روشن خیالی کا جدید تصور اور اس کا اسلامی پس منظر (پہلی قسط)
یہ مقالہ سہ ماہی تجزیات، شمارہ 99 سے لیا گیا ہے اور یہاں تین اقساط میں شائع کیا جا رہا ہے۔
پاکستان میں روشن خیالی کے تصور پر بحث میں مختلف زاویہ ہائے نظر سامنے آتے ہیں جن میں سے ایک زاویے پر زیرِنظر مضمون میں تاریخی تناظر میں مفصل نظر ڈالی گئی ہے۔ مقالہ نگار نے روشن خیالی کے مفہوم اوراس کے جدید مغربی پس منظر سے بحث کی ہے اور بتایا ہے کہ روشن خیالی نے عقل کے آزادانہ استعمال، سائنسی تجربیت اور احترامِ انسانیت کے نظریے کو فروغ دیا۔ بعدازاں دینِ اسلام میں روشن خیالی اور رواداری کے وسیع تصور اور اسکی اہمیت و افادیّت سے بحث کی گئی ہے۔ مقالہ نگار کا مؤقف ہے کہ برِصغیر میں مسلمانوں نے اپنے دَورِ حکومت میں روشن خیالی اور روداری کے اصولوں پر عمل کیا اور بانی پاکستان، قائد اعظم محمّد علی جناح نے پاکستان کی بنیاد بھی روشن خیالی، رواداری اور جمہوریت کے اصولوں پر رکھی۔ آج بھی ملک میں پائیدار امن اور خوشحال معاشرہ تشکیل دینے کے لیے روشن خیالی و رواداری اور جمہوریت کے اصولوں کو اپنانے اوران پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے۔ مقالہ نگار تاریخ اور سماجیات کا گہرا فہم رکھنے والے سکالر ہیں۔ بحث کے بہت سے نکات کو اجاگر کرتا یہ مقالہ قارئین “تجزیات” کے مطالعے کے لیے پیش ہے۔ (مدیر)
آجکل ایک اصطلاح کثرت سے استعمال ہورہی ہے اور اس کا ذکر سیاستدانوں سے لے کر دانشوروں تک اور اخبار نویسوں سے لے کر سول سوسائٹی کے اہل کاروں تک سب کرتے ہیں، وہ ہے: ’روشن خیالی‘۔ اس کی حمایت اور مخالفت دونوں میں بیانات اخباروں میں اور ٹیلیویژن پر آتے رہتے ہیں۔ میڈیا پرہونے والی مباحث کے قطع نظر یہاں روشن خیالی کی لفظی تحلیل کی جاتی ہے۔ روشن خیالی کی اصطلاح در اصل انگریزی کی مشہور و مقبول اصطلاح Enlightenment کا قریبی اردو مفہوم ادا کرتی ہے۔ اسے رواداری، خرد افروزی اور بصیرت نگاری بھی کہا جا تا ہے۔ ڈاکٹر جمیل جالبی اپنی ’ قومی انگریزی اردو لغت ‘ میں اس لفظ کا مفہوم ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں کہ: ”(یورپ میں) سترہویں اور اٹھارہویں صدی کی فلسفیانہ اور ثقافتی تحریک جس میں مسلّمہ عقائد پر گرفت کی گئی، عقل کے آزادانہ استعمال پر زور دیا گیا، سائنسی تجربیت کو فروغ دیا گیا اور جس میں انسانی وقار اور فلاح و بہبود کو سب سے زیادہ اہم قرار دیا گیا“۔(1) اسی طرح معروف جرمن فلسفی ایمانیول کانٹ (Immanuel Kant) اس کا مفہوم بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ روشن خیالی سے مراد انسان کا ذہنی نابالغی اور عقلی ناپختگی سے باہر نکلنا اور بغیر کسی دوسرے کی رہنمائی کے فرد کا اپنی عقل و فراست کو آزادانہ طور پر استعمال میں لاکر فیصلے کرنے کی جرات کرنا ہے۔(2)
روشن خیالی کی اس روایت کا آغاز باقاعدہ ایک تحریک کی صورت میں مغربی یورپ میں ہوا لیکن بعد میں یہ تحریک ایک سماجی و سیاسی نظریے کے طور پرپورے یورپ بلکہ پوری دنیا میں پھیلی۔ اس نظریے نے دو نصب العینوں کو پروان چڑھایا: ایک عقلیت پسندی (Rationalism) یعنی عقل کو مرکزی اہمیّت دینا اور دوسرا انسان دوستی (Humanism) یعنی انسان کا بحیثیت فرد آزادی و عزّتِ نفس کو محور و مرکز قرار دینا۔ اس لحاظ سے اس نظریے نے انسان کو ذہنی و فکری آزادی دلانے اور احترامِ انسانیت کا حقیقی شعور پیدا کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا اور یورپ میں بادشاہت اور کلیسا کے غیر فطری اور عوام دشمن قوانین اور پابندیوں کو توڑ کر بنی نوع انسان کو ذہنی اور جسمانی غلامی سے نجات دلانے اور اسے اپنے جائز مقام دلانے کے اعتبار سے یہ نظریہ مدد گار ثابت ہوا۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ انسانی تہذیب و تمدّن کی صحت مند بنیادوں پر نشو و نما اور پرورش ایسے معاشرے میں ہوتی ہے کہ جس کی بنیاد روشن خیالی، رواداری، آزادیِ فکر و رائے، تکثیریت (Pluralism)، انسان دوستی (humanism) اور عقلیت پسندی (Rationalism) کے اصولوں پر قائم ہو۔ ایسے صحت مند معاشرے میں تمام مکاتیب فکر کو آزادی سے پھلنے پھولنے کا موقع ملتا ہے۔ جس طرح ایک صحت مند ماحول اور پُر فضا مقام پر تمام پھولوں کو آزادی سے کھلنے کا موقع دستیاب ہوتا ہے۔ اور جہاں ہر قسم کے پھول کھلتے ہیں تو اس جگہ اور اس باغ و گلشن کی زیب و زینت میں بے حد اضافہ ہوتا ہے۔ اردو کے ممتازشاعرمحمّد ابراہیم ذوق نے اس موقعے کی مناسبت سے کیا خوب کہا ہے، فرماتے ہیں :
گل ہائے رنگ رنگ سے ہے زینت چمن اے ذوق ! اس جہاں کو ہے زیب اختلاف سے (3)
ایسا معاشرہ افراد کو ایک دوسرے کے نظریات اور اقدارِ حیات کا احترام کرنا سکھاتا ہے۔ نیز مشترکہ معاشرتی مسائل حل کر کے انسانوں کو آسودہ حال اور باوقار زندگی گزارنے کے اہل بناتا ہے۔ اس لیے انسانی معاشرے کو پُرامن، خوشحال اور باوقار بنانے، خاص طور پر اس دور میں جبکہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے سبب ذرائع ابلاغ میں آسانیاں پیدا ہوئیں ہیں اور ان آسانیوں نے دُنیا کو ایک عالمی گاؤں (Global village) بنا دیا ہے، روشن خیالی اور رواداری کی روایت کو اپنانے کی پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت ہے۔
اردو میں روشن خیالی کا ہم معنی یا قریب المعنی لفظ رواداری ہے جو انگریزی کے لفظ Toleranceکا قریب ترین ترجمہ ہے اور اس کا مطلب ہے تحمّل، برداشت اورتاب آوری۔ دوسرے الفاظ میں رواداری کا مطلب صبر و تحمّل، عفو و درگذر اور افہام و تفہیم ہے اور یہ اوصاف اس شخص میں پائے جاتے ہیں جس کی سیرت پختہ اور اپنے جذبات پر قابو پانے کی صلاحیت ہو۔ جیساکہ امریک مصنّف و مفکّر ڈیل کارنیگی کہتے ہیں کہ ” افہام و تفہیم اور درگذر کے لیے سیرت کی پختگی اور نفس پر قابو پانے کی ضرورت ہے۔“(4) یقیناً، کوئی بھی معاشرہ رواداری اور صبرو تحمّل کے بغیر نہ ترقّی کر سکتا ہے اور نہ امن وآشتی کا حامل رہ سکتا ہے اور سچ تو یہ ہے کہ روادری کے بغیر انسانی تہذیب و ثقافت برگ و بارنہیں لاسکتی ہے۔ اس نقطۂ نظر کی توثیق معروف مغربی مستشرق محمّد مار میڈیوک پکھتال کے اس بیان سے ہوتی ہے جس میں وہ لکھتے ہیں کہ ” رواداری بلند درجے کی خصوصیت ہے جو انسان کو اعلیٰ درجے کی ثقافت سے متعارف کراتی ہے۔ “(5) لہٰذا اس مقالے میں روشن خیالی اور رواداری کی اصطلاحات ساتھ ساتھ استعمال ہوئی ہیں۔ کیونکہ یہ دونوں اصطلاحات قریب المعنی بھی ہیں اور مقالہ ہٰذاکے مقصد و مدّعا کوپورا بھی کرتی ہیں۔
روشن خیالی اور رواداری کے اسلامی پسِ منظر کا جہاں تک تعلّق ہے تو یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ دینِ اسلام آفاقی اور فطری دین کی حیثیت سے شروع دن سے روشن خیالی، رواداری، گوناگونی، تکثیریت اورآزادیِ فکر و رائے کو بنیادی حیثیت کا حامل قرار دیتا رہا ہے اور اس کی مناسب نشو و ارتقا کااہتمام کرتا رہا ہے۔ پیغمبرِ اسلام حضرت محمّد مصطفٰی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم جب مبعوث بہ رسالت ہوئے، آپ پر وحیِ خداوندی کے نزول کا سلسلہ شروع ہوا اور دینِ اسلام کی دعوت و عزیمت کا آغاز ہوا تو آپ نے اسلام کے علاوہ دیگر مذاہب پر قطعی قدغن نہیں لگائی بلکہ آپ نے بحکمِ اِلٰہی یہودی و عیسائی اور صابی کو نہ صرف حق پر قائم کہا بلکہ ان کو اپنی اطاعتِ مذہبی سے بھی مستثنیٰ کیا اور ان کے اعمال کے مطابق بدلہ دینے کا وعدہ کیا اور علی الاعلان فرمانِ خداوندی یوں نازل ہوا کہ (ترجمہ): ”وہ لوگ جو ایمان لا چکے اور وہ لوگ جو یہودی ہوگئے، اور صابی (ستارہ پرست)، اور نصاریٰ جو اللہ تعالیٰ اور آخرت کے دن پر ایمان لائے، اور عمل نیک کیے، تو اُن پر نہ تو کوئی خوف ہوگا، اور نہ ہی وہ غم کریں گے۔ “ (المائدہ: ۹۶)
اسی طرح پیغمبرِاسلام اس بات پر زور دیتے ہیں کہ کسی شخص سے زبردستی اپنا عقیدہ و نظریہ منوانا اللہ تعالیٰ کی بخشی ہوئی آزادیِ فکر کے خلاف ہے۔ رسولِ کریم نے جس اسلام کی دعوت دی اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : (ترجمہ)”دین میں کسی طرح کی زبردستی نہیں۔ “ (2:256) اور اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ کو یہ کہنے کا حکم فرمایا : (ترجمہ) ”تمہارا دین تمہارے لیے ہے اور میرا دین میرے لیے ہے۔“(109:4)
سیرتِ رسولِ کریم کا مطالعہ ہمیں بتلاتا ہے کہ عہدِ رسالت میں غیر مسلموں، جیسے یہودی، عیسائی اور زرتشتی وغیرہ کے ساتھ اچھا برتاؤ کیا جاتا تھا۔ ان کے ساتھ مسلمانوں کے تعلقات خوشگوار تھے۔ رسول پاک ان سے برابری کی بنیاد پر معاہدے کرتے تھے، ریاستی اور انتظامی امور میں انہیں شریکِ مشورہ کرتے تھے اور ان کے وفوداور علماءو عمائدین کے ساتھ عزّت و احترام سے پیش آتے تھے۔ مارمیڈیوک پکتھال اس ضمن میں لکھتے ہیں کہ آنحضور نے مدینہ میں رہنے والے یہودیوں کے ساتھ جب تک وہ وفادار رہے، ویسا ہی سلوک روا رکھا جو مسلمانوں کے ساتھ رکھا جاتا تھا۔ حضورِ اکرم نے کبھی بھی کسی شخص یا جماعت پر جبر نہیں کیا، اور نہ ہی عقائد کے اختلاف پر کسی کو تکلیف دی، نہ کسی جماعت پر حملہ کیا، بلکہ تمام افراد اور اقوام سے ان کے اعمال کے مطابق سلوک ہوتا تھا۔(6) اگرچہ اسلام عیسائیت سمیت دیگر بہت سے مذاہب کی طرح دعوت و تبلیغ کا دین ہے اوررسول غیر مسلموں کو قبولِ اسلام کی دعوت دیتے تھے تاہم کسی زور و زبردستی یا ریاستی طاقت کے ذریعے نہیں بلکہ علم و عقل، حکمت و موعظت، سچائی اور دلی رضامندی کی بنیاد پر دعوتِ اسلام دیتے تھے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ ابتدائے اسلام میں لوگوں کی اکثریت نے اسلام کو بخوشی اور دلی رضامندی سے قبول کیا نہ کہ جبراً انہیں مسلمان بنایا گیا۔ اس سلسلے میں معروف یورپی مستشرق تھامس آرنالڈ (Thomas Arnold) اپنی تصنیف “دعوتِ اسلام” (Preaching of Islam) میں رقمطراز ہیں کہ : ”جن عیسائی قبائل نے اسلام قبول کیا انہوں نے اپنی پسند اور آزادانہ اختیار و ارادے سے کیا۔ “(7)
روشن خیالی اور رواداری کی ایک خصوصیت اختلافِ رائے کو تسلیم کرنا اور برداشت کرنا بھی ہے۔ چنانچہ تاریخ سے یہ شہادت بھی ملتی ہے کہ عہدِ رسالت میں لوگ کُھل کر اختلافِ رائے کا اظہار کرتے تھے۔ اس پر کسی کو سرزنش کی اجازت نہ تھی۔ نبی کریم اختلافِ رائے کی قدر کرتے تھے۔ آپ فرمایا کرتے تھے: (ترجمہ) ”میری اُمت کا اختلاف رحمت ہے۔ “(8) اختلافِ رائے کی اس خصوصیت کو صدرِ اسلام کے مسلمانوں نے بلا جھجھک اپنایا اور اپنی دینی، سیاسی اور سماجی زندگی کے مسائل کے حل کے لیے اسے بروئے کار لایا۔ چنانچہ ممتاز مستشرق برنارڈ ڈلیوس، جو کہ اسلامی علوم کے متبحر عالم مانے جاتے ہیں، لکھتے ہیں کہ ”خصوصاً ابتدائی زمانے میں اختلافِ رائے کا بہت بڑا سکوپ تھا۔ “(9) اسی طرح ایرانی اسکالر اور محقق ڈاکٹر فرہاد دفتری رقمطراز ہیں کہ
‘Modern scholarship indicates that the early Muslims lived, especially during the first three centuries of thier history, in an intellectual milieue charecterized by a multiplicity of communities, schools of thought, and stances on major religio- political issues of the time’. (10)
(ترجمہ:۔ جدید علمی فکر اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ ابتدائی مسلمان، خاص طور پر اپنی تاریخ کی پہلی تین صدیوں کے دوران، عقلی طور پر ایک ایسے متحرک ماحول میں رہتے تھے جس کی خصوصیات میں برادریوں، فکر ی دبستانوں ا ور اپنے وقت کے اہم مذہبی۔ سیاسی مسئلوں کے متعلّق نقطہ ہائے نظر کی کثرت تھی۔)
اگرچہ رسولِ کریم بحیثیت رسول دینی اختیار کے مالک تو تھے ہی لیکن اس کے ساتھ ریاست مدینہ کے حاکم کی حیثیت سے دنیوی اُمور میں بھی کُلّی اختیارات رکھتے تھے۔ اس لحاظ سے آپ کی ذات اختیار و اقتدار کُلّی کی حامل تھی اور آپ کسی کے سامنے جوابدہ تھے نہ کسی کے مشورے کے محتاج تھے۔ بایں ہمہ آنحضور اہم امور میں اپنے ساتھیوں کو شریکِ مشورہ فرماتے تھے۔ کیونکہ حکمِ خداوندی بھی یہی تھا کہ (ترجمہ) ” اور اپنے کاموں میں اُن سے مشاورت لیا کرو۔ “( (3:159
تاریخ اسلام میں ایسی بہت سی عملی مثالیں موجود ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ رسول مشاورت کو بہت اہمیت دیتے تھے۔ جیساکہ ’تاریخِ طبری‘ میں ذکر ہے کہ غزوۂ خندق کے موقع پر حضرت سلمان فارسیؓ نے مدینہ کے گرد خندق کھودنے کا مشورہ دیا تو رسولِ کریم نے اس تجویز کو پسند فرماتے ہوئے اس کام میں خود بھی شرکت فرمائی۔ (11)
پیغمبرِاسلام کی سیرت و تعلیمات میں روشن خیالی، رواداری اور خرد افروزی کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ رسولِ مقبول دینی اور دُنیاوی ہر دو معاملات میں علم و عقل سے کام لینے کی بار بار تاکید فرماتے تھے۔ آپ کی یہ حدیث زبان زدِ خاص و عام ہے کہ (ترجمہ)”علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے۔“(12)سرکارِ دو عالم مسلمانوں کو دوسری قوموں اور مذاہب کے لوگوں سے مفید مطلب باتیں سیکھنے اور علوم و فنون حاصل کرنے کی بھی ترغیب و تشویق دلاتے تھے۔ آپ فرمایا کرتے تھے کہ : ”حکمت مومن کا گم گشتہ مال ہے جہاں سے بھی یہ ملے لے لو۔ “(13)
یہ بات بھی پیشِ نظر رہے کہ اسلام میں رواداری اور روشن خیالی محض ایک نظریہ اور تصوّر نہیں ہے اور نہ ہی کوئی فلسفیانہ موشگافی یا ثقافتی مشغلہ ہے، نہ یہ کہ کوئی اضافی اور ضمنی شئے ہے بلکہ درحقیقت یہ مرکزی اسلامی اعمال کا لازمی حصّہ ہے جس کی انجام دہی مذہبی فریضہ ہے۔ اور اس فرض کی بجا آوری کسی مسلمان فرد یا جماعت کی رستگاری کا باعث بنتی ہے۔ جیسا کہ ڈاکٹر سیّد رضا شاہ کاظمی لکھتے ہیں کہ:
One of the chief lessons here is that tolerance of the other is in fact integral practice of Islam; it is not some optional extra, some philosophical or cultural indulgence, or, still less, something that one needs to import some other tradition. (14)
(ترجمہ: یہاں اہم اسباق میں سے ایک یہ ہے کہ دوسرے کے سات رواداری در حقیقت اسلام کا لازمی عمل ہے ؛ یہ کوئی اختیاری اضافی شئے نہیں، اور نہ یہ کوئی فلسفیانہ یا ثقافتی مشغلہ ہے، یا اس سے کم کوئی ایسی شئے، نہ یہ کوئی ایسی شئے ہے جسے کسی دوسری روایت سے درآمد کرنے کی ضرورت ہو۔)
اسلام کی ان تعلیمات کوابتدائی، وسطی اور کچھ مستثنیات کو چھوڑ کر جدید دور کے مسلمانوں نے اپنی عملی زندگی میں اپنائے رکھا اور صحت مند تہذیب و ثقافت کو پروان چڑھایا۔ یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ مسلم معاشروں، خلافتوں اور سلطنتوں میں مسلمانوں کے علاوہ یہودیوں، عیسائیوں اور دیگر مذاہب کے لوگوں کو حصول علم سے لے کر معاشرتی، معاشی اور سیاسی سرگرمیوں تک یکساں مراعات اور مواقع دیے جاتے تھے۔ یہ حقیقت بھی اظہر من الشمس ہے کہ اُس دور کے اسلامی مدرسوں اور یونیورسٹیوں نے وسیع النّظری کا ثبوت دیتے ہوئے دنیوی علوم یعنی فلسفہ، تاریخ، طِبّ، ریاضی، طبیعیات، کیمیا اور فلکیات وغیرہ کو دینی علوم، جیسے قرآن، حدیث، تفسیر، فقہ اور کلام کے برابر درجہ دے کر ان کو نصاب میں داخل کر دیاگیا۔ اس ضمن میں محمّدمار میڈیوک پکتھال اپنے ایک لیکچر میں اس دور کے ایک مغربی مصنّف کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:
”یہ اسلام ہی کا عظیم کارنامہ تھا کہ اس دین نے دوسرے علوم کی تعلیم کو مساجد میں قرآن، حدیث اور فقہ [یعنی اسلام کا قانونِ شرع] کی تعلیم کا مقام عطا کیا اور انہی مسجدوں میں دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ، کیمیا، طبیعیات، نباتات، طب اور فلکیات کی تعلیم بھی دی جاتی تھی اور دورِ اوّل میں مسجد ہی مسلمانوں کی یونیورسٹی تھی اور ہر لحاظ سے یہ لقب ان مسجدوں کے لیے زیبا ہے۔ مسجد کی حدود میں علم پر کوئی پابندی نہ تھی۔ مسجدوں کے دروازے اور مسلمانوں کے دل علم کے حصول اور اشاعت کے لیے کھلے ہوئے تھے۔“(15)
مسلمانوں نے خرد افروزی اور رواداری کے اس ابتدائی اور وسطی ادوار میں نہ صرف اپنے دینی علوم کو ترقّی دی بلکہ مذکورہ دنیوی علوم کو بھی ترقّی دی اوران میں اہم اضافے کیے۔ تاریخ شاہد ہے کہ مسلمانوں کے ان علوم کو زیرِ مطالعہ لا کر بعد کے یورپی دانشوروں نے ترقّی کی منزلیں طے کیں۔ یہی وہ روایات اور سرگرمیاں تھیں جنہوں نے گذشتہ ادوار کے مسلمانوں کو روشن خیال اور روادار بنا دیا تھا۔
رواداری اور روشن خیالی کی یہ روشن روایت جس کی بنیاد قرآن پاک اور سیرت و تعلیماتِ نبوی پررکھی گئی تھی رسول کی وفات حسرت آیات کے بعد آپ کے خلفاء، آئمہ اہلبیت، اصحاب کبار اور ما بعد کے مسلمان علماءو سلاطین اور عامۃ المسلمین نے برقرار رکھا اور اسے آگے بڑھایا۔ برِّ صغیر کے معروف دانشور آنریبل جسٹس سیّد امیر علی المقریزی کے حوالے سے حضرت عمر ؓ کی رواداری کا ذکر کرتے ہوئے ایک واقعہ درج کرتے ہیں کہ ” فتح مصر کے بعد حضرت عمرؓ نے عیسائی کلیسا کے اوقاف کی حفاظت ایک امانت دار کے طور پر کی اور سابقہ حکومت کی طرف سے پادریوں کے لیے جو وظیفے مقرّر تھے وہ جاری رکھے۔ “(16) ابتدائی مسلم حکومتوں کی رواداری کی شہادت خود عیسائیوں نے مہیا کی ہے۔ سیّدامیر علی لکھتے ہیں کہ تیسرے خلیفہ حضرت عثمان کے عہد میں میری (Mery) کے عیسائی بطریق نے فارس کے اسقف شمعون نامی کے نام ایک خط میں ذیل کی عبارت لکھی: ” عرب جنہیں خدانے دنیا کی حکومت عطا کی ہے دینِ عیسوی پر حملہ نہیں کرتے، اس کے برعکس وہ ہمارے مُمد ہوتے ہیں: وہ ہمارے خدا اور ہمارے اولیاءکا احترام کرتے ہیں اور ہمارے گرجاؤں اور راہب خانوں کو مالی عطیے دیتے ہیں۔ “(17) اسی طرح حضرت امام علی ابن ابی طالب ؑ کے ارشادات بھی مساوات اور رواداری کی تاریخ میں بے نظیر حیثیت کے حامل ہیں۔
اگرچہ اسلام کے ابتدائی ادوار میں کچھ ناگزیر وجوہات کی بناء پر غیر مسلموں کو عسکری قیادت کے لیے چنے نہیں جاتے تھے لیکن مالی منفعت کے مناصب اور انتظامی عہدوں پر وہ مسلمانوں کی طرح مامور ہوسکتے تھے۔ یہ مساوات اور روادارانہ سلوک محض نظریاتی نہ تھا بلکہ عملی اور ناگزیر فریضہ کے طور پر تھا۔ سیّد امیر علی اس بابت لکھتے ہیں کہ پہلی صدی ہجری ہی سے عیسائی، یہودی اور مجوسی اہم سرکاری عہدوں پر فائز دکھائی دیتے ہیں۔(18)
بنو امیّہ اگرچہ سیاست اور اپنے مخصوص رجحانات کی بناءپر ناروادار بھی مشہور ہوئے لیکن ان کی مذہبی پالیسی رواداری پر مبنی تھی کیونکہ وہ مذہبی کم اور سیکولر زیادہ تھے۔ ان کا مقصد صرف اپنی حکومت کو مضبوط بنانا تھادین کی دعوت و تبلیغ سے انہیں چندان سروکار نہ تھا۔ جیساکہ بیسویں صدی عیسوی کے سب سے بڑے مغربی مؤرّخ اور فلسفہ تاریخ کے ماہرآرنلڈ جے- ٹوائن بی لکھتے ہیں کہ:
”امیّہ حکومت کے ماتحت عرب خلافت کی غیر مسلم رعایا کے لیے بھی یہ اختیار کالعدم نہ ہوا اس لیے کہ اُمیّہ خاندان کے خلیفہ (ایک کو مستثنیٰ کر کے جس نے صرف تین برس حکومت کی ) سب کے سب مذہب سے بے پروا تھے۔ ۔ ۔ انہوں نے مذہب سے نہ صرف بے پروائی اختیار کی بلکہ اسلام کی اشاعت کے بھی حتمی طور پر مخالف رہے حالانکہ وہ رسمی طور پر اس کی قیادت سے مستفید تھے۔ “(19)
اس نقطۂ نظرکی توثیقِ مزیددوسرے مستشرقینِ یورپ، خاص طور پرڈاکٹر سر تھامس آرنلڈ، جی۔ ای گرون بام و(G. E. Grunebaum) اورایم۔ ڈبلیو واٹ وغیرہ کے بیانات سے بھی ہوتی ہے۔ (20)
بنو امیّہ کے بعدبنو عبّاس بر سرِ اقتدار آئے اور نصف ہزاریے تک دادِ حکمرانی دیتے رہے۔ ان کے دور میں اسلامی تہذیب و تمدّن عروج کو پہنچا۔ جہاں تک ان کی رواداری اور روشن خیالی کی بات ہے توان میں سے بعض اس کے لیے اچھی شہرت نہیں رکھتے تھے لیکن مجموعی طور پر عبّاسیوں کی مذہبی رواداری کی پالیسی قابلِ تعریف تھی۔ سیّد امیر علی بھی عبّاسی خلفاءکو روادار قرار دیتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ ” عبّاسی خلفاء، باستثنائے چند، مذہب کی بناءپر اپنے محکموں میں کوئی امتیاز نہ کرتے تھے، اُن کے بعد جو خاندان بر سرِ اقتدار آئے انہوں نے دیانت داری سے ان کی مثال کی تقلید کی۔ “(21)
اسی طرح بنو امیّۂ اسپین بھی اپنی روشن خیالی، رواداری، علم پروری اور تہذیب آفرینی کے لیے بے حد شہرت رکھتے ہیں۔ جہاں ان کے کتب خانے، مدرسے اور جامعات ہر رنگ و نسل اورہر عقیدہ و مسلک کے لوگوں کے لیے وا تھے، وہاں غیر مسلموں کے لیے بڑے حکومتی مناصب پر فائز ہونے کے لیے راہیں کھلی تھیں۔ سیّدامیر علی عبد الرّحمٰن دوم کے عہد میں عیسائیوں کی شورشوں کے ردِّ عمل میں مسلمانوں کے صبروتحمّل اور رواداری کا ذکر کرتے ہوئے یوں رقمطراز ہیں :
” عبد الرّحمٰن دوم کے آخری دَور میں قرطبہ کے عیسائیوں کی ایک پر جوش جماعت نے بغاوت کردی۔ اس بغاوت نے آہستہ آہستہ خطرناک صورت اختیار کر لی، عربوں کی حکومت کے طول و عرض اور قرطبہ میں عیسائیوں کو کسی قسم کی شکایت کا موقع نہیں دیا جاتا تھا، ہر لحاظ سے ان کی تسلّی کر دی جاتی تھی۔ انہیں پُوری پُوری مذہبی آزادی حاصل تھی۔ ۔ ۔ عیسائیوں کو فوج اور سول کے بڑے بڑے محکموں پر مقرّر کیا ہوا تھا۔ کئی ایک عرب جاگیر داروں نے اپنے نظم و نسق کے لیے عیسائیوں کی خدمات حاصل تھیں۔ “(22)
اسلام کی ابتدائی صدیوں میں غیرمسلموں کوجہاں اعلیٰ انتظامی اور عسکری عہدوں پر فائز کیا جاتا تھا وہاں انہیں تعلیم و تعلّم جیسے اہم شعبے میں بھی یکساں مواقع فراہم کیے جاتے تھے اور عیسائی اور یہودی طلبہ بھی بلا امتیازِ مذہب و ملّت مسلمان طلبہ کے ساتھ بیٹھ کر تعلیم حاصل کرتے تھے۔ تعلیم سے متعلّق انہیں بھی مسلمانوں کے برابردیگر مراعات دی جاتی تھیں۔ جیسا کہ محمّد مار میڈیوک پکتھال لکھتے ہیں کہ: ” خلفائے بنی امیہ کے عہد میں اور خلفائے بنی عباس کے دَور میں بغداد میں عیسائیوں اور یہودیوں کو مسلمانوں کے ساتھ سکولوں اور یونیورسٹیوں میں یکجا پڑھنے کی مراعات ہی حاصل نہ تھیں بلکہ ان کے قیام اور طعام کا بند و بست بھی کیا جاتا تھا۔ “(23)
جاری ہے۔۔۔
فیس بک پر تبصرے