کتاب ‘دو پاکستان’ پر تبصرہ

381

دو برس قبل شائع ہونے والی کتاب “دو پاکستان” کے مصنف جناب کاظم سعید تقریبا دو دہائیوں سے مختلف ترقی پذیر ممالک کے لیے بطور پبلک پالیسی ایکسپرٹ کام کرتے رہے ہیں۔ انھوں نے ورلڈ بنک کے ساتھ بھی انرجی سیکٹر میں مشیر کی حیثیت میں پاکستان، چین، انڈونیشیا اور ویت نام کے لیے مشاورت کے فرائض انجام دیے۔ اس کے علاوہ مقامی سطح پر حکومت پاکستان کے ساتھ کاظم سعید نے زرعی شعبے کی ترجیحات پر بھی کام کیا ہے۔

                یہ دلچسپ اور آسان پیرائے میں لکھی گئی کتاب دو پاکستان ایک ایسا معاشی فارمولہ دے رہی ہے جس پر عمل درآمد سے ملک کے ہر گھرانے تک خوشحالی ممکن ہو سکتی ہے۔ یہ کتاب معاشی ماہرین کے لیے تو نہیں لیکن ایک عام پاکستانی کے لیے لکھی گئی ہے تاکہ وہ اپنی معاشی صورتحال  اخذ کر سکے۔ اس کتاب کو پاکستان کی موجودہ معاشی شکل سے جوڑ کر نہیں دیکھا جا سکتا کیونکہ موجودہ حالات کہیں ٹکنےکا نام نہیں لیتے۔

                سیاسی قیادت شاید کبھی مستحکم نہ رہ سکی اسی لیے معاشی استحکام بھی نہیں رہا۔ اس کتاب میں ایک باب ایسا بھی ہے جو خوراک کی خود مختاری پر زور دیتا م نظر آتا ہے کہ کس طرح ہم اپنی زراعت سے اپنا گھر چلا سکتے ہیں۔ کیونکہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے۔ معاشی ترقی کے حوالے سے دو پاکستان میں ترکی کی مثال دی گئی ہے۔ ترکی جس کی موجودہ آبادی چوراسی اعشاریہ چھ ملین ہے اس وقت عالمی سطح پہ زرعی اجناس، ٹیکسٹائل، تعمیراتی سامان اور گھریلوالیکٹرونکس کی پیداوار میں عالمی مقام رکھتا ہے۔ انیس سوپچانوے سے ترکی یورپی یونین کا رکن ہے اور انیس سو ننانوے میں جی ٹوئینٹی ممالک میں بھی شامل ہوا۔ ماہرین معیشت و سیاست ترکی کو جدید صنعتی ملک کا نام بھی دیتے ہیں۔

                فی کس آمدنی کے حوالے سے دیکھیں تو ورلڈبنک ترکی کو اپر مڈل انکم ملک تسلیم کرتا ہے۔ گو کہ ترکی کی حالیہ معاشی پیداوار میں اب قدرے سستی دیکھی گئی ہے جس کی وجہ اندرونی و بیرونی عوامل کے ساتھ ساتھ حکومت کی معاشی پالیسیز میں ترامیم بھی ہیں۔میرے لیے اس کتاب میں دلچسپی کی بڑی وجہ اکنامکس جیسے مضموں پر اردو زبان میں کتاب لکھنا اور کتاب کا سر ورق بھی رہا۔ جو مغل دور کے انداز میں پاکستان کو دو حصوں میں بانٹتا دکھائی دیتا ہے، فصیل کے اندر اور فصیل سے باہر کا پاکستان۔

                 مصنف کاظم سعید ایک دانشور اور شعرا کے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انجینئرنگ، تاریخ اور فلسفے جیسے مضامین میں ملکی اور غیر ملکی اسناد حاصل کر چکے ہیں۔ پچھلے دنوں مجھے اسی کتاب کے حوالے سےکاظم سعید سے گفتگو کا موقع ملا۔ میرے سوالوں کے جواب مصنف کچھ یوں دیتے رہے۔

سوال:

                پاکستان کی موجودہ معاشی صورتحال میں دو پاکستان سے رہنمائی کس طرح لی جا سکتی ہے؟

جواب:

                دو پاکستان کے پلیٹ فارم سے میں نے یہ کہنے کی کوشش کی ہے کہ پاکستان کی سو ویں سالگرہ تک ہم کیا اقدامات لے سکتے ہیں جو ہمارے ہی جیسے ممالک نے معاشی سطح کو بلند رکھنے کے لیے کیے اور معاشی استحکام پایا۔ جیسے چین، ترکی، ملائیشیا اور جنوبی کوریا وغیرہ۔ اورہم انہی جیسا بننے کا سوچتے ہیں تو ہمارے پاس بھی امید کے کچھ آثار نظر آتے ہیں۔ انہی چاروں ممالک کی مثالوں سے میں نے کوشش کی ہے تھوڑا سا رستہ واضح کرنے کی۔ جیسے ترک معیشت اور اسکا استحکام۔اس کتاب سے رہنمائی لینے سے قبل ہمیں ملکی معیشت کا پس منظر ذہن میں رکھنا بہت اہم ہے۔ روز مرہ مسائل اور گھنٹہ با گھنٹہ بدلتی صورتحال کا الجھاؤ، دو پاکستان کی روح تک نہیں پہنچ پائے گا۔ کیونکہ موجودہ پاکستان جہاں کھڑا ہے وہ آج یا کل کا قصہ نہیں بلکہ کئی دہائیوں پر محیط ہے۔ اور اسکو اگر دو پاکستان اکائی مان کے چلا جائے تواچھا ہو گا۔

سوال:

                تو کیا ترکی،چین،ملائیشیا اور جنوبی کوریا کے معاشی روڈ میپ کو دو پاکستان کی تخلیق کا سبب مانا جائے؟

جواب:

                اس کتاب کے لکھے جانے کا بنیادی سبب یہ ہے کہ پاکستان کے عوام اپنے ملک کے معروضی حالات اور معیشت سے جڑے حقائق کوسمجھ سکیں اور ملک کے ہر گھر تک خوشحالی پہنچانے کے لیے کن عوامل کی ضرورت ہے اسکی پہچان کر سکیں۔اور ان چار ممالک کی مثال دینے کا مقصد یہ ہے کہ عام پاکستانی ایسا سوچتے ہیں کہ ہم ایسے ہو سکتے ہیں یا یہ ہمارا بنچ مارک بن سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہم صحت کے شعبے سے جڑے مسائل خاص طور پر پاکستانی خواتین کی صحت کے مسائل اس سطح کے ہیں کہ مجھے دو پاکستان میں تاج محل کی تخلیق کی مثال دینی پڑی۔ کیونکہ بچہ جنتے ہوئے کتنی خواتین کی اموات ہو جاتی ہیں اور کتنے بچے پانچ سال کی عمر تک پہنچنے سے قبل ہی مر جاتے ہیں۔ سو یہ مسئلہ اکیسویں صدی کا نہیں ہے یہ سولہویں صدی کا مسئلہ ہے، جو دنیا بھر میں انیس ویں صدی تک حل کر لیا گیا تھا۔ لیکن ہم آج بھی وہیں کھڑے ہیں۔ اس لیے میری نظر میں وسائل کی کمی ہمیں دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے۔ میری نظر میں پیسے کی کمی اسکی وجہ نہیں۔ آپ ترکی کی مثال لے سکتے ہیں۔

                شعبہ صحت کے حوالے سے دنیا بھر میں تین چار نظام رائج ہیں، جیسے برٹش نظام میں صحت کی سہولیات دینا حکومت کی ذمہ داری ہے، کوئی دس فیصد ہے جس میں لوگ جیب سے دیتے ہیں۔ سارا نظام ٹیکسز کے زریعے چلتا ہے۔امریکہ میں انشورنس کے ذریعے ہوتا ہے لیکن نجی سیکٹر کے توسط سے۔ ترکی نے اسکا امتزاج پیدا کیا ہے جو میری رائے میں ہمارے لیے مفید ہے۔ ہماری حقیقت کو سامنے رکھ کر ترک معیشت سے رہنمائی لی جا سکتی ہے۔

سوال:

                یعنی یہ کتاب ریفرنس بک مانی جا سکتی ہے؟

جواب:

ملک کو اگر دو پاکستان کی نظر سے دیکھیں تو قلعے کے اندر کے بعض اہل علم و فراست ایسے ہیں جو ملک کی خوشحالی پر غور تو کرتے ہیں لیکن کوئی روڈ میپ نہیں ڈھونڈ پا رہے، انہی کے لیے یہ کوشش ہے۔ چونکہ اردو میں اکنامک اصطلاحات نہیں ہیں تو مجھے کئی جگہ منظر کشی کی مدد لینا پڑی۔ اس نقطہ نظر سے ہم اسے ریفرنس بک کہہ سکتے ہیں۔ میں نے عام پاکستانی کے لیے لکھی ہے۔

سوال:

                اس کتاب میں آپ ملکی معیشت کی بحالی میں خواتین کی شمولیت کے پر زور حامی ہیں۔ یہ کیسے ممکن ہو؟

جواب:

                دیکھیں ماں تعلیم یافتہ ہو گی تو گھرانہ بھی ہو گا۔ بچے بھی ہوں گے۔ ان کی صحت بھی بہتر ہو گی۔ اسطرح ہر گھرانے میں بچے کم بھی ہوں گے۔ ساٹھ ستر کی عالمی تاریخ دیکھیں تو جو عمل سب سے زیادہ کسی بھی ملک کی معیشت کو مضبوط بناتا ہے وہ ہے اس ملک کی خواتین کو تعلیم دینا۔ خواتین کے حالات بہتر کرنا ایک کلیدی رول رکھتا ہے۔ بس اتنا ہی کہوں گا کہ کتاب کے ہر باب میں خواتین سے متعلق آپ کو لنک ملے گا۔

سوال:

کیا ہم بنگلہ دیش کے گرامین بنک کو خواتین کی معاشی بحالی کی وجہ مان سکتے ہیں؟

جواب:

                بنگلہ دیش کے گرامین بنک کی مثال لیں تو ان کے نوے فیصد سے زیادہ صارف خواتین ہیں اور وہ پالیسی کے تحت ہیں۔ کیونکہ ان کا مشاہدہ رہا کہ جب وہ مردوں کو قرضے دیتے ہیں تو وہ بچوں کی فلاح اورمعاشی ترقی پہ سب نہیں خرچتے۔ جبکہ خواتین کے ہاتھ میں جب یہ قرضہ جاتا ہے تو اس کا صحیح استعمال ہوتا ہے۔ہمارا بینظیر انکم سپورٹ پروگرام بھی اسی طرز پر وضع کیا گیا۔ اور اسکی بھی نوے فیصد بینیفشری خواتین ہیں۔ کسی بھی گھرانے کی ترقی میں خواتین کا رول تسلیم کرلینا سند کا محتاج نہیں۔ ایسی پالیسیز کو سپورٹ کرنے کی ضرورت ہے جو عورتوں کی معاشی حیثیت کو اجاگر کرتی ہوں۔

سوال:

                ہماری پولیٹیکل اکانومی پر آپ کیا کہیں گے۔ بقول ایک ماہر معاشیات اگر ملک کی آدھی چھاؤنیاں بند کر دی جائیں تو معیشت بحال ہوسکتی ہے۔۔۔؟

جواب:

میری کتاب کا ایک بنیادی پیغام یہ ہے کہ موجودہ ملکی دولت کس طرح بٹ رہی ہے اور کس کی جیب میں کتنی جا رہی ہے ہم اس میں پھنس کے رہ گئے ہیں۔ جدید دور کی معیشت کا فوکس یہ نہیں ہے کہ ہم اس دولت کو کس طرح بانٹ رہے ہیں،بلکہ اس کا فوکس یہ ہے کہ ہم اپنے موجودہ وسائل سے اس کو بڑھا کس طرح سکتے ہیں۔ ہم دیکھتےہیں کہ وہ ممالک جوچار پانچ دہائیوں قبل بالکل ہمارے جیسے معاشی حالات سے گزر رہے تھے جیسے جنوبی کوریا،سنگا پور کو دیکھ لیں۔ اور انکے پاس ہمارے جیسی نہ زرخیز زمین ہے نہ دریا ہیں۔ انھوں نے کیسے خوشحالی پائی یہ ہمارا فوکس ہونا چاہیے۔ میرا ہر گز یہ کہنا نہیں کہ بد عنوانی کو نظر انداز کر دیا جائے۔اگر شوگر کی کی امپورٹ ایکسپورٹ کھول دی جائے تو شوگر سیکٹر کی دولت چند گھرانوں تک محدود نہیں ہو گی بلکہ اسکی عالمی منڈی کی قیمت ہمارے کسانوں کو بھی ملنے لگے گی۔ چاول کو دیکھ لیں اربوں کی ایکسپورٹ کو ہی لے لیں تو چالیس سال سے یہ ایکسپورٹ کھلی ہے اور بڑھتی جا رہی ہے۔

                ہماری گفتگو کا لب لباب یہ رہا کے اگر معاشی بحالی پر کام کرنا ہے تو موجودہ اکنامک ڈھانچے میں وسائل کے بہتر استفادے پر توجہ مرکوز رکھیں اور ٹیکس چوری کی عادت ترک کر سکیں، تو کچھ شک نہیں کہ پاکستان کے ہر گھرانے تک خوشحالی ممکن ہو سکتی ہے۔ وہ اسباب جو معلوم اور نا معلوم کے پیرائے میں ملکی معیشت کی بحالی میں اپنی چال بدلنے پر آمادہ نہیں نظر آتے ان کی موجودگی کو بھی “دو پاکستان “کے مصنف کاظم سعید نہیں جھٹلا سکے۔ لیکن وہ وسائل کے بھر پور استفادے سے پر امید ہیں۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...