تصورِ پاکستان کا نِت نیا بیانیہ:خلیفہ عبدالحکیم یادگاری خطبہ(آخری حصہ)

1,213

ضیاءالحق اقبال کے تصور کے برعکس اسلام پر عرب ملوکیت کی چھاپ کو اور گہرا اور مزید نمایاں کرنے کا اہتمام کرنے میں منہمک رہے۔

اِس نئے سیاسی بیانیہ کی رُو سے اس طرح کا سوال اُٹھانا سرے سے ممکن ہی نہ رہا- اِس کے برعکس دُنیا میں سرمایہ پرستی کے سفینے کی حفاظت ہماری منزلِ مقصود قرار پائی- ایوانِ اقتدار کے اندر اور باہر بیٹھے ہوئے سرمایہ پرستوں نے اِس نئی آئیڈیالوجی کو اِس ذوق و شوق کے ساتھ اپنایا کہ منصوبہ بندی کمیشن کے ڈپٹی چیئرمین ڈاکٹر محبوب الحق کو یہ صدائے احتجاج بلند کرنا پڑی کہ پاکستان کی دولت فقط چند ہاتھوں میں مرتکز ہو کر رہ گئی ہے- چنانچہ ایوب خان نے تیسرے پنج سالہ منصوبے کے دیباچہ میں یہ عہد کیا کہ وہ پاکستان کے اقتصادی نظام کو اسلامی سوشلزم کے اصولوں کے مطابق تشکیل دیں گے-اس پر ایوب حکومت کے کارپردازان میں سے چند سرمایہ پرست اشتعال میں آگئے -پاکستان کے ۳۳امیر ترین خاندانوں میں سے ایک خادنان کے چشم و چراغ ا ور نیشنل پریس کلب کے چیئرمین اے کے سومار نے اس اسلامی سوشلزم کے تصور کو فراڈ قرار دیتے ہوئے پاکستان کے بیشتر اخبارات میں اس کی مذمت میں مضامین شائع کیے-حنیف رامے ، پروفیسر محمد عثمان ، صفدر میراور غلام احمد پرویز سمیت بہت سے دانشوروں نے اسلامی سوشلزم کے تصور کے اثبات میں مقالات لکھے- محمد حنیف رامے کے دو ماہی علمی جریدے ”نصرت“کا ایک ضخیم اسلامی سوشلزم نمبر شائع کیا-اِس کے جواب میںجماعتِ اسلامی کے جریدے چراغِ راہ نے اسلامی سوشلزم کے تصور کی تردیدمیں ”نصرت“ سے دُگنی ضخامت کا اسلامی سوشلزم نمبر شائع کیا-یوں دیکھتے ہی دیکھتے اِس بحث کا بازار گرم ہو گیا- پاکستان پیپلز پارٹی کے قیام کے بعد ذوالفقار علی بھٹو بھی اس بحث میں شریک ہو گئے- ۲۹جنوری ۱۹۶۸ءکو لاہورمیں پارٹی کے کارکنان سے خطاب کے دوران اُنھوں نے دعوی کیا کہ ”پہلے پہل سوشلزم کے بیج اسلام کے فیضان سے ہی پھوٹے تھے- سوشلزم کے تصورات اسلام ہی کی دین ہے-یہ آنحضور اور خلفائے راشدین کا اسلام ہے جو ہمارے لیے مشعلِ راہ ہے- “اپنی الیکشن مہم کے دوران ، اُنھوں نے ، جنوری ۱۹۷۰ءمیں سامعین کو یقین دلایا تھاکہ” اسلامی سوشلزم کے باب میں اُن کا تصور قائداعظم اور لیاقت علی خان کی تعلیمات سے ماخوذ ہے-اسلامی سوشلزم کے تصور کی روز افزوں مقبولیت سے ہمارے رجعت پرست مذہبی حلقوں کی بوکھلاہٹ کا اندازہ ایک سو تیرہ علماءکے اس فتویٰ سے لگایا جا سکتا ہے جس میں اسلامی سوشلزم کے تصور کو اپنانے والے مسلمانوں کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا گیا تھا۔ یہ دیکھ کر آدمی حیرت میں گم ہو جاتا ہے کہ اس فتویٰ پر مولانا ظفر احمد انصاری، مولانا مفتی محمد شفیع اور مولانا احتشام الحق تھانوی کے دستخط بھی ثبت ہیں۔ یہ جان کر حیرت و استعجاب کی کوئی حد نہیں رہتی کہ جنرل یحییٰ خان کی وزارتِ اطلاعات کی جانب سے اس فتویٰ کی زبردست تشہیر کے باوجود پاکستان کے غریب عوام نے ذوالفقار علی بھٹو کو اپنا سچا قائد تسلیم کر لیا اور یوں وہ الیکشن جیت کر ایوانِ اقتدارپر قابض ہو گئے۔بعد ازاں جب ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان پیپلز پارٹی قائم کی تو اسلامی سوشلزم کی بنیاد پر پاکستان کی معیشت کی نئی تشکیل کا عزم باندھا- ذوالفقار علی بھٹو شہید نے اپنا کام وہیںسے شروع کیا جہاں پاکستان کے پہلے وزیراعظم شہیدِ ملت لیاقت علی خان چھوڑنے پر مجبور کر دیے گئے تھے- یہ شہیدِ ملت ہی تھے جنہوں نے اگست ۱۹۴۹ءمیں لاہور کے جلسہءعام سے خطاب کرتے ہوئے بڑی قطعیت کے ساتھ فرمایا تھاکہ:

”ہمارے لئے فقط ایک ”اِزم“ ہے اور وہ ہے اسلامی سوشلزم جس کا لُبِّ لباب یہ ہے کہ ہر شخص کو اس ملک میں روٹی، کپڑا، مکان، تعلیم اور طبی سہولتوں کے حصول کا مساوی حق ہے- وہ ملک جو اپنے باشندوں کو یہ چیزیں فراہم نہیں کرتے، کبھی ترقی نہیں کر سکتے-وہ اقتصادی پروگرام جو اب سے ۱۳۵۰ برس پہلے (عہدِ نبوی میں) مرتب ہوا تھا ہمارے لیے آج بھی سب سے اعلیٰ ہے-“

بھٹو شہید نے آزاد معیشت کے ساتھ ساتھ آزاد خارجہ پالیسی کی بازیافت کی خاطر مغربی دُنیا کے ساتھ دفاعی معاہدوں سے بھی پاکستان کو نجات دلا دی- شہیدِ ملت کی راہ اپنانے کا انجام بھی شہید ملت کا سا ہوا- قاتل کی گولی کی بجائے پھانسی کا پھندہ ذوالفقار علی بھٹو کا مقدر ٹھہرا- جنرل ضیاءالحق نے، اپنی ہوسِ اقتدار کی تسکین کے لیے پاکستان کے نظریاتی وجود کو ایک نام نہاد شرعی نظام کے نفاذ سے دُھندلا نے کے جُرم کا ارتکاب کیا تھا۔وہ شریعت کے نام پہ پاکستان کو ایک جدید اسلامی جمہوری ریاست کی بجائے ایک فرسُودہ اور ازکار رفتہ آمریت کی شکل دینا چاہتا تھا۔اپنے اِس مقصد کے حصول کی خاطر اُس نے شریعت کا نام لے لے کرمُلّائیت کی سرپرستی کی۔ جب ۱۹۷۸ءمیں افغانستان میں سوشلسٹ حکومت قائم ہوئی اور امریکہ نے اِس روس نواز حکومت کو ختم کرنے کی خاطر مُلّائیت کی سرپرستی کی حکمتِ عملی اپنائی تو ضیاءالحق نے طالبان کے تصورِ شریعت کو اپنے اور امریکہ کے مفیدِ مطلب پایا۔ چنانچہ پاکستان میں بھی ایک ایسی نئی شریعت کے نفاذ کی لَے چھیڑدی گئی جس کے خدوخال فیض احمد فیض کی نظم ”تین آوازیں“ کے ایک کردار ”ظالم“ میں منعکس ہیں۔ستم بالائے ستم یہ کہ پندرہ بیس برس کے اندر اندر فیض کے ”فصلِ گُل آئے گی نمرود کے انگار لیے“ کے سے اندیشہ ہائے دُورودراز بھیانک حقائق کا روپ دھار گئے ۔صدر ضیاءالحق نے اپنے غاصبانہ اقتدار کو طُول دینے کی خاطر نام نہاد اسلامائزیشن کا ایک نیا بیانیہ تراشاجو تصورِ پاکستان کے حقیقی بیانیہ کی مکمل نفی سے عبارت تھا- فیلڈ مارشل ایوب خاں نے عوامی جمہوریت کو بنیادی جمہوریت کی شکل دینے کی کوشش کی تھی – جنرل ضیاءالحق نے جمہوریت کی مکمل نفی کی خاطر اسلام کے مقدس نام کو بے دریغ استعمال کیا- وہ خود امیر الم

منین بن بیٹھے اور اپنے چندفرماں بردار افراد کی مجلسِ شوری نامزد کر کے آمریت کا بول بالا کرنے میں مصروف ہو گئے- مفکرِ اسلام علامہ محمد اقبال نے یہ خواب دیکھا تھا کہ پاکستان میں اسلام پر سے عرب ملوکیت کی چھاپ کو اُتار کر اسلام کی حقیقی روح کی بازیافت اور پھر اِس روح کو روحِ عصر کے ساتھ ہم آہنگ کیا جائے گا- ضیاءالحق کی اسلامائزیشن پاکستان کے اِس حقیقی تصور کی مکمل نفی ہے- صدر ضیاءالحق اِس تصور کے برعکس اسلام پر عرب ملوکیت کی چھاپ کو اور گہرا اور مزید نمایاں کرنے کا اہتمام کرنے میں منہمک ہو گئے تھے-

 

جب میں بانیانِ پاکستان کے تصورِ پاکستان کی مکمل تردید کا یہ نیا بیانیہ پڑھتا ہوں تو مجھے یاد آتا ہے کہ مظہر علی خان نے اپنے ہفت روزہ View Point کے ایک اداریہ میں ضیاءالحق کی اسلامائزیشن کو سعودی آئزیشن آف اسلام قرار دیا تھا- ڈاکٹر جاوید اقبال نے اسلام کے موضوع پر سعودی عرب میں منعقدہ بین الاقوامی اسلامی کانفرنس سے متعلق اپنی یادوں کو تازہ کرتے وقت لکھا ہے کہ اِس کانفرنس میں ایک ایسی قرارداد بھی منظور کی گئی تھی جس میں علامہ اقبال کے خطبات کو کفریات قرار دیا جا چکا ہے۔خاندانی بادشاہت اور اُس کی دست و بازو مُلّائیت کی نگاہ میں اقبال کا سب سے بڑا قصور یہ ہے کہ اُس کی نظر میں جمہوریت اسلام کا سیاسی آئیڈیل ہے تو مساوات اسلام کا معاشرتی آئیڈیل- اقبال کے اِن ہی انقلابی اسلامی تصورات سے پاکستان کا نظریاتی وجود برآمد ہوا تھااور انہی تصورات کی سربلندی کی خاطر بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح کی قیادت میں برصغیر کے مسلمان عوام نے پاکستان کا جغرافیائی وجود تخلیق کیا تھا-

یوں محسوس ہوتا ہے جیسے پاکستان میں اسلام کی بجائے ملائیت کی حکمرانی کے امکانات کو ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم نے پیش از وقت ہی محسوس کر لیا تھا- چنانچہ وہ ہمارے نظریاتی اُفق کوتابناک بنانے کا کارنامہ سرانجام دینے میں جس انہماک اورجس تسلسل کے ساتھ کوشاں رہے اُس کی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی-اُن کی کتاب The Ideology of Islam اُن اسلام پسندوں کی سرمایہ پرست اسلامیت کا انتہائی م

ثر جواب ہے جو سردجنگ میں امریکہ نواز اسلام ایجاد کرنے میں مصروف تھے- اسی طرح اُن کی کتاب ”فکرِ اقبال“ فلسفہ و شعر میں اقبال کے اُن افکار کومنکشف کرتی ہے جنھیں سرد جنگ کے دوران فراموش کرنے کا اہتمام سکہءرائج الوقت تھا-اسلامی سوشلزم کا تصور اقبال کے اِن انقلابی تصورات میں سے ایک ہے-اُن کی عہد آفریں کتابیں تو رہیں ایک طرف اگر آج ہم اُن کے فقط دو مضامین بعنوان: ”مُلّائیت “اور ”اقبال اور مُلّا“ ہی سے تخلیقی انداز میں استفادہ کر لیں تو مجھے یقین ہے کہ ہم پرملائیت اور اُس کی زائیدہ تشدد پرستی اور دہشت گردی سے نجات کی راہیںروشن سے روشن تر ہوتی چلی جائیں گی!

 

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...