روشن خیالی کا جدید تصور اور اس کا اسلامی پس منظر (دوسری قسط)

یہ مقالہ سہ ماہی تجزیات، شمارہ 99 سے لیا گیا ہے اور یہاں تین اقساط میں شائع کیا جا رہا ہے۔

431

(پہلی قسط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں)

بغداد کی عبّاسی خلافت اور اسپین کی اموی خلافت کے مدِّ مقابل ایک اور خلافت تھی جسے خلافتِ بنو فاطمہ یا دولتِ فاطمیّہ کا نام دیا جاتا ہے اور اس کا دارالخلافہ پہلے قیروان اور اس کے بعدمصر کا شہر قاہرہ تھا۔ اگرچہ ان کی خلافت مذہبی۔ سیاسی استحقاق کی بنیاد پر حاصل کی گئی تھی، کیونکہ ان کا نسلی تعلّق حضرت فاطمہ زہرا ؑکے واسطے سے براہِ ر است نبی آخر الزّمان ﷺ سے تھا، اس لیے خود کو بنو امیہ اور بنو عبّاس سے خلافت کا زیادہ مستحق سمجھتے تھے، لیکن اس کے باوجود انہوں نے مذہبی رواداری کو اپنی دولت و خلافت کی بنیادی حکمت عملی کے طور پر اپنایا۔ اگرچہ انہوں نے دعوت و تبلیغ کا بہت مستحکم نظام مرتّب کیا تھا اوردنیا کے مختلف حصّوں میں اسماعیلی دعوت کا جھال بچھاد یا تھا اور بے شمار لوگوں کواسماعیلی مذہب کا حلقہ بگوش کیا تھا لیکن یہ حقیقت بھی تسلیم شدہ ہے کہ انہوں نے کسی کو زبردستی تبدیلیِ مذہب پر مجبور نہ کیا اور نہ فاطمی حکومت نے اس سلسلے میں ریاستی طاقت کا استعمال کیا۔ بلکہ تبلیغ اور حکمت و موعظت کے ذریعے لوگوں کو اپنے مذہب کی طر ف راغب کیا۔ یہی وجہ ہے کہ مصرکی آبادی کی اکثریت پہلے بھی سُنّی تھی، عہدِ فاطمیّہ میں بھی سنّی رہی اور بعد میں بھی یہاںسُنّی اکثریت میں رہے۔ جیسا کہ جرمن محقّق، ہائنز ہالم لکھتے ہیں کہ ”انہوں  [یعنی فاطمیوں] نے کبھی مصری آبادی کے سوادِ اعظم کو تبدیلیِ مذہب پر مجبور کرنے کی کوشش نہیں کی، وہ سُنّی تھے اور سُنّی رہے۔ دعوت مجالس الحکمۃ (دانائی کی نشستوں )تک محدود رہی، جس میں شرکت کرنے پر کسی کو مجبور نہیں کیا گیا۔ “(24) بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ فاطمیوں نے شروع دن سے ہی دستور رواداری کونافذ کیا تھا اور آخر تک اس پر عمل پیرا رہے۔ رئیس احمد جعفری ڈی اولیری(O, Leary) کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ مہدی [یعنی پہلا فاطمی خلیفہ] نے مذہبی آزادی کا اعلان کردیا اور احکام جاری کیے کہ کسی کو اسماعیلیت پر مجبور نہ کیا جائے۔ ہر شخص کو اپنے مذہب پر قائم رہنے کی آزادی حاصل ہے۔ (25)

 فاطمیوں کی رواداری کے حوالے سے اس عہد نامۂ امن کا ذکر بھی ضروری معلوم ہوتا ہے جسے فاطمی کمانڈر جوہرالصقلی نے 969ءمیں مصر کی فتح کے بعد امام۔ خلیفہ المعزّکی پیشگی منظوری سے مصری عوام پر نافذ کیا تھا جس میں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ عیسائی اور یہودی بھی شامل تھے۔ اس تاریخی عہد نامے کی کلیدی بات یہاں درج کی جاتی ہے:”۔ ۔ ۔ آپ اپنے مذہب [فقہی مسلک]پر عمل کرتے رہیں۔ آپ کو یہ اجازت حاصل ہوگی کہ آپ اپنے فرائض دینی علم کے مطابق ادا کریں اور اس کے لیے اپنے اجتماع گاہوں اور دوسری مسجدوں میں جمع ہو جائیں، اور سلف الصالحین، نبی کریم ﷺ کے صحابہ اور ان کے جانشینوں یعنی تابعین اور شہر وں کے ان فقیہوں کے مسلک پر عمل پیرا ہوں جن کے مذاہب اور فتووں کے مطابق احکام جاری ہوتے ہیں۔ “(26) فاطمی امام۔ خلیفہ المعزّ کے مذکورہ عہد نامے اور بانیِ پاکستان قائد اعظم محمّد علی جناح کی مورخہ11 اگست1947ءکو پاکستان کی دستور ساز اسمبلی سے اپنے اوّلین خطاب میں کی گئی تقریر میں حیرت انگیز حدتک مماثلت اور موافقت پائی جاتی ہے جس میں انہوں نے فرمایاتھا کہ : ”آپ اس ریاست پاکستان میں آزاد ہیں، چاہیں تواپنے مندروں میں جائیں، چاہیں تو مسجد میں یا کسی اور عبادت گاہ میں جہاں آپ کی مرضی ہو جا سکتے ہیں۔ آپ کا واسطہ کسی بھی مذہب سے ہوامور مملکت سے اس کا کوئی سروکار نہیں“۔(27)

 فاطمیوں نے علمی اداروں میں بھی رواداری وروشن خیالی اور اہلیت و قابلیت پسندی کے اصول کو نافذ کیا جس کا ثبوت تاریخ سے فراہم ہوتا ہے۔ فاطمی دَور کاسب سے بڑا علمی ادارہ، جسے دنیا کی قدیم ترین یونیورسٹی ہونے کا شرف حاصل ہے اور جس کی تکمیل 361ھ میں امام۔ خلیفہ المعزّ کے ہاتھوں ہوئی، جامع ازہر ہے۔ اگرچہ اس کی تعمیر کا بنیادی مقصد شیعہ اسماعیلی فاطمی دعوت و تعلیم کا پرچار کرنا تھا لیکن کچھ عرصے بعد ہی فاطمیوں نے اس میں دیگر شیعہ اور سُنّی مذاہب کی تعلیم کا اہتمام کیا اور دوسرے مسالک کے علماءکو بھی مدعو کیا۔ جیساکہ کتاب ’ عہدِ فاطمی میں علم و ادب ‘کے مصنّفین عاشق حسین و محمّد شاکر اس سلسلے میں لکھتے ہیں کہ:

”جامع ازہر صرف علوم دعوت اور فاطمی علماءہی کے لیے مخصوص نہیں تھی بلکہ اس میں شافعی اور حنفی وغیرہ مسلک کے عالموں کے بھی حلقے ہوا کرتے تھے۔ فاطمیوں نے علم و حکمت کی سرپرستی میں کبھی تعصب سے کام نہیں لیا۔ وہ علماءاہلِ سُنّت اوراہلِ تشیّع کے ساتھ بڑی فراخدلی سے پیش آتے تھے۔ ۔ ۔ کئی بار اس جامع میں فاطمیین کے خلاف عقائد رکھنے والے فقیہوں نے اپنے عقیدہ و مسلک کے مطابق فیصلے دیے ہیں۔ “(28)

  فاطمیوں کی علم پروری اور علما نوازی کی یہ صورت حال تھی کہ انہوں نے اپنے شاہی محلّات اور دارالعلوم میں لائبریاں قائم کیں تاکہ علما کو حصول و فروغِ علم میں آسانیاں فراہم ہوں۔ جیساکہ جامع ازہر کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر کامل حسین لکھتے ہیں کہ: ”(علم کی اشاعت کے سلسلے میں) فاطمیّین نے محل اور دارالعلم (دونوں) میں لائبریری کا انتظام کیا جس سے علما کے لیے سہولت پیدا ہوگئی کہ وہ پیشرو علما کی کتابوں کا مطالعہ کرنے لگے اور اُن (کی آراء) سے استفادہ کرنے لگے۔“(29)

  امویوں، عبّاسیوں اور فاطمیوں کے بعد حملۂ منگول کے نتیجے میں مسلم سیاست بلکہ مسلمان تہذیب و ثقافت بھی زوال پذیر ہوئی اور ایک عرصے تک مسلم امّت سیاسی، سماجی اور فکری اعتبار سے انتشار و زوال کا شکار رہی لیکن پھر سنبھلنے لگی۔ سیاست و حکومت اور تہذیب و ثقافت کا احیاءہوا۔ چنانچہ قسطنطنیہ میں عثمانی خلافت، ایران میں صفوی حکومت اور ہندوستان میں مغل سلطنت قائم ہوئی۔ گو کہ اسلام کی بعد کی صدیوں میں ان سلطنتوں نے احسن طریقے سے کارِ حکومت انجام دیا لیکن رواداری اور روشن خیالی کی روایت کو بھی پروان چڑھانے میں شہرت حاصل کی، ان میں مغل اور عثمانی پیش پیش ہیں۔ مغلوں کا ذکر برِّ صغیر کے حصّے میں آئے گا لیکن یہاں عثمانیوں کا ذکر کیا جاتا ہے۔

  تاریخ اسلام میں سلطنتِ عثمانی جہاں اپنی طوالت اور وسعت و پھیلاؤ کے لیے مشہور ہے وہاں روشن خیالی او رمذہبی رواداری کے لیے بھی اچھی شہرت رکھتی ہے۔ یہ سلطنت سات سمندروں اور تین برِّ اعظموں تک پھیلی ہوئی تھی۔ ایک روایت کے مطابق، سلیمانِ اعظم کے زمانے میں سلطنت عثمانی ایک طرف بوڈاسپ (ہنگری کا دار الخلافہ) اور ساحلِ ڈینیوب سے مصر میں اسوان تک اور دوسری طرف ساحلِ فرات سے آبنائے جبر الٹرتک وسیع ہو گئی تھی۔ (30)اور بڑی حد تک مختلف النّسل افراد اور کثیر الجہت معاشرتی نظام کی حامل سلطنت کے طور پر صدیوں تک زندہ رہی۔ اس کی قلمرو میں مسلمان، عیسائی اور یہودی پُرامن، پُر وقار اور خوشحال زندگی گزار تے تھے۔ مختلف مذاہب و ادیان کے درمیان پُر امن بقائے باہمی کی زندگی گزارنے کی حکمت عملی دراصل عثمانیوں کی رواداری میں مضمر تھی۔ تاریخ بتاتی ہے کہ قسطنطنیہ کا جزیرہ کریٹ (Crate) 852ءسے 961ءتک مسلمانوں کے زیرِنگیں تھا ، تو اسے تیرہویں صدی عیسوی تک بازنطینی انتظامیہ کو لوٹا دیا گیا درآنحالیکہ لاطینی وینسوں نے اس جزیرے کو خرید کروہاں کی قدامت پسند آبادی کے خلاف ایک ریاستی جبر و استبداد کا آغاز کیا۔ لیکن جب عثمانیوں نے اس جزیرے کو فتح کیا تو انہوں نے قدیم یونانی اُسقفوں کو بحال کیا۔ عثمانیوں نے قسطنطنیہ کے پیٹراج کو صوبے میں آربشپوں کے تقرّر کی کھلی چھٹی دی، مسلمانوں کی طرف سے دی جانے والی اس آزادی اور عزّت و احترام کے نتیجے میں جزیرے کی نصف آبادی نے عثمانی حکومت کے سو سالوں کے اندرہی اسلام قبول کیا۔ (31)

  اگرچہ ایشیا اور یورپ کے سنگم پر واقع ہونے اور خود عثمانی حکمرانوں کے سیکولر رجحانات کی بناءپر بھی رواداری اور روشن خیالی کی اس روایت کو قبولیت و پذیرائی ملی لیکن اس کے یہاں پنپنے کے حقیقی اسباب و علل اسلام کی رواداری کی تعلیمات اور ترکی میں انسان دوست صوفی سلسلوں کی کارفرمائی تھی جنہوں نے محدود مسلکی اختلافات سے بالا تر ہوکر عالمگیر روحانیت کا پرچار کیا جس نے رواداری کی زمین کو زرخیزی فراہم کی۔ چنانچہ صوفی طریقوں میں بیکتاشی طریقت اور طریقۂمولویّہ، جو مولانا جلال الدّین رومی(1207ء – 1273ء) کی تعلیمات پر مبنی ہے، زیادہ معروف ہیں۔ سلسلۂ مولویّہ زیادہ تر حکمران طبقے اور اشرافیہ میں مقبول رہا ہے۔ عثمانی سلاطین و امراءاور مولویّہ کے صوفی طریقے کے درمیان گہرے تعلّق و اتّحاد نے رواداری کی روایت کو مستحکم کیا۔ اس ضمن میں ڈاکٹر رضا شاہ کاظمی کا یہ بیان حقیقت حال کی درست ترجمانی کرتا ہے۔ کاظمی صاحب لکھتے ہیں کہ” لہٰذا، ایک ایسا شائستہ اتّحاد اور رومی کا عشق و محبّت کا صوفیانہ مسلک عثمانی اشرافیہ کے مذہبی رویّے کی تشکیلِ نَومیں بالعموم اور اُن کے اصولِ رواداری کو دل سے قبول کرنے میں بالخصوص کسی طرح غیر متعلّق نہ تھے۔ “(32)

برِّ صغیر پاک و ہند

جہاں تک برِّ صغیر پاک و ہند میں اسلامی روشن خیالی کا تعلّق ہے تو یہاں کی تاریخ بھی اس سلسلے میں غنی ورثے کی حامل ہے۔ اگرچہ برِّ صغیر میں اسلام خود رسول ﷺکی حین حیات پہنچا تھا۔ رسولِ اکرم کو ہندوستان سے اس درجہ محبّت تھی کہ آپ فرمایا کرتے تھے کہ : ”مجھے ہندوستان کی طرف سے ربّانی خوشبو آتی ہے“۔(33)لیکن یہاں مسلمانوں کی سیادت و سیاست کا باقاعدہ آغاز محمّد بن قاسم (696ء-715ء)  کی فتح سندھ کے ساتھ ہوا اور مرورِ زمانہ کے ساتھ مسلمان حکمرانوں، عالموں، صوفیوں، درویشوں اور مبلّغوں کی کاوشوں کے نتیجے میں یہاں اسلام کا پھیلاؤعمل میں آیا۔ مسلمانوں نے ایک ہزار سال تک برِّ صغیرپاک و ہند پرحکومت کی۔ اس دوران انہوں نے جہاں سیاسی، سماجی اور ثقافتی میدانوں میں کارہائے نمایاں انجام دیے، وہاں حالات کے مطابق روشن خیالی، رواداری اور وسیع المشربی کو بھی پروان چڑھایا۔ یہ حقیقت بھی مسلّم ہے کہ عرب مسلمانوں نے ہندوستان کو بزورِ طاقت فتح کیا تھا، وہ اب فاتح اور ہندوستانی مفتوح تھے، جن میں ہندومت، بدھ مت اور دیگر غیر اسلامی مذاہب سے تعلّق رکھنے والے لوگ تھے۔ فاتحین کی حیثیت سے مسلمان ہندوستانیوں کو محکوم رکھ سکتے تھے، ان سے امتیازی سلوک روا رکھ سکتے تھے اوران کو تبدیلیِ مذہب پر مجبور کر سکتے تھے۔ لیکن اس کے برعکس مسلمان یہاں کے مقامی باشندوں کے ساتھ رواداری سے پیش آئے، ان کو بے جا تنگ نہ کیا اور ان کے مذہبی، ثقافتی اور لسّانی و نسلی معاملات میں مداخلت نہ کرنے کی بڑی حد تک کوشش کی۔ اس موقف کی توثیق ملک کے معروف ماہرِ تاریخ و سماجیات جناب سبطِ حسن کے اس بیان سے بھی ہوتی ہے جس میں وہ برصغیر میں عربوں کی مذہبی پالیسی پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:”عرب حکمرانوں نے جن کی تقریباً ڈیڑھ سو سال تک سندھ و ہند پر حکومت رہی، اپنی سرگرمیاں فقط خراج اور مالگزاری وصول کرنے تک محدود رکھیں۔ کسی کو زبردستی مسلمان بنانے کی کوشش نہیں کی اور نہ اسلام کی اشاعت کی طرف کوئی توجّہ کی۔ “(34) بلکہ تاریخی شواہد سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مسلمان بادشاہوں اور ان کی مسلمان رعایا نے ہندوستانی رسم و رواج میں دلچسپی لی اور ہندو لبا س بھی پہنا۔ جیساکہ مولوی ابو ظفر ندوی نے بشاری مقدسی کے سفرنامے، ’احسن التقاسیم‘ کے حوالے سے لکھا ہے کہ یہاں کے ہندو مسلمان ایک ہی وضع کی پوشاک پہنتے تھے۔ البتّہ تاجروں کا لباس کُرتا اور لُنگی تھا۔ لیکن بادشاہ کا لباس ہندوراجاؤں کے مثل کُرتا اور ازار ہوتا تھا۔ وہ کان میں بالا پہنتا اور زُلفیں رکھتا تھا۔ (35)

 جیساکہ اوپر ذکر ہوا کہ ابتدائی ڈیڑھ صدی تک عربوں کی برِّ صغیر پر حکومت رہی۔ اس دوران عربوں نے مقامی باشندوں کے ساتھ بہت حد تک رواداری کا سلوک کیا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ محمّد بن قاسم کے ہاتھوںسندھ کی فتح کے بعدیہ سوال سامنے آیاکہ یہاں کے غیر مسلموں کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے تو حجّاج بن یوسف نے علماءو فقہا سے مشورہ لینے کے بعدمعروضی حالات کے پیشِ نظر یہ فیصلہ کیا کہ ہندوؤ ں کے ساتھ اہلِ کتاب جیسا سلوک کیا جائے۔ یعنی ان سے جزیہ لیا جائے اور انہیں مکمّل مذہبی آزادی دی جائے۔ حجاّج بن یوسف نے محمّد بن قاسم کے نام ایک خط میں لکھا کہ: ” چونکہ جزیہ اور مالیہ کے علاوہ ان پر اور کوئی پابندی عائد نہیں ہوسکتی اس لیے انہیں اس امر کی اجازت دی جاتی ہے کہ وہ اپنی مورتیوں کی پوجا کریں۔ علاوہ ازیں کسی کو بھی اپنی مذہبی رسومات ادا کرنے سے روکا نہ جائے تاکہ یہ لوگ اپنے گھروں میں امن کی زندگی بسر کریں۔ “(36)محمّد بن قاسم نے ان احکامات پر عمل کیا، ہندوستانیوں کو مکمّل مذہبی آزادی دی اور انہیں تبدیلیِ مذہب پر مجبور نہ کیا۔ اس کا اعتراف مستشرقینِ یورپ نے بھی کیا ہے۔ معروف جرمن اسکالر اینی میری شمل، البیرونی کے حوالے سے لکھتی ہیں کہ:

“Muhammad ibn al-Qasim did not attempt mass conversion. He left the people to their ancient faith, except in the case of those who wanted to become Muslims, as Beruni rightly states.” (37)

 مسلمانوں کے اس روادارانہ سلوک سے ہندو مسلمانوں کے احسان مند ہوگئے اور ان کی حکومت کو باعثِ رحمت خیال کرنے لگے۔ محمّد بن قاسم سے تو انہیں شیفتگی کی حد تک محبّت ہوگئی تھی اور اُن کے جانے کے بعد ان کی خوشگوار یادوں کو تازہ کرنے کے لیے ان کا مجسّمہ بنا لیا تھا۔ جیساکہ شیخ محمّد اکرام علّامہ بلاذری کی’ فتوح البلدان ‘ کا یہ اقتباس درج کرتے ہیں ” جب محمّد بن قاسم قید ہو کرعراق بھیجا گیا تو ہندوستان کے لوگ روتے تھے اور کیرچ (علاقہ کَچھ) کے لوگوں نے تو اس کا مجسّمہ بنایا۔ “(38)

محمود غزنوی کے عہد کے ممتاز مؤرّخ و مفکّر ابو ریحان البیرونی (متوفّی۔ 440ھ)کی مذہبی رواداری اور بے تعصبی ان کی لازوال تصنیف ’کتاب الہند ‘ کے مندرجات سے ثابت ہوتی ہے۔ وہ اس کتاب میں جو عالمانہ طریقہ اپنایا ہے اور ہندو مذہب کی اصل تعلیمات اور رسوم وعبادات کو جس محقّقانہ اور غیر جانبدارانہ طریقے سے منظرِ عام پر لایا ہے، اسے علمی حلقوں میں سراہا گیا ہے۔ اس ضمن میں علی گڑھ یونیورسٹی کے پروفیسر محمّدمجیب لکھتے ہیں کہ: ” انہوں نے بڑی محنت اور بے تعصبی سے ہندو مذہب کی اصل تعلیمات دریافت کیں اور ان کی قدر دانی کی سند یہ ہے کہ انہوں نے بھگوت گیتا کو، جو ہندوؤ ں کی مقدّس کتابوں میں سب سے زیادہ موثّر ہے، ہندو مذہب کے اعلیٰ تصوّرات کا نمونہ مانا جاتا ہے اور اس کے بہت سے اقتباسات اپنی کتاب میں دیے ہیں۔ “(39)البیرونی کی صداقت اور رواداری کے متعلّق سیّد امیر علی کا یہ کہنا بھی بجا ہے کہ ” اسلام کی ذہنی صداقت شعاری پر شاہد ہے۔ “(40)

  ان حقائق سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے دورِ عروج میں اربابِ اختیار اور اہلِ علم دونوں میں رواداری اور روشن خیالی نے ایک اخلاقی اور سماجی اصول کے طور پرقبولیت و پذیرائی حاصل کی تھی، زندگی کے مختلف شعبوں میں رواداری نے اپنی جگہ بنالی تھی اوراور اس کے سبب اُس وقت ایک صحت مند معاشرے کی تشکیل و تعمیر ہوچکی تھی۔

  رواداری کی اس پالیسی کو مابعد کے ہندوستانی مسلمان حکمرانوں نے بھی اپنایا۔ سلاطین دھلی کے عہد کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان حکمرانوں میں سے اکثر نے اس مذہبی رواداری کی پالیسی کونہ صرف اپنایا بلکہ اسے فروغ بھی دیا۔ تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ ان سلاطین نے ہندوؤں کو اپنی سلطنتوں میں اعلیٰ مناصب پر فائز کیا۔ ان کو وزارتیں دی گئیں اور فوج میں کلیدی عہد ے تفویض ہوئے۔ ان کی تفصیلات محمد یاسین مظہر صدیقی نے اپنے مقالے ”دہلی سلطنت کے نظم و نسق میں ہندوؤں کا حصّہ“ میں دی ہیں۔ (41)

 یہ ہندوستانی مسلمان امراءو سلاطین کی رواداری اور روشن خیالی کی علامت بھی تھی اور ایسا کرناان کی ضرورت بھی۔ کیونکہ ہندوستان میں مسلمانوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر تھی اس لیے ہندوؤں کی حمایت اور ان کا اعتماد حاصل کرنا ضروری بھی تھا۔ نیز یہ کہ ہندو سرکاری ملازمت اورملک کے سِول نظام حکومت سے خوب واقفیت رکھتے تھے۔ سلاطین کو نظامِ حکومت چلانے کے لیے ہندوؤں کو اعتماد میں لینے کی ضرورت تھی۔

  سلاطینِ دہلی کے بعد ہندوستان پر حکومت کرنے کی جب مغلوں کی باری آگئی تو انہوں نے اپنے پیشروؤں سے بھی زیادہ رواداری اور روشن خیالی کا ثبوت دیا اور انہوں نے نہ صرف اپنے نظامِ حکومت میں غیر مسلموں کو حصّہ دار بنایا بلکہ ان کی مذہبی اور ثقافتی اقدار کا بھی احترام کیا۔ چونکہ انہوں نے ہندوستان کی دینی و ثقافتی گوناگونی کو ایک حقیقت کے طور پر تسلیم کیا تھا، لہٰذا انہوں نے رواداری اور روشن خیالی کا طریقہ اپنایا۔ چنانچہ مغلیہ سلطنت کے بانی اور اوّلین حکمران ظہیر الدین محمد بابر (1483-1531ء) نے اپنے فرزندِ دلبند نصیرالدین ہمایوں کو جو نصیحتیں کی تھیں، ان سے اُن کی رواداری کا پتہ چلتا ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ:

” فرزندِ من۔ ہندوستان میں مختلف مذاہب کے لوگ رہتے ہیں اور یہ اﷲ تعالیٰ کی عنایت ہے کہ اس نے تمہیں اس ملک کا بادشاہ بنادیا ہے۔ اپنی بادشاہی میں تمہیں ذیل کی باتوں کا خیال رکھنا چاہیے: (۱) تم مذہبی تعصب کو اپنے دل میں ہرگز جگہ نہ دینا بلکہ لوگوں کے مذہبی جذبات اور رسوم کا خیال رکھتے ہوئے روُ رعایت کے بغیر سب کے ساتھ پورا انصاف کرنا۔ (۲) گاؤکُشی سے بالخصوص پرہیز کرنا تاکہ اس سے تمہیں لوگوں کے دلوں میں جگہ مل جائے اور اس طرح وہ احسان اور شکریے کی زنجیر سے تمہارے مطیع ہوجائیں۔ (۳) تم کسی قوم کی عبادت گاہ مسمار نہ کرنا اور ہمیشہ سب سے پورا انصاف کرنا تاکہ بادشاہ اور رعیت کے تعلقات دوستانہ ہوں اور ملک میں امن و امان رہے۔ (۴) اسلام کی اشاعت ظلم و ستم کی تلوار کے مقابلے میں لطف و احسان کی تلوار سے بہتر ہوسکے گی۔ (۵) شیعہ سنّی اختلافات کو ہمیشہ نظر انداز کرنا کیونکہ ان سے اسلام کمزور ہوتاہے۔ (۶) اپنی رعیت کی مختلف خصوصیتوں کو سال کے مختلف موسم سمجھنا تاکہ حکومت بیماری سے محفوظ رہے۔“ (42)

  بابر کی ان نصیحتوںمیں جہاں رواداری اور روشن خیالی کی جھلک نمایاں ہے وہاں تکثیریت اور گوناگونی جیسے جدید تصورات کی عکاسی بھی ہوتی ہے۔ ان نصائح کو ہندوستان میں مغل بادشاہوں کے لیے ایک منشور اور دستور کی حیثیت حاصل ہوئی۔ یقیناً بعد کے مغل بادشاہوں نے اس منشورپر عمل کیا۔ اکبر نے تو روشن خیالی اور رواداری کی بہت بڑی مثال پیش کی اور اسلام اور ہندومذہب کی بہت سی مماثلتوں کو مجتمع کرکے ایک صحت مند اورپُر امن معاشرہ تشکیل دینے کی سعی کی۔ اگرچہ اکبرکے ترکیبی طریقہ، جسے دینِ الٰہی کا نام بھی دیا جاتا ہے، سے لوگوں کو اختلاف بھی ہے اور ایک لحاظ سے اختلاف کا حق بھی حاصل ہے۔ لیکن یہ طریقہ اکبر کی مذہبی رواداری کی ایک روشن دلیل بھی ہے۔ اکبر اعظم نے بعض اصلاحات بھی کیں جن میں سے چند یہ ہیں: جزیے کی معافی، یاتریوں کے محاصل کی موقوفی، راجپوت راجاؤں سے رشتے ناتے اور ان کا اعلیٰ ترین مناصب پر تقرّر، ذبیحہ گاؤ کی ممانعت، ہندو رانیوں کے ساتھ مل کر تمام ہندوانہ رسموں میں حصّہ لینا وغیرہ۔ (43)ان کے بعد شاہ جہاں کے صاحبزادے داراشکوہ نے اپنی تصنیف ’مجمع البحرین‘ میں ہندو مذہب اور صوفیانہ اسلامی تصوّرات کی ایک دوسرے سے انطباق کی ایک عمدہ کوشش کی ہے۔ (44)

 یہاں مغل دور کی مذہبی رواداری کی ایک اور مثال پیش کی جاتی ہے۔ اکبر کے دور میں ایک یورپی عیسائی مشنری فادر مونسیراٹ، جو حد درجہ متعصّب پادری تھا، نے ایک کتاب لاطینی زبان میں لکھی تھی جس کا انگریزی ترجمہ جے۔ ایس ہولینڈ اور ایس۔ این۔ بینرجی نے کیا ہے جبکہ اس کا اردو ترجمہ ڈاکٹر مبارک علی نے ’ اکبر کا ہندوستان ‘ کے نام سے کیا ہے۔ اس کے انگریزی مترجمین اس عیسائی مصنّف کے تعصّب اور مغلوں کی رواداری کاذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ” مصنّف اکثر تلخ و تیز مزاح سے کام لیتا ہے، مگر اس کا نشانہ مذہب اسلام ہے کہ جس سے یہ پوری کتاب بھری ہوئی ہے۔ ۔ ۔ لیکن اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے تعصّب کو کس طرح مغل دربار میں برداشت کیا گیا جو کہ اس کی عظمت کی دلیل ہے۔ “(45)

جاری ہے۔۔۔

(تیسری قسط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں)

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...