کتاب جہاد کیا ہے؟ ایک تنقیدی جائزہ
حال ہی میں وفات پانے والے ڈاکٹر یوسف القرضاوی کا شمار بیسویں اور اکیسویں صدی کے جید اور بااثر اسلامی علما ءمیں ہوتا تھا۔ اُن کی پیدائش مصر کی تھی مگر اپنے مذہبی افکار کی وجہ سے انہیں اپنا وطن چھوڑ کر قطر میں سکونت اختیار کرنی پڑی۔ انہوں نے تعلیم جامعہ الازھر سے حاصل کی تھی اور ان کی کتابوں کو اسلامی دنیا میں بہت پذیرائی حاصل ہوئی۔ مختلف فقہی اور شرعی مسائل پر اُن کے بعض معتدل خیالات کی وجہ سے جہاں انہیں سراہا گیا وہی ان خیالات کی وجہ سے بعض حلقوں کی طرف سے انہیں تنقید کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ اُن کی کتاب فقہ الجہاد کو جہاد کے موضوع پر ایک اہم تحقیقی و علمی کام سمجھا جاتا ہے۔ دو جلدوں پر مشتمل اس ضخیم کتاب کا آخری باب پوری کتاب کا نچوڑ پیش کرتا ہے۔ اس باب کو عاطف ہاشمی نے اردو میں منتقل کیا اور قسط وار تجزیات آن لائن میں شائع کرنے کے بعد ادارہ فکرِ جدید لاہور سے کتابی شکل میں شائع کیا ہے۔
روس افغان جنگ اور خاص طور پر نائن الیون کے بعد جہاد ایک خالص اسلامی تصور نہیں رہا بلکہ یہ ایک طرح سے عالمی دنیا کا مسئلہ بن گیا اور بین الاقوامی سیاسی، فکری، انتظامی اور عوامی حلقوں میں زیرِ بحث آیا۔ القرضاوی نے اپنی اس کتاب میں جہاد سے متعلق غلط فہمیوں کو دور کرنے کی سعی کی ہے۔ اختتامیہ کے آغاز میں مصنف نے لفظ جہاد اور قتال میں تفریق کی ہے اور کہتے ہیں کہ میں نے اس کتاب میں قتال کی جگہ جہاد کا لفظ استعمال کیا ہے جو قتال کی نسبت زیادہ جامع اصطلاح ہے۔ پھر جہاد کے مفہوم کے ذیل میں اس کی تفصیل اور اس سے متعلق وضاحت پڑھ کر قاری پر جہاد کے اصطلاح کی ہمہ گیری اور جامعیت واضح کرنے کی کوشش کی ہے اور اس سے متعلق کچھ مغالطے دور کیے ہیں۔ قاری کو اس بات کا ادراک ہوجاتا ہے کہ جہاد بالسیف اس جامع تصور کا محض ایک ذیلی حصہ ہے۔
جہاد کے حوالے سے ایک نکتہ ہمیشہ مباحثوں کا موضوع رہا ہے کہ آیا کسی شخص کا محض کافر ہونا اور عقیدے کے حوالے سے مسلمانوں اور اسلام سے اختلاف رکھنا اسے مسلح جہا د کا ہدف بناتا ہے؟ ڈاکٹر القرضاوی کے نزدیک کسی شخص یا گروہ کے خلاف محض ان وجوہات کی بنا جہاد نہیں کیا جاسکتا تاوقتیکہ وہ مسلمانوں اور اسلام کے لیے عملی شر اور فتنے کا باعث نہ بنے۔یوں مصنف اس معروضے کو غلط قرار دیتے ہیں کہ کفار کے ساتھ جہاد کرنے والی چیز ان کا کُفر ہے۔
امام ابن قیم نے جہاد کی 13 قسمیں بیان کی تھی۔ القرضاوی نے ان میں سِول جہاد کے نام سے مزید ایک قسم کا اضافہ کیا۔ سول جہاد سے مرادمسلمانوں کا مسلم معاشرے میں سماج کی ضروریات پورا کرنے اور سماج کی سائنسی، اقتصادی، تعلیمی، طبی، ماحولیاتی اور تہذیبی استطاعتِ کار میں اضافے کی اجتماعی کوشش ہے۔
کتاب میں دفاعی (Defensive) اور اقدامی (Offensive) جہاد پر بھی مفصل گفتگو کی گئی ہے۔ اسلامی تاریخ میں اقدامی جہاد کی فرضیت اور اس کے دائرے کی بحث ہمیشہ سے موجود رہی ہے۔ نائن الیون کے بعد اس موضوع کی اہمیت میں اس لیے بھی اور زیادہ اضافہ ہوگیا کہ موجودہ دور میں جہادی تنظیموں نے اپنی کاروائیوں کے لیے اقدامی جہاد اور اس کی فرضیت کو جواز بنایا۔ القرضاوی کے مطابق مخصوص حالات میں دفاعی جہاد کی فرضیت میں کوئی شبہ نہیں ہے مگر اقدامی جہاد چار مخصوص وجوہات کے علاوہ جو اسلام اور مسلمانوں کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا سکتی ہیں، مسلمانوں پر فرض نہیں اور ان کاآگے بڑھ کر کفار پر اُن کی زمین پر جاکر حملہ کرنا نہ صرف یہ کہ فرض نہیں بلکہ جائز بھی نہیں ہے۔ القرضاوی اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ایسا کرنا یا اس پر اصرار کرنا اسلام کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا رہا ہے۔ مصنف کے مطابق رسول اللہ ﷺکی بعثت کا مقصد لوگوں کو اپنی رحمت، شفقت ، ذکاوت اور بصیرت سے اللہ کے دین کی طرف بُلانا تھا۔ آپﷺ کا کردار ایک عسکری لیڈر سے زیادہ ایک شفیق اور مہربان داعی کا تھا جس نے صلہ رحمی سے لوگوں کو اپنے کردار کا گرویدہ بنایا۔ القرضاوی اُن تمام دینی متون اور اصطلاحات کو ان کے مخصوص سیاق و سباق (Context) میں سمجھنے پر زور دیتے ہیں جن کی بنیاد پر کچھ لوگ مسلح جہاد کا جواز تراشتے ہیں۔ القرضاوی کی رائے یہ ہے کہ مسلمان اس وقت تک اسلحہ نہیں اٹھاتا جب تک جنگ اس پر مسلط نہ کی جائے اور یہ کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس میں مسلمان برغبت و شوق حصہ لے۔ اسی طرح ان کے مطابق اسلام میں جنگ بذاتِ خود مقصود نہیں بلکہ امن قائم کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔
قرآن میں فتنہ دور کرنے کے خلاف جہاد کا حکم دیا گیا ہے مگر القرضاوی کے نزدیک فتنے سے مراد کفر اور شرک نہیں ہے۔ عقائد میں اختلاف ان کے نزدیک ایک فطری عمل اور مشیت الہیٰ کے عین مطابق ہے۔ القرضاوی لکھتے ہیں، “۔۔۔جو کوئی ادیان میں اختلاف ختم کرنے کی کوشش کرے گا اور لوگوں کو ایک دین پر چلانے کی کوشش کرے گا وہ کائنات میں اللہ تعالیٰ کی مشیت کے خلاف کام کرے گا اور ایسا نہیں ہوگا، اس لیے کہ ہوتا وہی ہے جو اللہ چاہتا ہے جو وہ نہ چاہے وہ ہوتا ہی نہیں ہے۔”
جہاد کی فرضیت سے متعلق ان تمام باتوں کے علاوہ مصنف کی رائے ہے کہ جہا د کی ہر قسم کے لیے تیاری اور وقت آنے پر ان کے لیے آمادہ ہونا مسلمانوں پر فرض ہے۔ وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ مسلمانوں کو ہر وقت جہاد کے لیے بالقوۃ تیار رہنا چاہیئے اور وقت پڑنے پر اس سے دریغ نہیں کرنا چاہیئے۔ انہیں اپنی عسکری، اقتصادی،علمی، ابلاغی اور اخلاقی قوت کو ناقابلِ تسخیر رکھنی چاہیئے اور اپنے آلاتِ حرب میں جدت لانی چاہیئے تاکہ جارح کے دل میں اُن کا دھاک اور دبدبہ بیٹھ جائے اور انہیں آگے بڑھ کر مسلمانو ں پر حملہ آور ہونے کی ہمت نہ ہو۔
کتاب میں جنگ کے آداب پر بھی سیر حاصل بحث کی گئی ہے۔ جنگ چھڑ جانے کا مطلب اخلاقی قیود اور حد بندیوں کا معطل ہونا نہیں ہوتا بلکہ مسلمان کو جنگ اخلاقی حدودوقیود کے اندر رہتے ہوئے لڑنی چاہیئے۔ اسلام نے جنگ کے جو ضوابط طے کیے ہیں ان کی پاسداری ضروری ہے تاکہ بحالتِ جنگ بھی انسانی اقدار اپنی جگہ برقرار رہیں اور درندگی اور وحشی پن ان کی جگہ نہ لیں۔ جہاد میں مسلمانوں کا ہدف صرف وہی ہوتے ہیں جو جنگ مسلط کرنے میں براہِ راست ملوث ہوتے ہیں ۔ ان کے علاوہ بچوں، عورتوں ، جانوروں یہاں تک کہ نباتات کو بھی، جو جنگ میں براہِ راست فریق نہیں ہوتے، بلا ضرورت زیر کرنا اور نقصان پہنچانا غیر شرعی اور غیر اخلاقی ہے۔
جنگ بندی، سمجھوتہ و مصالحت، شکست کی صورت میں پسپائی، جیت کی صورت میں ذمیوں پر جزیے کا اطلاق اور طریقہء کار اور قیدیوں سے سلوک جیسے موضوعات کو بھی کتاب میں موضوعِ سُخن بنایا گیا ہے۔ موجودہ دور میں بعض اہلِ علم کی رائے یہ رہی ہے کہ مسلمانوں کا جہاد کی صورت میں غیر مسلموں سے مدد لینا جائز ہے۔ مگر القرضاوی کے مطابق ایسا کرنا خصوصاً امریکہ سے تعاؤن لینا جائز نہیں۔ اسی طرح وہ دیگر علماء کی اس رائے سے بھی اختلاف کرتے ہیں کہ فلسطینی مسلمانوں کو اسرائیل کے زیرِ انتظام علاقوں سے ہجرت کرنا چاہیئے۔ ان کا خیال ہے کہ ایسا کرنے سے فلسطین جو کہ دارالاسلام ہے، دارالحرب بن جائے گا۔ نیز وہ اسرائیل کے علاوہ تمام غیر مسلم ریاستوں کو درالعہد قرار دیتے ہیں جو اقوامِ متحدہ کے منشور کے مطابق ایک دوسرے سے مربوط ہیں اور مسلمانوں کو ان روابط اور ان کے تقاضوں کا احترام کرنا چاہیئے۔
القرضاوی اپنی کتاب میں مسلم ریاستوں کے درمیان لڑائی اور جنگوں کی تمام صورتوں کو مسترد کرتے ہیں اور اپنے درمیان معاملات طاقت کے بجائے باہمی مکالمے اور صلح جوئی سے حل کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔ کتاب میں زیرِ بحث آنے والا ایک اہم نکتہ جس کی وجہ سے مصنف کو تنقید کا سامنا ہوا وہ صیہونی ریاست کے خلاف خودکش دھماکوں کو جائز قرار دینا تھا۔ کتاب کے صفحہ 93 پر وہ لکھتے ہیں، “مسلمانوں کی سرزمین کو غاصبوں کے ہاتھ سے چھڑانے کے لیے مسلمانوں کا قتل ہونا بدرجہ اولی جائز ہے۔” اُن کی اس رائے کی بنیاد پر انہیں امریکا، فرانس اور برطانیہ میں داخلے کی اجازت نہیں ملی اور کئی معتدل رُجحانات رکھنے والے علماء نے بھی انہیں موردِ الزام ٹھہرایا کہ انہوں نے تشدد کے لیے دینی جواز تراش کر اسلام کو بدنام کیا ہے۔ وہ اسرائیل کے معاملے میں سخت گیر موقف رکھتے تھے اور اپنی اس کتاب میں بھی ان سے معاہدے اور صلح کرنے کو ناجائز قرار دیا ہے۔
یہ کتاب دراصل جہاد کے موضوع پر ڈاکٹر یوسف القرضاوی کے مفصل علمی مباحثے کا اختصار ہے۔ مترجم عاطف ہاشمی چونکہ خود علومِ ترجمہ کے باقاعدہ طالب علم رہ چکے ہیں اس لیے اس کتاب کو ترجمہ نگاری کے جملہ خصوصیات کو مدِنظر رکھتے ہوئے اردو زبان میں منتقل کیا ہے۔ ساتھ ہی کتاب کی ابواب بندی کرکے اور جہاں ضرورت پڑی وہاں حاشیے لکھ کر، جن کا اہتمام اصل کتاب میں نہیں تھا، کتاب کو قاری کی تفہیم کے لیے آسان بنا دیا ہے۔ القرضاوی کے اسلوب اور عاطف ہاشمی کے ترجمے نے اس پیچیدہ مسئلے کو عام فہم بنادیا ہے۔ اس اہم موضوع کی جانکاری کے لیے یہ ایک مفید کتاب ثابت ہوسکتی ہے۔
فیس بک پر تبصرے