انقلاب کا لفظ اپنے اندر ایک دائمی رومان اور دلچسپی رکھتا ہے۔ اس کے ساتھ ہیروازم اور خوش امکان مستقبل کے تصورات ازخود جڑے ہوئے ہیں۔ لیکن تاریخی تناظر میں دیکھا جائے تو دنیا میں انقلاب کے ثمرات دیرپا نہیں رہے۔ مصنف نے اس مؤقف کے ساتھ انقلاب اور سیاسی ارتقا میں سے ترجیح تلاش کرنے کی سعی کی ہے جس میں بات تاریخ کے مختلف انقلابات سے ہوتے ہوئے پاکستان کے موجودہ حالات تک پہنچتی ہے۔ پروفیسر ممتاز حسین چترال سے تعلق رکھنے والے سکالر ہیں۔ ماحولیات، کلچر، علاقائی زبانیں اور تاریخ ان کی تخصیص کے علاقے ہیں۔ (مدیر)
ایک زمانے میں دنیا کے بیشتر معاشروں میں انقلاب کا بڑا چرچا رہتا تھا۔ انقلابات کا باوا آدم تو انقلاب فرانس تھا، جو نا اہل بادشاہوں کی بد انتظامیوں اور بڑھتی ہوئی عوامی بیداری کا نتیجہ تھا۔ تاہم یہ انقلاب ملک کو کوئی مستحکم نظام نہیں دے سکا اور جلد ہی فرانس دوبارہ بادشاہت کی آغوش میں چلا گیا۔ اس کے بعد دوسرا انقلاب روس کا تھا جس کے نتیجے میں سوشلسٹ نظریے نے عملی شکل اختیار کی۔ بعد میں اس انقلاب کو چین اور دیگر کئی ملکوں نے نقل کیا اور ایک وقت ایسا لگتا تھا کہ سوشلزم ہی دنیا کا مستقبل ہے۔ لیکن چند دہائیوں کے اندر روس اور اس کے زیر اثر ملکوں میں انقلاب کے تحت قائم ہونے والا نظام ناکام ہوگیا اور چین نے حالات سے سبق حاصل کرتے ہوئے اپنے نظام کے دانت (سوشلسٹ نظریہ) نکال کر اسے بے ضرر بنانے کی کوشش کی۔
جدید دنیا کے لوگ انقلابِ فرانس سے کتابوں کے ذریعے واقف ہیں لیکن سوشلسٹ انقلاب ان کی آنکھوں کے سامنے آیا اور گزر گیا۔ روس میں یہ انقلاب پہلی جنگ عظیم کے دوران ہی آ چکا تھا لیکن باقی دنیا پر اس کے خد و خال دوسری جنگ عظیم کے بعد واضح ہونے لگے، جب سویت یونین اور امریکہ دو متقابل عالمی طاقتیں بن کر ابھریں۔ جنگ کے دوران عالمی معیشت کو جو نقصان پہنچا تھا، اس کی وجہ سے ساری دنیا میں مفلوک الحالی کا راج تھا۔ یورپ اور جاپان امریکہ کی مدد سے اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے میں کامیاب ہو گئے لیکن باقی دنیا کو ایسا کوئی سہارا دستیاب نہیں تھا۔ اس طرح دنیا دو واضح دنیاؤں میں تقسیم ہو کر رہ گئی، یعنی امیر اور غریب۔ غریب دنیا نے اپنی بد حالی کا ذمے دار امیر دنیا اور اس کے سرمایہ دارانہ نظام کو قرار دیا۔ ایسے میں ان ملکوں کے لوگوں کے لیے سویت یونین جیسی انقلابی تبدیلی میں بہت کشش محسوس ہوئی۔ یہ سوچ عام ہو گئی کہ محکوم و مجبور طبقات اُٹھ کر اقتدار اپنے ہاتھ میں لے لیں تو ان کی زندگیاں بدل سکتی ہیں۔
بیشتر ملکوں میں ان رجحانات سے مفاد پرست عناصر نے خوب فائدہ اُٹھایا اور انقلاب کے نام پر حکومتوں کا تختہ الٹ دیا جانے لگا۔ چونکہ کمزور سیاسی نظام کے حامل ملکوں میں فوج ہی سب سے طاقتور ادارہ ہوتا ہے اس لیے اقتدار پر قبضے کی بیشتر کوششیں فوجی افسروں کی طرف سے ہوئیں۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد ایشیاء، افریقہ اور جنوبی امریکہ میں فوجی انقلاب کے بہت زیادہ واقعات ہوئے۔ اکثر ایک ملک میں انقلاب آتا اور تھوڑے عرصے بعد اس کا جوابی انقلاب آ جاتا۔ اس طرح ملک بلکہ بڑے بڑے خطے مستقل عدم استحکام سے دوچار رہے۔ ان نام نہاد انقلابات کی پشت پر اکثر بیرونی طاقتیں ہوتیں جو اس طرح بر سرِ اقتدار آنے والوں کو اپنے مقاصد کی خاطر استعمال کرتیں۔ سویت یونین اور مغربی بلاک کے درمیان سرد جنگ کا میدان یہی غیر مستحکم خطے تھے۔ ایک شخص سوویت پشت پناہی سے اقتدار پر قبضہ کر لیتا تو کوئی دوسرا مخالف طاقت کی حمایت سے جوابی انقلاب کی کوشش کرتا۔
ان پے در پے نام نہاد انقلابات سے نہ تو ملکوں کی معاشی حالت میں کوئی بہتری آئی اور نہ ہی سیاسی استحکام حاصل ہو سکا۔ ان کا واحد نتیجہ یہ نکلا کہ ان معاشروں میں سیاسی عمل کا ارتقاء رک گیا۔ ایسی مثالوں میں برازیل، ارجنٹینا، عراق، شام، لیبیا، ایران، افغانستان، انڈونیشیا، شمالی کوریا، کمبوڈیا، لاؤس، تھائی لینڈ اور پاکستان نمایاں ہیں۔ اس دوران یورپ اور شمالی امریکہ سے باہر صرف وہ ممالک کچھ بہت کارکردگی دکھا سکے جو انقلابات سے کسی نہ کسی طرح بچ کر رہے۔ ان میں جاپان، جنوبی کوریا، انڈیا، ملائشیا، سعودی عرب و دیگر خلیجی ریاستیں نمایاں ہیں۔ ان میں سے کچھ میں جمہوری سیاسی عمل کو بتدریج ترقی دی گئی تو کہیں روایتی بادشاہت کو برقرار رکھا گیا۔ ان ملکوں میں معاشی کارکردگی، گورننس اور امن و امان کی صورت حال انقلاب زدہ ملکوں سے بہت بہتر رہی۔
ہمارے ملک کی خراب کارکردگی کی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہاں شروع سے ہی نام نہاد انقلاب کی خواہش اور کوشش موجود رہی۔ چنانچہ ملک کے قیام کے ساڑھے تین سال بعد ہی ایک فوجی جرنیل اکبر خان نے منتخب حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کرنے کی کوشش کی۔ چونکہ اس کوشش میں فیض احمد فیض جیسے دانشور بھی شامل تھے، اس لیے بہت سے لوگ اسے عوامی انقلاب کی کوشش سمجھتے رہے۔ یہ پہلی کوشش ناکام ہو گئی، تاہم 1958 میں دوسری کوشش جنرل ایوب خان کے ہاتھوں کامیابی سے ہمکنار ہو گئی۔ اس کے بعد ہر چند سال بعد فوجی کودتا معمول کی بات بن گئی۔ تاہم لفظ “انقلاب” کا فیشن ایوب خان کے بعد ختم ہوگیا، اور جنرل ضیاء یا پرویز مشرف کی طرف سے اقتدار پر قبضے کو کسی نے انقلاب کا نام نہیں دیا۔ یاد رہے کہ ایوب خان کے اقتدار پر قبضے کو سرکاری دستاویزات اور درسی کتابوں میں”انقلاب اکتوبر” کے نام سے پکارا جاتا تھا۔
موجودہ دور میں بھی ملک کے لوگوں کی ایک اچھی خاصی تعداد “انقلاب” کو تمام مسائل کا حل سمجھتی ہے۔ ایسے نعرے لوگوں میں مقبول ہیں کہ فلاں ملک جیسا نظام لایا جائے، چند سو لوگوں کو چوراہوں میں لٹکا دیا جائے وغیرہ۔ نعرے کی حد تک تو یہ باتیں خوشنما ہیں، لیکن یہ کوئی نہیں بتا سکتا کہ عملاً ایسا ہوگا کیسے۔ کون انقلاب لائے گا، اگر ایک فرد یا چند افراد ایسا کریں گے تو کیا گارنٹی ہوگی کہ وہ خود کرپٹ یا نا اہل نہیں ہونگے۔ تجربہ تو بتاتا ہے کہ ایسے لوگ دوسروں سے زیادہ کرپٹ اور بد دیانت ہوتے ہیں۔ نیز کسی جوابی انقلاب کی پیش بندی کیسے کی جائے گی۔
گزشتہ ایک صدی کا تجربہ ہمیں بتاتا ہے کہ فوج یا ہجوم کی طاقت سے لائی ہوئی تبدیلی نہ تو مثبت ہوتی ہے اور نہ پائیدار۔ پائیدار صرف وہ سیاسی نظام ہوتا ہے جو تدریجی طور پر معاشرے میں پروان چڑھے۔ ایسا نظام معاشرے کی روح سے ہم آہنگ ہوتا ہے اور عوامی شعور اس کی پشت پر ہوتا ہے۔ نام نہاد انقلابی حکومتوں سے بادشاہتیں بھی بہتر پرفارم کرتی ہیں، کیونکہ انہیں کسی نہ کسی حد تک جواز (Legitimacy) حاصل ہوتی ہے۔
فیس بک پر تبصرے