روشن خیالی کا جدید تصور اور اس کا اسلامی پس منظر (تیسری قسط)

یہ مقالہ سہ ماہی تجزیات، شمارہ 99 سے لیا گیا ہے اور یہاں تین اقساط میں شائع کیا جا رہا ہے۔

477

(پہلی قسط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں)

(دوسری قسط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں)

یہ حقیقت بھی تسلیم شدہ ہے کہ مسلمانوں نے، جیسا کہ شروع میں ذکر آچکا ہے، ابتداء ہی سے جدّت پسندی کا اصول اپنالیا ہے۔ خواہ وہ سماجی و ثقافتی معاملہ ہو یا دینی و فکری مسئلہ، ہرشعبے میں ضرورت کے تحت تجدّد (نئے پن) کو اپنالیا ہے، چنانچہ یونان و مصر اور ایران و شام کے فلسفیانہ اور سائنسی معلومات کو مسلمانوں نے لے لیا اور اپنے فلسفے، دینیات اور ادبیات کی تشکیل کے لیے انہیں بروئے کار لایا۔ اس طرح ہندوستان سے وحدت الوجودی صوفی طریقے کو اپنایا اور دوسری صدی ہجری کے بعد بایزید بسطامی (46) کے ذریعے ہندوستانی فلسفۂ وحدت الوجود اسلام میں داخل ہوا اور اسے خوب پذیرائی ملی۔ جب مسلمان ہندوستان آگئے تو انہیں لامحالہ ہندومت اور بدھ مت کے اثرات کو قبول کرنا پڑا۔ کیونکہ ان مذاہب کی تعلیمات کے مثبت پہلوؤں کو اپنے دینی نظریۂ حیات میں جگہ دینا اسلامی اصولوں کے خلاف نہ تھا۔ چنانچہ معروف ہندوستانی مؤرخ پروفیسر خلیق احمد نظامی اس ضمن میں لکھتے ہیں:

”جب تصوّف کی تحریک وسطِ ایشیا میں پہنچی تو ناگزیر تھا کہ بدھ مذہب کے کچھ اثرات قبول کیے جائیں۔ شیخ علی ہجویری نے کچھ صوفی گروہوں کا حال لکھا ہے۔ غور سے پڑھیے تو معلوم ہوگا کہ بدھ مذہب کے کتنے اثرات اس طبقے نے قبول کرلیے تھے۔ جب ہندووستان میں یہ تحریک پہنچی تو ناممکن تھا کہ یہاں کے ان قدیم مذہبی اصولوں کو جذب نہ کرے جو اس کے بنیادی اصولوں سے نہ ٹکراتے ہوں۔ حضرت شاہ محمد غوث گوالیاری شطّاری نے ’بحرالحیات‘ اور داراشکوہ نے ’مجمع البحرین‘ میں اسلامی تصوّف اور ہندو فلسفہ کا اسی نظریہ سے مطالعہ کیا ہے۔“(47)

اسلامی تصوّف کی یہ اہم خصوصیت ہے کہ یہ ہمیشہ صلح کل، ادیان عالم کی سچائیوں کی یکجائی اور محبت ورواداری کو پیش نظر رکھتا ہے اور کسی مذہب و مسلک کو بُرا بھلا نہیں کہتا۔ مسلمان صوفیاء کی مذہبی رواداری اور روشن خیالی کی بہت سی مثالیں کتابوں میں دستیاب ہیں۔ چنانچہ یہاں پر نظام الدین اولیاء کے حوالے سے ایک واقعہ بیان کیا جاتا ہے کہ ایک شام شیخ نظام الدین اولیاء اپنی خانقاہ کی چھت پر چہل قدمی کررہے تھے۔ اس وقت کچھ ہندو جمنا کے کنارے پوجا میں مشغول تھے۔ اُن کے ایک مرید نے شیخ کا دھیان ادھر مبذول کرایا۔ شیخ کی زبان سے برجستہ مصرعہ برآمد ہوا۔ ”ہر قوم راست راہے دینے و قبلہ گاہے۔“(48) اس واقع سے جہاں شیخ مذکور کی مذہبی رواداری کا بیّن ثبوت ملتا ہے وہاں اُس وقت کے ہندوستان میں مذہبی اور نسلی گوناگونی اور ہمہ جہت رنگ آرائی کو تسلیم کرنے کا ثبوت بھی فراہم ہوتا ہے۔ اس واقعے پر تبصرہ کرتے ہوئے خلیق احمد نظامی لکھتے ہیں:

”اس مصرعہ میں مذہبی رواداری کا ایک بے پایاں جذبہ سمٹ آیا ہے ایک ایسے دور میں جب مسلمانوں کا سیاسی اقتدار اپنے نصف النہار تک پہنچ چکا تھا، ایک مذہبی پیشواکا یہ بے ساختہ ارشاد صرف مذہبی رواداری کاہی نہیں بلکہ ایسی فکر کا بھی آئینہ دار ہے جس نے ہندوستان کی تہذیب کے ’جلوۂ صد رنگ‘ کو سمجھ لیا ہو، اور جو یہاں کے تہذیبی نقشے میں ’ہردین‘ اور ہر قبلہ گاہ کو دیکھنے کے لیے تیار ہو۔ “(49)

نظام الدّین اولیاءکے شاگرد اور مریدِ خاص اور برِّ صغیر پاک و ہند کے نامور شاعر اور صوفی دانشور امیر خسرو (1253-1325ء) بھی ہندوستان میں اسلامی رواداری و روشن خیالی کا ایک روشن ستارہ ہیں۔ یہی وہ شخص ہیں جنہوں نے برِّصغیر میں ہندو مسلم ثقافتی ترکیبی ڈھانچے کی بنیاد ڈالی تھی۔ انہوں نے اپنی فنی صلاحیتوں کو برِّ صغیرکے مختلف مذہبی، ثقافتی، لسانی اور سماجی گروہوں کے مابین یکجہتی پیدا کرنے کی خاطر استعمال کیاہے۔ مذہبی معاملات میں وہ روادار اور وسیع المشرب تھے۔ بقول پروفیسر قاضی جاوید، ”انہوں نے نہ صرف ہندو مذہب کو ہمدردانہ سمجھنے کی کوشش کی بلکہ تمام مذہبی تعصبات اور تنگ نظری سے بالاتر ہوکر اسلام اور ہندو مذہب میں مشترکہ عناصر کی تلاش پر بھی زور دیا ہے۔ “(50)قاضی موصوف اپنی رائے کے ثبوت میں امیر خسرو کا ایک شعر کا حوالہ دیتے ہیں جس میں انہوں نے کہا ہے کہ

                                     نیست ہنود ارچہ کہ دیندار چو ما                            ہست بسے جائے با قرار چو ما

ترجمہ: ”اگرچہ ہندو ہمارے جیسا دین نہیں رکھتے لیکن دونوں کے عقیدوں میں بہت سی چیزیں مشترک ہیں۔“(51)

 جیساکہ اس سے پہلے کہا گیا ہے کہ صوفیاء روشن خیال اور روادار تھے۔ ان میں حلیمی و فروتنی، عاجزی و انکساری اورصبر و استقامت بدرجۂ اتم موجود تھی۔ وہ ہندوؤں اور مسلمانوں کو خدا کی مخلوق سمجھ کر ان سے ہمدردی کرتے تھے اور بادشاہوں کو بھی یہی مشورہ دیتے تھے کہ رعیّت کے ساتھ بہتر سلوک کرو۔ چنانچہ شیخ محبّ اللہ الہ آبادی (م۔1648ء) نے شاہجہان سے کہا تھا کہ ہندو اور مسلمان خدا کی مخلوق ہیں، اس لیے بادشاہ کو چاہیے کہ وہ رعیّت کے ساتھ اچھا سلوک کرے۔ (52)

 اسی طرح ہندوستان میں تصوّف اسلام کے ایک نمائندے اور سلسلۂ چشتیہ کے ایک بزرگ شیخ عبدالقدّوس گنگوہی بھی اپنے زمانے کے مذہبی تعصّبات اور سماجی انتشار و افتراق سے نالاں تھے اور ان شورشوں پر کڑی تنقید کرتے تھے اور مذہبی رواداری اور سماجی انصاف کی حمایت کرتے تھے۔ وہ اپنے ایک مکتوب میں لکھتے ہیں، ”یہ کیسا شور و غوغا پھیلا دیا گیا ہے کہ کوئی مومن ہے، کوئی کافر، کوئی مطیع ہے کوئی گناہگار، کوئی صحیح راہ پر ہے اور کوئی بے راہ، کوئی مسلم، کوئی پارسا، کوئی ملحد، کوئی ترسا، (سچ تو یہ ہے کہ) سب ایک ہی لڑی میں پروئے ہوئے ہیں۔“(53)

  یہاں یہ بات بھی پیشِ نظر رہے کہ کسی فرد یا قوم میں روادری زوال و انحطاط کے زمانے میں پروان نہیں چڑھتی بلکہ افراد واقوام جب سیاسی، سماجی، معاشی، تعلیمی و تہذیبی اور خاص طور پر عقلی اور روحانی عروج و ارتقاءکی اعلیٰ منازل طے کررہے ہوتے ہیں تو لامحالہ وہ روادار اور روشن خیال بھی ہوتے ہیں۔ لہٰذارواداری و روشن خیالی کمزورافراد اورمعاشروں کا شیوہ نہیں بلکہ طاقتور و توانا افراد اور صحت مند معاشروں کی ریت و روایت ہے۔ حقیقی رواداری کے متعلّق حکیم الامّت، علّامہ ڈاکٹر محمّد اقبال نے ایک پُرحکمت گفتگو کی ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ: ” حقیقی رواداری عقلی اور روحانی وسعت سے پیدا ہوتی ہے۔ یہ رواداری ایسے شخص کی ہوتی ہے جو روحانی حیثیت سے قوی ہوتاہے اور اپنے مذہب کی سرحدوں کی حفاظت کرتے ہوئے دوسرے مذہب کو روا رکھتا ہے اور ان کی قدر کر سکتا ہے۔ ایک سچا مسلمان ہی اس قسم کی رواداری کی صلاحیت رکھتا ہے۔ “(54)

 جدید مغربی محققین و مستشرقین بھی یہ تسلیم کرتے ہیں کہ قرونِ وسطیٰ میں مسلمان جب رواداری اور روشن خیالی کا پھریرا فضا میں لہراتے ہوئے اس وقت کی معلوم دنیا کے مرکزی خطّوں کے دُور و نزدیک علاقوں تک پہنچ رہے تھے تو اس وقت عیسائیت اپنی غیر رواداری کے لیے مشہور تھی۔ اسلام کی اس رواداری اور عیسایئت کی غیر رواداری کی روایت کے درمیان موازنہ کرتے ہوئے محققین سترہویں صدی عیسوئی کو فیصلہ کن تبدیلی قرار دیتے ہیں۔ ڈاکٹر برنارڈ لوئس اس ضمن میں لکھتے ہیں کہ:

”۔ ۔ ۔ سترہویں صدی عیسوی تک، اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلم حکومتوں اور عوام کا برتاؤ ان لوگوں کے ساتھ جو کسی اور مذہب کو مانتے تھے، یورپ کے عام رویّے کے مقابلے میں زیادہ روادارانہ اور احترام پر مبنی تھا ۔ ۔ ۔ اسلامی تاریخ میں ایسی کوئی چیز نہیں جس کا موازنہ قتلِ عاموں، جلا وطنیوں، ظلم و جبراور عواقب و سزاؤں سے کیا جائے، جو عیسائی عادتاً غیر عیسائیوں اور اس سے بڑھ کر ایک دوسرے پر ڈھاتے تھے۔ اسلامی سرزمینوں میں ظلم و جبر شاذو نادر ہی ہے جبکہ عیسائی دنیا میں افسوس سے یہ ایک عام روش تھی۔ “(55)

 ہندی مسلمانوں نے مغل سلطنت کی شکست و زوال کے بعد بھی کسی نہ کسی طرح روشن خیالی کی روایت کو جاری رکھا۔ یہ سچ ہے کہ برّصغیرمیں مغل سلطنت کے سورج کے ڈوبنے اور 1857ءمیں انگریزوں کے ہاتھوں مسلمانوں کی شکست کھانے کے بعد یہاں کے مسلمان کلّی طور پر انگریزوں کی غلامی میں چلے گئے۔ یہ وہ دور تھا جب مسلمان من حیث المجموع سیاسی، سماجی، معاشی اور تعلیمی لحاظ سے زوال پذیر ہوچکے تھے اورپس ماندگی اور مایوسی کا شکار تھے۔ گویا ان کی کشتی بیچ منجدھار میں تھی اور ساحلِ مراد تک پہنچنے کی امیّد بھی ختم ہوچکی تھی۔ خواجہ الطاف حسین حالی نے اس کا درست نقشہ کھینچا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ:

                                جہاز ایک گرداب میں پھنس رہا ہے       پڑا جس سے جوکھوں میں چھوٹا بڑا ہے

                                نکلنے کا رستہ نہ بچنے کی جا ہے         کوئی اُن میں سوتا کوئی جاگتا ہے

 جو سوتے ہیں وہ مستِ خوابِ گراں ہیں            جو بیدار ہیں ان پہ خنداں زناں ہیں (56)

 چنانچہ اس دور میں برصغیر ہند کے مسلمان زعماءاور دانشوروں نے یہاں کے مسلمانوں کو زوال سے نکال کر ترقی یافتہ قوموں کے صف میں لانے کے واسطے مختلف طریقے اور تجاویز سامنے لائے۔ ان دانشوروں کے قافلے کو سرسیّد احمد خان کی صورت میں میرِ کارواں مل گیاتھا۔ انہوں نے گذشتہ تاریخ، موجودہ معروضی حالات کا بغور مطالعہ کرکے مسلمانوں کو شکست و زوال اور گوناگون مسائل و مصائب سے نجات دلانے کے لیے روشن خیالی، رواداری اور وسیع النظری اور حقیقت پسندی کا طریقہ اپنایا۔ سرسید کا یہ بنیادی موقف تھا کہ ہم کو اپنے ہر عقیدے، ہر فکر کو عقل کی کسوٹی پر کسنا چاہیے۔ کیونکہ، بقول ان کے، ”عقل ہی وہ آلہ ہے جس سے تمام باتوں کی اصلیت کا علم ہوتا ہے اور انسان سچائیوں کی تہ تک پہنچتا ہے۔“(57)نیز انہوں نے زوال سے نکلنے کے لیے جدید تعلیم اور خاص طور پر مغربی علوم و فنون اور انگریزی کی تعلیم پر زور دیا۔ انہوں نے لکھا کہ: ”قوم کی اس خراب حالت سے میرا دل دُکھا اور میں نے یقین کیا کہ تعلیم اور صرف تعلیم ہی ان کی اس خراب حالت کے درست کرنے کا علاج ہے۔ “(58)اور تعلیم سے ان کی مراد مغربی انداز کی تعلیم ہے۔ ایک موقعے پر انہوں نے یہاں تک کہا کہ: ”جو شخص علوم کی تحصیل کرنا چاہے وہ مجبور ہے کہ اس کو یورپ کی زبانوں میں کسی زبان کے ذریعے حاصل کرے“۔(59)انہوں نے مسلمانوں میں مغربی علوم و فنون اور انگریزی زبان و ادب کی ترویج و اشاعت کا منصوبہ بنایا۔ علی گڑھ میں ایم۔ اے۔ او کالج قائم کردیا اور سائنسی علوم کے فروغ کے لیے سائنٹفک سوسائٹی کا قیام عمل میں لایا۔ نیز انہوں نے تحریر و تقریر کے ذریعے مسلمانوں کے ذہن نشین کیا کہ انہیں تعلیم جدید کے حصول میں کماحقّہ، کوشش کرنی چاہیے تاکہ وہ زمانے کے ساتھ قدم ملا کر چلنے کے قابل ہوسکیں۔ ان کی تعلیمی کوششوں اور ان کے اثرات کا ذکر کرتے ہوئے مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے ایک استاد ڈاکٹر عارف الاسلام نے درست لکھا ہے کہ سر سیّد احمد خان نے مسلمانوں میں تعلیمی ترقّی کے ذریعے ایک جدید اور روشن خیال مسلم ذہن پیدا کیا ہے۔ (60) نیز انہوں نے جدید علوم کے حصول کے ساتھ ساتھ انگریزوں سے خوشگوار تعلقات قائم کرنے پر بھی زور دیا تاکہ وہ آزادی اور آسانی سے ترقیاتی کام کرسکیں۔ ان کے ان کارناموں اور سرگرمیوں کو دیکھ کر ازمنہ وسطیٰ کی مسلمان روشن خیالی کی یاد تازہ ہوتی ہے۔

 اصلاح و ترقی کے اس سفر میں سرسیّد اکیلے نہ تھے۔ ان کے ہمسفر اور بھی تھے جنہوں نے اپنے فکر و دانش اور تعقل و تدبّر سے مسلمانانِ ہند کو پھر سے منظم کرنے اور ان کو آگے لانے میں بنیادی کردارادا کیا۔ سرسیّد کے ان ہونہار اور روشن خیال رفقائے کار میں مولوی چراغ علی، سیّد امیرعلی، سرآغاخان سوئم، نواب محسن الملک، نواب وقارالملک اور الطاف حسین حالی و ڈپٹی نذیر احمد وغیرہ شامل تھے۔ ان کی کوششوں سے سیاسی، سماجی اور تعلیمی ادارے قائم ہوئے اور مضبوط و متحرک بھی رہے۔ ان میں سے بعض نے سیاسی و سماجی کاموں کو آگے بڑھایا اور بعض نے نثر اور شاعری دونوں میں کتابیں لکھیں۔ بہر حال، رواداری و روشن خیالی کی روایت کو سرسیّد کے بعدخاص طور پر خواجہ الطاف حسین حالی نے اپنی شاعری کے ذریعے آگے بڑھایااور مسلمانانِ ہند کو اس پر عمل پیرا ہونے کی تلقین کی۔ وہ رواداری اور انسان دوستی کو اسلام کی بنیادی تعلیمات سے جوڑتے ہیں۔ وہ ’مسدّس حالی‘ میں لکھتے ہیں کہ

                                یہ پہلا سبق ہے کتابِ ہدیٰ کا                              کہ ہے ساری مخلوق کنبہ خدا کا

وہی دوست ہے خالقِ دوسرا کا                             خلائق سے ہو جس کو رِشتہ وِلا کا

              یہی ہے عبادت یہی دین و ایماں       کہ کام آئے دُنیا میں انساں کے انساں (61)

 سرسیّدکے رفقائے کار میں سے ایک، جیساکہ اوپر ذکر ہوا، سرسلطان محمّد شاہ سرآغاخان سوئم (1877-1957ء) بھی تھے، جو عالمِ اسلام اور برِّ صغیرمیں مسلم رواداری و روشن خیالی کا پرچار کرتے تھے۔ آپ مسلمانوں اور [تقسیم ہند کے بعد] پاکستانیوں کی ترقّی و خوشحالی کے لیے دینی علوم، بالخصوص عربی زبان کی ترویج و تعلیم کے ساتھ ساتھ عقلی علوم جیسے فلسفہ، سائنس اور ٹیکنالوجی کے حصول پر زور دیتے تھے۔ آپ نے عالمِ اسلام کے نام پیغام میں فرمایا کہ وہ سائنس، ٹیکنالوجی اور علوم کائنات کا مطالعہ کریں، اس پر عبور حاصل کریں کیونکہ دینِ اسلام میں اس کی تلقین کی گئی ہے۔(62)نیز عالمِ اسلام کی ترقّی اور امن استحکام کے لیے سر آغاخان رواداری اور صبر و تحمّل کے اصول پر عمل پیرا ہونے پر زور دیتے تھے۔ آپ فرماتے تھے کہ ” اسلام نہ صرف اپنے ماننے والوں کو رواداری کا درس دیتا ہے بلکہ اس سے بھی آگے ان میں شانِ خداوندی کی ایک قدر ”حلم“ یعنی برداشت، صبر، حذر، سکون و اطمینان اور عفو و درگزر پر بطورِ جزوِ ایمان عائد کرتا ہے۔ “(63)

 اس قافلۂ عزم و یقین میں ایک شخص خاص طور پر نمایاں نظر آتا ہے اور وہ ہے علامہ ڈاکٹر محمد اقبال (1877-1938ء) ۔ اگرچہ علّامہ اقبال کے بارے میں ایک عام تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ ان کے دینی رجحانات بنیاد پرستی کی طرف مائل ہیں لیکن حقیقتِ حال ایسا نہیں ہے۔ اقبال تو روشن خیال، روادار اور آزادیِ فکر کے علمبردار تھے۔ جیساکہ معروف ادیب، نقّاد اور پاکستانیات کے ماہر ریاض صدیقی لکھتے ہیں کہ ”اقبال آزادی فکر و نظر، خرد افروزی اور سیکولزم کے بغیرایک قدم نہیں چل سکتے۔ سیکولرزم کو انھوں نے لادینیت کے معنوں میں نہیں برتاہے ورنہ وہ ترکی انقلاب اور مصطفےٰ کمال پاشا کو کہیں خراج تحسین پیش نہ کرتے۔“(64) ان کے نزدیک معاشرے کی نشو و نما کے لیے روادار ی کا جذبہ ضروری ہے۔ نیز انسانیت کا تقاضا یہ ہے کہ دوسرے انسان کا احترام کیا جائے۔ وہ ایک نشریہ تقریر میں فرماتے ہیں کہ: ” انسانیت کی بقا کا راز انسانیت کے احترام میں ہے۔ جب تک تمام دنیا کی تعلیمی قوّتیں اپنی توجّہ کو محض احترامِ انسانیت پر مرتکز نہ کر دیں، یہ دنیا بدستور درندوں کی بستی بنی رہے گی۔ “(65)اقبال کے نزدیک احترامِ انسانیت کے متعلّق کسی بُرے لفظ کا استعمال سخت گناہ ہے۔ انسانیت کے نقطۂ نظر سے کافر و مومن میں کوئی فرق نہیں ہے۔ ان خیالات کو اقبال نے اپنے فارسی اشعار میں یوں بیان کیا ہے:

                                                حرفِ بد را برلب آوردن خطاست        کافر و مومن ہمہ خلقِ خداست

                                                آدمیّت احترامِ آدمی                         با خبر شو از مقامِ آدمی

                                                آدمی از ربط و ضبط تَن بہ تن        بر طریقِ دوستی گامے بزن

                                                بندۂعشق از خدا گیر د طریق       می شود بر کافر و مومن شفیق (66)

]ترجمہ۔ بُری بات کو زبان پر لانا ہی گناہ ہے۔ کافر اور مومن سب خدا کی مخلوق ہیں۔ آدمیّت انسا ن کے احترام کا نام ہے۔ تم آدمی کے مقام و منزلت سے آگاہ رہو۔ ایک دوسرے سے تعلّق قائم کرنا اور اس تعلّق کو ضبط میں رکھنے کا نام انسانیّت ہے۔ دوستی کے راستے پر گامزن رہو۔ بندۂعشق خدا کا راستہ اختیار کرتا ہے اور ایسا شخص کافر اور مومن دونوں پر مہربان ہوتا ہے۔ [

 اسی طرح علّامہ اقبال نے اپنے شعر و ادب میں دوسرے بانیانِ ادیان و مذاہب کے مثبت اور تعمیری افکار و تعلیمات کی دل کھول کر تعریف کی ہے۔ ان کی مقبولِ عام منظوم کتاب ’ بانگِ درا ‘ کی نظموں ” ترانۂ ہندی “ اور ” نیا شوالہ “ کے علاوہ سوامی رام تیرتھ، رام اور نانک جیسی شخصیات پر بھی نظمیں ملتی ہیں۔ ” نانک“ والی نظم میں گوتم بدھ اور گرونانک کی خوب تعریف کی ہے۔ اس ضمن میں ڈاکٹر مہر الحق اپنی آراءان الفاظ میں پیش کرتے ہیں کہ: ” اقبال نے گوتم بدھ کو ” گوہرِ یکدانہ “، شمع حق اور اس کے پیغام کو آوازِ حق، ”زندگی کا راز “ اور بارشِ رحمت کہا ہے اور نانک کو اپنے فکر وفلسفے کی آخری حد تک پہنچا کر ” مردِ کامل “ کا لقب دیا ہے۔ “(67)

 بالآخر جس شخص نے سرسیّد، ان کے رفقائے کار اور علامہ اقبال کے خوابوں کی تعبیر بتائی وہ بانیِ پاکستان قائداعظم محمّدعلی جناح (1876-1948ء) ہیں۔ قائداعظم اور ان کے رفقاءنے متقدّمین کی کاوشوں کے ثمرات کو تشکیل و قیامِ پاکستان کی صورت میں حاصل کیا۔ قائداعظم نے اسلام کی روشن روایات اور اپنے پیشرو رہنما ؤں کے صحت مندنظریات کو رہنما بناتے ہوئے پاکستان کا مطالبہ انتہائی تدبّر، معقولیت، سیاسی بصیرت، قانونی مہارت، انتظامی صلاحیّت اور کمال ہوشیاری کے ساتھ پیش کیا اور انگریزوں سے اپنا جائز مطالبہ منواہی لیا۔ اس طرح1857ء  میں ہاری ہوئی جنگ کو مذاکرات کی میز پر جیت لیا۔ یوں 14اگست 1947ء کو پاکستان وجود میں آیا۔

 بلاشبہ، پاکستان برصغیر کے مسلمانوں کے لیے ایک علیٰحدہ ریاست کے طور پر وجود میں آیا تھا لیکن اس کا مقصد کسی خاص قسم کی دینی ریاست کا قیام نہ تھا بلکہ اس کی بنیاد روشن خیالی، روادری، ترقی پسندی اور مذہبی آزادی جیسی اسلامی اور جمہوری روایات و اقدار پر رکھی گئی تھی۔ اس سلسلے میں قائداعظم نے مورخہ 11اگست 1947ء کو پاکستان کی دستور ساز اسمبلی سے اپنے اوّلین خطاب میں فرمایا، جس کا اس سے پیشتر بھی ذکر آیا ہے، کہ : ”آپ اس ریاست پاکستان میں آزاد ہیں، چاہیں تواپنے مندروں میں جائیں چاہیں تو مسجد میں یا کسی اور عبادت گاہ میں جہاں آپ کی مرضی ہو جا سکتے ہیں۔ آپ کا واسطہ کسی بھی مذہب سے ہوامور مملکت سے اس کا کوئی سروکار نہیں“۔(68)قائداعظم نے اس کے علاوہ بھی دیگر خطبات و تقاریر میں تکرار سے اس نکتے پر زور دیا کہ پاکستان میں اسلامی اخوّت، رواداری اور روشن خیالی کے اصولوں کو اپنا کر ملک کو ترقی و استحکام دینا ہوگا۔ چنانچہ انہوں نے فروری 1948ء  میں اہلیانِ امریکہ کے نام اپنے براڈ کاسٹ میں کہا کہ: ”۔۔ ۔ پاکستان میں کسی صورت میں بھی تھیارکریسی رائج نہیں ہوگی جس میں حکومت مذہبی پیشواؤں کے ہاتھوں میں دے دی جاتی ہے کہ وہ (بزعمِ خویش) خدائی مشن پورا کریں“۔(69) نیز آپ نے جدید تعلیم، خاص طور پر سائنس اور ٹیکنالوجی کے حصول پر زور دیا تاکہ ملک معاشی اور صنعتی لحاظ سے ترقی کرسکے۔

  حاصلِ کلام یہ کہ روشن خیالی ا ور رواداری کی روایت کا باقاعدہ آغاز اگرچہ اٹھارھویں صدی عیسوی میں مغربی یورپ میں ہوا لیکن اس سے بہت پہلے اس کا ایک واضح تصوردینِ اسلام اور پیغمبرِ اسلام کی تعلیمات میں ملتا ہے۔ ان روشن روایات و تعلیمات کو قرونِ اولیٰ اور ازمنہ وسطیٰ کے مسلمانوں نے اپنی عملی زندگی میں اپنائے رکھا اورتہذیب و تمدّن، ادب و سائنس اور سیاست و معاشرت کے مختلف میدانوں میں کارہائے نمایاں انجام دیے۔ ان خصوصیات کی بنا پر ان کا معاشرتی نظام صحت مند بنیادوں پر قائم تھا اور عروج حاصل کیا تھا۔ خاص طور پر برِّ صغیر پاک و ہند میں اپنے ہزار سالہ دورِ حکمرانی میں مسلمانوں نے روشن خیالی اور رواداری کے سنہرے اصولوں پر عمل کیا۔ بلکہ 1857ء کی جنگ کے بعد بھی زوال سے نکلنے کے لیے مسلمان قیادت نے اسے نسخۂ کیمیا پایا۔ یوں وہ برِّ صغیر کے مسلمانوں کو بیدار کرنے اور باآخرپاکستان کے حصول میں کامیاب ہوئے۔ آج بھی بالعموم مسلم دنیا میں اور بالخصوص پاکستان میں روشن خیالی، رواداری اورانسان دوستی کے طریقوں کو اپنانے اور ان پر عمل پیرا ہونے کی پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت ہے۔ ان اصول و اقدار ہی سے ملک میں امن و امان اور خوشحالی وفارغ البالی کو پھر سے لوٹا یا جا سکتا ہے۔

حوالہ جات

1۔  ڈاکٹر جمیل جالبی، ’قومی انگریزی اردو لغت‘، اسلام آباد، : مقتدرہ قومی زبان،1992ء، ص 669

  1. Immanuel Kant. An Answer to the Question: What is Enlightenment? (1784)

  www.english.upern.edu/Etexts/kant.html

3۔ محمّد ابراہیم ذوق، ’ کُلیاتِ ذوق ‘، جلد اوّل، مرتّبہ:ڈاکٹر تنویر احمد علوی، مجلسِ ترقّی ادب، لاہور، 1967ء، ص329

4۔ ڈیل کارنیگی، ’ میٹھے بول میں جادو ہے ‘، مکتبہ میری لائبریری، لاہور،1975ء، ص 50

5۔ محمّد مار میڈیوک پکھتال، ’ اسلامی تہذیب ‘، ترجمہ: سیّد مرتضیٰ جعفری،  یونیورسٹی بک ایجنسی، کابلی گیٹ، پشاور، ص 49

6۔ محمّد مار میڈیوک پکھتال۔ ’ اسلامی تہذیب ‘، ص 108

  1. T. Arnold. Preaching of Islam, Lahore, 1961, pp.51,52

8۔ وحید الزّمان۔ ’ لغات الحدیث‘، جلد2، کتاب ’خ‘، باہتمام نور محمّد ( کراچی: اصحّ المطابع و کار خانہ تجارت کتب، آرام باغ، 1956ء)، ص 117

9۔ برنارڈ لیوس۔ ”اسلام، عقیدہ اور رواداری، “، ’سیّارہ ڈائجسٹ‘، چودہ صدیاں نمبر، مدیر عطش درّانی، ( فروری، مارچ 1981ء)، ص 55

  1. Farhad Daftary. ‘Diversity in Islam: Communities of Interpritation’ The Muslim Almanac, ed. Azim Nanji (New Tork-london: Gale Research Inc., 1996), p. 161

11۔ ابی جعفر محمد بن جریرطبری، ’ تاریخ طبری‘، جلد اوّل، ترجمہ : سیّد محمد ابراہیم ( کراچی:نفیس اکیڈیمی، 1975ء)، ص 278

12۔ حافظ الرّحمٰن صدّیقی (مرتّب)۔ ’ مجموعہ احادیثِ نبوی‘ (کراچی: مدینہ پبلیشنگ کمپنی، تاریخ اشاعت ندارد)، ص 80

13۔ ابو القاسم پایندہ(مولّف)۔ ’نہج الفصاحہ‘، ( کراچی: 1997ء)، ص 356

  1. Reza Shah Kazemi, The Spirit of Tolerance in Islam, p. 15

15۔ محمّد مار میڈیوک پکتھال۔ ’ اسلامی تہذیب ‘، ترجمہ: سیّد مرتضیٰ جعفری، یونیورسٹی بک ایجنسی، پشاور(تاریخِ اشاعت ندارد)، ص 12

16۔ سیّد امیر علی، ’ روحِ اسلام ‘، ترجمہ: محمّد ہادی حسین، ادارہ ثقافتِ اسلامیّہ، لاہور، 1990ء، ص 426

17۔ امیر علی، ایضاً، ص 426

18۔ امیر علی، ایضاً، ص 428

19۔ آرنلڈ جے- ٹوائن بی۔ مطالعہ تاریخ ‘، ترجمہ: غلام رسول مہر، مجلس ترقّی ادب، لاہور، 1964ء، ص 722

  1. T. Arnald. Preaching of Islam, p.217; G. E. Grunebaum. Classical Islam, trans. K. Watson, London: George Allen and Anwin Ltd., 1970), p.64; M. W. Watt. The Mejesty that was Islam, and Jackson, London: Sedguick,1974), p.55

21۔ امیر علی، ’ روحِ اسلام ‘، ص 428

22۔   امیر علی، ’ تاریخِ اسلام ‘، ترجمہ: باری علیگ، نطر ثانی: صوفی تبسّم، اردو اکیڈیمی، لاہور،1949ء، ص311،312  انگریزی متن کے لیے دیکھیے:

Syed Amir Ali, A Short History of The Saracens, Progressive Books, Lahore, p. 4870

23۔ محمّد مار میڈیوک پکتھال۔ ’ اسلامی تہذیب ‘، ترجمہ: سیّد مرتضیٰ جعفری، پبلشرز یونیورسٹی بک ایجنسی، پشاور، ص95

24۔ ہائنز ہالم، ’ فاطمی اور ان کی تعلیمی روایات ‘، مترجم: مہر افروزمراد، لبرٹی بکس، کراچی، 2004ء، ص38؛انگریزی متن کے لیے دیکھیے:

 Heinz Halm, The Fatimids and their Traditin of Learning, London,I. B. Tauris Publishers, 1997

25۔ رئیس احمد جعفری، ’ تاریخِ دولت فاطمیّہ ‘، ادارہ ثقافتِ اسلامیّہ، لاہور،1965ء، ص502

O, Leary, A Short History of the Fatimid Khalipate, p. 72

  1. Reza Shah Kazemi, The Spirit of Tolerance in Islam, p. 39

27۔ ڈاکٹر زوّار حسین زیدی (مدیرِ اعلیٰ)۔ ’جناح پیپرز، باآخر تخلیقِ پاکستان‘، جلد چہارم، تلحیص و ترجمہ: سیّد نصرت اللہ شاہ (اسلام آباد: پاکستان پیپرزپراجیکٹ، کلچر ڈویژن، حکومتِ پاکستان،2003ء)، ص351، 352

28۔ عاشق حسین و محمّد شاکر، ’ عہدِ فاطمی میں علم و ادب ‘، بمبئی، ص 42

29۔ ” فاطمیّین کی علمی زندگی “، مترجم: بلبل شاہ، ماخوز از ’ فی ادب مصرالفاطمیّہ، باب دوم، از قلم: ڈاکٹر کامل حسین، ’ اسماعیلی بلیٹن ‘، اکتوبر۔ نومبر۔ دسمبر 1978ء، ص 12

30۔ غلام جیلانی برق، ’ فرمایانِ اسلام ‘، شیخ غلام علی اینڈ سنز، لاہور، ص 208

31۔ Reza Shah Kazemi, The Spirit of Tolerance in Islam, pp.27-28

32۔ Reza Shah Kazemi, The Spirit of Tolerance in Islam, p.30

33۔ سیّد سلیمان ندوی، ’عرب و ہند کے تعلّقات‘ (کراچی: کریم سنز پبلیشرز،1974ء)، ص 13

34۔ سبطِ حسن: ’پاکستان میں تہذیب کا ارتقاء، مکتبہ دانیال، کراچی،1989ء، ص158

35۔ ابو ظفر ندوی۔ ’تاریخ سندھ‘ (اعظم گڈھ:، مطبع معارف،1947ء)، ص 372؛ سبطِ حسن۔ ’پاکستان میں تہذیب کا ارتقا ‘، ص166، 167

36۔ ’دربارِ ملّی‘، مرتّبہ، : ایس۔ ایم اکرام، وحید قریشی، اردو ترجمہ، لاہور، 1966ء، ص 3، 10؛ بحوالہ المیۂتاریخ ‘، از ڈاکٹر مبارک علی، پروگریسو پبلشرز، لاہور، 1993ء، ص 16

37۔ Annemarie Shchimel. Islam in Indian Subconinent, E. J. Brill, Leiden, 1980, p.4

38۔ شیخ محمّد اکرام، ’ آبِ کوثر ‘، ادارہ ثقافتِ اسلامیّہ، لاہور، 1990ء، ص 27

39۔ محمّد مجیب،’ تاریخِ تمدّنِ ہند ‘، پروگریسو بُک، لاہور، 1991ء، ص 244

40۔ سیّد امیر علی، ’ رُوحِ اسلام ‘، ترجمہ: مُحمّد ہادی حسین، ادارہ ثقافتِ اسلامیّہ، لاہور، 1990ء، ص556

41۔   محمدیاسین مظہر صدیقی۔ ”دہلی سلطنت کے نظم و نسق میں ہندوؤں کا کردار“، ’ ہند اسلامی تہذیب کا ارتقاء‘، مرتبہ: عمادالحسن آزاد فاروقی (نئی دہلی: مکتبہ جامعیہ لمیٹد،1985ء)، ص19، 32

42۔ شیخ محمد اکرام، ’رودِکوثر‘(لاہور: فیروز سنز، 1968ء)، ص32؛ سبطِ حسن۔ ’پاکستان میں تہذیب کا ارتقاء‘، ص278، 279

43۔ سیّد امجدالطاف، ”اکبر“، ’اردو دائرہ معارفِ اسلامیّہ‘، جلد۳، حصّہ ۱، (لاہور: دانشگاہِ پنجاب،1967ء)،  ص49،50

44۔ عماد الحسن آزاد فاروقی،  ”ہندی مسلمان اور ہندوستانی مذاہب“، ہنداسلامی تہذیب کا ارتقاء، ص 70 ، 76

45۔ مونسیراٹ، ’ اکبر کا ہندوستان ‘، اُردو ترجمہ: ڈکٹر مبارک علی، تاریخ پبلیکیشنز، لاہور،2012ء، ص30، 31

46۔ نوٹ : بایزید کا یہ قول مشہور ہے ” ابوعلی(سندھی) سے میں نے توحید میں فنا ہونے کا علم(وحدت الوجود)سیکھاتھا اور ابوعلی مجھ سے الحمد و قل ھواﷲ سیکھتا تھا۔ “(عبدالرحمٰن جامی۔ ’نفحات الانس‘، ترجمہ:سید احمد علی چشتی(لاہور:ملک چنین الدّین تاجرکتب و پبلشر، کشمیری بازار، بارچہارم)، ص165

47۔ خلیق احمد نظامی، ’تاریخ مشائخ چشت‘ (کراچی: مکتبہ عارفین،1975ء)،  ص 22، 23

48۔ عمر، ڈاکٹر محمّد،’ ہندوستانی تہذیب پر مسلمانوں کا اثر ‘، (کراچی: پاک اکیڈیمی، 1992ء)، ص21

49۔ خلیق احمد نظامی،’سلاطین دہلی کے مذہبی رجحانات‘ ( دہلی :، ندوة المصنفین، ۸۹۹۱ئ)، صفحہ73

50۔ قاضی جاوید،’ برِّ صغیر میں مسلم فکر کا ارتقاء‘، نگارشات، لاہور،1986ء، ص 51

51۔ ایضاً، ص 51

52۔ ڈاکٹر مبارک علی، ’ بر صغیر میں مسلمان معاشرے کا المیہ ‘، تاریخ پبلیکیشنز، لاہور، 2012ء، ص 82؛ شیخ محمّد اکرام، ’ رود کوثر ‘، ادارہ ثقافتِ اسلامیّہ، لاہور، 1984ء، ص 441

53۔ خلیق احمد نظامی، ’سلاطین دہلی کے مذہبی رجحانات ‘، ندوت المصنّفین، اردو بازار، دہلی، طبع اوّل، 1958ء، ص449

54۔ محمّد اقبال، ’ حرفِ اقبال ‘، ترتیب و ترجمہ:لطیف احمد خان شروانی، علّامہ اقبال اوپن یونیورسٹی، اسلام آباد، 1984ء، ص 102

55۔ Reza Shah-Kazemi, The Spirit of Tolerance in Islam, I.B.Tauris & Co. Ltd, in association with The Institute of Ismaili Studies, London,, 2012, page no. 3.

56۔ الطاف حسین حالی، ’ مسدّسِ حالی‘ (لاہور: تاج کمپنی لمیٹڈ، تاریخ اشاعت ندارد)، ص 78

57۔ ’ مقالاتِ سرسیّد، جلد 5، لاہور، 1962، ص 251

58۔ قاضی جاوید،’سرسیّد سے اقبال تک‘ (لاہور: تخلیقات، 1998ء)، ص16؛ ماخوذ از سرسیّد احمد خان، ’مقالات سرسیّد ‘، جلد 10، ص191

59۔ ایضاً، ص 21؛ مقالاتِ سرسیّد، جلد 8، ص 130

60۔  محمّد علی صدّیقی، ’سر سیّد احمد خان اور جدّت پسندی‘ (کراچی: ارتقا، 2002ء)، ص 91

61۔ خواجہ الطاف حسین حالی، ’ مدّ و جزر اسلام ‘ مسمّی بہ’ مسدّس حالی‘، مع ضمیمہ، شیخ مبارک علی تاجر و ناشر کتب، لاہور، ص 71

62۔ Aga Khan III, Imam Sultan Muhammad Shah. Message to the World of Islam, H. R. H. The Aga Khan Ismailia Association for Pakistan, Karachi, 1977, pp. 9.-0, 52-57

63۔ Ibid, p. 41

64۔ محمّد اقبال، ’ کلیّاتِ اقبال فارسی‘ (لاہور: شیخ غلام علی ایند سنز پبلشرز، 1978ء)، ص 793؛ ’جاوید نامہ‘، 205

65۔ محمّد فاضل، ” اقبال اور عشقِ رسول ﷺ“، ڈاکٹر سلیم اختر، ’ اقبالیات کے نقوش ‘، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، 1977ء، ص678

66۔ ریاض صدیقی، ’ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ (مطالعہ اقبال)، قمر کتاب گھر، اردو بازار، کراچی1987ء، ص68

 67۔ مہر الحق، ” آفتاب ( ترجمہ: گائتیری) “، در ’ علّامہ اقبال: حیات، فکر و فن ‘، مرتّبہ: ڈاکٹر سلیم اختر، سنگِ ملی پبلی کیشنز، لاہور، 2012ء، ص 731

68۔ ڈاکٹر زوّار حسین زیدی (مدیرِ اعلیٰ)، ’جناح پیپرز، باآخر تخلیقِ پاکستان‘، جلد چہارم، تلحیص و ترجمہ: سیّد نصرت اللہ شاہ (اسلام آباد: پاکستان پیپرزپراجیکٹ، کلچر ڈویژن، حکومتِ پاکستان، 2003ء)، ص351، 352

69۔ الطاف حسین، ’اقبال اور اسلامی معاشرہ‘ (لاہور: بزمِ اقبال، 1991ء)، ص199، 120

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...