کتاب ‘کفارِ مکہ’، ایک جائزہ

188

بے نظیر بھٹو اپنے نام ہی کی طرح بے نظیر تھی، ہے اور رہے گی۔ آپ اس سے کتنے ہی اختلاف رکھتے ہوں اس کے کردار کو تاریخ سے مٹا نہیں سکتے۔ خصوصاً اپنی شہادت کے بعد وہ ایک طلسماتی شخصیت اختیار کر گئی ہے۔ اس کی شہادت کے حوالے سے کافی کچھ لکھا گیا ہے اور ابھی کافی کچھ لکھا جائے گا۔

کچھ دن پہلے عباس زیدی صاحب کی لکھی گئی کتاب ‘دی انفیڈلز آف مکہ’ کا اردو ترجمہ پڑھنے کا موقع ملا جسے عامر حسینی صاحب نے اردو کے قالب میں ڈھالا ہے۔

پاکستان کی زرخیز سیاسی تاریخ میں کئی اہم واقعات رونما ہوئے ہیں۔ محنت کش طبقے کے کچھ باقاعدہ اور عجیب و غریب کرداروں کو بھی عباس زیدی نے اپنے برش نما قلم سے پینٹ کیا ہے۔ ان میں نجومی، کتاب فروش اور طوطے سے فال نکالنے والا شامل ہے۔

ناول میں فوجی کرداروں کے ساتھ بھی ہمدردی اور انسانی سلوک موجود ہے جن سے ناول کا مرکزی کردار دارا اپنے آس پاس ملنا مسلسل جاری رکھتا ہے۔ متوسط اور نچلے متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے کردار جن میں سیاسی شعور سے بہرہ ور طالب علم، فنکار، استاد اور سیاسی کارکن شامل ہیں،

یہ کہانی پاکستان میں اس وقت کی ہے جب مختلف نظریات رکھنے والے لوگوں کے دو گروہ تھے۔ ایک گروہ چیزوں کو بہتر بنانا چاہتا تھا، اور دوسرا گروہ سخت مذہبی قوانین پر یقین رکھتا تھا۔ کہانی اس بات پر مرکوز ہے کہ ایک بڑی میٹنگ میں بے نظیر بھٹو کی ہلاکت سے پہلے اور بعد میں کیا ہوا۔ یہ ملک کے بہت سے لوگوں کے لیے افسوسناک وقت تھا۔

یہ کتاب ان دو لوگوں کے بارے میں ہے جو اپنے مشکل پس منظر کی وجہ سے ساتھ نہیں رہ سکے۔

داراشکوہ ایک پیچیدہ تاریخ والے خاندان سے تعلق رکھتا ہے، اور اسے لالین نامی لڑکی سے پیار ہو جاتا ہے۔ لیکن ان کے خاندان ایک دوسرے کو پسند نہیں کرتے، اور یہ ان کے لیے ایک ساتھ رہنا مشکل بنا دیتا ہے۔ یہ محبت کے بارے میں ایک افسوسناک کہانی ہے جو ان چیزوں کی وجہ سے نہیں ہو سکی جو ان کے قابو سے باہر تھیں۔

کرنل براق دارا شکوہ کا باپ ہے۔ جسے خدشہ ہے کہ بے نظیر بھٹو کا پاکستان کی لیڈر بننا ان تمام اچھی چیزوں کو برباد کر دے گا جو انہوں نے اپنے ملک کو بہتر بنانے کے لیے کیے ہیں۔ وہ واقعتاً نہیں چاہتا کہ وہ لیڈر بنے اور اس کے بارے میں غیر یقینی محسوس کر رہا ہے کہ کیا کرنا ہے۔ دارا کی ماں کو افغانستان میں برے لوگ لے گئے اور اس کے والد نے اسے بچایا اور اس سے شادی کے لیے پاکستان لے آئے۔ دارا ایک طالب علم ہے اور اب بھی اپنی ماں کی موت پر غمزدہ ہے

دارا شکوہ بس اپنی محبوبہ لالین کی محبت میں زندگی گزار دینے کا خواہش مند ہے۔ لیکن کیا محبت مذہبی جنونیت اور سیاست کی جذباتیت جو چاروں اور پھیلی ہے اس سے الگ تھلگ رکھی جا سکتی ہے؟

لالین کے گھر والے بھی بھٹو اور پیپلز پارٹی کے سخت دشمن ہوتے ہیں ۔ لالین کی دادی بھٹو سے شدید نفرت کرتی ہے لیکن لالین بھی اپنے گھر والوں کی روش سے ہٹ کر پروفیسر عمر قادری سے متاثر ہو کر ملامتی صوفی اور پیپلز پارٹی بھٹو کی عاشق ہو جاتی ہے۔

پاکستان میں 80ء کی دہائی میں جہاد افغانستان کے پس منظر کو فلیش بیک تکنیک کے ساتھ اس ناول کے اندر سموتے ہوئے پروفیسر عباس زیدی دارا شکوہ کے ذریعے ہمیں پاکستان کی تاریخ کے انتہائی پر آشوب دور کے معاملات فکشن کے راستے دکھائے جاتے ہیں۔

دسمبر 2007 کے آخری ہفتے میں جب شہید محترمہ بے نظیر بھٹو جاں گسل جدوجہد کے بعد دوسری مرتبہ ایک اور فوجی آمر کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر کے پاکستان آکر انتخابی مہم چلاتی ہوئی راولپنڈی کے تاریخی پارک لیاقت پارک میں ایک بڑی انتخابی ریلی سے خطاب کرتی ہیں۔ اور وہ وہاں شہید ہو جاتی ہیں۔ وہاں صرف وہی شہید نہیں ہوتیں بلکہ دارا شکوہ کی محبت لالین بھی پروفیسر عمر اور دیگر حلاجیوں کے ساتھ شہید ہو جاتی ہے۔ دارا شکوہ کو جب یہ خبر ملتی ہے تو وہ اپنی کلائی کاٹ کر خود کشی کر لیتا ہے۔ پاکستان کی خون آشام سیاسی تاریخ اور آمریت کے تاریک سایوں میں لپٹا پاکستانی سماج جس فرقہ وارانہ اور نسل پرستانہ تقسیم کا شکار ہے اس کی جھلکیاں بڑی فکشنل کا ریگری کے ساتھ زیدی صاحب نے اس ناول کے کرداروں کے ذریعے سے ہمارے سامنے رکھ دی ہیں۔

پروفیسر زیدی صاحب کو غیر جانبدار ہونے یا تجریدی حد تک معروضیت پسند ہونے کا دعوی بھی نہیں رہا۔ ان کے فکشن کے کردار کئی معاملات میں صاف صاف سیاسی، سماجی، مذہبی پوزیشن لیتے نظر آتے ہیں۔ وہ جدیدیت پرست کئی ایک فکشن نگاروں کی طرح ادب میں غیر جانبداری کا ڈھونگ رچا کر سارے الزامات ملائیت کے سر پر نہیں ڈالتے یا ملائیت کو ہیرو بنا کر پیش نہیں کرتے اور نہ ہی پاکستان کی اسٹبلشمنٹ اور عالمی اسٹبلشمنٹ کو بری کر دیتے ہیں۔ وہ بنیاد پرست مذہبی بنیادوں پر دہشت گردی کرنے والے تکفیریوں کے لیے مارکس وادی فکری مغالطوں سے کام نہیں لیتے اور نہ ہی پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کے خلاف تکفیری دہشت گردی کو جاگیردار بمقابلہ دیہی افتادگان خاک کی غلط بائٹری بنا کر معذرت خواہانہ بیا نیہ پیش کرتے ہیں۔

اس پڑھنے لائق کتاب کو عکس پبلیکیشنز نے بڑی نفاست سے چھاپا ہے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...