شناخت معیشت پر کس طرح اثر انداز ہوتی ہے؟
معاشی ترقی ایک اہم مضمون ہے۔ وہ عوامل جو معاشی ترقی کا سبب بنتے ہیں، معیشت دانوں کی تحقیق کا بنیادی موضوع ہیں۔ سرمایہ، محنت اور ٹیکنالوجی یہ تین بنیادی عوامل ہیں معاشی ترقی کے ضمن میں جن کی اہمیت پر تقریباً تمام معیشت دان متفق ہیں۔ یہ تین بنیادی عوامل جب پوری توانائی اور بھرپور صلاحیت کے ساتھ کام کرتے ہیں تو معاشی ترقی ممکن ہو پاتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ معاملہ اتنا سادہ ہے؟ اگر ہے تو پھر کچھ ممالک اتنے امیر کیوں ہیں اور کچھ غریب کیوں؟ اس کا جواب معیشت دان یہ دیتے ہیں کہ وہ ممالک جو امیر ہیں ان میں یہ تینوں بنیادی عناصر (سرمایہ، محنت اور ٹیکنالوجی ) اپنی پوری توانائی اور کارکردگی (Efficiency) کے ساتھ پھل پھول رہے ہیں اور مثبت نتائج (ترقی ) دے رہے ہیں جبکہ غریب ممالک میں صورت حال اس کے برعکس ہے۔
یوں اس بحث سے ایک اور بنیادی سوال جنم لیتا ہے کہ آخر وہ کون سی رکاوٹیں ہیں جو ان تینوں بنیادی عناصر کو پھلنے پھولنے نہیں دیتیں اور وہ کون سے ضروری انتظامات ہیں جو کئے جائیں تو نہ صرف ان رکاوٹوں کو دور کیا جا سکتا ہے بلکہ سرمایہ و محنت اور ٹیکنالوجی کی بہترین افزائش کے لیے مناسب ماحول بھی فراہم کیا جا سکتا ہے ؟ اس سوال کے جواب کی جستجو اکنامکس کی ایک شاخ (ڈویلپمنٹ اکنامکس) میں کی جاتی ہے۔
انسانی شناختوں کی اہمیت کو معیشت دان Ethnicity کے عنوان سے پڑھتے، سمجھتے اور تحقیق میں لاتے ہیں ۔ انتہائی مشہور معیشت دان ولیم ایسٹرلی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ انہوں نے تجزیاتی شماریات ( Empirical Economics ) کی مدد سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی تھی کہ افریقی ممالک اور وہ دیگر غریب ممالک جہاں ایک سے زیادہ شناختیں پائی جاتی ہیں، ان کی معاشی میدان میں کمزور کارکردگی کا بڑا سبب وہاں پائی جانے والی شناختوں کے درمیان تصادم ہے۔ اس مضمون کواس طرح ترتیب دیاگیا ہے کہ پہلے یہ وضاحت کی جائے کہ شناختوں کے بحران کا معیشت سے کیا تعلق ہے، اس کے بعد ولیم ایسٹرلی کی تحقیق پیش کی جائے گی ۔ یوں آخر میں اس موضوع پر بات ہو گی کہ شناختوں کے بحران کو کچھ ممالک نے کیسے کامیابی سے حل کیا ہے اور ہمارے لیے اس ضمن میں کیا اسباق ہیں۔
شناخت کوئی معروضی چیز نہیں بلکہ اس کا تعلق ایک فرد کی خود شناسی سے ہے۔ اس میں مذہب، زبان، رنگ، نسل اور صنف بڑے محرکات ہیں، کچھ لوگ اپنی شناخت کو مذہب سے مشروط کرتے ہیں تو کچھ لوگ زبان سے ۔ ایک شخص ایک سے زیادہ شناختوں کا حامل بھی ہو سکتا ہے اور کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو خود کو کسی بھی مذہبی، نسلی، لسانی اور صنفی شناخت سے بالاتر سمجھتے ہیں مگر ان کے رویوں میں شناخت کا عنصر عموماً جھلکتا ہے ۔یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ شناختیں بالواسطہ اور بلاواسطہ ہمارے رویوں پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ انسانی شناخت معیشت پر دو طرح سے خصوصاً اثر انداز ہوتی ہے۔
اول: اعتماد/ بھروسہ(Trust)
ایک ملک کی معیشت اس ملک کے شہریوں کے درمیان معاشی لین دین سے وجود میں آتی ہے ۔ یہ معاشی لین دین بغیر باہمی اعتماد اور بھروسے کے ناممکن ہے۔ معاشی اعدادوشمار یہ بتاتے ہیں کہ ایک ہی شناخت کے حامل افراد باہم لین دین زیادہ کرتے ہیں کیونکہ ان کے درمیان اعتماد اور بھروسے کا عنصر زیادہ پایا جاتا ہے۔ اجنبیت کی کمی جو ایک ہی شناخت کے لوگوں کے درمیان ہوتی ہے، وہ انہیں زندگی کے ہر شعبے میں قریب لاتی ہے۔ یہ اجنبیت دوسری شناخت کے لوگوں کے ساتھ معاملات میں زیادہ ہوتی ہے جو ان کے درمیان اعتماد اور بھروسے اور باہمی لین دین کے رجحان کو بھی کم کر دیتی ہے۔ ایک شخص جو خود کو کسی بھی شناخت سے بالاتر سمجھتا ہے، وہ بھی اجنبیت اور شناسائی کے ان رجحانات کا اثر ضرور قبول کرتا ہے ۔اسی لیے میرا مقدمہ ہے کہ شناختیں بالواسطہ اور بلاواسطہ ہمارے رویوں پر اثر انداز ہوتی ہیں۔
دوم: وسائل کی کھینچا تانی
ایک ملک میں اگر ایک سے زائد شناختیں پائی جائیں تو ان کے درمیان تقسیم کی سیاست کو فروغ ملتا ہے اور ریاستی وسائل کی کھینچا تانی پیدا ہوتی ہے جس سے تقسیم کی سیاست اور مختلف شناختوں کے درمیان خلیج بڑھتی جاتی ہے۔ اہل سیاست سوسائٹی کے حقیقی مسائل اجاگر کرنے کے بجائے شناخت کے مسائل کی بنیاد پر مقبولیت پسندی (پاپولزم) کی سیاست کرتے ہیں ۔اگر ان میں سے کسی ایک کو اقتدار مل جائے تو اس کی کوشش ہوتی ہے کہ اپنی شناخت کے لوگوں کو زیادہ سے زیادہ مراعات دے تاکہ وہ ان کی زیادہ سے زیادہ سیاسی تائید و حمایت حاصل کر سکے۔ یہ چیز دیگر شناختوں میں احساس کمتری پیدا کرتی ہے ۔یوں وہ بھی اپنی شناخت کی سیاست کی زیادہ سے زیادہ تائید و حمایت کرتے ہیں تاکہ وہ بھی اقتدار میں آ کر زیادہ سے زیادہ مراعات حاصل کر سکیں۔ اس سے اکنامکس کی رو سے Effect Spillover پیدا ہوتا ہے جس سے مراد ایسی رسہ کشی ہے جس میں ایک شناخت اگر زیادہ وسائل حاصل کرے گی تو دوسری شناخت میں بھی یہ تحریک پیدا ہو گی کہ وہ پہلی سے بھی زیادہ وسائل حاصل کرے – یوں وسائل ضائع ہوتے ہیں اور معیشت میں وہ بہتر نتائج حاصل نہیں کر پاتے۔ اکنامکس کی رو سے اس رسہ کشی میں ہر دوسرا effect پہلے effect سے بھی زیادہ گہرا ہوتا ہے یوں وسائل کے ضیاع کو بڑھاتا جاتا ہے۔ اس ساری کشمکش میں سب سے زیادہ نقصان اس شناخت کا ہوتا ہے جو عددی اعتبار سے اقلیت میں ہوتی ہے اور اقتدار حاصل نہیں کر سکتی ۔یوں اس میں دوسری شناختوں کی نسبت احساس کمتری بھی زیادہ پیدا ہوتی جاتی ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ اتنی گہری ہوتی جاتی ہے کہ ایک وقت آتا ہے اس شناخت کے حامل لوگ اس ریاست کے خلاف (جو صرف اکثریت کے مفادات کا تحفظ کر رہی ہوتی ہے ) ہتھیار اٹھا لیتے ہیں یوں سول وار کا آغاز ہوتا ہے۔ پورا افریقہ اس کی سب سے بڑی مثال ہے جہاں پورا براعظم قبائل میں بٹا ہوا ہے جن کی تعداد ہزاروں میں ہے ۔یہ سمجھنے کے لیے کہ افریقامیں شناخت کے مسائل وہاں کی معاشی ترقی میں کیسے رکاوٹ ہیں، آئیے ولیم ایسٹرلی کی تحقیق سے استفادہ کرتے ہیں۔
ولیم ایسٹرلی کی تحقیق
ولیم ایسٹرلی نیو یارک یونیورسٹی میں اکنامکس کے استاد ہیں۔ انہوں نے یہ ریسرچ پیپر ایک اور معیشت دان راس لیون (Levine Ross ) کے ساتھ 1997 میں لکھا تھا۔ اس پیپر کا مقصد دو سوالات کے جوابات کی جستجو بنی۔ اول : جب افریقا نو آبادیاتی نظام سے آزاد ہوا تو معیشت دان یہ توقع کر رہے تھے کہ افریقا تیزی سے ابھرے گا اور اس کی شرح نمو بہت زیادہ ہو گی ۔مگر نتائج اس کے الٹ ہیں۔ اس کی کیا وجہ ہے ؟ دوم : معیشت دان کہتے ہیں کہ افریقا کی غربت کی وجوہات شرح خواندگی میں کمی، سیاسی عدم استحکام، کمزور فنانشل سسٹم، بلیک مارکیٹ کی موجودگی، بہت زیادہ حکومتی خسارے اور کمزور انفراسٹرکچر ہیں ۔ ایسٹرلی اور لیون یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ آخر یہ ملک ایسی پالیسیاں کیوں نہیں بنا سکے جس کے تحت ان مسائل کو حل کیا جا سکے؟
دونوں محققین نے براعظم افریقا میں بولی جانے والی تمام زبانوں کا ڈیٹا لیا اور زبان کی ہی بنیاد پر افریقہ میں موجود تمام شناختوں کو ترتیب دیا – پھر تمام افریقی ممالک کا 1960 سے لے کر 1990 تک آمدن کا ڈیٹا لیا گیا– اس کے ساتھ ساتھ ان ممالک میں تعلیم، سیاسی عدم استحکام، فنانشل سسٹم، بلیک مارکیٹ، حکومتی خساروں اور انفراسٹرکچر کے اعداد و شمار بھی لیے گئے ۔دونوں محققین نے تجزیاتی شماریات (Econometrics ) کے طریقہ کار کو اپنی تحقیق میں استعمال کیا ۔تحقیق کے نتائج یہ ثابت کرتے ہیں کہ مختلف شناختوں کے درمیان اقتدار و وسائل کی رسہ کشی افریقہ میں معاشی پسماندگی کی ایک بڑی وجہ ہے۔ ایسٹرلی اور لیون نے اپنا یہی تحقیقی طریقہ کار مشرقی ایشیا (East Asia) کے ممالک کے لیے بھی استعمال کیا جہاں نسلی طورپر ہم آہنگی (Homogeneity) پائی جاتی ہے۔ ان کے مطابق مشرقی ایشیا کے ممالک اور افریقا کے درمیان معاشی ترقی کا ایک تہائی فرق اسی وجہ سے ہے کہ مشرقی ایشیا میں شناختوں کے درمیان تصادم نہیں کیونکہ وہاں صرف ایک ہی شناخت کو بھاری اکثریت حاصل ہے جبکہ افریقا میں شناخت کی بنیاد پر تصادم موجود ہے کیونکہ وہاں بہت زیادہ شناختیں پائی جاتی ہیں۔ ایسٹرلی کا یہ تحقیقی مقالہ اتنا مقبول ہوا ہے کہ تا دمِ تحریر 6448 تحقیقی مقالوں اور پیپرز میں اس کا حوالہ دیا جا چکا ہے اور اس مقالے کے آنے کے بعد اب یہ ایک معمول بن گیا ہے کہ معیشت دان کسی بھی ملک میں جب اکنامک گروتھ یا ڈویلپمنٹ پر تحقیق کرتے ہیں تو اس ملک میں موجود شناختوں کے کردار کو بھی معاشی ترقی میں ایک اہم عنصر کے طور پر ضرور مطالعہ کیا جاتا ہے۔
شناختوں کے درمیان تصادم سے کیسے نمٹا جائے؟
جیسا کہ پہلے یہ ذکر کیا گیا ہے کہ بغیر شناختوں کا مسئلہ حل کیے پائیدار ترقی ممکن نہیں ۔ اب سوال یہ ہے کہ اس مسئلہ سے کیسے نمٹا جائے اور اب تک اس موضوع پر معاشیات اور سیاسیات کے محققین نے جو کام کیا ہے اس کا خلاصہ کیا ہے ؟ اس سوال کا جواب دو سطری ہرگز نہیں بلکہ یہ ایک طویل تفصیل کا متقاضی ہے۔ یہاں چند نکات اس ضمن میں لکھے جاتے ہیں جو شناختوں کے مسائل حل کرنے میں بنیادی اہمیت کے حامل ہیں ۔
بھارت زبانوں، مذاہب اور کلچر کے اعتبار سے ایک کثیر التنوع ملک ہے ۔ اس ضمن میں وہاں متعدد سیاسی و سماجی مسائل یقینا اب بھی موجود ہیں مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ بھارت میں یہ تنوع اس کی معاشی ترقی میں کوئی بڑی رکاوٹ نہیں بن سکا ۔ اس کی تین بڑی وجوہات ہیں:
ایک: بھارت کا سیکولر ازم
بھارتی سیکولرازم ریاستی بندوست میں سب مذاہب کو یکساں مواقع دینے کی بات کرتا ہے۔ یہ بھارتی سیکولرازم ہی ہے جس نے مذہبی بنیاد پر بھارت میں اب تک کسی ایسی مزاحمتی تحریک کو کامیاب نہیں ہونے دیا جو بھارت کو دو یا دو سے زیادہ ٹکڑوں میں تقسیم کر سکے۔
دوم: بھارتی پارلیمانی جمہوریت
بھارتی جمہوریت پارلیمانی ہے۔ پولیٹیکل اکانومی کا لٹریچر یہ بتاتا ہے کہ پارلیمانی نظام تنوع پسند ہے جس میں تمام شناختوں کو نمائندگی ملتی ہے ۔صدارتی نظام تنوع پسند سوسائٹی میں اس لیے کامیاب نہیں کہ اس میں تمام شناختوں کی نمائندگی نسبتاً کم ہوتی ہے۔ جمہوریت میں نمائندگی کا عنصر اپنے اثر میں اتنا مضبوط ہے کہ یہ کسی ایک غالب اکثریت (جو مذہب کی بنیاد پر بنے یا لسانی بنیادوں پر یا کسی دوسرے اسباب سے ) کو ریاستی پالیسیوں کو محض اپنے مفاد تک محدود کرنے سے روکتا ہے۔یاد رہے کہ اگر دیگر ضروری اقدامات نہ ہوں تو محض جمہوریت سے شناختوں کے مسائل حل نہیں ہوتے بلکہ اس صورت میں جمہوریت اکثریت کی آمریت کی راہ ہموار کر سکتی ہے۔
سوم : صوبوں کی تقسیم لسانی بنیاد پر اور صوبوں کی طاقت میں اضافہ
بھارت میں صوبوں کو لسانی بنیادوں پر تقسیم کیا گیا ہے یعنی زبان (language ) کو شناخت کا ایک بڑا اور اہم عنصر مانا گیا ہے ۔ پولیٹیکل اکانومی کا زیادہ تر لٹریچر بھی شناختوں کو ان کی زبان کی بنیاد پر تقسیم کرتا ہے ۔ولیم ایسٹرلی کے جس تحقیقی مقالے کا اوپر حوالہ دیا گیا ہے اس میں بھی زبانوں کی تقسیم کی بنیاد پر شناختوں کی تعریف کی گئی ہے۔بھارت میں نہ صرف لسانی بنیادوں پر صوبے تقسیم کیے گئے ہیں بلکہ ان صوبوں کی سرکاری اور نصابی زبان بھی وہاں کی مقامی زبانیں رکھی گئی ہے۔ ہم بھارت سے اس ضمن میں بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔
دنیا بھر کی شناختوں (خاص طور پر غریب ممالک کی سیاسی طور پر کمزور شناختوں) کے حامل لاکھوں کی تعداد میں افراد ہر سال مغربی ممالک کی طرف ہجرت کرتے ہیں اور وہاں جا کر سکونت اختیار کرتے ہیں ۔ہمارے سیکھنے کے لیے یہاں سوال یہ ہے کہ وہاں شناختوں کے مسائل سے کیسے نمٹا جاتا ہے اور ان شناختوں کو مقامی شناختوں سے کیسے جوڑا جاتا ہے ؟ یاد رہے کہ معاشی طورپر امیگریشن مغربی اقوام کے فائدے میں ہے جس سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ اگر ہم شناختوں کے مسائل کو صحیح طرح سے حل کریں تو تنوع پسندی معیشت کے لیے ایک طاقت بن سکتی ہے۔آئیے دیکھتے ہیں کہ مغربی ممالک میں تنوع کے مسائل کیسے حل کیے جاتے ہیں۔
اول: لبرل ازم
مغربی لبرل ازم شخصی آزادی، حقوق، مساوات اور انصاف کی بات کرتا ہے جس میں تمام شہریوں کو بغیر کسی تفریق کے یکساں مواقع اور بھرپور آزادی دی جاتی ہے۔ یہ مغربی لبرل ازم اورسرمایہ دارانہ معیشت ہی کی کشش ہے کہ دنیا بھر کی شناختوں کے افراد اس کی طرف کھنچے چلے جاتے ہیں اور وہاں سکونت اختیار کر کے مسرت اور کامیابیاں سمیٹتے ہیں۔
دوم: مارکیٹ کا نظام
اقوام مغرب میں وسائل کی تفویض (Allocation ) کا بنیادی کام مارکیٹ کو ہی کرنے دیا جاتا ہے اور مقابلہ کی ثقافت کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے تاکہ معاشرے میں محنت اور تخلیقی صلاحیت کی حوصلہ افزائی ہو اور جو ناکام رہے وہ اس بات کا ذمہ ریاست کو نہ دے سکے کہ اس نے مجھے محروم رکھا اور کسی دوسرے کو نوازا ۔ جب وسائل کی تفویض مارکیٹ میں محنت و تخلیقی قابلیت کے بجائے، ریاستی سطح پر کسی دوسری بنیاد پر کی جاتی ہے تو اس سے محروم طبقات میں احساس کمتری پیدا ہوتی ہے اور وہ وسائل چھیننے کی دوڑ میں لگ جاتے ہیں۔
سوم: قانون کی حکمرانی اور امتیازی و استحقاقی قوانین کا خاتمہ
فریڈرک ہائیک نے اپنی کتابConstitution of Liberty میں یہ تجویز دی تھی کہ اگر تنوع پسندی کا تحفظ مقصود ہے تو ایسے قوانین نہ بنائے جائیں جس میں کسی ایک طبقہ یا شناخت سے خصوصی برتاؤ کیا جائے ۔ ان کی تجویز تھی کہ قوانین ایک ملک میں بغیر کسی تفریق کے تمام شہریوں پر یکساں طور پر لاگو ہوں ۔ ایسا کوئی قانون لاگو نہیں ہونا چاہیے جو مرد کو عورت پر فوقیت دے ،یا فاٹا کے لوگ کسی اور قانون کے تحت رہ رہے ہوں جبکہ باقی پاکستان کے لوگ کسی اور قانون کے تحت، یا یہ کہ امیر و غریب کے لیے الگ الگ قوانین ہوں ۔اگر قانون سب کے ساتھ برابر سلوک کرے گا اور مقتدر طبقہ بھی قانون کے تحت اپنی سرگرمیاں ادا کرے گا تو شناخت کا بحران پیدا ہونے کے امکانات کم ہی رہیں گے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ شناخت کا معاملہ انتہائی نازک ہے اور اگر اسے حل نہیں کیا جاتا تو معاشی ترقی ناممکن ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم دنیا کے ان معاشروں سے سیکھیں جنہوں نے تنوع کو مسئلہ نہیں بننے دیا بلکہ اس سے معاشرتی حسن تخلیق کیا ہے۔
مصادر
1. Easterly, W., & Levine, R. (1997). Africa’s growth tragedy: policies and ethnic divisions. The quarterly journal of economics, 112(4), 1203-1250.
2. Hayek, F. A. (2014). The constitution of liberty. Routledge
فیس بک پر تبصرے