اسلام اور جدیدیت

(یہ مضمون سہ ماہی تجزیات، شمارہ 99 سے لیا گیا ہے)

1,193

جدیدیت کی اصطلاح کے جو بھی معنی متعین کیے جائیں، مختلف شعبہ ہائے علم جیسے فلسفہ، تاریخ، سماجیات، سائنس اور ادب میں جدیدیت کے مظاہر کا مختلف ہونا اس صورت حال کو جنم دیتا ہے جس میں فکری اختلاف کے در کھلتے ہیں۔ زیرنظر مضمون میں مصنف نے تہذیبی اور معاشی تناظر میں جدیدیت سے متعلق چند نکات پر اپنی رائے دی ہے جس میں ہمارے معاشرے کے بعض اہم اور پیچیدہ مسائل کے بارے میں دعوتِ فکر موجود ہے۔ جمشید اقبال امن سازی کے شعبے سے منسلک ہیں اور متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں کے ساتھ کام کرنے کا تجربہ رکھتے ہیں۔ لازم نہیں کی ان کے نقطہ نظر سے اتفاق کیا جائے تاہم یہ قابلِ توجہ ضرور ہے۔ (مدیر) 

تحریر: جمشید اقبال

فرانس میں عورتوں کے حجاب پہننے پر پابندی، ڈنمارک میں شائع ہونے والے توہین آمیز خاکے، ہالینڈ میں بننے والی فلم فتنہ، ان اور ان جیسے دیگر واقعات کو مغرب اور اسلام کے مابین کشیدہ تعلقات کے ثبوت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ تاہم اسلام ایک نظریہ ہوسکتا ہے اور اسے، دیگر مذاہب کی طرح، سیاسی نظریے کے طور پر استعمال بھی کیا جاسکتا ہے لیکن مغرب فی ذاتہ کسی نظریے کا نام نہیں بلکہ یہ ایک جغرافیائی تصور ہے۔ لہٰذا منطقی آنکھ سے دیکھا جائے تو ایک جغرافیائی خطہ یا پھر اس میں بسنے والے تمام لوگ کسی مذہب یا نظریے سے برسرِ پیکار نہیں ہوسکتے۔

اگر ایسا ہے تو ہم اوپر بیان کردہ واقعات کو کس زمرے میں ڈال سکتے ہیں؟

ظاہری طور پر اسلام اور مغرب کے مابین دکھائی دینے والی کشیدگی کے معاملے پر اگر، مثال کے طور پر، معروف مستقبل شناس ایلون ٹافلر سے رائے لی جائے تو وہ اسے تاریخ کی پہلی لہر کا دوسری اور تیسری لہر سے ٹکراؤ کا نام دیں گے۔ ٹافلر کے نزدیک پہلی لہر سے زرعی اور قبائلی دوسری سے صنعتی اور تیسری لہر سے صنعتی دور کے بعد کا (post-industrial) دور ہے۔ ابھی عالمِ اسلام وقت کی دوسری لہر سے ہم قدم نہیں ہوپایا تھا کہ وقت تیسری بڑی دھارنا میں داخل ہوگیا ہے اور اس وقت اسلامی دنیا کو دو ادوار سے کشمکش کا سامنا ہے۔ وقت کی طرح دوسری اور تیسری لہر کی واپسی ممکن نہیں۔ لہر آگے بڑھ رہی ہے اور احباب اس کا رُخ پیچھے کی طرف موڑنے کی ضد میں مبتلا ہیں۔

 ٹافلر کے بعد اگر یہی سوال رٹگرز یونیورسٹی کے شعبہ ٔ ثقافت اور سیاسی علوم کے ڈائریکٹر اور معروف سکالر بینجمن باربر سے کیا جائے تو وہ بھی اس نام نہاد ٹکراؤ کو ’’ گلوبل ازم اور قبائلی اقدار کا تصادم ‘‘قرار دیں گے۔ (1)

 ان دو قدآور شخصیات کی آرا کی روشنی میں بھی ہم متذکرہ واقعات کو اسلام اور مغرب کے مابین کشیدگی کانام نہیں دے سکتے کیونکہ مغرب میں بھی قبائلی اقدار کے پاسدار موجود ہیں، جو سکولوں کے نصاب سے ڈارون کے نظریہ ارتقأ کو خارج کرکے تخلیقِ کائنات کے سامی تخلیقی نظریات کے فروغ کے لیے سرگرمِ عمل ہیں تو دوسری طرف مسلم دنیا میں ایسے لوگوں کی تعداد بڑھ رہی ہے جو سیکولر اقدار کو قبول کر چکی ہے۔

قاہرہ، عمان، تہران اور حتی ٰ کہ پاکستان کے بازاروں کا مشاہدہ کریں تو آپ کو مغربی مصنوعات، موسیقی، فلمیں روایتی طرزِ زندگی سے ہم آہنگ ہوتی دکھائی دیں گی۔ مسلم ممالک میں مغربی ممالک کے سفارت خانوں کا رُ خ کریں تو آپ قطار اندر قطار ویزوں کے خواہش مند خواتین اور حضرات دکھائی دیں گے۔ مغرب کش تصورات اور نعروں کا پرچار کرنے والے مقامی مذہبی سیاسی حضرات کے بچوں کے بارے میں پوچھیں تو آپ کو نہایت فخریہ انداز میں بتایا جائے گا کہ وہ کسی اہم مغربی یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کررہے ہیں۔

درج بالا شواہد کو سامنے رکھتے ہوئے ظاہری طور پر مغرب اور اسلام کے مابین دکھائی دینے والی کشیدگی کو سکالرز اور دانشور بجا طور پر ’’اسلام اور جدیدیت ‘‘ کے مابین ہم ا ٓہنگی کا فقدان یا تنازعہ قرار دیتے ہیں۔ مغرب نے، گذشتہ کئی صدیوں کے دوران، جدیدیت(modernity) کی روش اختیار کی ہے لیکن مسلم دنیا، کئی داخلی اور خارجی وجوہات کی بنا پر، زرعی اور قبائلی نظریہ حیات سے باہر نہیں نکل سکی۔ بظاہر اسلام اور مغرب کے مابین دکھائی دینے والا تنازعہ دراصل قبائلی اور جدید اقدار کے مابین کشمکش ہے۔ اس تنازعے کو اسلام اور مغرب کے مابین تنازعے کا نام دینے والے دراصل ایسے سیاسی علمأ اور ادارے ہیں جن کا مفاد جدیدیت کی مخالفت اور کھوکھلی نعرہ بازی سے وابستہ ہے۔ اس لیے ابتدأ میں بیان کیے گئے واقعات کو، جنہیں اسلام اور مغرب کے مابین دکھائی تنازعے سے تعبیر کیا جارہا ہے، سمجھنے کے لیے جدیدیت کے تصور کو درست انداز میں سمجھنا ضروری ہے۔

جدیدیت کیا ہے ؟

ہمارے ہاں، عام طورپر، جدیدیت کے ماڈرن لباس سے لے کر سائنس، فلک بوس عمارتوں، سیکولرازم، مذہب بیزار خیالات اور ’بے حیائی‘ تک تمام معنی لیے جاتے ہیں۔ جدت کا تصور ذہن میں آتے ہی جدید لباس، سائنسی آلات اوربڑی بڑی عمارتیں ہمارے تصور میں سر اٹھالیتی ہیں اور ہم گھبرا کر فوری طور پر کہنہ تصورات کی گود میں پناہ لیتے ہیں۔ اس مضمون کا مقصد جدیدیت کے تصور سے تاریکی کی وہ چادر اتارنا ہے جس کی وجہ سے ہم نے اس تاریخی مظہر کو ہمدردی سے سمجھنے کی کوشش نہیں کی اور جس کے نتیجے میں ہماری دانش مندانہ فیصلے کرنے کی قوت سلب ہوکر رہ گئی ہے۔

سولہویں صدی کے اوائل میں یورپ کے لوگوں اور بعد ازاں امریکیوں نے ایک مختلف کی تہذیب کی داغ بیل ڈالی۔ یہ تہذیب اپنے تصورات اور سائنسی علوم کی وجہ سے نہیں بلکہ معاشی اساس (economic base) کی وجہ سے دیگر تہاذیب سے مختلف تھی۔ ظاہری طور پر ’’معاشی اساس‘‘ کا مختلف ہونا بالکل خشک اور غیر دلچسپ فرق دکھائی دیتا ہے تاہم معاشی بنیادوں میں آنے والے اس انقلاب نے گہرے نظری، معاشرتی اور سیاسی اثرات مرتب کیے۔

دورِ جدید سے قبل تمام تہاذیب کا معاشی انحصار زرعی پیداوار پر تھا۔ ایک تہذیب اپنی ضرورت سے زیادہ غلہ اگاتی، اس کی تجارت کی مدد سے زرِ مبادلہ کماتی اور اپنی ثقافتی سرگرمیوں کو جلا بخشتی۔ تاہم زراعت پر منحصر تہاذیب اور معاشروں کے سر پر خطرے کی گھنٹی ہر وقت بجتی رہتی۔ مثال کے طور پر کسی بھی وقت سیلاب، طوفان اور دیگر قدرتی آفات ان کی فصلوں کو تباہ کرکے موجودہ جاہ و حشمت کو عظمتِ رفتہ میں بدل دیتے اور اس طرح توسیع پسندانہ عزائم بھی مفلوج ہو کر رہ جاتے۔ جدید دور سے قبل تہاذیب کی بنیادیں ریت پر کھڑی تھیں۔

جدید دور سے قبل تہاذیب کے عروج و زوال کی بنیادی وجہ پیدوار کا ضرورت اور کھپت کے خط سے بلندہونا یا پھر نیچے گر جانا تھا۔ رومۃ الکبریٰ کی مثال آپ کے سامنے ہے۔ سلطنتِ رومہ ایک طویل مدت تک ناقابلِ تسخیر سلطنت سمجھی گئی اور اس کے بعدلڑکھڑا کر زمین بوس ہوئی۔ رومۃ الکبریٰ کی طرح تمام زرعی تہاذیب ایک خاص حد تک نقطۂ عروج پر پہنچ کر اپنے تمام منصوبہ جات کے لیے وسائل فراہم نہ کرسکنے اور زرعی پیداوار کو ایک خاص مقام سے آگے لے جانے کی سکت نہ رکھنے کی بنا پرایسے گریں کہ پھر کبھی سر نہ اٹھا سکیں۔

سولہویں صدی کے اوائل تک یورپ نئے طریقے اپنا کر اور انسانی اجتماعی غلطیوں سے سبق سیکھ(2) کر جدید تہذیب کے لیے ایک بے نظیر معاشی بنیاد قائم کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ اب یورپ کا انحصار زراعت پر نہیں ٹیکنالوجی اور سرمایے کے نہ ختم ہونے والے چکر(3)پر تھا۔ اب اسے طوفانوں اور سیلابوں کا کوئی ڈر نہیں تھا۔ فصل سال میں ایک مرتبہ پکتی تھی تو کارخانہ چوبیس گھنٹے چلتا تھا۔ اس طرح یہ نئی معاشی بنیاد نہ صرف یورپ میں خوشحالی کا باعث بنی بلکہ اس سے یورپی معاشرو ں کو آزادی حاصل ہوئی کیونکہ اب لوگ زیادہ سے زیادہ چیزیں لوگوں کے دائرہِ اصراف میں تھیں۔

جدید معیشت کی داغ بیل پڑنے سے قبل معاشی اصول یہ تھا ’’وہ بچاکر رکھو جو آپ کے پاس موجود ہے‘‘۔ یا پھر ’’ جو کچھ آپ سیکھ چکے ہیں یا جانتے ہیں اسے بار بار دہراتے چلے جائیں ‘‘۔ اس دوران اگر کوئی منصوبہ نہایت مہنگا دکھائی دیتا تو اسے رد کردیا جاتا تھا۔ لیکن آج ہم دیکھتے ہیں کہ اگر ایک نیا کمپیوٹر یا نیا سافٹ ویئر دفتر میں آجائے تو پورا کا پورا نظام ایک رات میں بدل سکتا ہے۔ جدید معاشروں سے قبل کوئی معاشرہ انفراسٹرکچر کو اتنی تیزی سے بدلنے کے تصور کا بھی متحمل نہیں ہوسکتا تھا۔ لیکن اب بنیادی تبدیلی کے اس تصور کا حقیقت میں بدلنا ہم سب کئی بار دیکھ چکے ہیں۔

سولہویں صدی میں متعارف ہونی والی جدیدیت اہم سیاسی، معاشی، معاشرتی اور نظری نتائج کا پیش خیمہ ثابت ہوئی۔ پیداواری عمل میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کی شرکت ضروری سمجھی جانے لگی تاکہ معیشت کا مسلسل پھیلاؤ اور فروغ یقینی بنایا جاسکے۔ معیشت کے فروغ کے لیے لوگوں کو گھڑیالوں یا چھاپے خانے کے معاونین یا مزدوروں کی بنیادی سطح پر شامل کیا گیا۔ تاہم یہ سب کام کرنے کے لیے، کھیتی باڑی کے برعکس، بنیادی تعلیم اور بنیادی نوعیت کا ہی سہی سائنسی اندازِ فکر ضروری تھا کیونکہ کھیتی باڑی کے برعکس مشین تعلیم اور منطقی سوچ کا تقاضا کرتی ہے۔

تعلیم جس قدر بنیادی کیوں نہ ہو۔ یہ انسانی شعور کی توسیع کا باعث بنتی ہے۔ وہ لوگ جنہیں معمولی مزدوروں کے طور پر مشین چلانے کے لیے تعلیم دی گئی تھی کچھ عرصہ بعد اپنے حقوق اور سیاسی عمل میں برابر شرکت کا مطالبہ کرنے لگے۔ جسے آج جدید جمہوریت کا نام دیا گیا ہے یہ عوامی مطالبات اور عوام مرکزی تحاریک سے جنم لینے والا سیاسی نظام ہے۔ اس نظام کی بنیاد وہ تعلیم ہے جو بنیادی طور پر مشین چلانے اور فرمانبردار مزدور پیدا کرنے کے لیے دی گئی تھی۔ تاہم عام تعلیم سے جمہوریت کا سفرانتہائی سست رو اور تکلیف دہ رہا۔ یورپ اور امریکہ کے عوام کے لیے موجودہ جمہوری نظام کے خواب کو حقیقت میں بدلنے میں تین صدیاں لگیں۔

اس دوران یہ بات کھل کر سامنے آئی کہ لوگ مذہبی کنٹرول سے بھی آزادی کے خواہش مند ہیں۔ سائنس دان، دانشوراور موجد حاصل کردہ آزادیوں کے تناسب سے زیادہ سے زیادہ زود فکر اورزرخیز ہوتے چلے گئے۔ جب کفر اور الحاد کے مہلک فتووں کا خوف نہ رہا تو فکر اور قوتِ ایجاد کو جلا ملی۔ اس کے علاوہ کاروباری دنیا میں مقابلہ اس قدر بڑھ گیا تھا کہ کوئی بھی اپنے سروں پر مذہب کی لٹکتی ہوئی تلوار کا متحمل نہیں ہوسکتا تھا۔ اس لیے یہ ضروری ہوگیا کہ ریاستی امور میں مذہب کی مداخلت ختم کردی جائے۔ ریاست اور مذہب کو ایک دوسرے کے کنٹرول سے آزاد کرنے کے ہمہ جہت عمل کو سیکولرازم کا نام دیا گیا۔

سولہویں صدی سے نکھر کر سامنے آنے والی جدید تہذیب دو اہم اصولوں پر کھڑی ہے۔ پہلا ستون آزادی ہے۔ آزادی سے مراد مغربی معاشروں میں حاصل سیاسی، نظریاتی، مذہبی اور معاشی خودارادیت ہے۔ اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ مغرب میں موجودہ جدید نظام کی بنیاد آزادی اور کئی محاذوں کیے گئے اعلانات پرقائم ہے۔

یہاں پر ایک حقیقت نہایت دلچسپ معلوم ہوگی کہ مذہبی کنٹرول سے آزادی کا مطالبہ محض ریاست، دانشور، محقق، سائنس دان اور موجد نہیں کررہے تھے بلکہ مذہب بھی مرکزی کنٹرول سے آزادی چاہتا تھا۔ اس سلسلے میں مارٹن لوتھر اور کائلون کو اہم ترین مثال کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے جنہوں نےرومن کیتھولک چرچ سے آزادی کا اعلان کیا۔ اسے ہم مذہبی نجکاری(4)   کا عمل بھی کہہ سکتے ہیں۔ مسلم دنیا میں نجکاری کے اس عمل کو صوفیانہ تحاریک میں دیکھا جاسکتا ہے اور ان تحاریک کے مخالف ہمیشہ مقدس مراکز رہے ہیں۔

 مغرب میں جب لوگ آزادی فکر اور معاشی آزادی کا تقاضا کررہے تھے تو اسی دوران مفکرین یہ ثابت کررہے تھے کہ آزادی کے بغیر جدید، فعال اور ترقی یافتہ معاشرے کا تصور ناممکن ہے۔ جدیدیت کا دوسرا ستون اختراع، تبدیلی اور طرزِ نو (innovation) ہے۔ یہ وہی اختراع اور جدت پسندی ہے جسے مسلم دنیا میں قدامت پسند مذہبی عناصر ’بدعت‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔

 اختراعیت پسندی اس عہد کا نام ہے کہ ہم ہر وقت نت نئے تصورات سامنے لائیں گے جن کے بطن سے نئی ایجادات جنم لیں گی۔ جدید دنیا کے برعکس مسلم دنیا میں اختراعیت پسندی کو ’بدعت‘ اور گمراہی قرار دیا گیا جو جہنم تک لے جاتی ہے اگرچہ اسلامی فکر میں ’بدعتِ حسنہ ‘ کا تصور بھی رہا ہے۔

المختصر مسلم دنیا کے برعکس اختراع پسند جدید دنیا نے سوچا کہ وہ کہنہ مسائل کے نئے اور تازہ حل تلاش کریں گے۔ تازہ فکر سے نئی راہیں دریافت ہوں گی۔ اختراعیت پسندی اس حقیقت کا بھی اعتراف تھا کہ ’’ہر پرانا حل آج کا مسئلہ ہے ‘‘۔ تاہم جہانِ تازہ کی تلاش کا یہ عمل انتہائی کٹھن واقع ہوا۔ اختراعیت کی ڈگر اختیار کرنے اورحوصلہ افزأ نتائج کو سامنے رکھتے ہوئے آگے بڑھنے کے اس عمل کی راہ میں کئی رکاوٹیں آئیں : خوف و ہراس، فیکٹریوں اور کارخانوں میں عورتوں اور بچوں کا استحصال اور ماحولیاتی توازن کا بگاڑ۔ اس کے باوجود تجدید کاری (modernization) کا یہ عمل انتہائی حوصلہ افزأ تھا۔ اس کے ثمرات انسانی رہن سہن کو سہولیات اور آسانیوں سے روشناس کرارہے تھے۔

اس کے برعکس مسلم دنیا میں جدیدیت اپنے ساتھ آزادی لے کر نہیں آئی۔ مسلم دنیا کی تجدید کو ہم ’’مرکوز جدیدیت ‘‘(5)  کہہ سکتے ہیں۔ کیرن آرم سٹرانگ کے بقول’’ مرکوز جدیدیت نے محروم اور پسے ہوئے طبقات کو اپنے ہی ملک میں اجنبی کردیا ہے ‘‘۔ مسلم دنیا میں جدت کے مرکوز ہونے کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ یہاں جدیدیت سیاسی محکومیت اور نوآبادیاتی نظام کے ساتھ آئی۔ اس کے علاوہ مسلم دنیا نے اختراعیت اور تبدیلی (innovation) کو رد کردیا۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم دنیا اس دوران نہ کوئی حقیقی مفکر پیدا کرسکی اور نہ کوئی بہت بڑا مُوجد۔ اگر پاکستان کی مثال لیں تو ہم خود ساختہ متکلمین کو مفکر اور دانا سمجھ کر خوش ہوتے رہے(6)  ۔ ہم نے اپنی ترکیب کو خاص قرار دیا لیکن اس ترکیب کو باربط اور منظم علم کی شکل نہ دے سکے۔ اس صورتِ حال میں مسلم دنیا نے جدت کا راستہ اختیار کرنا بھی چاہا تو اس وقت تک مغرب کی نقالی ناگزیر ہوچکی تھی۔ نتیجتاً مسلم دنیا میں قوتِ ایجاد کے برعکس تقلید اور نقل کا رواج پڑا جس نے یہاں جدیدیت کے امکانات کو معدوم ترکردیا۔

مسلم دنیا میں جدید رجحانات کو قبول نہ کرنے کی ایک اور وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے مغرب نے ان رجحانات کو مستعار نہیں لیا۔ بالفاظِ دیگر مغرب میں تبدیلی کا یہ عمل مغرب سے ہی شروع ہوا اور مغرب میں ہی بامِ عروج پر پہنچا۔ وہاں ان تصورات نے جان لاک سے فیکٹری کے مزدور تک کا سفر صدیوں میں طے کیا ہے۔ انسان بنیادی طور پر قدامت پسند واقع ہوا ہے۔ انسان نہ صرف تبدیلی سے خوفزدہ بلکہ الرجک ہے لیکن جب صنعتی دور نے پیداوار کی اساس کو بدل کر رکھ دیا تو اس نے انسان کی فطری قدامت پسندی کے بھی درودیوار ہلا دیے۔

ایک فرانسیسی سکالر اپنی کتاب ’’اسلام اور سرمایہ دارانہ نظام ‘‘ میں سوال پوچھتا ہے کہ جدید رجحانات نے مسلم اور چینی تہذیب کے برعکس مغرب کا رُخ ہی کیوں کیا۔ اس کی ایک وجہ وہ یہ بتاتا ہے کہ مغرب میں ریاست اور مذہب کے درمیان کشمکش صنعتی انقلاب سے کئی صدیاں قبل ہی شروع ہوچکی تھی۔ یہ سکالر صنعتی انقلاب کے علاوہ مذہب اور ریاست کے الگ ہونے کو صنعتی انقلاب اور جدیدیت کی بنیاد قرار دیتا ہے۔

مغرب کے برعکس مسلم دنیا میں مذہب اور ریاست کے مابین کشمکش کی کوئی مثال نہیں ملتی بلکہ تاریخ کے ہر دور میں فکری ٹھہراؤ، مذہبی اجاداری اور مذہب کا سیاسی استعمال دکھائی دیتا ہے۔ اس کے برعکس جسے ہم جدیدیت کہتے وہ کئی کلیدی اور متحرک انقلابات کا نتیجہ ہے۔ امریکی انقلاب، مسلم سکالر ڈاکٹر سلمان ناینگ کے مطابق، دنیا بھر کے انسانوں کی جدوجہدِ آزادی کا ثمر ہے۔ امریکی انقلاب کو، سلمان نا ینگ کے الفاظ میں، جدیدیت کی تاریخ میں اس لیے بھی مرکزی حیثیت حاصل ہے کہ جب دنیا بھر میں بادشاہوں کی حکومت تھی اس وقت امریکہ میں جمہوری نظام کی داغ بیل ڈالی گئی۔ واضح رہے کہ امریکی انقلابی مذہب سے نہیں بلکہ بادشاہت سے برسرپیکار تھے۔

امریکی انقلاب کے بعد اہم انقلاب، انقلابِ فرانس ہے جس میں بادشاہ اور چرچ دونوں کے خلاف آزادی کی جنگ لڑی گئی۔ یہی وجہ ہے فرانس میں آج بھی ریاست کو باقی تمام اداروں سے زیادہ احترام اور فوقیت حاصل ہے۔

کلیدی نوعیت کے انقلابات کے اس سلسلے میں انقلابِ روس کو تیسرا بڑا انقلاب کہا جاسکتا ہے۔ بعض مورخین اور سکالرز اس بات پر اعتراض کرسکتے ہیں کہ انقلابِ روس کو مغربی انقلاب نہیں کہا جاسکتا لیکن اس حقیقت کا انکار ممکن نہیں کہ اس انقلاب کی جڑیں بھی مغرب میں ہی ملتی ہیں۔ اور اس بات سے انکار قطعی ممکن نہیں کہ کارل مارکس مغربی باشندہ تھا اور یہ مغربی افکار ہی ہیں جو اشتمالی نظام کو نظریاتی بنیادیں فراہم کرتے ہیں۔

مارکس کے اشتراکی نظریات کی گونج مسلم دنیا میں بھی سنائی دی۔ جیسا کہ ہم اوپر بات کر چکے ہیں کہ جدیدیت جمہوری اقدار اور روایات کو جنم دیتی ہے۔ اس بنا پر ہم اشتراکی انقلاب کو جدیدیت کی ایک شکل قرار دے سکتے ہیں کیونکہ جہاں امریکی انقلاب نے بادشاہت، انقلابِ فرانس نے بادشاہت اور مذہب دونوں کے خلاف علم بغاوت بلند کیا تو انقلابِ روس نے بادشاہت اور مذہب کے علاوہ انفرادی حقِ جائیداد کو بھی چیلنج کیا۔ یہ سب وہ تصورات ہیں جنہوں نے مغرب میں جنم لیا۔ ریا ست اور مذہب کو سیاست سے الگ کرنے کی بحث نے مسلم دنیا کو متاثر کیا ہو یا نہ کیا ہو لیکن اشتراکی نظریات کی گونج مسلم دنیا میں ضرور سنائی دی ہے۔ مثال کے طور پر مصر میں جمال ناصر، لیبیا میں قذافی اور عراق میں صدام حسین نے اپنے آپ کو سوشلسٹ کہا۔

مندرجہ بالا تین انقلابات (امریکن انقلاب، انقلابِ فرانس اور انقلابِ روس ) نے طاقت اور اختیارات کی بحث اور نوعیت کا رُخ بدل کر رکھ دیا۔ بالفاظِ دیگر ان انقلابات نے وہ طریقہ کار بدل کر رکھ دیا جس کی مدد سے انسان تاریخ کے نئے تقاضوں سے ہم کلام ہورہے تھے۔ یہ سب دیکھتے ہوئے سلمان نا ینگ کہتے ہیں : ’’خواہ آپ مسیحی ہوں، یہودی یا پھر مسلمان۔ آپ نے اپنی وراثت جدیدیت کے ہاں گروی رکھ دی ہے ‘‘۔

اپنی وراثت کو جدیدیت کے ہاں گروی رکھنے سے کیا مراد ہے ؟ یہ جاننے کے لیے اچھی طرح دیکھنا ہوگا کہ جدیدیت نے انسانی تاریخ کو کن کن محاذوں پر متاثر کیا ہے۔

جدیدیت نے نہ صرف پیداواری صلاحیت بڑھائی بلکہ انسان میں آزادی کے احساس کو پوری طرح جگا دیا ہے۔ اس سے قبل ایک عام انسان کئی اداروں کا غلام تھا۔ جدید افکار کا نتیجہ یہ نکلا کہ انسان نے یہ جان لیا کہ وہ اپنے فیصلے خود کرسکتا ہے۔ و ہ خود سوچ سکتا ہے۔ صنعتی انقلاب، عام تعلیم اور جدیدیت سے قبل ایسا ممکن نہیں تھا۔ صنعتی دور سے قبل کا انسان منڈیوں، قبائل، نسلوں او ر ایسے ماورائی اداروں کا غلام تھا جو تنقید سے بالا تر تھے۔ آج کے جدید انسان کو یہ احساس ہو چلا ہے کہ وہ فاعل مختار (independent agent) اور فرد (individual)ہے۔ اگر ہم مسیحی، یہودی یا اسلامی مقدس کتب کا مطالعہ کریں تو ہمیں انسانی انفرادیت کا پیغام ان میں بھی ملتا ہے۔ مذہبی کتب میں زرعی استعارے موجودہ ہائی ٹیک نسل سے اس طرح ہمکلام نہیں ہوسکتے جیسے وہ زرعی دور کے کسان سے ہوتے تھے۔

 جدیدیت نے آزادی کے تصور کو سیکولر رنگ میں پیش کیا ہے۔ بالفاظِ دیگر آج کا انسان اپنے حقوق کو خدا سے نہیں بلکہ ریاست سے مشروط کرتا ہے۔ آپ یہ سمجھ سکتے ہیں کہ ’’انسانی حقوق‘‘ آپ کو خُدا نے عطا کیے ہیں اور ’’شہری حقوق ‘‘ (Civil Rights) کی پاسداری ریاست کا فرض ہے۔ مندرجہ بالا انقلابات کے دوران اس بات پر گہرا غوروفکر کیا گیا کہ انسانی اور شہری حقوق میں کس کو فوقیت حاصل ہے کیونکہ ایک عام انسان یا تو ریاست کا غلام ہے یا پھر خُدا کا۔ یہاں پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سسٹم کا کنٹرول کس کے پاس ہے۔ خُدا کے پاس یا پھر ریاست کے پاس؟

جدید انقلاب سے قبل انسانی معاشروں میں انسانوں کو رسم و رواج کے ذریعے قابو میں رکھا جاتا رہا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ علم البشریات کے ماہرین (anthropologists) نے انسانی معاشروں کی دو اقسام متعارف کروائی ہیں : 1) احساسِ ندامت کا شکار معاشرے، 2) احساس گناہ کا شکار معاشرے۔ گناہ اور ندامت لوگوں کو قابو میں رکھنے کے دو طریقہ ہائے کار تھے۔ اگر مغربی معاشروں کو دیکھا جائے تو ہم انہیں (سامی مذاہب کے زیر اثر رہنے کی بنا پر ) احساسِ گناہ میں مبتلا معاشرے کہہ سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں نفسیاتی معالجین کی تعداد زیادہ ہے۔

چونکہ مسلم معاشروں پر، مغربی معاشروں کی طرح، ابراہیمی مذاہب کے گہرے اثرات ہیں اور ابراہیمی مذاہب، یہودیت، مسیحیت اور اسلام، احساسِ گناہ اور احساسِ ندامت کا ملغوبہ ہیں۔ احساسِ گناہ اور ندامت کا شکار معاشرے عام طور پر دوسراہٹ زدہ (xenophobic) ہوتے ہیں اور انسانوں کو اجنبی لوگوں کے خوف میں مبتلا کرکے قابو میں رکھتے ہیں اور ان پر حکومت کرتے ہیں۔ تینوں ابراہیمی مذاہب کے مابین جدال و قتال اور جنگوں کی یاد تازہ رکھنے کے لیے تیار کردہ قبائلی طرز کے نصاب کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ تینوں مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ ماضی کے خوف کا شکار ہیں اور جدیدیت، دیگر اوہام کے ساتھ، آپ کی نگاہ حال اور مستقبل پر جما کر ماضی کے اس عفریت کو فنا کرنے کی وجہ بنتی ہے جو ہمارے حال اور مستقبل پر قابوس کی طرح مسلط ہو کر باہمی خوف کو جنم دیتا ہے۔

اپنی وراثت کو جدیدیت کے ہاں گروی رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ آج مذاہب کو جدیدیت کے چیلنج کا سامنا ہے۔ یہاں پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک فرد کے لیے جدیدیت کیا نتائج پیدا کررہی ہے۔ پہلا نتیجہ یہ ہے کہ صنعتی انقلاب کے بعد مغرب کے لوگوں نے اپنے آپ کو سکڑتے ہوئے خاندانوں کا حصہ پایا۔ بڑا خاندان قبیلہ پرستی کے رجحانات جنم دیتا تھا تاہم یہ تبدیلی لوگوں کی رضا نہیں بلکہ تاریخی حالات کا تقاضا تھی۔

 مغربی معاشروں کو ان اور ان جیسے کئی چیلنجز کا سامنا رہا ہے جن کا سامنا آج مسلمانوں کو کرنا پڑ رہا ہے۔ مسلم دنیا کو اس وقت اس چیلنج کا سامنا ہے کہ وہ ذات، شناخت اور دوسرے انسانوں کے ساتھ تعلقات کے معاملات کس طرح طے کریں۔ اگر آج آپ، مثال کے طور پر سعودی عرب یا پاکستان کے قبائلی ماحول میں موجود ہیں تو آپ دیگر قبائل کے لوگوں اور ان کی اقدار سے واقف نہیں۔ جب جدیدیت آپ کو آن چھوئے گی تو آپ اچانک محسوس کریں گے اب آپ کی ذات، شناخت اور دوسرے انسانوں سے تعلقات جیسے معاملات طے کرنے کا حتمی حق آپ کے قبیلے کے پاس نہیں رہا۔ آپ اچانک جان جائیں گے کہ اب آپ کی انسانیت قبیلے کی چاردیواری سے ماورا ہوگئی ہے اور اب آپ کو دوسرے گروہوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے مساوی حقوق کو بھی تسلیم کرنا ہے۔

جدیدیت ہماری معاشرت اور سماج کے ہر مظہر کے ساتھ ساتھ زبان کو بھی متاثر کر چکی ہے۔ اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ آج کا لکھاری، دانشور اور حتیٰ کہ تربیت کار نئے استعارے استعمال کررہا ہے۔ اس تناظر میں جب ہم مقدس کتب میں استعمال ہونے والی زبان کو دیکھتے ہیں تو وہ واضح طور پر زرعی دور کی زبان محسوس ہوتی ہے۔ بیج، پانی اور فصلوں کے استعاروں پر مبنی زبان لیکن اس وقت ٹیکنالوجی نے استعاروں اور اشاروں کو بدل کر رکھ دیا ہے۔

 سلمان ناینگ کے مطابق نوآبادیاتی نظام کا مسلمانوں پر بدترین اثرانہیں خبطِ رفتہ (has-been syndrome) کے مرض میں مبتلا کرنا ہے۔ ایک لیکچر کے دوران ممتاز سکالر کیرن آرم سٹرانگ کے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے سلمان ناینگ برصغیر کی مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں :

’’ نو آبادیاتی نظام کے بدترین اثرات پاکستان کے مسلمانوں پر اس لیے دکھائی دیتے ہیں کیونکہ اس خطے کے مسلمانوں کو خود ساختہ اور مستعار شدہ ماضی کے عشق میں مبتلا کردیا گیا ہے‘‘۔

ان کی مثال ایک زبان زدعام مصرعہ’’وہ کیا گردوں تھا تو جس کا ہے ایک ٹوٹا ہوا تارہ‘‘ہے جو خبطِ رفتہ کے ساتھ ساتھ احساسِ گراوٹ میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔ ہمارے ہاں تو یہ کچھ ہوا ہے کہ جہاں ’’عظمتِ رفتہ ‘‘دُور دُور تک سُجھائی نہیں پڑی وہاں ہم نے عظمت کے خلا کو افسانوں سے پُر کرلیا گیا ہے۔ خبطِ رفتہ کے مہلک مرض کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ہمارا اپنا گھڑا ہوا ماضی ہمارے سامنے بچھا ہے اور ہمارے حال و مستقبل کو گھن کی طرح کھا رہا ہے۔

حواشی

  1. Jihad vs. McWorld: How Globalism and Tribalism Are Reshaping the World by Benjamin Barber
  2. By trial and error
  3. Constant reinvestment of capital
  4. Religious decentralization /privatization
  5. Concentrated modernity
  6. تفصیلات کے لیے ملاحظہ فرمائیے ’’اقبال کا علم الکلام‘‘ از علی عباس جلالپوری

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...