نئے نقاد کے نام وارث علوی کا ساتواں خط
عزیزی و محبی!
اس بار بھی خط کا جواب قدرے تاخیر سے دے رہا ہوں۔ تاہم نقادِ محشر انگیز کے ساتویں مکتوب کی وصولی اور فدوی کے جواب کا درمیانی عرصہ بڑا ہنگامہ خیز رہا۔ نقادِ ستم آرا کے خطوط کی حشر سامانیوں بالخصوص اس سے پیشتر محفوظ الضّّرر سمجھی جانے والی حورانِ بہشت پر ان کے تباہ کن اثرات دیکھ کر، بہ ازنِ داروغہء جہنم، ان خطوط کو ہنگامی طور پر عقوباتِ دوزخ میں شامل کر دیا گیا۔ لہذا مکتوباتِ نقادِ جاں ستاں بلا ناغہ، سہ مرتبہ، سوختہ تن دوزخیوں کو سنائے جانے لگے۔ جس پر لظی و حطمہ سے لے کر سعیر و جحیم اور جحیم سے لے کر درکِ اسفل تک آتشِ احتجاج بھی بھڑک اٹھی۔ شکوہ کناں جہنمی حضرات زار و قطار روتے ہوئے ایک ہی بات دوہرائے جاتے تھے: بھئی اس عذاب کا تو ہمیں کسی بھی الہامی کتاب میں نہیں بتایا گیا تھا۔ جس پر ہر مرتبہ انھیں یہ نصںِ دینیہ یاد دلا کر لاجواب کر دیا جاتا: بعض عذاب ایسے ہیں جن سے جہنم بھی ایک دن میں ستر مرتبہ پناہ مانگتی ہے۔ غافلو، یہ وہی عذاب ہے۔
نقادِ ہفت رنگ اپنے مکتوب میں بیانی ہے:
” مجھے فن ایک ایسی سطر محسوس ہوتا ہے، جس میں وقت، معنی، کیفیات کی ایک نہیں کئی لہریں ہیں ۔ فن میں ایک پل جو دکھائی دیتا ہے، وہ اگلے پل اوجھل ہو جاتا ہے۔ ایک لمحے کا معنی، دوسرے لمحے میں کسی اور صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ فن میں ایک لہر قرمزی رنگ کی ہے تو دوسری کیسری ہے۔ کوئی نارنجی ہے تو کوئی زعفرانی ۔کبھی ایک ہی رنگ سے کتنے ہی رنگ اور رنگوں کے کتنے سائے ہیں اور کبھی ایک سیاہ اور دوسرا سفید ہے اور کبھی ان کے رنگوں سے بننے والا کوئی نیا رنگ۔
تم نے دیکھا کہ ظالم کیسے فن کی آڑ میں رنگوں کے پہاڑے سنا رہا ہے۔ میاں، یہ تنقید نہیں رنگ بازی ہے۔ ایسے آرڈر پر تیار کردہ عمومی بیانات زات سے لے کر کائنات تک کسی بھی شے پر داغے جا سکتے ہیں۔ مجال ہے یہ عمومیت اپنے موضوع کی اختصاصی نوعیت سے زرا بھی ہم آہنگ ہو۔ محولہ بالا رنگین اقتباس میں ” فن” کی جگہ کوئی بھی مناسب لفظ لکھا جائے؛ معنی کی عمومیت جوں کی توں رہے گی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ایسے بے معنی، بے تکے اور مہمل افکار سے کاغذ اور قاری کا وقت ضائع کرنے کا مقصد آخر کیا ہے۔ نقادِ گرم کار سورج سے سگریٹ جلانے پر کیوں بضد ہے۔ خاطر نشان رہے: کسی منفرد احساس، پیش روؤں کے کام کی توسیع، جدید رنگِ نقد اور اجتہاد کے بغیر لکھنا تنقید نہیں تختی لکھنا ہے۔
کسی تھیسس کو ثابت کرنے کے لیے لکھی جانے والی تنقید حقائق کو معروضی طور پر دیکھنے کی بجائے خام مال کے طور پر دیکھتی ہے۔ کیوں کہ اس کا اول و آخر مقصد اپنے موقف کو درست ثابت کرنا ہوتا ہے۔ خواہ اس عمل میں حقائق مسخ ہوں یا تاویل کی تذلیل ہو۔ ہر وہ شے جو آپ کے تھیسس کے خلاف ثبوت بن سکتی ہے نظر انداز کی جاتی ہے۔ نقادِ غلط نگار نے بھی یہی راستہ اختیار کیا ہے:
” ہم جس دنیا میں رہتے ہیں، وہ سیاہ و سفید کی دنیا ہے۔ ایک چیز صریحاً غلط ہے اور دوسری بالکل درست ہے، مگر فن میں سیاہ و سفید کے معنی ومقام بدل جاتے ہیں۔ فن میں جبریل و ابلیس کے معنی کچھ اور ہوتے ہیں اور یہ معنی فن خود ہی طے کرتا ہے۔ عالم ِ حیرت میں دیکھی بھالی چیزیں، اجنبی انوکھی دکھائی دیتی ہیں۔ فن ہماری فہم عامہ کو چاروں شانے چت کرتا ہے۔”
لیجیے موصوف نے فلسفہ کا سب سے ادق مسئلہ، یعنی غلط اور صحیح کا تعین بھی یک جنبشِ قلم حل کر دیا ہے۔ اور بالآخر بنی نوع انسان کو قطعی طور پر بتا دیا ہے کہ وہ جس دنیا میں رہ رہا ہے وہاں صریح غلط اور صحیح موجود ہے۔ اشیاء کو ان کی کلیت میں نہ دیکھنے کا نتیجہ ایسے ہی گھٹل افکار کی صورت میں نکلتا ہے۔ اے گلِ نو دمیدہ، پریشان کیوں ہوتے ہو۔ زندگی کو اصلاحی فلموں اور مذہبی ناولوں کی روشنی میں دیکھیں تو زندگی اتنی ہی سادہ اور اس کے معانی اتنے ہی متعین لگتے ہیں۔ لیکن اصل قصہ یہ ہے کہ نقادِ منطق باز نے غلط قضایا سے من چاہے نتائج اخذ کرکے اپنے تھیسس کو ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ مگر اس صورتِ حال میں موصوف کے لیے بری خبر یہ ہے کہ وہ رنگے ہاتھوں پکڑا گیا ہے۔ اس کے درآمد شدہ قضیہ میں موضوع و محمول میں انسجام و التیام یکسر مفقود ہے۔ ایسے قضایا کی بابت عربی میں کہتے ہیں: لا یشتق و لا یشتق منہ یعنی نہ یہ کسی شے سے نکلا ہے اور نہ اس سے کوئی شے نکلے گی ( سوائے ہنسی کے)۔ اس قضیہ کی مدد سے نقادِ مکتب بیان نے زندگی پر بھی وہی مشقِ ستم کی ہے جو اپنے مکتوبات میں وہ ادب پر کرتا آرہا ہے۔ جس طرح نقادِ حیلہ جُو نے چند درسی کتب پڑھ کر پہلے ہی سے یہ طے کر لیا ہے کہ ادب کی تعمیر کے لوازمات کیا ہوتے ہیں اور پھر ان طے شدہ مستعار مکتبی اصولوں کی دھار سے ادب کا انتِم سنسکار کرنا شروع کر دیا ہے۔ بالکل ویسے ہی ہاتھ حضرت زندگی کو بھی دکھا گئے ہیں۔ پہلے تھوک کے بھاؤ نظریات خریدے ہیں اور پھر بغیر کسی عقلی توجیح کے اسے زندگی پر منطبق کر لیا ہے۔ میاں، یہ تنقید نہیں رائے زنی ہے بل کہ سچ کہوں تو شمشیر زنی ہے۔ تنقید جب تلقینی اور تعلیمی بن جائے تو تنقید نہیں رہتی؛ کسی مخبوط الحواس پروفیسر کا ایسا بور لیکچر بن جاتی ہے جو ویلیم سے کہیں زیادہ نیند آور ہوتا ہے۔ اے نخلِ نوخیز! احتیاط، احتیاط۔ اگر نقادِ وعظ گو، کی ہدایات پر عمل پیرا ہوئے تو اس تہذیب سے بھی محروم ہو جاؤ گے جو انسانی تماشا کا وسیع تناظر میں مشاہدہ کر سکتی ہے۔ بھئی دنیا کے تناظر میں تو صریح غلط اور صحیح کا معاملہ بڑا ٹیڑھا ہے البتہ ارشاداتِ نقادِ قرعہ زن کی حد تک کامل یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ وہ صریحاً غلط ہیں۔
موصوف مزید بیانی ہے:
” تو بھائی قصہ یہ ہے کہ صرف فن پارے نہیں، دنیا میں ہزاروں چیزیں ہیں جن کی اصل تک رسائی مجھے محال لگی ہے۔ کچھ چیزوں کی اصل کو میں اس لیے بھی نہیں جان سکا کہ میں نے ان کے مقابلے میں اپنے فہم کو محدود پایا ہے۔ کبھی اس لیے نہیں سمجھ سکا کہ مجھ پر بے دماغی کا غلبہ رہا ہے۔ کبھی ہر شے کے سلسلے میں ایک وحشت مجھ پر طاری رہی ہے؛ سب چیزوں سے یہاں تک کہ جن کے لیے لوگ اپنی جانوں کی پروا تک نہیں کرتے، ان سے کنارہ گیر ہونے کی بے قابو خواہش مجھ پر غالب رہی ہے۔
یہ خود آگاہ انکسار ہے جس کا اظہار، شعوری طور پر چھوٹے سمجھے جانے والوں میں اپنے خود ساختہ بڑے پن کو مستحکم کرنے کے لیے کیا جاتا ہے۔ یہ شعوری عجز و انکسار محض اپنی زات کے پندار کا اظہار ہے۔ انکساری میں ہشیاری اسی کو کہتے ہیں۔ محولہ بالا عبارت میں ” میں، مجھ اور مجھے” کی بھرمار، عجز کے پردے میں اپنے خود ساختہ علم و فضل کی اپنے تئیں نمائش نہیں تو اور کیا ہے؟
یہ بھی دیکھو:
“اور کبھی میرا جی چاہا ہے کہ بس خاموشی سے اس سارے تماشے کو دیکھا جائے ۔ دیکھا شوق اور توجہ سے جائے مگر اپنے خیال کو اس تماشے کی اصل میں مداخلت سے باز رکھا جائے۔”
بھئی جب تم اس کی اصل جان ہی نہیں پائے تو اس میں مداخلت سے باز رہنا چہ معنی دارد۔ نقادِ پریشاں خیال! کے خطوط کسی خلاق اور تربیت یافتہ ذہن کا شاہ کار نہیں، کسی مجنون کی پریشاں خیالی کا طومار معلوم ہوتے ہیں۔
نقادِ گراں سخن، مزید بیانی ہے:
” جب تم دوسروں کی پیدا کی ہوئی صورتِ حال کے خلاف مزاحمت کرتے ہو تو دراصل اس صورتِ حال کے پیدا کرنے والے کی طاقت کو تسلیم بھی کررہے ہوتے ہو۔مزاحمت ضرور کرو ، مگر اس سے آگے بھی بڑھو۔نئی، اپنی صورت حال پیدا کرو؛یہ فن کا سب سے بڑا سبق ہے۔”
بھئی کیا کسی صورتِ حال کے خلاف مزاحمت کرنا ایک نئی صورتِ حال پیدا کرنا نہیں؟ نقادِ مکتب بیاں، کے تنقیدی افکار پڑھ کر نقاد کا تصور ایک ژولیدہ مُو پروفیسر کی صورت میں ابھرتا ہے جو اپنے ہاتھ میں تھامی ہوئی کورس کی کتاب سے دیکھ کر، اس بات کا ادراک کیے بغیر کہ ساری کلاس سو چکی ہے، تختہء سیاہ پر مسلسل لکھتا جا رہا ہے۔ یہ نصائح تمھارے ذہن کو سنوارنے یا تمھارے ادبی شعور کو چمکانے نہیں بہکانے کے لیے ہیں۔ میرے عزیز! یہ پند ہائے نقادِ جگر سوز، ذہنی تھکاوٹ اور فکری گراوٹ کے سوا تمھیں کچھ نہیں دینے والی۔ احتیاط، مکرر احتیاط۔
نقادِ کہنہ فروش کی رانوں تلے مکتبی تنقید کا اڑیل گھوڑا بگٹٹ بھاگ رہا ہے، نے باگ ہاتھ میں ہے نہ پا ہے رکاب میں۔ یہ اسپِ وحشی وادیء خیال سے مستانہ وار نہیں دیوانہ وار گزر رہا ہے۔ اور تمھاری عقل و دانش پر دھڑا دھڑ اصطلاحات اور کلیشے کی مکتوبی دولتیاں جھاڑ رہا ہے۔ افکار گو پیچیدہ نہیں لیکن زبان میں گانٹھ ہے جو بار بار ادائے مطلب میں خلل انداز ہوتی ہے۔
یہ مہتممِ دفترِ پارینہ محض مبتدیانہ تنقیدی افکار کی حنوط شدہ لاشیں بیچ رہا ہے۔ نہ کسی تخلیق کو پرکھنے کے گُر سکھاتا ہے اور نہ ہی زبان و بیان کے وسیلہ سے حسنِ معنی تک رسائی کے ہنر سے آشنا کرتا ہے۔ نقادِ ہرزہ کوش کے خطوط میں ایک سطر ایسی نہیں جس سے تمھارے ادبی شعور میں گہرائی اور گیرائی پیدا ہو اور تمھاری تنقیدی بصیرت کو تجلی و تابانی ملے۔ یہ مکتوبات مفاتیحِ نقد و نظر نہیں محض تبلیغی پمفلٹ ہیں جن پر عمل پیرا ہو کر تم محض کج بحث اور مناظرہ باز بن سکتے ہو, نقاد نہیں۔
موصوف اپنے مکتوب میں لکھتا ہے:
” تم جانتے ہو، جشن میں کیا ہوتا ہے؟ تم کسی عام سے جشن کا تصور کرو۔ تم نے وہاں رقص، شاعری، موسیقی، کھیل، رنگوں کا نظارہ کیا ہوگا۔ ہر جشن میں تمھیں جانے پہچانے لوگ، وہ کچھ کہتے، کرتے، سنتے، دیکھتے نظر آئیں گے جن کا تم عام زندگی میں تصور بھی نہیں کرسکتے۔ ہر جشن میں اس سب کی شکست کی جاتی اور اسی میں باہمی رضامندی سے خوشی کشید کی جاتی ہے، جسے ہم عام حالات میں بہت عزیز رکھتے ہیں۔ جس منطق کے تحت ہم سوتے جاگتے ،دوسروں سے لڑتے، خوش ہوتے ہیں، یہاں تک کہ ایک دوسرے کا گلا کاٹتے ہیں یا ایک دوسرے کی خاطر جان تک دیتے ہیں، اپنے اور دوسرں کے کاموں کا محاکمہ کرتے ہیں، فن اور جشن میں اس منطق اور اس کی آل اولاد کی شکست کی جاتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ فن اور جشن میں وہ سب کچھ روا ہوجاتا ہے جو عام حالات میں ناروا ہوتا ہے۔ فن اور جشن اپنا جواز، اپنے معانی، اپنی اخلاقیات، اپنے ہونے کے دوران ہی میں اخذ کرتے ہیں۔تم دیکھو کہ دنیا پر جو چیزیں حکمرانی کرتی ہیں : فہم عامہ ،افادیت پسند منطق ، طاقت وروں کی وضع کردہ اخلاقیات، سیاست—فن اور جشن انھی کو روند دیتے ہیں۔ اسی لیے یاد رکھو کہ فن، دنیا اور اس کے عام فہم اصولوں یا سامنے کی روزمرہ حقیقتوں کی نقل نہیں ہے۔ فن میں ،فن کی راس لیلا کو تلاش کرو ، اور دیکھو کہ کی اس کی مدد سے فن کیا کیا معجزے برپا کرتا ہے۔اسے فن کا قول محال سمجھو۔”
یہ تنقیدی افکار نہیں، بے تکی آرا اور ناقص بیانات کے پلندے ہیں۔ ایسی گفت گو کرنے کی سہولت محض پروفیسر نقادوں ہی کو میسر ہے۔ کسی سمجھ دار آدمی میں ایسی علامات ظاہر ہوں تو یار لوگ پریشان ہو جاتے ہیں۔ جشن اور فن کو جس طور سے باہم مانند و مماثل بتایا گیا ہے؛ اس کے بعد مجھے نقادِ گراں دوش پر باقاعدہ رحم آنے لگا ہے۔ ان غیر منطقی خیالات پر میں کیا بات کروں۔ ایسے افکار کا اظہار ہی ان کی تنقیص کا بیان ہوتا ہے۔ نقادِ پریشاں خیال کے خطوط پڑھ کر کنفیوژن سے بچنے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے کہ انھیں دھیان سے نہ پڑھا جائے۔ اپنا مانسک سنتولن قائم رکھنا چاہتے ہو تو مطالعہء مکتوباتِ نقادِ ریزہ خیال سے سرسری گزرو اور ہر جا جہانِ دیگر والے جال میں مت پھنسو۔
تازگی، تنوع اور رنگا رنگی سے پاک ان مکتوباتِ کے چہروں پر تنقید کا غازہ بڑا مہین ہے اور اس کے پیچھے درسی مطالعہ کھپانے کی منصوبہ بندی کی جھریاں بہت گہری ہیں۔ نقادِ عجب بیاں نے اپنے خطوط میں جو نقد و نظر کے گل کھلائے ہیں ان میں حسِ تدقیق کے سنہرے رنگ، فکرِ مستنیر کی نرمی اور اجتہاد کی سگندھ نہیں چاک، ڈسڑ اور کلاس روم کی بُو ہے۔ موصوف جن اصولوں کو تمھاری تنقیدی نفسیات کا حصہ بنا رہا ہے وہ جلد ہی تمھیں کسی ماہرِ نفسیات کے کلینک میں پہنچا دیں گے۔ موصوف کا تنقیدی چلن درباریوں اور طنطنہ شاہوں والا ہے۔ تمھیں یاد ہوگا میں نے اپنے ایک مضمون میں کہا تھا:
” تنقید کام عقائد کا ٹھونسنا، قائل کرنا یا ذہن کی دھلائی کرنا نہیں ہے بل کہ ذہن کو روش کرنا ہے تا کہ افکار و تصورات کی اصل ماہیت واضح ہوتی رہے۔ نقاد فن کار کا مرشد، سالکِ راہ، استاد یا معلم نہیں ہوتا۔ وہ تو ایک عام قاری کی ترقی یافتہ شکل ہے جو ادب کے تجربات کا بیان کرتا ہے اور ان کی قدر و قیمت کا اندازہ لگاتا ہے۔ “
میرے پیارے ہر نیا تخلیقی تجربہ ایک نئے تنقیدی نظام کا مطالبہ کرتا ہے، ایک نئی مشقِ سخن کی دعوت دیتا ہے، نئی جان کاری اور نئی جگر کاوی کا تقاضا کرتا ہے۔ جیسے اپنے آپ کو دوہرا کر تخلیق اپنی قدر کھو دیتی ہے ویسے ہی تنقید دوہرائی سے بے وقعت ہو جاتی ہے۔ ایک ہی چھڑی سے ریوڑ ہانکنے کا نام تنقید نہیں گلہ بانی ہے۔ نقاد کی سب سے بڑی آزمائش اپنی آتشِ فکر کو بھڑکتا اور تجسس و تحیر کو دھڑکتا رکھنے میں ہے۔ فکر و نظر کی ہر ساعت مشقِ فکر و نظر کی ساعت ہے۔ نقادِ کہنہ کیش کی پند و نصائح کچھ اور کرے نہ کرے تمھاری فکر کی جودت، نظر کی صلابت اور فہم کی زرخیزی ضرور چھین لے گی۔
اے لعلِ شب چراغ، ہمیشہ یاد رکھنا: تنقیدی بصیرت کا عجز شعبدہ بازی سے نہیں چھپتا۔ نقادِ رمز نا آگاہ، تمھیں عملی تنقید کی لیبارٹری کی بجائے کلاس روم کی طرف کھینچ رہا ہے۔ اور تجزیہ اور تحلیل کی بجائے تمھیں بیان بازی کے گُر سکھا رہا ہے۔ میرے پیارے، درسی تنقید کے جامد اصولوں کی ٹرین کا ہر اسٹیشن تمھیں تازہ کاری اور جدت سے دور اور فرسودگی اور کہنگی کے قریب لاتا جائے گا۔ یاد رکھنا، اس کی حتمی منزل نیستی ہے۔ تنقید کے عملِ مسلسل میں اجتہاد و تدقیق کے مقامات ہوتے ہیں، منزل نہیں ہوتی۔ اور نقاد تو مقامات کا بھی قیدی نہیں بنتا: بھیدی بنتا ہے۔ تنقیدی توانائی کی ضمانت: افکار کا سفرِ مسلسل ہے۔ قدم بڑھاؤ کہ فکر و نظر کی کتنی ہی جولان گاہیں تمھارے قدموں کا لمس پانے کو بے چین ہیں۔ میرے عزیز، تمھاری سوچ کے پنچھی نے کلاس روم کے پنجرے میں قید نہیں ہونا ؛ ان بسیط فضاؤں میں پرواز بھرنی ہے جہاں نقد و نظر کی دھنک کے سات رنگ ٹوٹتے ہیں۔
نقادِ محشر خیال کے مکتوب پر بات کرتے ہوئے میں تمھیں یہ بتانا تو بھول ہی گیا کہ آج کل یہاں اردو لٹریری فیسٹیول کے انعقاد کی تیاریاں زوروں پر ہیں۔ اس فیسٹیول کے ناظمین فاروقی، حنفی اور وزیر آغا ہیں۔ مہمانوں کی فہرست تیار کرتے وقت منتظمین نے کمال زمہ داری سے اس بات کا خیال رکھا ہے کہ اس میں کسی اہل ادیب کا نام نہ آنے پائے۔ اس مرحلہ میں ناظمین نے اپنے دنیاوی تجربہ سے بھی خوب فائدہ اٹھایا ہے۔ ان تمام امور میں مجھ سے بھرپور رازداری برتی جا رہی ہے۔ عموماً ناظمین رات کو وزیر آغا کے گھر میں، فیسٹیول کی بابت منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ لیکن میں موقع پا کر عین وقت پر مین سوئچ آف کردیتا ہوں۔ وہ مین سوئچ آن کرکے دوبارہ کام شروع کرنے لگتے ہیں تو میں ماچس مانگنے کے بہانے بار بار دروازہ کھٹکھٹاتا ہوں۔ ہر مرتبہ وہ جل کر جواب دیتے ہیں: ” بھئی نہیں ہے ماچس ہمارے پاس۔” لیکن میں باز آنے والا کہاں ہوں۔ مکرر دستک دیے کر پوچھتا ہوں ماچس نہیں ہے تو لائٹر ہی۔۔۔۔ تینوں مجھے پکڑنے کے لیے غصے سے میری طرف لپکتے ہیں۔۔ لیکن میں روزانہ کئی میل تک دوڑنے والا کہاں ان کاہلوں کے ہاتھ آتا ہوں۔ ان کی بے آرامی، بے کیفی اور افراتفری سے مجھے ایک عجیب سی روحانی مسرت ملتی ہے۔
شنید ہے کہ نقادِ زود نویسں نے تمھارے نام کچھ اور خطوط بھی لکھ رکھے ہیں۔ جیسے ہی وصول ہوں، مجھے ان خطوط کی نقول ارسال کرو۔ اپنا اور اپنے قلم کا خیال رکھنا۔
خیر اندیش
وارث علوی
فیس بک پر تبصرے