سدھارتھ، ایک تبصرہ
سدھارتھ ھرمن ہیسے کا وہ شاہکار ناول ہے جس نے نوبل انعام لے کر ہرمن ہیسے کو ادب کی دنیا میں ایک انوکھا اور منفرد نام دیا اور اس دلچسپ کتاب کا اردو ترجمہ آصف فرخی نے اپنی جاندار صلاحیتوں کے بل بوتے پر کیا۔
سدھارتھ ناول کا مین ہیرو سدھارتھ ہے جو اپنے دوست گووند کے ساتھ بیر کے نیچے علم حاصل کر کے بڑا ہوتا ہے۔ ایک دن سدھارتھ گووند کے ساتھ بیٹھا ہوتا ہے تو تین سادھو ان کے سامنے سے گزرتے ہیں تو سدھارتھ کے دل میں یہ آتا ہے کہ وہ بھی ان کے ساتھ چل دے۔ وہ اس بات کا ذکر اپنے باپ سے کرتا ہے اور باپ سے اجازت لینے کے بعد وہ رخصت ہوکر گووند کو لے کر ان کے ساتھ ہو لیتا ہے۔ سدھارتھ وہاں برت(روزہ)رکھتا ہے جو مہینوں تک چلتا رہتا ہے اور ساتھ ساتھ یوگا کرتا رہتا ہے۔ یوگا سے وہ اپنے سارے جسم کو ساکھ کر دیتا ہے اور ہر چیز میں اپنے آپ کو جذب کر لیتا ہے۔ ایک دن سدھارتھ گووند کو کہتا ہے کہ وہ سادھوؤں سے کچھ نہیں سیکھ رہا لہذا ان سے رخصت ہونا بہتر ہے۔ اور سادھوؤں کے پاس قیام کے دوران وہ گوتم بدھ کے بارے میں بہت سنتے رہتے ہیں۔ سادھوؤں سے رخصت ہونے کے بعد وہ گوتم بدھ کے پاس چلے جاتے ہیں۔ گوتم بدھ کی تعلیمات سے گووند بہت متاثر ہوتا ہے اور ان کا چیلا بن جاتا ہے لیکن سدھارتھ اپنے سفر کو جاری رکھنا پسند کرتا ہے۔ تو سدھارتھ گوتم بدھ سے ملاقات کرتا ہے اور اسکو کہتا ہے کہ آپ کی ساری باتیں اچھی ہیں لیکن میں آپ کے ساتھ نہیں رہ سکتا۔اور کہتا ہے “کسی کو تعلیم سے مکتی(نجات)نہیں مل سکتی”۔ گوتم بدھ مسکراتا ہے جو سدھارتھ کے دل میں نقش ہو جاتا ہے ۔ سدھارتھ گوتم بدھ سے رخصت ہونے کے بعد اپنے آپ کو تنہا محسوس کرتا ہے خیالوں میں گم رہتا ہوا دریا کے کنارے پہنچ جاتا ہے۔ کنارے پر ایک مانجی کشتی کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے اور وہ سدھارتھ کو دریا کے اس پار لے جانے میں مدد کرتا ہے اور مانجی سدھارتھ سے کہتا ہے “آدمی دریا سے بہت سیکھ سکتا ہے”۔ اور سدھارتھ سے کہتا ہے کہ وہ دوبارہ اس سے ضرور ملے گا۔
کشتی سے اترنے کے بعد وہ ایک شہر میں داخل ہوتا ہے جہاں وہ ایک لڑکی (کملا)کی محبت کا اسیر ہو جاتا ہے اور وہ اپنے پیار کا اظہار کرتا ہے تو کملا اس سے کہتی ہے ” پیار مانگا جا سکتا ہے لیکن اسے خریدا نہیں جا سکتا”۔ کملا کی محبت اسکو اس قدر جھکڑ لیتی ہے کہ وہ اپنے بال منڈواتا ہے اور داڑھی کٹواتا ہے۔ یہ اس کی زندگی میں پہلی مرتبہ تھا کہ اس کو کسی لڑکی سے پیار ہوا تھا اور یوں اس لڑکی کی محبت میں وہ سادھو سے محبوب بنتا ہے۔ کملا اس کو کہتی ہے کہ اگر اس کے پاس آنا چاہتے ہو تو اسے پیسے اور تحائف دو لیکن اس کے پاس پیسے نہیں ہوتے اور وہ کملا سے کہتا ہے کہ وہ ” سوچنا ، انتظار کرنا اور فاقہ کرنا جانتا ہے” اور وہ کہتا ہے کہ وہ پڑھنا اور لکھنا جانتا ہے۔ کملا اس کو ایک بیوپاری کا پتہ دیتی ہے اور بیوپاری (کام سوامی)کے ہاں سدھارتھ کا ذکر کرتی ہے۔ بیوپاری (کام سوامی) سدھارتھ کو اپنے حساب کی کاپی دیتا ہے اور اپنے کاروبار کا حصہ دار کرتا ہے۔ سدھارتھ کام سوامی سے کاروبار کے بارے میں بات کرتا ہے اور کہتا ہے کہ ہر چیز محنت سے ملتی ہے کوئی چیز مفت نہیں ملتی تو سدھارتھ کہتا ہے کہ “ہر شخص کچھ لیتا ہے اور کچھ دیتا ہے یہی زندگی ہے”۔ اور مزید کہتا ہے” ہر شخص وہی دیتا ہے جو اس کے پاس ہوتا ہے”۔ ایک دن سدھارتھ کاروبار کیلئے دوسرے گاؤں جاتا ہے تو وہاں گھومتا پھرتا ہے اور کچھ سامان نہیں خریدتا تو کام سوامی اسکو ڈانٹتا ہے تو سدھارتھ کام سوامی سے کہتا ہے” ڈانٹنے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا”۔ سدھارتھ ہر ایک سے خوش اخلاقی سے ملتا ہے اور ان سے اچھے طریقے سے کاروبار کرتا ہے سب کی مدد بھی کرتا ہے۔ لیکن وہ کملا سے ہر روز ملتا رہتا ہے اور اسکو پیار کرتا ہے۔
کام سوامی کو ہر وقت منافع کی لالچ ہوتی ہے لیکن وہ سدھارتھ پر اچھے طریقے سے بھروسہ کرتا ہے اور سدھارتھ ایک دن کام سوامی کو کہتا ہے” روپیہ بیوپاری کا جھوٹا خدا ہے”۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سدھارتھ کے رویے میں بھی تبدیلی آتی رہتی ہے وہ شراب پیتا ہے، جوا کھیلتا ہے اور ہر وقت پیسے کی لالچ میں ہوتا ہے۔ وہ ایک دم بدل جاتا ہے اور بھول جاتا ہے کہ وہ ایک سادھو تھا۔ وہ کملا کے ساتھ ایک دن گزارتا ہے تو کملا کہتی ہے کہ اسے گوتم بدھ سے ملنا ہے اس کی یہی خواہش ہے۔ ایک دن سدھارتھ گوتم بدھ کو خواب میں دیکھتا ہے اور اس کے بعد وہ کاروبار اور کملا کو چھوڑ کر نکل جاتا ہے ۔ وہ ایک کنارے پر “اوم ” کا ورد کرتے ہوئے سو جاتا ہے تو گووند اسکو سوتا دیکھ کر رک جاتا ہے اور سدھارتھ کے اٹھنے تک وہی رکتا ہے۔ سدھارتھ کے اٹھنے کے بعد وہ چلا جاتا ہے۔ وہ اسکے بعد پھر سے مانجی(واسو دیو)سے ملتا ہے اور اس کے ساتھ رہنے کی خواہش ظاہر کرتا ہے۔ واسو دیو سدھارتھ کو اپنے پاس رکھتا ہے اور دریا کے متعلق بتاتا ہے کہ” پانی بہتا ہے بہہ جاتا ہے لیکن ہمیشہ وہی رہتا ہے ، پانی ایک سا ہوتا ہے پھر بھی ہر لمحہ نیا ہوتا ہے”۔
وہ دونوں ساتھ رہتے ہیں۔ سدھارتھ واسو دیو سے بات کرتا ہے اور وہ سنتا رہتا ہے۔ سدھارتھ واسو دیو سے کہتا ہے” بہت کم لوگ سننے کا فن جانتے ہیں”۔ وہ ہر روز دریا جاتے ہیں اور شام کو کٹیا میں آتے ہیں ۔ وہ دریا سے سیکھتے رہتے ہیں۔ واسو دیو سدھارتھ سے کہتا ہے “دریا میں بہت سی آوازیں ہیں، جب ساری آوازیں اکھٹی ہوتی ہیں تو اوم کی آواز آتی ہے”. وہ مختلف لوگوں کو دریا پار لے جاتے ہیں اور ان سے باتیں کرتے ہیں۔ ایک دن کملا اپنے بیٹے کے ساتھ گوتم بدھ کے دیدار کیلئے نکلتی ہے تو اسکو دریا کے کنارے سانپ ڈستا ہے سدھارتھ اسکو اپنے کٹیا میں لاتا ہے تو وہ وہاں فوت ہو جاتی ہے۔ کملا کے مرنے کے بعد سدھارتھ اپنے بیٹے سے بہت پیار کرتا ہے لیکن بچہ اسکی بات نہیں مانتا۔ اور اسے چھوڑنے کا کہتا ہے۔ ایک دن لڑکا بھاگ جاتا ہے تو سدھارتھ اس کا پیچھا کرتے ہوئے اسی شہر میں پہنچتا ہے جہاں وہ کملا سے پہلی بار ملا تھا اور پھر واپس لوٹتا ہے۔ لڑکے کے جانے کے بعد وہ اب مسافروں کو رشک کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور کہتا ہے ”بیٹے کیلئے ماں کی محبت اندھی ہے“. سدھارتھ اپنے آپ کو بہتر محسوس کرنے کیلئے واسو دیو سے بات کرتا ہے اور وہ اسے سنتا رہتا ہے۔ لڑکے کے جانے کے بعد سدھارتھ پریشان ہوتا ہے اور دریا کہ کنارے جاتا ہے تو اسے اپنا والد یاد آتا ہے جسے اس نے جوانی میں چھوڑا تھا۔ وہ پانی کے اندر دیکھتا ہے تو اسے اپنا،اپنے والد اور اپنے بیٹے کی تصویر دکھائی دیتی ہے۔ مانجی کے چرچے پورے شہر میں ہوتے ہیں تو گووند کے دل میں آتا ہے کہ وہ بھی اس کشتی میں سفر کرے۔ ایک دن گووند سدھارتھ کی کشتی میں بیٹھتا ہے لیکن وہ سدھارتھ کو نہیں پہچانتا ہے تو سدھارتھ اسکو اپنے بارے میں بتاتا ہے۔گووند سدھارتھ سے بہت سوال کرتا ہے اور وہ اس کا جواب دیتا ہے۔ ایک جگہ سدھارتھ گووند کو کہتا ہے” جستجو کے معنی مقصد، اور پالینے کے معنی آزاد ہونا ہے”۔ ایک اور جگہ سدھارتھ گووند سے کہتا ہے ” علم سکھائی جاتی ہے لیکن دانائی سکھائی نہیں جاتی، وہ دانائی جو آدمی کسی کو سکھانا چاہے وہ حماقت ہے”۔مزید کہتا ہے ” ہر سچ کے اندر اسکے الٹ بھی اتنی ہی سچائی ہوتی ہے”.
وہ کہتا ہے کہ “دنیا میں اہم ترین چیز محبت ہے”. گووند سدھارتھ سے بہت متاثر ہوتا ہے اور آخر میں کہتا ہے کہ اسے مزید کچھ باتیں کہے تو سدھارتھ کہتا ہے کہ اس کے ماتھے کو چومو تو گووند سدھارتھ کے ماتھے کو چومتا ہے تو اس کے سامنے ساری دنیا عیاں ہو جاتی ہے۔ اور وہ سب کچھ جانتا ہے۔
فیس بک پر تبصرے