کثیر ثقافتی سماج میں ثقافتی تنوع جہاں معاشرے کو ثروت مند بنانے کا باعث ہے، وہیں ثقافتی شناختوں کے تصادم کے خدشات بھی موجود رہتے ہیں۔ ایسے معاشروں میں مسلسل ضرورت اس امر کی ہوتی ہے کہ تنوع کی قبولیت کی ضرورت و اہمیت کو اجاگر کرنے کا عمل جاری رہے اور اس پر وقتاً فوقتاً سامنے آنے والے فکری مسائل پر مکالمہ جاری رہے۔ سلمیٰ حبیب بھٹو نے سندھ کی معروضی صورت حال اور معاصر زمینی حقائق کو دیکھتے ہوئے ثقافتی تنوع کو اجاگر کرنے کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے اور معاشرے کے مختلف طبقوں کی ذمہ داریوں پر بات کی ہے۔ (مدیر)
سندھ بالخصوص کراچی ماضی قریب میں فرقہ وارانہ فسادات کے ساتھ ساتھ نسلی تصادم کا شکار رہا ہے، جس کی وجہ سے ایک لمبے عرصہ تک شہر میں خوف کی فضا قائم رہی۔ بالآخر ریاست اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ایسے عناصر کا سختی سے مقابلہ کیا جو ان فرقہ وارانہ فسادات اور نسلی تصادم کو ہوا دیتے تھے اور یوں ریاستی طاقت کے ذریعے سندھ کے امن کو بحال کیا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ قومی دھارے کے سیاسی اور مذہبی رہنماؤں نے بھی پہل کرتے ہوئے ہر اس کوشش کو سبوتاژ کیا جو معاشرے میں نسلی تعصب، نفرت اور لسانیت کو فروغ دینے کا سبب بنتی ہے۔مگر ان تمام کوششوں کے باوجود ابھی عوام کے اندر نسلی اور ثقافتی تنوع کے احترام کاشعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے،جس کی بدولت وہ خود کسی ایسی مہم کا حصہ بننے سے اجتناب کر سکیں جو انھیں کسی تشدد کی جانب اکسانے پر آمادہ کرتی ہے۔
متعدد ثقافتوں، نسلوں اور زبانوں پر مشتمل کراچی جیسا شہر اورتمام سندھ مملکت پاکستان میں ایک منفرد مقام رکھتا ہے مگر بدقسمتی سے ابھی بھی کچھ لوگ اور گروہ متعصبانہ، لسانی اور نسلی بنیادوں پر سیاست چمکا رہے ہیں۔ اس لیے ایک چھوٹا سا واقعہ بھی ان کی سیاست کے لیے ایک ایندھن کا سبب بن جاتا ہے۔ جیسا کہ جولائی 2012 میں صوبہ سندھ کے قدیم تاریخی شہر حیدرآباد کے علاقے قاسم آباد میں ہونے والا واقعہ جس میں ہوٹل انتظامیہ اور چند نوجوانوں میں کھانا کھانے کے دوران تصادم ہوا، جس کے نتیجے میں کئی مقدمات میں مطلوب بلال کاکا ہلاک ہو گیا۔ بلال کاکا کی پشتو زبان بولنے والے ریسٹورنٹ کے مالک کے ہاتھوں ہلاکت کو لسانی رنگ دے کر سارے حیدرآباد میں پختونوں کے کاروبار کو نقصان پہنچایا گیا، انھیں ڈرایا دھمکایا گیا،یہ سلسلہ جنگل کی آگ کی طرح پھیلتا چلا گیا جس کی وجہ سے دیگر قومیتوں میں بھی غم وغصہ پیدا ہوا۔
بلال کاکا سندھی قوم پرست جماعت میں شامل رہے ہیں، اسی تعلق کی بناء پر ان قوم پرست جماعتوں نے بلال کاکا کی لاش کے ساتھ قاسم آباد میں دھرنا دیا۔ قوم پرست جماعتوں نے ہوٹل مالکان کو افغانی قرار دیا اور تمام افغانیوں کی سندھ سےبے دخلی کا مطالبہ کیا، جس کے بعد سندھ کے کئی شہروں میں احتجاج شروع ہوئے۔ حیدر آباد، شکارپور، سکھر، نوابشاہ،سہون شریف، ٹنڈومحمد خان، میھڑ سمیت کئی شہروں اور قصبوں میں قوم پرست جماعتوں کی جانب سے احتجاجی ریلیاں نکالیں گئیں۔ رد عمل میں پشتون مشتعل افراد نے کراچی سہراب گوٹھ الآصف اسکوائر کے قریب نجی املاک کو نقصان پہنچایا، گاڑیاں جلا ئیں۔ سوشل میڈیا پر مشتعل افراد کی افسوس ناک مناظر پر مشتمل ویڈیوز دیکھی جا سکتی ہیں، جن میں یہ افراد کہیں گاڑی روک کر لوگوں کو دھمکا رہے تھے تو کہیں ہوٹل اور دوکانیں بند کروا رہے تھے۔ پھر رفتہ رفتہ حکومت اور سیاسی رہنماؤں کی مداخلت کے بعد اس نفرت کی آگ پر قابو پایا گیا۔
“امریکی پولیٹیکل سائنٹسٹ سیموئیل پی۔ہنٹنگٹن کی تھیوری ’’تہذیبوں کے درمیان تصادم‘‘ (1996) کے مطابق مختلف برادریوں کے درمیان ناگزیر تصادم کا کوئی بھی تصور سطحی ہے۔ اس طرح کا نقطہ نظر اس بات کی تردید کرتا ہے کہ شناخت خراب اور حالات کے مطابق ہے، اور یہ کہ افراد کے پاس ایک سے زیادہ شناختیں ہیں۔ لہٰذا شناختیں یکساں نہیں ہو سکتیں، اور بین الاقوامی یا ملکی سطح پر تصادم کی ناگزیریت کو ظاہر کرتا ہے۔”
جہاں پرسندھ میں آج ایک جانب ہر طرف ثقافتی شناخت کوفروغ دیا جا رہا ہے،سندھی اجرک ڈے، مہاجر کلچر ڈے، اور کئی دیگر اس طرح کے پروگرام منعقد کیے جارہے ہیں، وہیں پر قوم پرستی اور نسلی تصادم کے خطرات میں بھی اضافے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ ثقافتی یا کلچرل میلے چاہے کسی بھی قوم سے وابستہ ہوں، ان سب میں ایک قومی شناخت کے پیغام کی کمی محسوس ہوتی ہے-اسی کے کئی پہلونظر آتے ہیں جن میں سندھ کے حال ہی کے نسلی جھگڑے کی اگر بات کی جائے تو ہنٹنگٹن کا مذکورہ نظریہ سندھی اور پختونوں کے درمیان نسلی تصادم کا سبب بتاتا ہے۔ سندھ کثیر لسانی، ثقافتی اور مذہبی گروہوں کی سرزمین رہا ہے،یہ کثیر الجہتی گروہ اپنی الگ شناخت کی بنیاد پر جھگڑے کی بنیاد رکھتے ہیں، اگرچہ یہ تمام گروہ اس سرزمین کے باسی ہیں لیکن کسی کو اس کے امن و سکون کی پرواہ نہیں ہے۔ ہر کوئی اپنی ثقافتی طاقت کے ذریعے غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس سرزمین پر تمام نسلوں کے بیج اتنے ہی پرانے ہیں جتنی اس کی تہذیب۔
ان ابھرتے ہوئے تعصبات اور نفرتوں کو ختم کرنے کے لیے ثقافتی تنوع کے احترام کو لازمی اختیار کرنا ہو گا۔ ثقافتی تنوع ایک ایسا اصول ہے جو ایک ہی جغرافیائی حدود میں مختلف ثقافتوں کے مابین وجود، بقائے باہمی اور تعامل کے ساتھ ہی مختلف انسانی گروہوں کے مابین ثقافتی اختلافات کو تسلیم اور قانونی حیثیت دیتا ہے۔ مگر یہاں اتحاد اور بھائی چارے کے قومی نظریے کو فروغ دینے کی کوئی کوشش نہیں کرتا۔ قومی سالمیت اورقومی مقصد کا فروغ صرف نصاب کا حصہ ہے۔ حقیقت میں ہمارے ہاں ذات پات، رنگ، زبان اور مذہبی یقین کی بنیاد پر قوم پرستی ہے۔اس طرح کی قوم پرستی متعدد میدانوں میں سامنے آ جاتی ہے،کبھی ذات پات تو کبھی رنگ نسل،کبھی فرقہ واریت کی بنیاد پر اور کبھی سندھی، پشتون، مہاجر، بلوچ،یا پھروہ شیعہ، سنی، بریلوی، دیوبندی اور اسی طرح کے عقائد کی ایک اور شناخت کے ساتھ تصادم میں نظر آتے ہیں اور اس پر ابہام یہ ہے کہ یہ گروہ اپنی مرضی کے مطابق شرکاء کو تبدیل کرتے ہیں۔
کبھی یہ آپ کوبڑے بڑے ثقافتی میلوں میں ایک ساتھ ناچتے اور خوشیاں مناتے نظرآ ئیں گے تو کبھی مذہبی تہوارمیں ایک دوسرے کے لیے سکیورٹی کا مسئلہ بن جاتے ہیں۔ شناخت کے عوامل کے بنیاد پر یہ گروہ کبھی ایک دوسرے کے لیے لڑتے ہوئے نظر آتے ہیں تو کبھی ایک دوسرے کو مارتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔لیکن تصادم کے ہر عنصر کے نتائج بڑے پیمانے پر تباہی کے ساتھ ٹوٹ پھوٹ کو ثابت کرتے ہیں۔ ہمارے پاس بنگال کی علیحدگی کی مثالیں موجود ہیں جو مغربی پاکستان کے غیر منصفانہ نسلی رویے کی وجہ سے الگ ہوا تھا۔ دوسری طرف عراق میں مذہبی فرقہ واریت کے بنیادی تنازعات اب بھی اپنے تباہ کن نتائج کا سامنا کر رہے ہیں-
اس کے علاوہ اگرغیرریاستی عوامل کی بات کی جائے تو ایسے گروہ نسلی تصادم کوہی سب سے زیادہ استعمال کرتے ہیں۔ ریاست مخالف عناصر اپنے پروپیگنڈہ کوانھیں مذہبی اور نسلی تصادم کے سائے تلے لائحہ عمل میں لاتے ہیں۔ خاص طور پر اگرشہروں کی بات کی جائے توسندھ کا سب سے زیادہ سیکولر اور لبرل سمجھا جانے والا شہر کراچی سب سے زیادہ مذہبی اور نسلی تصادم کی وجہ سےخطرناک صورتحال کا سامنا کر چکا ہے۔ انتہا پسندی، فرقہ واریت، نسل پرستی، منشیات اور اسلحہ مافیا نے سندھ کے اس شاندار حصے کو ہمیشہ نشانہ بنایا ہے۔ دنیا میں آبادی کے اعتبار سے چھٹے نمبر والا یہ شہر لوگوں کے لیے روٹی اورروزگار کمانےکے لیے ایک بہت بڑا وسیلہ ہے،اورپاکستان میں موجود تقریبا ہر ذات،نسل، فرقے اورمذہب سے وابستہ رکھنے والا انسان کراچی میں آ کر اپنی روزی روٹی کما رہا ہے اور ترقی کی آس میں اسی شہرمیں اچی توقعات کے ساتھ قدم رکھتا ہے، مگرگندگی،لوٹ مار،قتل و غارت کے علاوہ اس شہر کو کچھ نہیں ملتا۔ ایسا لگتا ہے جیسے یہاں آکر ہر شخص مطلبی اور خود غرض بن جاتا ہے۔
اگر تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو سندھ میں نسلی تصادم اس صدی کی کہانی نہیں ہے، یہ سندھ میں غیرمقامی افراد کی آمد سے شروع ہوتاہے، لیکن بہت سے لوگ اسےغیر ریاستی عناصر کے اثر و رسوخ، سیاسی پروپیگنڈے یاآئینی اور انتظامی خلا کو گردانتے ہیں۔بہر حال ان تمام اسباب پر توجہ مرکوز کرنے سے ہم اپنے معاشرے کے بنیادی مسائل کو حل کر سکتے ہیں۔ یہ تصور کہ سندھ صرف ان لوگوں کا ہے جو سندھی بولتے ہیں یا صرف ان کے لیے جو سندھی لباس کی روایت کو اپناتے ہیں یا دوسری طرف کراچی صرف اردو بولنے والوں کا ہے۔یہ سب اپنے آپ کو سندھی، مہاجر اور بلوچ کہلوانے کی بھرپورکوشش کرتے ہیں،لیکن اس طرح سے کئی شناختیں رکھنا ایک غلط فہمی ہے جو نسل در نسل، خاص طور پر ماہرین تعلیم یا اساتذہ کے ذہنوں میں پالی جاتی ہے۔ اس طرح کے نقطہ نظر سے علیحدگی پسندی اور نسل پرستی کے نظریات جنم لیتے ہیں، جبکہ اس طرح کی شناخت سے بنیادی قومی نظریے کو بھی نقصان پہنچتا ہے- اس خطے میں رہنا ہے تو سب سے پہلے پاکستانی قوم اور پھرصوبے سے وابستگی ہونی چاہیے۔کون کہاں سے آیا ہے اور کس کی پیدائش کہاں ہوئی ہے، اس سے کسی کو کوئی سروکار نہیں ہونا چاہیے کہ کس کی پشتیں کہاں پیدا ہوئیں؟
اس کے علاوہ اگرجغرافیہ کی بنیاد پراس علاقے کا تعین کیا جائے تو تاریخ ثابت کرتی ہے کہ سندھ کا آغاز جغرافیائی علاقے بالاکوٹ سے ہوا جو اَب بلوچستان میں واقع ہے۔ کراچی یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر اختر بلوچ اور ہینڈز کے جنرل منیجر ندیم واگن لکھتے ہیں کہ بلوچی 1300 سے 1850 کے لگ بھگ سندھ میں آئے جسے لٹل آئس ایج کہا جاتا ہے، جس کی وجہ سے وہ سندھ کے آبائی باشندے کہلاتے ہیں۔ اسی طرح مہاجر آزادی کے بعد یہاں آباد ہوئے، مگرپھر بھی سندھی نہیں بلکہ مہاجر کیوں کہلاتے ہیں؟ پختون کام اور تعلیم کی تلاش میں قیام پاکستان کے بعد سے یہاں پر مسلسل ہجرت کر رہے ہیں لیکن پھر بھی وہ خود کو سندھی نہیں کہتے، جب کہ پیدائشی سرزمین کے اعتبارسے دیکھا جائے توکسی بھی خطے میں پیدا ہونے والا انسان وہیں کا باشندہ کہلاتا ہے۔ انٹرنیشنل لاءکے مطابق بھی اگر کوئی ہوائی جہاز میں جنم لیتا ہے تواس وقت جہاز جس بھی ملک کے اوپرگذررہا اسے وہاں کا برتھ سرٹیفکیٹ دیا جاتا ہے اور وہ وہاں کا شہری کہلاتا ہے مگر ہمارے ہاں آدھی صدی سے زیادہ وقت سے رہنے والے لوگ بھی اس شہراور صوبہ کو اپنا نہیں مانتے اور خود کوالگ،الگ شناختوں سے متعارف کرواتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سندھ کی سرزمین پر تمام نسلی گروہوں کا خیرمقدم کیا جاتا ہے،لیکن پھر بھی وہ اتحاد کو دوبارہ پیدا نہیں کرتے بلکہ وہ اپنی نسلی بالادستی پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں،جو کہ جارحیت اور تنازعات کو جنم دیتی ہے۔
افغانی پشتونوں کی مجرمانہ رویوں کو روکنے کے لیے قانونی اقدام کرنا چاہیے۔ سب سے پہلے حکومت اور اقوام متحدہ کے ادارے انھیں ریفیوجی شناختی کارڈ جاری کریں، جس پر ان پر افغانی شہری یا مہاجرین کے نشانات ہوں تاکہ ان کی اور ان کی سرگرمیوں کی شناخت کی جا سکے۔ دوسری بات صرف پختون اور بلوچ ہی نہیں بلکہ جو بھی مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہیں چاہے وہ سندھی بولنے والے ہوں یا اردو بولنے والے مہاجر بھی ہو سکتے ہیں، ہمیں نسلی تعصبات کے خاتمے کے لیے آئینی طریقہ کار کے مطابق سب کو برابری کی سطح پر لانا چاہیے۔ غیر اخلاقی رویہ پھیلانے والے نوجوانوں کو تعلیم دینے کے لیے سماجی اصلاحات متعارف کرائی جائیں۔
ہنٹنگٹن کے نظریہ پر مکمل اتفاق کرتے ہوئے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ بہت سی شناختیں یکساں نہیں ہو سکتیں، ہمیں ایک قسم کی قوم پرستی کی تبلیغ کرتے ہوئے یکساں سماجی تبدیلی لانے کی کوشش کرنی چاہیے جس کی تعلیم قائداعظم محمد علی جناح نے دی تھی۔اب ہم سب پاکستانی ہیں اور اگر ہماری ثقافتی شناخت الگ الگ ہے جیسا کہ پٹھان، سندھی، بنگالی، پنجابی، وغیرہ تو ہمیں اپنی ان شناختوں پر رعب ودبدبہ یا غرور ظاہر کرنے کے بجائے اپنی نسلی پہچان کے مثبت پہلو جیسا کے امن،بھائی چارا،مہمان نوازی،ایثار کو پروموٹ کرنا چاہیے جو کے ہر ثقافت کےبنیادی جز ہیں۔ اس کے علاوہ ہمیں اپنے نظریے ایک قوم، ایک مذہب اور ایک پاکستانی ہونے کے ناطے اپنا برتاؤ اور عمل محسوس کرنا چاہیے۔ قائد نے ذات پات کی بنیاد پر کسی قسم کی تفریق کو فروغ نہیں دیا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ ایسے نظریات قومی اتحاد میں بڑے پیمانے پر تصادم کے ساتھ ساتھ قوم کے ٹکڑے ٹکڑے بھی کر سکتے ہیں۔
میری ان تمام نوجوانوں سے گزارش ہے جو کلچرڈے منانے کے جوش میں اپنی ثقافت کو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے اصلی ثقافتی آداب کو بھول جاتے ہیں،اور اپنے قول اور فعل سے اپنی ثقافت اور قوم کو پاکستان سے بھی اوپررکھنے کی کوشش کرتےہیں، جو کے نوجوان نسل میں نسلی بالادستی کے تصور میں اضافہ کا سبب ہے۔
“ثقافت،کلچر،نسلی پہچان، خوبصورت رنگوں کی خوشیاں بانٹیں اور سب ثقافتوں کو بھرپورطریقے سے منائیں مگرساتھ ساتھ اپنی نسل کی اصلاح بھی کریں تاکہ نسلی تصادم کی جڑیں کمزور ہوں اور ہم آنے والے خطرات کا سامنا کر سکیں۔ نوجوان ثقافتی تنوع کی اہمیت کو سمجھیں اور اس کا احترام رکھیں”۔
فیس بک پر تبصرے