فرار
پشتو کے معروف شاعر غنی خان نے کسی مولوی کو مخاطب ہوکر بے ساختہ کہا تھا کہ” یہ جو آپ سجدے میں گرتے ہیں اور میں جام اٹھاتا ہوں اصل میں ہم دونوں فرار چاہتے ہیں“۔ غنی خان کا سوال تو لگتا ہے نہایت فلسفیانہ ہے جہاں انسان کے وجود، عدم وجود اور ہستی اور فنا زیر بحث ہیں تاہم میں یہاں فرار سے مراد ایک عام رویّہ لیتا ہوں جو کام کے جگہوں پر، ہمارے ذہنی اسودگی یا سستی وغیرہ سے متعلق ہے۔
جہاں ہم زندگی میں درپیش کئی مسائل سے فرار چاہتے ہیں وہی پہ ہم اکثر لمحاتی نشاط تلاشی کے شکار بھی ہوجاتے ہیں۔ نشاط تلاشی کی خاطر ہم ایسے کاموں میں لگ جاتے ہیں جن سے ہمیں وقتی طور پر خوشی ملتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں ہم جفاکشی، چاہے بدنی ہو یا ذہنی، سے چھٹکارا چاہتے ہیں۔
کئی ماہرین سیگریٹ نوشی کو بھی نشاط تلاشی میں شمار کرتے ہیں جو ایک نہایت مضر عمل ہے تاہم وقتی طور پر عادی فرد کو خوشی کا احساس دلاتی ہے۔ رواں دور میں انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کو باربار دیکھنا اور اور اپنا سٹیٹس چیک کرنا بھی نشاط تلاشی کے زمرے میں آتا ہے۔ جوں جوں دنیا اور ہمارا سماج پیچیدہ ہوتا جاتا ہے ایسے رویّے بڑھ جاتے ہیں۔
تاہم کئی لوگوں کو نشاط علمی کاموں میں بھی مل سکتا ہے۔ ویل ڈیورانڈ نے اس پر ایک باقاعدہ کتاب نشاط فلسفہ بھی لکھی ہے۔ علمی و فکری نشاط بھی کسی نعمت سے کم نہیں۔ مشہور برطانوی فلسفی برٹرنڈ رسل بھی اپنی کتاب ”غیر مقبول مضامین“ اور “خوشی کی جیت” میں ان سوالات پر روشنی ڈالتا ہے۔ ان کی یہ دونوں کتابیں آسان بھی ہیں اور اہم بھی کہ ان میں وہ ان عوامل کا بھی احاطہ کرتا ہے جو ہمارے زندگیوں میں مخل ہوکر ہماری خوشی کو برباد کرسکتے ہیں۔
ان عوامل میں ایک بڑا عامل “عوامی رائے” کا خوف ہے۔ اس عامل نے آج کی دنیا میں، خصوصاً ہمارے ہاں، بڑی تباہی مچائی ہے۔ اس کی وجہ سے اب یہاں کوئی بڑے نظریات تو کجا سیاسی شخصیات پر بھی بات نہیں کرسکتا کہ عوامی رائے اکثر ایسی صورت میں گالیاں ہی دیتی ہے۔ ضمناً عرض کرلوں کہ کئی لوگ برٹرنڈ رسل کی ان کتابوں کو اپنے نشاط کے دائرے کے ٹوٹ جانے کے خوف کی وجہ سے پڑھنا پسند نہیں کریں گے! اسی رویّے کو آگے بڑھاتے ہیں۔
کاہلی علمی ہو، فکری ہو یا بدنی ہو نقصان دہ ہوتی ہے۔ کاہلی بھی فرار کا ہی ایک طریقہ ہے۔ ابھی تو چیٹ جی پی ٹی اس کاہلی کو مزید بڑھائے گی۔ طلباء خود تحقیق کریں گے اور نہ ہی لکھیں گے بلکہ اسی چیٹ کے روبوٹ کے ساتھ بات چیت کرکے اپنا مقصد نکالنے کی کوشش کریں گے اور اسی کے ذریعے ہر سوال کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کریں گے۔
میرا مضمون کہیں اور جارہا ہے۔ میں فرار کی بات کر رہا تھا۔ ہمارے ہاں ایک عمومی رویّہ جنم لے رہا ہے خصوصاً علمی اور اخلاقی میدان میں۔ ایک موضوعی دنیا میں رہ کر ہم آسانی سے کئی علمی و اخلاقی سوالات سے جان چھڑا سکتے ہیں۔
مثلاً کسی تحقیق کو ہم بہ یک جنبش زبان یا قلم یہ کہہ کر رد کرسکتے ہیں کہ یہ بات کسی ”انگریز“ نے کہی یا لکھی ہے۔ واضح رہے کہ ہم ہر گورے کو چاہے یورپ کے کسی ملک سے ہو انگریز ہی کہتے ہیں۔ جہاں ہم نے یا ہمارے اباواجداد نے کچھ علمی کام نہیں کیا ہے اور کہیں پہ اگر کسی انگریز یا یورپئین یا روسی نے کچھ لکھا ہے تو اس کو فوراً یہی کہہ کر رد کرتے ہیں کہ یہ تو فلاں انگریز نے لکھا یا کہا ہے۔ اس رویّے کو اکثر نوابادیت سے جڑ کر اپنی بات میں مزید وزن پیدا کرتے ہیں۔ نوابادیت کو یہاں یہ لوگ صرف برصغیر پر برطانوی قبضہ اور حکمرانی مراد لیتے ہیں حالانکہ اس خطے میں نوابادیت تو سکندر اعظم سے بلکہ آریا کی آمد سے شروع ہوجاتی ہے اور مختلف ادوار میں مختلف لبادھے اوڑھ کر مقامیوں پر حملہ اور ہوجاتی ہے۔ مگر جو لوگ ان حملہ اوروں کے رنگ میں رنگ جاتے ہیں اور کسی نہ کسی بہانے ان حملہ اوروں کے نظریے سے جڑے ہوتے ہیں انکو نوابادیت صرف ”انگریز“ کی لگتی ہے۔ یہ بجا ہے کہ ان باہر کے لکھنے والوں نے مقامی لوگوں کے بارے میں ایک خاص زاویے سے رائے قائم کرکے لکھا ہے جو غلط بھی ہوسکتا ہے۔ مگر سب کو شاید اسی ترازو میں ماپنا مناسب نہ ہوگا۔
فلسطینی عربی دانشور ایڈورڈ سعید نے نہایت علمی کام کیا ہے۔ اپنی کتاب مستشرقی میں امریکی و یورپی دانشوروں کے عرب کے بارے میں خیالات اور علمی تعصب کو نشانہ بنایا ہے۔ ان کا یہ تھسیز اس نظریے کے علمی تجزیے میں کلیدی کردار ادا کیا جسے عرف عام میں پس جدیدت کہا جاتا ہے۔ وہ فلسطین اور عرب دنیا کے سب سے معتبر وکیل کے طور پر پوری علمی دنیا پر چھاگئے تھے لیکن کیا اسی عرب میں اس کی کتنی پذیرائی ہوئی یہ بھی دیکھنا لازمی ہے حالانکہ وہ عربی تھا۔ دوسرا اہم سوال یہی بنتا ہے کہ ایڈورڈ سعید کو یہ موقع کہاں ملا کہ انہوں نے ایک نئی علمی جہت کی بنیاد رکھی۔ ظاہر ہے وہ امریکا میں تعلیم حاصل کرتے رہے اور وہی پہ انہوں نے ایسی کتابیں لکھیں۔ کیا کسی عرب ملک میں ان کو یہ موقع مل سکتا تھا یہ بھی اہم سوال ہے۔
ہمیں کسی غیر ملکی محقق یا دانشور پر صرف یہ کہہ کر جھاڑو نہیں پھیرنا چاہے کہ اس نے جو لکھا ہے وہ بس نوابادیت کی شکل میں لکھا ہے۔ ان میں کئی ایسے معتبر نام ہیں کہ ان کو علمی دنیا کسی خاص نوابادیت سے نہیں جڑ سکتی۔ برصغیر میں کئی ایسے مقامی علماء گزرے ہیں جنہوں نے تفاسیر اور ترجمے برصغیر میں حاکم برطانوی راج سے وظائف لے کر کیے ہیں۔ اردو کی ترقی کا ذمہ اگر فورٹ ویلئم کالج نہ لیتا تو یہ کبھی بھی پاکستان کی قومی زبان نہ بن سکتی۔
مضمون طویل ہورہا ہے۔ لہذا اس کو سمیٹتے ہیں۔ مقصد یہ کہ ہم تحقیق ، علم اور تعمق سے فرار چاہتے ہیں اور اس کے لئے کئی بہانے تراشتے ہیں۔ کوئی مجھے پسند نہیں تو اس کی بات ٹھکرادی۔ جو ذرہ زیادہ ”انقلابی“ ہیں تو جھٹ سے کہہ دیا کہ یہ سب ”انگریز“ نوابادیت کا ورثہ ہے ۔ لہذا اگے اس پر کیوں سوچا جائے! اگے کیوں بڑھا جائے! انگریز کی بات سے اگے کیوں سوچا جائے! اس کو رد کرنا ہے بس کیوں کہ یہ مجھے پسند نہیں۔
گزشتہ تین دہائیوں نے ثابت کیا کہ جن چیزوں کو یہاں کفر سمجھا جاتا تھا اب ان کے بغیر گزارہ نہیں ہوتا،۔ جن کو فوٹو نکالنا، کمپیوٹر اور انرنیٹ کفریا منصوبے لگتے تھے آج وہی لوگ ان چیزوں کے ذریعے خوب پیسا کما رہے ہیں۔ جن کو جیب میں کرنسی کا نوٹ رکھنا اس لئے برا لگتا تھا کہ اس پر کوئی فوٹو ہے آج وہی لوگ یوٹیوب سے ماہانہ کروڑوں روپے کما رہے ہیں! کوکاکولا اور پیپسی کو مذہبی کلمات سے جڑ کر لوگوں نے اپنی کمپنیاں چلانے کی کوشش کی اور اپنے برانڈ نکالے لیکن معیار وہ کہاں! نام مقدس رکھنے سے معیار تبدیل کب ہوتے ہیں!
جلد ہی سارے طلباء اور تعلم و تعلیم سے جڑے لوگ چیٹ جی پی ٹی کا سہارا لیں گے حالانکہ اس شے کے بنانے میں ہمارا کوئی کردار نہیں! ساتھ کہیں گے یہ کسی ”انگریز“ نے بنائے ہیں۔
ہم نے بس اپنی کاہلی اور نااہلی کے لئے بہانے ڈھونڈنے ہیں! عقل ، تحقیق، تعمق اور تفکر سے فرار اختیار کرنا ہی ہے! اخلاقی اقدار سے فرار کا عالم یہ ہے کہ ہر عام و خاص کہتا پھرتا ہے کہ اسلام ہمارا ہے اپنایا یورپ نے ہے! یہاں فرار کے ساتھ نرگسیت جوڑ کر ہم اپنے اجتماعی بداخلاقی سے بھی بے حس ہورہے ہیں۔
فیس بک پر تبصرے