہار سے چوکتے نہیں ہیں اور جنوبی ایشیا میں بڑھتی ہوئی مذہبیت اور انتہا پسندی پر کڑی تنقید کرتے ہیں۔ طارق فتح نے وہ ویڈیو سوشل میڈیا پر لگائی تھی جس میں ایک مسلمان پھل فروش ایک بوتل میں اپنا پیشاب بھر کر پھلوں پر چھڑکتا ہے۔

یہ ویڈیو جعلی اور گمراہ کن تھی جس سے بھارت میں مسلمانوں کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچا خاص طور پر وہ مسلمان جو نوکری حاصل نہیں کر پاتے اور چھوٹے موٹے کام جیسے پھل اور سبزی فروشی سے اپنا روزگار چلاتے ہیں.

جاوید اختر نے لکھا کہ ایک زمانہ تھا جب وہ طارق فتح کی بے خوف تحریروں اور تقریروں پر اُن کی عزت کرتے تھے کیوں کہ وہ مذہبی جنون کے خلاف تھیں اور دہشت گردی کے مذمت کرتی تھیں مگر پھر طارق فتح خود ایک طرح سے ھندو انتہا پسندوں کے ترجمان نظر آنے لگے۔ رفتہ رفتہ طارق فتح خود اپنا ایک مسخرہ نمونہ پیش کرنے لگے اور انتہا پسندی کو چھونے لگے ۔ راقم کو جاوید اختر کی بات سے اتفاق تھا اور جب طارق فتح عدم کو سدھارے تو وہ خود کسی دانشور سے زیادہ مسخرے نظر آتے تھے.

جب میں نے اپنا یہ خیال سوشل میڈیا پر لکھا تو میرے کئی دوست جن کا تعلق زیادہ تر بلوچستان اور سندھ سے ہے کچھ ناراض ہوئے۔ میرے ایک دوست ہم سفر گادیھی نے لکھا وہ طارق فتح کو ایک اعلی مفکر سمجھتے ہیں. امر سندھو نے تبصرہ کیا کہ طارق فتح کو مسخرہ کہنا بے ادبی ہے ۔ راقم نے امر سندھو سے اتفاق کرتے ہوئے لکھا کہ مسخرہ نہ سہی تو ایک مزاحیہ دانش ور ہی کہہ لیں جس کا دماغ یک رخہ ہوچکا تھا ۔ اس پر امر سندھو مطمئن ہوگئیں.

علی قریشی نے اجازت چاہی کہ وہ مجھے بھی مسخرہ کہنا چاہتے ہیں جس کی انہیں اجازت دے دی گئی مزید یہ کہ وہ جو چاہیں مجھے کہہ سکتے ہیں۔ ناصر بیگ چغتائی جو خود ایک تجربے کار صحافی ہیں نے مشورہ دیا کہ طارق فتح کی مزید صفات بیان کی جانی چاہئیں۔ لندن میں مقیم میری دوست نور ظہیر جو سجاد ظہیر کی صاحب زادی ہیں نے لقمہ دیا کہ مسخرے پن کی کوئی بات نہیں ہے۔ میں نے وضاحت کی کہ طارق فتح دوسروں کا تمسخر اڑاتے اڑاتے خود ایک مذاق بن چکے تھے.

عمران راشد نے گرہ لگائی کہ طارق فتح کی بدمذاقی نے اُن کی منطق کو ڈھانپ لیا تھا۔ راقم نے عمران سے بھی اتفاق کیا۔ فیصل بزدار نے کہا ” طارق فتح پاکستان دشمن تھا اور بیرون ممالک مقیم بڑے روشن دماغ پاکستانیوں سے بھی لڑنے کو تیار رہتا تھا “۔ طارق کسی بھی ایسے شخص کو برداشت نہیں کرتے تھے جو اُن سے متفق نہ ہو اور طارق کے پیروکار بھی یہی کرتے تھے.

طارق نے جاوید اختر کو “ھندوؤں سے نفرت کرنے والا اسلامیسٹ کہا جس کا نام ھندوؤں سے نفرت کرنے والوں کی فہرست میں لکھا جائے گا ۔ مبارک ہو کامریڈ”

طارق فتح کے خیال میں زیادہ تر سیکولر اردو بولنے والے ھندوؤں سے نفرت کرنے والے انتہا پسند اسلامیسٹ ہیں ۔ طارق فتح کا یہ کہنا خود ان کی عقل پر پتھر کے مترادف تھا ۔ کوئی بھی دانش ور اس طرح نقصان دہ اور خطرناک بیان نہیں دیتا ۔ جاوید اختر طارق کے مقابلے میں بہت زیادہ سمجھدار اور معقول باتیں کرتے ہیں. طارق فتح نے اُس ویڈیو کے غلط ثابت ہونے کے بعد بھی معذرت نہیں کی اور یہی ان کا انداز تھا ۔جاوید اختر حیرت کرتے رہے کہ طارق کس طرح ایک نامعقول ویڈیو کو سچ سمجھ کر پھیلا رہے تھے ۔ انہوں نے لکھا ” طارق صاحب اپنی عقل استعمال کریں اور اپنے ذرائع پر نظر ثانی کریں”

طارق فتح کا یہی مسئلہ تھا گو کہ وہ ہم جنس پرستوں کے حقوق اور ریاست کی مذہب سے علیحدگی کی وکالت کرتے تھے ۔
طارق فتح خود کو ” پاکستان میں پیدا ہونے والا بھارتی کہتے تھے” اور ” اسلام میں پیدا ہونے والا پنجابی ” کہتے تھے مگر اسلام کی زور دار مخالفت اور پاکستان خاص طور پر پنجاب کے خلاف زہر افشانی سے صرف اختلافِ رائے نہیں بل کہ شدید دشمنی کا رنگ جھلکتا تھا ۔ وہ پاکستان کی سیاسی و مذہبی اسٹیبلشمنٹ کو تو بُرا بھلا کہتے رہتے تھے مگر کبھی بھارت کی سیاسی اور مذہبی قوتوں کے خلاف اور خاص طور پر بی جے پی کے خلاف اُن کے منہ سے کچھ نہ نکلا.

طارق فتح تقسیمِ ھندوستان کے خلاف تھے جو اور بھی بہت سے لوگ تھے مگر طارق خاصے آگے جاکر پاکستان کی مکمل تباہی کا مطالبہ کرنے لگے۔ وہ خود 1960 کے عشرے میں کراچی میں بائیں بازو کے ایک طالب علم رہ نما تھے جو بعد میں صحافی بن گئے اور فوجی آمریتوں میں جیل میں بھی رہے لیکن ایسا کرنے والے وہ اکیلے نہیں تھے. ناصر زیدی، خاور نعیم ھاشمی اور اقبال جعفری جیسے صحافی تو اب تک اپنی پشت پر کوڑوں کے نشان لیے پھیرتے ہیں مگر انہوں نے ملک میں رہنا اور جدوجہد کا حصہ بننا پسند کیا نہ کہ بھاگ کر ملک کی تباہی کے مطالبے کیے ۔ طارق نے تیس سال کی عمر کے لگ بھگ پاکستان چھوڑا اور پھر اگلے چالیس سال تک اپنے یک رخے دماغ سے کروڑوں لوگوں کو متاثر کیا ۔
2018 کے بعد وہ نیو دھلی ٹائم کے ایک یوٹیوب چینل پر (WHAT THE FATAH) نامی پروگرام کی میزبانی کرتے تھے۔ اس پروگرام کے عنوان سے ہی یہ کوئی مسخروں کا شو معلوم ہوتا تھا گو کہ اس میں بین الاقوامی سیاسی حالاتِ حاضرہ پر بات ہوتی تھی.

اپنی عمر کے آخری حصے میں اُن کی بنیادی شناخت پاکستان کے ناقد کی تھی جو ریاستِ پاکستان کے قانونی جواز کو مسلسل نشانہ بنانا تھا اور بلوچستان کے ساتھ سندھ کے بھی علیحدگی پسندوں کی طرف داری کرتا تھا. طارق فتح کا خیال تھا کہ بلوچستان کی آزادی کے بعد باقی ماندہ پاکستان بھارت سے مل جائے گا ۔ راقم کے بلوچ، پختون اور سندھی قوم پرست دوست پاکستان کے خلاف طارق کی بکواس بہت پسند کرتے تھے یہ سوچے بغیر کہ بڑے جمہوری رہ نما مثلاً باچا خان، غوث بخش بزنجو اور بے نظیر بھٹو وغیرہ پاکستان کو جمہوری بنانے پر یقین رکھتے تھے ۔ بزنجو اور باچا خان نے قیام پاکستان کی مخالفت ضرور کی تھی لیکن قیام پاکستان کے بعد وہ اس کے خیر خواہ تھے اور اسے جمہوری بنیادوں پر استوار کرنے کی جدوجہد میں قید وبند کی صعوبتیں بھی برداشت کرتے رہے تھے.

حتی کہ محترمہ بے نظیر کی شہادت کے بعد بھی آصف علی زرداری نے پاکستان کھپے کا نعرہ لگایا تھا. باچا خان، بزنجو اور بے نظیر تلخ نہیں ہوئے اور جمہوریت سے اپنا تعلق قائم رکھا تھا ۔ اب بھی بے شمار ترقی پسند اور سیکولر پاکستانی ہیں جو طارق فتح کی طرح نہیں ہیں جو پاکستان کی تباہی کے درپے ہوں وہ پاکستان کو اپنا گھر سمجھتے ہیں اور اسے بہتر بنانا چاہتے ہیں. اب بھی بہت سے لوگ تقسیم ھند سے اتفاق نہیں رکھتے لیکن جس طرح طارق فتح نے پاکستان کو نشانہ بنایا اس سے بی جے پی اور زعفرانی جھتے اور سنگھ پری وار میں خوشی کی لہر دوڑتی تھیں ۔
طارق کے آخری برسوں میں پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی بے ربط، غیر منطقی اور غلط معلومات پر مبنی ہوتی تھی ۔ اُن کی یہ دلیل کہ برطانیہ نے بھارت کو تقسیم اس لیے کیا کہ سوویت اثر ورسوخ کا مقابلہ کیا جا سکے ۔ کچھ سچائی ہوسکتی ہے مگر اب پاکستان کو حقیقت کا روپ دھارے پچھتر سال ہوچکے ہیں مگر طارق فتح اس حقیقت کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں تھے ۔ جب وہ جہادی گروہوں کے خلاف بات کرتے تھے تو اس میں خاصا وزن ہوتا تھا مگر پھر انہوں نے مسلمانوں کو جہادی ثابت کرنا شروع کردیا ۔ یہ درست ہے کہ پاکستان میں سیاسی کارکنوں نے شدید ریاستی جبر بھگتا ہے اور ریاستی اداروں نے انسانی حقوق کو پامال کیا ہے. یہ بھی درست ہے کہ ملک میں جبری طور پر گم شدہ کیے لوگوں کا مسئلہ بھی شدید ہے اور چھوٹے صوبوں کے وسائل کا بے تحاشا استحصال کیا جارہا ہے جسے روکا جانا چاہیے ۔ مگر زیادہ سمجھ دار رہ نما مثلاً باچا خان، بزنجو، گاندھی، مارٹن لوتھر کنگ اور نیلسن منڈیلا عدم تشدد پر یقین رکھتے ہوئے اپنے جدوجہد کی قیادت کرتے تھے ۔ جب کہ طارق فتح کھلم کھلا تنگ نظر قوم پرستوں کو اکساتے تھے کہ وہ بلوچستان اور سندھ میں ملک سے آزادی کے لیے بغاوت کریں. اپنی زندگی کے آخری برسوں میں طارق فتح نے کئی سازشی نظریے پھیلائے جن کا واحد مقصد مسلمانوں اور پاکستان کے خلاف نفرت پھیلانا تھا.

2017 میں جب کینیڈا کے صوبے کوبیک کی مسجد میں گولیاں چلیں تو طارق نے سازشی نظریہ پھیلایا کہ مسلمان اس جرم میں شریک تھے جس میں چھ افراد ہلاک ہوئے۔ وہ اسلام کے خطرے کو بڑھا چڑھا کر بیان کرتے تھے اور مسلم مخالف جذبات کو ہوا دیتے تھے ۔ انہیں اس بات کا احساس نہیں تھا کہ اقلیتیں غلطی کرسکتی ہیں مگر صرف اُن کی غلطیوں کو بار بار اجاگر کرنے سے اکثریتی گروہ کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے کہ وہ اقلیتوں پر مزید ظلم و ستم کریں ۔ صرف ایک دھارے میں بہتے ہوئے طارق نے انتہا پسندی اپنائی اور صرف ایک رخ پیش کرتے رہے. ایک اچھا دانش ور معاشرے میں رواداری کو فروغ دیتا ہے مگر طارق فتح مسلسل تباہ کن اور نفرت انگیز خیالات کا پرچار کرتے رہے۔ اگر کچھ رسم و رواج پر تنقید کی جائے تو اس میں کوئی بُری بات نہیں، عقائد پر سوال اُٹھانا بھی بُری بات نہیں جو موجودہ حالات سے مطابقت نہ رکھتے ہوں ۔ لیکن یہ درست نہیں کہ کسی خاص قوم، قومیت، برادری یا لسانی و مذہبی برادری یا گروہ کے خلاف عمومیت پر مبنی اور زیادہ تر غلط اور منفی باتیں پھیلائی جائیں.

طارق فتح بالکل ایسا ہی کرنے لگے تھے ۔ ایک اچھا دانش ور نئے تناظر پیش کرتا ہے اور اپنے سننے والوں اور پڑھنے والوں کو روشن خیالی کی طرف لے جاتا ہے اور ایسا کرتے ہوئے وہ خود اپنے مقصد کو نقصان نہیں پہنچاتا لیکن طارق نے بالکل اس کے برعکس کیا جو وہ شروع میں کرنا چاہتے تھے ۔ انہیں اس بات کا ادراک نہیں رہا تھا کہ ایک طرف کے انتہا پسند خیالات کا مقابلہ دوسری طرف کی انتہا پسندی سے نہیں کیا جا سکتا ۔
کئی مواقع پر انہوں نے جھوٹی خبریں پھیلائیں اور فرقہ واریت کو ہوا دی اور مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز ویڈیو آگے بڑھاتے رہے ۔ انہیں خاص طور پر تمام حجاب پہننے والیوں سے، برقعہ اوڑھنے والیوں سے نفرت تھی اور ان کے خلاف زہر اگلتے رہے. اس طرح انہوں نے لبرل، ترقی پسند اور سیکولر کاز کو نقصان پہنچایا جس کی ترویج کا وہ دعویٰ کرتے تھے ۔

2020 میں انہوں نے برقعے میں ملبوس خواتین کی ویڈیو پھیلائی جس میں وہ خواتین کسی ھندی فلمی گانے پر رقص کررہیں ہیں اور پھر اشارہ دیا کہ یہ ویڈیو دہلی میں ہونے والے شاھین باغ کے مظاہرین کی ہے ۔ وہ پُرامن مظاہرہ اور احتجاج مسلمان خواتین کررہی تھیں اس جعلی ویڈیو کے بعد وہ دائیں بازو کے بھارتی میڈیا کا نشانہ بنیں ۔ طارق فتح یہ ویڈیو اس سے قبل بھی دو مرتبہ پھیلا چکے تھے مگر انہوں نے فرقہ واریت پھیلانے میں کوئی معذرت نہیں کی اور خواتین کے پُرامن مظاہرے کے شرکاء کو خطرے میں ڈالا ۔ اس طرح طارق فتح نے فرقہ وارانہ فسادات کو ہوا دی اور مسلمانوں کے خلاف شدید نفرت کا اظہار کیا.

کسی بھی معقول دانش ور کے برعکس وہ ہر اُس شخص سے لڑنے کو تیار رہتے تھے جو اُن سے اختلاف کرے اس پر طارق اپنے مخالف کو فوراً دہشت گرد ہونے کا الزام دیتے تھے ۔ ان کی سوشل میڈیا پوسٹ سے لگتا تھا کہ تمام ھندو بہترین محب وطن ہیں اور صرف اپنے دھرم کی بدولت تمام مسلمان غدار ہیں ۔ جب کہ وہ پاکستان میں بلوچ اور سندھی قوم پرستوں کو بغاوت پر اکساتے رہتے تھے.اس سب کے باوجود طارق فتح ضرور تعریف کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اسلامی تاریخ کی کئی غلط تاویلات کو بے نقاب کیا مگر ایسا کرتے ہوئے وہ ایک خبط میں بھی مبتلا ہوگئے کہ ہر طرح پاکستان اور اسلام کو مطعون کیا جائے ۔ میں کسی بات سے اختلاف کرسکتا ہوں مگر میرا مقصد صرف ان باتوں کو لے کر کسی مذہب کو مسلسل نشانہ بنانا رہ جائے تو ضرور مجھ میں ہی کوئی مسئلہ ہے. مثلاً میں امریکا یا بھارت کو ناپسند کرسکتا ہوں لیکن اگر میں مسلسل انہی کے خلاف بولتا اور لکھتا رہوں اور سوشل میڈیا استعمال کرتا رہوں تو شاید مجھے نفسیاتی علاج کی ضرورت ہے ۔ ایک دانش ور کے لیے سب سے نقصان دہ ایک یک رخہ ذہن ہوتا ہے جو کسی ایک یا دو باتوں کے گرد گھومتا رہے ۔

اگر کوئی حجاب یا برقعہ پہنتی ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ کسی دہشت گرد حملے کی تیاری کررہی ہے یا وہ یقینی طور پر اسٹیبلشمنٹ اور اس کے غلط کاموں کی حمایتی ہے. پاکستان میں بہت سے لوگ ہیں جو اسٹیبلشمنٹ کے طور طریقوں پر سوال اُٹھاتے اور اسے للکارتے بھی ہیں مگر طارق فتح کے لیے صرف بغاوت ہی ہر مسئلے کا حل تھا ۔ اگر بھارت میں درجن بھر بغاوتیں چل رہی ہوں تو وہ انہیں سختی سے کچلنے کے حامی تھے مگر پاکستان میں اُن کے معیار مختلف تھے. طارق فتح کی شان دار کتاب ” اسلامی ریاست کا خواب” ایک بہترین تحقیقی کام ہے جس کا اردو ترجمہ محمد وسیم نے کیا اسے ڈاکٹر پرویز ھود بھائی کی مشعل بکس نے 2011 میں شائع کیا ۔ مشعل اپنی کتابوں کے انتخاب میں خاصی محتاط ہے اور جب اس نے طارق فتح کی کتاب ترجمے اور اشاعت کے لیے منتخب کی تو اس میں اعلی تحقیقی معیار کو ضرور مد نظر رکھا ہوگا ۔ اس کتاب میں طارق روایتی بیانیوں کو للکارتے ہیں جو بہت اچھی بات ہے اور اس بات پر سوال اُٹھاتے ہیں کہ اسلامی ریاست یا خلافت ہی مسلمانوں کا مقدر بن سکتی ہے ۔

اُن کی تحقیق بہترین تھی اور اس کے لیے اُن کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے اور مجھ ایسے قارئین نے اس کتاب کو بہت سراھا تھا ۔ طارق اس بات میں بھی درست تھے کہ مسلمانوں کو اپنی قبائلی اور جاگیردارانہ ذہنیت سے نکلنا ہوگا ۔ اُن کا درست طور پر یہ کہنا بھی تھا کہ مسلمانوں نے صدیاں بے کار سرگرمیوں میں ضائع کردی ہیں ۔ وہ دقیانوسیت اور پسماندہ خیالات کے شدید مخالف تھے جن کی جدید دنیا میں کوئی گنجائش نہیں ۔ وہ چاہتے تھے کہ تمام مسلمان مہذب لوگوں کی طرح زندگی گزاریں. اس بات سے کوئی بھی ذی شعور آدمی اختلاف نہیں کرسکتا کہ سیکولر ازم ہی درست راستہ ہے مگر طارق نے بعد میں سب پر پانی پھیر دیا. انہوں نے کثیر ثقافتی معاشروں کی مخالفت کی اور خود اپنی ابتدائی تعلیمات کی نفی کرتے چلے گئے. ان کی کتاب پر بڑے تنقیدی مباحث ہوئے جن میں سیاسی اسلام کو موضوع بنایا گیا مگر پھر طارق نے بہت جارحانہ اور عدم رواداری پر مبنی روایہ اپنایا جو پاگل پن کی حدوں کو چھونے لگا ۔ اس طرح انہوں نے اپنے بہت سے ممکنہ اتحادیوں کو دور کرلیا مگر انہیں اس کی پرواہ نہیں تھی. اپنی نوجوانی میں وہ ایک سام راج دشمن کے طور پر ابھرے تھے مگر پھر یہ اکثریت کی زبان بولنے لگے اور بھارت میں ھندو اکثریت اور کینیڈا میں سفید فام اکثریت کا دم بھرنے لگے اور اکثریت کو اکساتے رہے کہ وہ مسلم اقليت کے خلاف سخت قدم اُٹھائے اگر وہ اکثریت کی بات نہ مانیں.

اُن کا خیال تھا کہ تمام مسلمان ایک اسلامی جہادی منصوبے پر عمل کررہے ہیں ۔ طارق فتح اس حقیقت پر غور نہیں کررہے تھے کہ دنیا میں تقریباً دو ارب مسلمان آباد ہیں اُن میں دو ملین یا دو لاکھ بھی جہاد میں حصہ نہیں لے رہے نہ خلافت قائم کرنے کی لڑائی لڑ رہے ہیں ۔ یقیناً مسلمان معاشروں میں شدید مسائل ہیں جن میں پاکستان بھی شامل ہے ۔ دنیا کے پچپن مسلم ممالک میں سے کتنوں میں خلافت قائم ہے ۔ حتی کہ سعودی عرب بھی تیزی سے بدل رہا ہے اور تمام مسلم حکومتیں جہادی سوچ کی سرکوبی کررہی ہیں. اسلامی انتہا پسندی کو قابو میں کرنے لے لیے اقدام کیے جارہے ہیں اور بنیاد پرستی کو بھی لگام دینے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ اگر میں خود کو سیکولر اور ترقی پسند سمجھتا ہوں اور پھر کسی مذہب کے خلاف زہر بھی اگلتا ہوں تو میں خود اپنے مقصد کو نقصان پہنچاتا ہوں. پاکستان جیسے ملک میں بھی ڈاکٹر مبارک علی اور ڈاکٹر پرویز ھود بھائی جیسے دانش ور موجود ہیں جو ترقی پسند بھی ہیں اور سیکولر بھی اور جن کو سننے اور پڑھنے والے بھی بڑی تعداد میں ہیں ۔ بعض اوقات ہر دانش ور تلخ ہوسکتا ہے مگر وہ پاکستان کے خلاف بغاوت اور اس کی تباہی کے لیے لوگوں کو نہیں اکساتے ۔ نہ ہی وہ کسی ایک خیال کو استعمال کرکے نفرت پھیلاتے ہیں. لبرل اور ترقی پسند دانش وروں کو ہر وقت تلخی سے بچنا چاہیے اور نہ ہی ہمہ وقت جارحانہ رویہ اختیار کرنا چاہیے ۔ اس طرح کے رویے سے ان کے خیالات کے خلاف مزید جذبات ابھرتے ہیں اور ” لبرل کاشٹ ” اور ” لبرل انتہا پسند ” جیسی اصطلاحات ترویج پاتی ہیں. گو کہ طارق فتح کی کتابوں نے روشن خیالی کی ترویج کی، اُن کے نفرت انگيز بیانات اور سوشل میڈیا پر سرگرمیوں نے روشن خیالی کو نقصان پہنچایا.

اُنہوں نے اسلامی انتہا پسندی کو للکارا مگر بھارت میں بڑھتی ہوئی ھندو انتہا پسندی کو کبھی نہیں للکارا بل کہ اس کے ساتھ کھڑے رہے. دراصل وہ ایک مقبولیت پسند دانش ور بنتے چلے گئے جسے قبول عام حاصل کرنے کا خبط ہوگیا خاص طور پر ھندو اکثریت اور سفید فام اکثریت کو وہ بہت بھانے لگے تھے ۔ طارق نے مسلم خلافت پسندوں کو ضرور بے آرام کیا مگر ساتھ ہی خود اپنے انتہا پسند عقائد کی پرستش کرنے لگے۔ اپنی کتابوں جو انہوں نے معلومات پیش کیں وہ یقیناً قابل قدر تھیں مگر اُن کی نفرت انگیزی نے سب پر پانی پھیر دیا. اُنہیں اس کا ادراک نہیں تھا کہ کسی ملک کو توڑنے کی تبلیغ کرنا ایک المیہ ہے جس سے مزید خون ریزی ہوتی ہے اور طویل دشمنیاں جنم لیتی ہیں ۔ جب کہ عام آدمی کے مسائل ملک توڑنے سے حل نہیں ہوتے ۔ تمام قوموں اور قومیتوں کو مزید جمہوریت کے لیے جدوجہد کرنی چاہیے اور انسانی حقوق کے تحفظ کا مطالبہ کرنا چاہیے ۔ اسٹیبلشمنٹ کے ظلم و ستم کو للکارنا چاہیے مگر ملک توڑنے کی باتوں سے گریز کرنا چاہیے. تقسیمِ ھندوستان اور پھر تقسیمِ پاکستان، سوویت یونین کا انہدام پھر یوگوسلاویہ کی تقسیم در تقسیم، ایتھوپیا کے ٹکڑے اور پھر سوڈان کے حصے بخرے ۔ ان سب سے طویل نفرتیں اور سرحدی تنازع نے جنم لیا اور ان میں جھڑپیں اور جنگیں اب تک ہو رہی ہیں۔

طارق فتح پاکستان کو ایک قاتل اسلامی ریاست کہنے لگے تھے ۔ جس سے اُن کا اشارہ مشرقی پاکستان میں ہونے والی خون ریزی سے تھا ۔ یہ درست ہے کہ جنرل یحییٰ خان کی فوجی آمریت کو ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا اور اگلی حکومت کو حمود الرحمان کمیشن رپورٹ کی تجاویز کے مطابق جنگی مجرموں کو سزائیں دینی چاہیے تھیں. لیکن اگر ایک بار پھر ملک توڑنے کی کوشش کی جائے تو مزید المیے جنم لے سکتے ہیں جن سے ہمیں ہر قیمت پر بچنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اگر صوبے آزاد ملک بن بھی جائیں تو نئے ممالک میں جنگوں کا خطرہ شدید ہوگا جیسا کہ روس اور یوکرائن کے درمیان ہورہا ہے اور آرمینیا اور آذر بائی جان کے درمیان بھی اور اب تو کرغزستان اور تاجکستان کے درمیان بھی.

مختصر یہ کہ طارق فتح نے ایک طالب علم رہ نما اور سیاسی کارکن کے ساتھ صحافت کا آغاز کیا ۔ اُن میں بہت صلاحیت تھی کہ وہ پاکستان میں فکر جدوجہد کا حصہ بنتے اور جمہوریت کے لیے پُر امن عملی کام آتے ۔ مگر انہوں نے ملک چھوڑنے کو ترجیح دی اور لوٹ کر نہیں آئے۔ وہ اعلی پائے کے دانش ور بنے اور کچھ اچھی تحریری تخلیق کیں مگر پھر وہ ہتّھے سے اکھڑ گئے اور اُن کا انجام ایک مسخرے دانش ور کے طور پر ہوا جس نے خود اپنے کاز کو فائدے سے زیادہ نقصان پہنچایا۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...