“وحشیوں کا انتظار”: صدیق عالم کے ترجمہ کا اعجاز

650
غیر متعین وقت ۔۔۔۔ بے نام نوآبادیاتی منطقہ ۔۔۔۔۔ بے نام سامراجی سلطنت ۔۔۔۔۔ مقامی خانہ بدوش جنھیں سلطنت “وحشی” کہتی ہے۔۔۔۔ بے نام راوی: پُرسکون زندگی گزارنے کا متمنی ایک میجسٹریٹ ۔۔۔۔۔ سامراجی سلطنت کے نمائندہ کرنل جول کا انسانیت سوز جبر و تشدد ۔۔۔۔۔ خودساختہ مہذب سلطنت۔۔۔۔  “وحشیوں” کے مقابل تہذیب کی مدعی: سامراجی سلطنت کی منافقت، دوغلا پن اور بربریت۔۔۔۔ یہ ہے نوبل انعام یافتہ ناول نگار جان کوئٹسے کا شان دار ناول ” وحشیوں کا انتظار”۔
تخیل کی ترسیل کا فن کارانہ التزام ۔۔۔۔۔ مصنف کے انشائی محاسن کا احترام ۔۔۔۔۔ اسلوب کی سحر آفرینی ۔۔۔۔۔خیال کی باز آفرینی ۔۔۔۔۔۔ مصنف کی فنی انفرادیت کا پاس ۔۔۔۔ اپنی ادبی انفرادیت کے تحفظ کا احساس ۔۔۔۔۔ ہدف میں ماخذ کا جوہری رنگ ۔۔۔۔۔۔ زبان و بیان کے نت نئے ڈھنگ ۔۔۔۔  ماخذ زبان پر عبور  ۔۔۔۔  اردو کی لسانی ساخت کا شعور۔۔۔۔۔ یہ ہے کوئٹسے کے ناول کا ترجمہ ۔۔۔۔ صدیق عالم کے قلم کا اعجاز۔
 کوئٹسے کا ناول ” وحشیوں کا انتظار” سامراجی سلطنت کے خلاف ایک ناقابلِ ابطال فردِ جرم ہے جس میں ناول کے راوی، میجسٹریٹ, کا بیانیہ جا بہ جا  سامراج کے بربریت کے خودساختہ معیار کو چیلنج کرتا ہے۔ سلطنت، خانہ بدوش مقامی افراد کو وحشی کہتی ہے لیکن ناول  پڑھ کر قاری کو معلوم ہوتا ہے کہ اصل وحشی تو سلطنت کے نمائندے ہیں جو، ہر لحظہ، اپنی سفاکیت اور ظلم و جبر سے اس تصور کو مضبوط سے مضبوط تر کر رہے ہیں۔ ایک ایسے وقت میں جب ہند و پاک میں سامراجی طاقتیں مذہب، وطنیت اور ریاستی قوانین کی آڑ میں جنتا کا استحصال کر رہی ہیں؛ صدیق عالم کا، سامراج کے چہرے سے تہذیب کا مکھوٹا اتار کر اس کا مکروہ چہرہ دکھاتے، کوئٹسے کے اس ناول کو ترجمہ کے لیے منتخب کرنا، ان کے ادبی فہم کے ساتھ ساتھ سماجی اور سیاسی شعور پر بھی دال ہے۔
اتالو کلوینو نے ترجمہ کی بابت بڑی عمدہ بات کہی ہے: ” ترجمہ کے بغیر، میں اپنے ہی ملک کی سرحدوں تک محدود رہتا، مترجم میرا سب سے اہم اتحادی ہے: اس نے مجھے دنیا سے متعارف کرایا ہے۔” بلاشبہ تراجم وہ کھڑکیاں ہیں جن سے ایک تہذیب دوسری تہذیب میں جھانکتی ہے۔ ایک طرف تو ترجمہ کے فضائل بیان ہوئے ہیں اور دوسری طرف دو زبانوں کے باہمی صوری و معنوی افتراق اور کامل لغوی مساوات نہ ہونے کے سبب، ایک عرصہ تک ترجمہ کو لا حاصل مشق سمجھا جاتا رہا ہے۔ دور کیوں جائیں؛ جارج ایلیٹ، جس نے باروچ اسپینوزا اور لڈوِگ فیورباخ کی تحریروں کے تراجم کیے، نے بھی اس بات پر زور دیا کہ  تخلیق کار مترجم سے بدرجہا افضل ہے۔ تھامس ولسن اپنے ہی تراجم کو ” چِیٹ بریڈ” کہہ کر اس صنف کی تخلیق کے مقابل کمتری کا اعلان کرتا ہے۔ ولادیمیر نابوکوف نے ایک موقع پر ترجمہ کو ’’مردے کی بے حرمتی‘‘ قرار دیا۔  بعد ازاں جب نابوکوف نے پشکن کے ناول ” یوجین اونیگن” کا ترجمہ کیا تو اس کے دیرینہ دوست ایڈمنڈ ولسن نے اس ترجمہ پر ان الفاظ میں تبصرہ کیا:
“and that everybody else who has attempted
it is an oaf and an ignoramus.”
اس تبصرہ کے بعد دونوں اصحاب کے تعلقات ایسے بگڑے کہ پھر دوبارہ کبھی استوار نہ ہوسکے۔ بہ ہر حال ترجمہ کی بابت محولہ بالا دونوں آرا کا تنقیدی جائزہ بذاتہٖ ایک علاحدہ مضمون کا متقاضی ہے۔
فکشن کا ترجمہ، میری رائے میں، لسانی نفسیات، تہذیبی پس منظر، ثقافتی قدروں، فن کارانہ اہلیت، موضوعاتی شعور اور ماخذ و ہدفی زبان کی تفہیم و اطلاق کے ایسے محتاط ادبی امتزاج کا نام ہے جس میں متن کی فنی اکائیاں محفوظ رہیں۔
 کسی ادبی متن کو ہدفی زبان کے مزاج کے مطابق ڈھالتے ہوئے اس کی تخلیقی اور تخیلاتی اساس کو محفوظ رکھنا مترجم کی انتہائی بنیادی زمہ داری ہے۔ صدیق عالم نے ” وحشیوں کے انتظار” میں یہ زمہ داری اس ہنر مندی سے نبھائی ہے کہ قاری کو احساس ہی نہیں ہوتا کہ وہ ترجمہ پڑھ رہا ہے۔ کسی بھی ترجمہ کی اس سے بڑی کامیابی اور کیا ہو سکتی ہے۔
صدیق عالم نے ” وحشیوں کے انتظار” میں اردو قاری کو ماخذ متن کے الفاظ کے بدلے میں الفاظ نہیں معانی کے بدلے میں معانی دیے ہیں۔ اور یوں بھی ترجمہ ایک لفظ کی جگہ محض دوسرا لفظ رکھنے کا نام نہیں بل کہ ایک تہذیبی معنویت کو دوسری تہذیبی معنویت میں ڈھالنے کا عملِ کیمیا ہے۔ اس ضمن میں مرزا حامد بیگ صاحب  کی یہ بات دریا کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہے کہ: ” ترجمہ تصورات کی تہذیبی آباد کاری ہے (” فنِ ترجمہ” صفحہ نمبر 61, مطبوعہ نیشنل بک فاؤنڈیشن، اسلام آباد)
 ” وحشیوں کا انتظار” میں صدیق عالم نے ایک تو کوئٹسے کے اسلوب اور تخیل کی ایسی عمدہ تخلیقی آبادکاری کی ہے کہ اس ترجمہ کو ثانوی تخلیقی تجربہ نہیں رہنے دیا۔ اور  دوسرا اس عمل میں یہ دھیان بھی رکھا ہے کہ قاری کو کہیں بھی یہ محسوس نہ ہو کہ وہ کوئٹسے کو نہیں پڑھ رہا۔ اصل متن اور اس کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیں اور دیکھیں مترجم نے کس مہارت سے ماخذ متن کو ازسرِ نو تخلیق کیا ہے:
” Sleep is no longer a healing bath, a recuperation of vital forces, but an oblivion, a nightly brush with annihilation.”
نیند اب روبصحت کرنے والا غسل یا حیات بخش قوتوں کی بازیافت کی چیز نہیں رہی، بلکہ اب یہ ایک خودفراموشی بلکہ نیستی کے ساتھ ایک شبینہ تصادم کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ ( صفحہ نمبر 38)
صدیق عالم نے خیال اور مفہوم کو ان کے باریک سے باریک پیچ و خم کے ساتھ اس حسن و خوبی سے ادا کیا ہے کہ اس کی عبارت آرائی مصنف کی عبارت آرائی کا عکس بن گئی ہے۔ ملاحظہ کیجیے:
” I am disquieted. “What do I have to do to move you?”: these are the words I hear in my head in the subterranean murmur that has begun to take the place of conversation.”
” میں بے چین ہو اٹھتا ہوں۔ ” تمھارے اندر حرارت پیدا کرنے کے لیے مجھے کیا کرنا چاہیے؟” میں اپنے الفاظ کی مغلوب بھنبھناہٹ، جس نے ان دنوں گفتگو کی جگہ لے لی ہے، اپنی کھوپڑی کے اندر سن پا رہا ہوں۔” ( صفحہ نمبر 70)
ترجمہ ایک متحرک عمل ہے جو ماخذ کی تخلیقی قوت کو ایک نئے لسانی سیاق و سباق میں منتقل کرتا ہے۔ اس عمل کے دوران ایک اچھا مترجم مصنف کا غلام بننے کی بجائے اس کا شراکت دار بنتا ہے۔ وہ تخلیق کار کے پیچھے پیچھے چلنے کی بجائے اس کے قدم کے ساتھ قدم اور کندھے سے کندھا ملا کر چلتا ہے۔ اس ادبی رکھ رکھاؤ اور فنی ڈسپلن سے کسی دوسری زبان اور ثقافت میں ایک ادبی تخلیق کی نمائندگی کرنے کا عمل کس قدر معنی خیز ہو سکتا ہے؛ ” وحشیوں کا انتظار” پڑھ کر اس کا بہ خوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
صدیق عالم نے اس ناول کا ترجمہ کرتے ہوئے جہاں متن سے دیانت داری نبھائی ہے وہیں اردو کی لسانی ساخت کو بھی ملحوظِ خاطر رکھا ہے۔ وہ صحتِ خیال اور سلاست و روانی کا خیال رکھتے ہوئے بہ طور مترجم ایک لمحہ بھی یہ فرض نہیں بھولے کہ انھوں نے اپنی شخصیت اجاگر نہیں کرنی ؛ محض آسمانِ  اردو پر کوئٹسے کی تخلیق کی قوسِ قزح بکھیرنی ہے۔ صدیق عالم نے اپنے آپ کو کھو کر کوئٹسے کو پایا ہے۔ بہ طور مترجم یہ آسان کام نہیں ہے۔
اور یہی نہیں بل کہ اس بازیافت کے مراحل میں بدیسی زبان کے نئے لہجوں اور جملوں کی نئی ساختوں کو اردو زبان کے مزاج میں جذب کرکے اظہار کی نو بہ نو بدلتی صورتوں کو بھی متعارف کروایا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں، مترجم نے اظہار و بیان کے کیسے نئے سانچوں سے اردو کو مزید ثروت مند بنایا ہے :
It is not that something is in the course of happening to me that happens to some men of a certain age, a downward progress from lib- ertinage to vengeful actions of impotent yearning.
” ایسا نہیں ہے کہ میرے ساتھ کوئی واقعہ پیش آنے والا ہے، ایسا واقعہ جو ایک خاص عمر کے لوگوں کے ساتھ پیش آتا ہے، آزادہ روی سے نامردانگی سے بھری چاہت کی طرف ایک سوقیانہ پیش رفت۔” ( صفحہ نمبر 69)
ہم مانیں یا نہ مانیں بہ ہر حال یہ ایک حقیقت ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اردو زبان کے بیشتر اسالیب ازکار رفتہ ہو چکے ہیں۔ ہمارے بدلتے ہوئے طرزِ احساس کے مکمل اظہار کے لیے ہمیں نئے اسالیب درکار ہیں۔ اچھے تراجم کے زریعے اسالیب کے نئے امکانات، بیان کے نئے ڈھنگ اور  جملوں کی ایسی نئی ساختوں کی دریافت ممکن ہے جو ہمارے جدید طرزِ احساس کا ساتھ دے سکے۔ اچھا ترجمہ: تازہ مرکبات، جدید بندشیں اور نرالے الفاظ کے ساتھ زبان کو ثروت مند بناتا ہے اور زبان احساس و خیال کی نت نئی دنیائیں آباد کرنے پر قادر ہو جاتی ہے۔ تراجم کے زریعے ایک زبان کی تہذیب دوسری زبان کی تہذیب سے ہم کلام ہوکر فکر و نظر کے نئے در وا کرتی ہے اور بیان کے نئے سانچے عطا کر کے تخلیقی فضا ہموار کرتی ہے۔
صدیق عالم نے اس ناول کا ترجمہ بڑی فن کارانہ مہارت اور ذہانت سے کیا ہے۔ انھوں نے لفظی معنوں کے چھلاووں کے پیچھے بھاگنے کی بجائے ان اشاروں اور مفاہیم کو گرفت میں لیا ہے جو لفظوں کی اوٹ سے جھانک رہے ہیں۔ لہذا کوئٹسے کے لہجے کی دھنک اور اس کے اسلوب کی کھنک ترجمے میں ہمہ وقت موجود رہتی ہے۔ اس سلسلے میں مترجم نے اپنے فکشن نگار ہونے کا خوب فائدہ اٹھایا ہے۔شاید اسی لیے کہا جاتا ہے کہ فکشن کا اچھا ترجمہ تخلیق کار ہی کر سکتا ہے۔ اس طویل جملہ میں ( جملوں کی طوالت کوئٹسے کے اسلوبِ تحریر کا نمایاں جزو ہے) مترجم نے مصنف کے اسلوب کو بڑی مہارت کے ساتھ اردو میں منتقل کیا ہے۔ ملاحظہ کیجیے کہ انتقالِ معانی کے اس عمل میں رموز و اوقاف سے سَر مُو انحراف نہیں کیا گیا۔ اس کے باوصف، جملہ کی طوالت ترجمہ کی روانی میں مزاحم نہیں ہو سکی:
” With the buck before me suspended in immobility, there seems to be time for all things, time even to turn my gaze inward and see what it is that has robbed the hunt of its savour: the sense that this has become no longer a morning’s hunting but an occasion on which either the proud ram bleeds to deam on the ice or the old hunter misses his aim; that for the duration of this frozen moment the stars are locked in a configuration in which events are not themselves but stand for other things.”
” جب کہ نر بھیڑ میرے سامنے بے حرکت کھڑا ہے، میرے پاس تمام چیزوں کے لئے وقت ہے، اس کے لئے بھی وقت ہے کہ میں اپنے اندر جھانک کر دیکھ سکوں کہ وہ کیا چیز تھی جس نے شکار کا مزا چھین لیا تھا: یہ احساس کہ یہ صبح کے وقت کا کوئی شکار نہ تھا بلکہ یہ ایک طرح کا وہ لمحہ تھا جب یا تو مغرور بھیڑ کو برف کو خون سے رنگین کرتے ہوئے دم توڑنا تھا یا ایک پرانے شکاری کے نشانے کو خطا ہونا تھا؛ کہ اس منجمد لمحے میں ستارے ایک ایسے جھرمٹ کی قید میں تھے جہاں پیش آنے والے واقعات اپنے بجائے دوسری چیزوں کی نمائندگی کر رہے تھے.” ( صفحہ نمبر 64)
یہ بھی دیکھیے:
” For the lake to lay their nets. By mid-morning they are back with huge catches: birds with their necks twisted, slung from poles row upon row by their feet, or crammed alive into wooden cages, screaming with outrage, trampling each other, with sometimes a great silent whooper swan crouched in their midst.”
” ابھی چاشت کا وقت ہے جب وہ بڑی مقدار میں شکار کے ساتھ واپس لوٹتے ہیں: پرندے جن کی گردن مری ہوئی ہیں، اپنی ٹانگوں کے بل ایک قطار میں بانسوں سے لٹک رہے ہوتے ہیں یا پھر زندہ ہی انہیں لکڑی کے خوانچوں میں ٹھونس دیا جاتا ہے جہاں وہ ایک دوسرے کو کچلتے ہوئے غیض سے چلا رہے ہوتے ہیں جبکہ کبھی کبھار ایک زرد چونچ والا کافی بڑا راج ہنس ان کے بیچ چپ چاپ بیٹھا رہتا ہے۔” ( صفحہ نمبر 88)
ترجمہ میں اصل عبارت کی کیفیت پیدا کرنا جس ہنرمندی، ذہانت، سنجیدگی اور کمٹمنٹ کا متقاضی ہے اس سے بہت کم اصحاب عہدہ برآں ہوتے ہیں۔ ورنہ عام چلن تو بے لگام تراجم ہی کا ہے۔ جس نے جس تحریر کا جیسا چاہا ترجمہ کر ڈالا۔ ایسے تراجم زبان کی خدمت تو خیر کیا انجام دیتے الٹا ان تراجم نے زبان کا حلیہ بگاڑ کے رکھ دیا۔ ایسے تراجم سے اصل تصنیف سے رغبت کی بجائے تنفر ہی پیدا ہوا۔  صدیق عالم اس ترجمہ کے زریعے ہمیں احساس دلاتے ہیں کہ ترجمہ بے روح نقالی کا نام نہیں۔
 اس ترجمہ کی ایک اور خاص بات لفظوں کا ان کی نسبتوں کے حوالے سے عمدہ استعمال ہے۔ اپنی زبان کی تراکیب، محاورات، تلمیحات اور استعارات کے مفاہیم پر عبور اور زبان کا سلجھا ہوا ذوق رکھے بغیر الفاظ کی درست نسبتوں کی تعیین ممکن نہیں ہوتی۔
 میرے خیال میں تخلیقی متن کا اچھا ترجمہ وہی کر سکتا ہے جو دونوں زبانوں سے کما حقہ واقفیت کے ساتھ ساتھ انشائی استعداد بھی رکھتا ہو۔  اصل تصنیف کے  انشائی محاسن ترجمہ میں اسی صورت بہار افشاں ہوں گے جب مترجم انشائی  لیاقت کا حامل ہوگا۔ صدیق عالم کی تخلیقی قابلیت نے اصل تصنیف کی روح اس خوبی سے ترجمہ میں منتقل کی ہے کہ دورانِ مطالعہ بار بار گمان ہوتا ہے، گویا کوئٹسے اردو میں لکھ رہا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں:
The three girls sleep together in a small room a few doors from the kitchen, if they do not happen to be sleeping elsewhere. It is to this room that she finds her way in the dark if I send her away in the night or the early morning. No doubt her friends have prattled about these trysts of hers, and the details are all over the marketplace. The older a man the more grotesque people find his couplings, like the spasms of a dying animal. I cannot play the part of a man of iron or a saintly widower. Sniggers, jokes, knowing looks–these are part of the price I am resigned to paying.”
” جب انہیں سونے کے لئے کوئی جگہ نہیں ملتی تو تینوں لڑکیاں کچن سے کچھ دروازے ہٹ کر ایک چھوٹے کمرے میں سوتی ہیں۔ میں جب رات کے وقت یا صبح سویرے اسے واپس بھیجتا ہوں تو وہ اسی کمرے میں جانا چاہتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کی سہیلیاں اس کی اس طرح کی ملاقاتوں کے سلسلے میں بک بک کرنے سے باز نہیں آتی ہوں گی، کیونکہ ان ملاقاتوں کی تفصیل بازار میں پہنچنے لگی ہے۔ آدمی جتنا بوڑھا ہونے لگتا ہے، لوگوں کو اس کے جنسی رویے اتنے ہی زیادہ مضحکہ خیز نظر آنے لگتے ہیں، جیسے کسی دم توڑتے ہوئے جانور کا تشنج۔ یہ ٹھیک ہے کہ میں کسی مردِ آہن کی طرح پیش نہیں آ سکتا مگر میرے اندر کوئی ولی صفت رنڈوا بننے کی چاہ بھی نہیں ہے۔ معاوضے کے طور پر میں ہر طرح کی قیمت دینے کے لئے تیار ہوں، چاہے وہ پھبتیاں ہوں، لطیفے ہوں یا ایسی نظریں جن میں اشارے کنائے چھپے ہوں۔” ( صفحہ نمبر 54)
اردو الفاظ و مصطلحات کی موزونیت ترجمہ کو اصل تصنیف کے بہت قریب لے آئی ہے۔ صدیق عالم کی کمال ہنرمندی اور فن کارانہ رکھ رکھاؤ نے اصل تخلیق کی صوری یا معنوی خصوصیت کو مسخ نہیں ہونے دیا۔ اور اس شان دار ادب پارے کے فقروں کے بانکپن، بیان کی روح، عبارتوں کے لہجے اور اسلوب کے تیور اس فنی شان سے ترجمہ میں منعکس کیے ہیں کہ خیال و مفہوم کے مرکز جگمگا اٹھے ہیں۔
تخلیقی ترجمہ ایک نیم تخلیقی عمل ہے جس میں مترجم عموماً ایسے خیالات و افکار کا ترجمہ کرتا ہے جو احساس کی آنچ پر پکتے ہیں۔ اس عمل میں مترجم عموماً اصل خیال کو اپنے احساسات سے گزارتا ہے۔ احساسات کی داخلی صفت اسے نیم تخلیقی تجربہ بنا دیتی ہے۔ بالفاظِ دیگر، تخلیقی ترجمہ کرنا، اپنے وجود میں کسی احساس کو اس والہانہ انداز  میں جذب کر لینا ہے کہ آپ کا وجود اس احساس کو اپنی زبان میں گنگنانے لگے۔ پرائی زبان میں گایا گیا خیال اکثر تصرف کی دھن میں گایا جاتا ہے۔ خاص طور پر جب گانے والا موسیقار بھی ہو تو تصرف کی ترغیب اور امکان دونوں بڑھ جاتے ہیں۔ اسی لیے فکشن کے اچھے ترجمہ کے لیے مترجم کا تخلیق کار ہونا جہاں ترجمہ کرنے میں ممد و معاون ہے وہیں یہ صفت موجباتِ ترغیب میں بھی شامل ہے۔ اس تناظر میں ترجمہ کو فن اور دیانت کا امتحان کہا جا سکتا ہے۔ صدیق عالم اس امتحان میں پورا اترے ہیں۔ وہ کوئٹسے کے خیالات و احساسات کے ساتھی
ضرور رہے ہیں لیکن ان کا حصہ دار بننے کی کوشش نہیں کی۔ فنی دیانت کا یہی وہ لمعہء نور ہے جس سے تحریر کا لفظ لفظ جگمگانے لگتا ہے۔
اپنی تمام تر خوبیوں کے باوجود یہ ترجمہ اغلاط سے پاک نہیں ہے۔ یہ اسقام خواہ کتنے ہی خفیف کیوں نہ ہوں؛ ان کا تذکرہ لازم ہے۔ مندرجہ ذیل متن کا ماخذ اور ترجمہ دیکھیے:
” Not only that; there were unsettling occasions when in the middle of the sexual act I felt myself losing my way like a storyteller losing the thread of his story.”
” یہی نہیں، ایسے بھی پریشان کن مرحلے آتے جب جنسی عمل کے دوران میں کسی قصہ گو کی طرح راستہ کھو بیٹھتا۔ ” ( صفحہ نمبر 71)
میرے خیال میں اصل متن کا یہ ترجمہ ناکافی ہے۔
اسی طرح صفحہ نمبر 72 میں new puzzlement کا ترجمہ نیا تحیر کیا گیا جو درست نہیں ہے۔ اس کا ترجمہ  نئی الجھن بھی کیا جاسکتا تھا جو اپنے سیاق و سباق میں کہیں بہتر معنوی ترسیل کا موجب ہوتا۔
صفحہ نمبر 95 میں ” کیچڑ” کو بہ طور اسم مونث استعمال کیا گیا ہے جب کہ یہ صریحاً اسم مذکر ہے۔
اسی طرح کی چھوٹی چھوٹی اغلاط جن کا تعلق بیان یا پروف ریڈنگ سے ہے ” وحشیوں کا انتظار” میں کہیں کہیں دکھائی دیتی ہیں۔ ان معائب کی نوعیت ایسی نہیں کہ یہ اس عمدہ ترجمہ کی مجموعی صورت پر اثر انداز ہوں سکیں۔ تاہم ان کا تذکرہ نہ کرنا اگر بد دیانتی نہیں تو تساہل ضرور ہوتا۔
ہر تحریر کی طرح ” وحشیوں کا انتظار” نے بھی ایک مخصوص تہذیبی پس منظر میں پرورش پائی ہے۔ اس تہذیبی پس منظر کے فہم اور اسے ہدفی زبان میں پیش کرنے کی صلاحیت کی بدولت ہی صدیق عالم نے کہانی کی حساسیت اور کوئٹسے کے اسلوب کی انفرادیت کو مجروح کیے بغیر ایک عمدہ ترجمہ اردو زبان کو دان کیا ہے۔ ہمیں امید ہے کہ مستقبل میں صدیق عالم ہمیں مزید ایسے تراجم پڑھنے کا موقع دیں گے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...