ملکوں کی ترقی کا راز
تحریر: محمد ندیم سرور
کسی بھی ملک کی ترقی کا راز جان کر، اسے باقی ملکوں کے لیے قابلِ عمل بنانا صدیوں سے ماہرینِ معاشیات کی پسندیدہ سرگرمی رہی ہے۔
موجودہ دور کے دو عظیم ماہرین معیشت Daron Acemoglu اور James A. Robinson نے اس موضوع پر ایک بہترین کتاب Why Nations Fail تصنیف کی ہے جس میں مختلف خطوں اور ممالک کی تاریخ، سماج اور معاشی نظاموں کا جائزہ لے کر یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ قوموں کی ترقی کا دارومدار قدرتی وسائل کی فراوانی یا بہترین محل وقوع کی بجائے بہترین خطوط پر استوار اداروں Inclusive Institutions پر ہوتا ہے۔
معاشیات میں اداروں یعنی Institutions سے کیا مراد ہے؟ ماہرین معاشیات بڑی سے بڑی سے لیکر چھوٹی سے چھوٹی سرگرمی سرانجام دینے کے موٹے موٹے اصولوں، قواعد و ضوابط rules of the game کو institutions کہتے ہیں۔ مثال کے طور پر حکمران چننے کا اختیار کسے ہوگا؟ وہ اس اختیار کو کیسے استعمال کریں گے؟ کب استعمال کریں گے؟ حکمرانی کی دوڑ میں حصہ لینے کی شرائط کیا ہونگی؟ حکمرانوں کے فیصلے، پالیسیاں ، اختیارات کسی حدود و قیود کے پابند ہونگے یا نہیں؟ ان حدود کو کون طے کرے گا؟ طریقہ کار کیا ہوگا؟ اس اصولوں کو پامال کرنے کی سزا کیا ہوگی؟ کوئی سرمایہ کار کوئی فیکٹری لگانا چاہے، وہ کچھ سامان ملک سے باہر بھیجنا چاہے یا باہر سے منگوانا چاہے، اپنے تیار کردہ سامان کی قیمت مقرر کرنا چاہے، وغیرہ تو ان فیصلوں میں اسے کتنی آزادی ہوگی یا وہ کس کس کی اجازت کا پابند ہوگا وغیرہ۔
اگر یہ اصول ان خطوط پر استوار ہوں کہ زیادہ سے زیادہ لوگ معاشی و سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لے سکیں تو ایسے اداروں کو Inclusive Institutions کہتے ہیں لیکن اگر یہ ادارے کسی خاص شخص یا گروہ کے حصے کو بچانے کے لیے بنائے گئے ہوں تو انہیں Extractive Institutions کہیں گے۔
کسی بھی ملک کی ترقی کے لیے اداروں کی مضبوطی سے مراد ان اصول و ضوابط کا اطلاق بنا کسی پس و پیش کے سب پر ہونا ہے، تاکہ سب لوگ بلا کسی تفریق سیاسی و معاشی نظام میں حصہ لیں اور جو بہتر ہو وہ آگے نکلے۔ لیکن اگر کسی اصول، قانون کے لاگو کرنے سے پہلے یہ دیکھنا پڑے کہ اس کی زد میں کون آرہا ہے؟ پھر اس حساب سے گنجائش کا دائرہ چھوٹا یا بڑا کیا جائے تو ایسے ملک میں سرمایہ کاری کرنے سے پہلے سرمایہ کار ایسے گروہوں سے تعلق استوار کریں گے جو ان کے لیے ان دائروں کو حسبِ ضرورت بڑا کرسکیں۔ ان تعلقات کی تمام قیمتیں عوام سے وصول کی جائیں گی، عملی طور پر وہ ملک اسی خاص شخص یا گروہ کی مرضی کا اسیر ہوگا اور اس ملک کے تمام باشندے عملی طور پر اسی کے لیے کام کررہے ہونگے۔
ایسے ملک میں سیاسی نظام ہو بھی تو سیاسی جماعتوں کے لیے عوام کی خوشنودی سے زیادہ اس گروہ کی خوشنودی مقصود ہوتی ہے۔ یوں سیاسی نظام بھی وہ نتائج پیدا نہیں کرسکتا جو ایسے ملک میں پیدا کررہا ہو جہاں ادارے inclusive ہوں یعنی وہاں اصول و ضوابط کا اطلاق سب پر یکساں ہوتا ہو۔
ہمارے ملک کے آئین میں بھی سیاسی و معاشی سرگرمیوں کے اصول و ضوابط طے ہیں لیکن ہو کیا رہا ہے، ہوتا کیا رہا ہے، یہ سب کے سامنے ہے۔ ایسے میں سرمایہ کار ملکی ہو چاہے غیر ملکی، بجائے اپنی پیداواری صلاحیت بہتر کرنے کے، اسی گروہ سے تعلق بنانا چاہے گا جو یہ سب کنٹرول کررہا ہے۔ جس کے ادھر تعلق نہیں ہونگے وہ سرمایہ ہونے کے باوجود شش و پنج کا شکار رہے گا کہ کل کلاں نہیں معلوم کہ اصول و ضوابط سے کیسے کھیلا جائے گا، ایسے میں ظاہر ہے contract enforcement یعنی معاہدوں پر عملداری کم کم ہی ہوگی تو اس بات کا امکان کم ہی ہے کہ ایسا شخص کچھ سرمایہ کاری کرے۔ گویا سرمایہ کاری ایک تو ہوگی کم دوسری ہوگی بھی تو پیداواری صلاحیت productivity بڑھانے پر توجہ نہیں ہوگی۔ اسی طرح کسی شخص کا سیاسی سرگرمی میں حصہ لینے یا نہ لینے کا فیصلہ اور اسکی کامیابی اسکی گورننس اور پالیسی سازی کی صلاحیتوں کی بجائے اس کے خاص گروہ میں تعلقات پر منحصر ہوگا۔ اگر اب بھی آپ کو پاکستان کے مسائل کی جڑ کا پتا نہیں لگا اور یہ سمجھ نہیں آئی کہ اس وقت سب سے ضروری کیا ہے، تو آپ پاپ کارن کھائیں، پی ایس ایل دیکھیں، بچے پیدا کریں اور اپنے حالات کا ذمہ قسمت، نصیب یا سازشوں پر ڈالیں۔
اچھے ادارے Inclusive Institutions عوام کے ملکیتی حقوق Property Rights کی حفاظت کو یقینی بناتے ہیں۔ یعنی اگر کوئی چیز قانونی طور پر آپ کی ملکیت ہے Documented Ownership، تو اب اس کو استعمال کرنے اور کسی اور کو دینے کا مکمل اختیار بھی آپ کا ہی ہوگا، یہ نہیں کہ اس پر کوئی قبضہ کرلے گا یا Title Ownership کے مسائل پیدا ہوں۔ اس سے ایک تو اس ملک کی معیشت اور نظام پر اعتماد پیدا ہوتا ہے، دوسرا اس سے اپنی ملکیتی شے Property/Resource کو بہتر سے بہتر بنا کر اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ لینے کی کوشش بھی کی جاتی ہے۔ اسی کوشش کا نتیجہ سرمایہ کاری، ملکی دولت میں اضافے، روزگار کے وسیع مواقع اور معاشی خوشحالی کی صورت میں نکلتا ہے۔
دوسری طرف اگر ادارے ایسے ہوں جو چند افراد یا کسی خاص گروہ کے زیر اثر کام کرتے ہوں Extractive Institutions تو سرمایہ کار بھی اسی شخص یا گروہ کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوششوں میں لگے رہیں گے۔ جس فریق کی فیض یابی ہوگئی وہ پھر دوسروں کے حقوقِ ملکیت کو روند کر اپنے لیے زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کرنے کی کوششوں میں لگا رہے گا۔ یوں عوام کے صرف سیاسی ہی نہیں بلکہ معاشی حقوق بھی سلب ہونگے اور ملک پیچھے ہی رہتا جائے گا۔ پھر ایک بار یہ چکر شروع ہوجائے تو زیادہ سے زیادہ لوگ اس راستے کو اختیار کرنے کی کوشش کریں گے اور جو نہیں کرسکے، وہ اگر ذہین اور کسی حد تک بااختیار ہونگے تو۔ باہر نکل جائیں گے اور یہ مجبوریاں ہوئیں تو مجبوری کے عالم میں اسی ملک میں گھسی پٹی زندگی گزارنے پر مجبور ہونگے۔
اب آپ نے مجبوری والی زندگی ہی گزارنی ہے یا ایسے نظام کے لیے جدوجہد کرنی یے، آواز اٹھانی ہے جہاں آپ کو ذہانت اور محنت کی بنیاد پر آگے نکلنے کے مواقع میسر ہوں، جہاں آپ کے ملکیتی حقوق بشمول حقوق دانش Intellectual Property Rights کا تحفظ ہو، سیاسی پارٹیوں کو معلوم ہو کہ انتخابات میں عوامی رائے ہی فیصلہ کن ہوگی اور کاروباری افراد کو بھی پتا ہو کہ طے شدہ قانون کی پابندی لازم ہوگی. فیصلہ آپ کا۔
فیس بک پر تبصرے