خیبر پختونخواہ میں عسکریت پسندی کے بڑھتے ہوئے خطرات اور چیلنجز
کیا قانون نافذ کرنے والے ادارے خیبر پختونخواہ میں عسکریت پسندوں کے تازہ دم خطرات کا مقابلہ کرنےکے لیے تیار ہیں؟ خیبر پختونخواہ دہشت گردی کے خطرے سے مؤثر طریقے سے نمٹنے کے لیے پنجاب سے کیا سبق سیکھ سکتا ہے؟
پشاور یونیورسٹی کے ایک طالب علم نے یہ سوال قانون ساز، ماہرین تعلیم اور سیکورٹی ماہرین کی موجودگی میں حال ہی میں منعقدہ ایک سیمینار کے دوران کیا۔اس وقت خیبر پختونخواہ میں سکیورٹی کی بگڑتی ہوئی صورتحال کے باوجودکسی بھی مقرر نے اس سوال کو اتنی سنجیدگی سے نہیں لیا جتنا کہ انہیں لینا چاہیے تھا۔ صرف پچھلے ایک سال میں، تحریک طالبان پاکستان (TTP)، گل بہادر گروپ، اسلامک اسٹیٹ-خراسان (IS-K) اور اسی طرح کے مقاصد کے حامل دیگر دہشت گردوں نے صوبے میں کم از کم 165 دہشت گردانہ حملے کیے ہیں، جو کہ پچھلے سال سے 48 فیصد زیادہ ہے۔ ان میں سے 115 حملے صرف ٹی ٹی پی نے اپنے مقامی طالبان کے ساتھ مل کر انجام دیے۔
حال ہی میں منعقدہ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں پیش کی گئی ایک رپورٹ نے صوبائی محکمہ انسداد دہشت گردی (CTD) کی کمزوریوں اور صلاحیت کے مابین خلا کو نمایاں کیا ہے۔ بنوں کے سی ٹی ڈی سینٹر میں سیکورٹی فورسز اور ٹی ٹی پی کے زیر حراست افراد کے درمیان تعطل، جو بالآخر دو دن بعد فورسز کےآپریشن کے بعد ختم ہوا، نے دہشت گرد گروہوں کی صلاحیت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی تیاری کی کمی کو پوری طرح بے نقاب کر دیا۔ ان عسکریت پسندوں کو حکومت اور ٹی ٹی پی کے درمیان جنگ بندی کے دوران تقویت ملی، جو گزشتہ ماہ باضابطہ طور پر ختم ہو گئی تھی۔ یہ واقعہ خیبر پختونخواہ میں انسداد دہشت گردی کے حکام کے لیے باعث ندامت تو ہے کہ زیر حراست دہشت گردوں نے ان کے تفتیش کاروں سے ہتھیار چھین لیے، انہیں یرغمال بنایا اور سی ٹی ڈی کی عمارت کا کنٹرول بھی لے لیا۔ لیکن دہشت گردوں کی طرف سے کسی بھی دفتر کی عمارت کے طویل محاصرے کے لیے صرف ایک مخصوص محکمے کو کیسے ذمہ دار ٹھہرایا جا سکتا ہے، جب کہ دہشت گردی کے خطرے سے نمٹنے کے لیے متعدد میکانزم موجود ہیں؟
سیاسی مصلحت
اس سے قبل مذکورہ پیش کردہ رپورٹ بنوں کے محاصرے کے دوران ہی پبلک میں ظاہر ہوئی اور اس میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی صلاحیت کے ان تمام مسائل پر روشنی ڈالی گئی تھی جس کی وجہ سے سیکورٹی ڈیپارٹمنٹ میں خرابی پیدا ہوسکتی ہے۔ اس رپورٹ میں یہ کہنا تھا کہ انسانی وسائل کا معیار بہت خراب ہے جو کہ بنیادی طور پر موجودہ لیویز فورس سے حاصل کیا گیا ہے۔جو بذات خود اچھی طرح سے تربیت یافتہ نہیں ہیں اور دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے کوئی جدید تکنیک استعمال کرنے سے قاصر ہیں۔رپورٹ میں صوبائی حکومت پر بھی تنقید کی گئی ہے، جو انسداد دہشت گردی کے کاموں کو سنجیدگی سے نہیں لے رہی۔لیکن پھر کوئی یہ سوال بھی پوچھ سکتا ہے کہ کون سی دوسری صوبائی حکومت اس کام کو سنجیدگی سے لے رہی ہے؟
پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیز کے اعداد و شمار کے مطابق، پولیس کو 2006 سے اب تک 1,116 دہشت گرد حملوں کا سامنا کرنا پڑا ہے اور صرف خیبر پختونخواہ پولیس نے ان میں سے 650 حملوں کا سامنا کیا ہے جن میں افسران سمیت 538 اہلکار ہلاک ہوئے ہیں۔
رپورٹ کی تفصیل میں سی ٹی ڈی خیبر پختونخواہ کا پنجاب میں موجود سی ٹی ڈی فورس کے ساتھ موازنہ کیا گیا ہے جس میں پنجاب سی ٹی ڈی فورس کی تعریف کی گئی ہے اور اسے ملک میں انسداد دہشت گردی کے خلاف سب سے موثر ادارہ قرار دیا گیا ہے ۔اس رپورٹ میں پشاور یونیورسٹی کے طالب علم کی طرف سے اٹھائے گئے سوال کا جواب ہو سکتا ہے، لیکن ہو سکتا ہے کہ یہ سب بھی باعث اطمینان نہ ہو کیونکہ پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف کارروائیاں محض پیشہ ورانہ ڈیوٹی نہیں ہیں، بلکہ کئی وجوہات کی بنا پر ایک انتہائی سیاسی مسئلہ ہے۔جیسا کہ وفاقی حکومت نے اس رپورٹ کی تعریف کی ہے کیونکہ اس میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی صوبائی حکومت پر تنقید کی گئی ہے۔
اس کے رد عمل میں پی ٹی آئی وفاقی حکومت کو اس کی افغان پالیسی اور اس کے نتیجے میں خیبر پختونخواہ کے سکیورٹی منظرنامے پر پڑنے والے اثرات پر تنقید کر رہی ہے۔ جب صوبہ میں سی ٹی ڈی اور پولیس حکام دہشت گردوں کے ساتھ امن کے معاہدہ پر سوال اٹھاتے ہیں تو وہ بنیادی طور پر ایک تزویراتی سرحدی پہلو کی نشاندہی کرتے ہیں، جو انسداد دہشت گردی کے حکام کے ذہنوں میں شکوک و شبہات پیدا کرتا ہے۔ جب بھی سیکورٹی کی صورتحال خراب ہوتی ہے، لوگ نیشنل ایکشن پلان (NAP) پر سوال اٹھانا شروع کر دیتے ہیں، جو اب تقریباً ایک بے جان منصوبہ بن چکا ہے، اگرچہ پچھلے سال اس پرنظرثانی بھی کی گئی تھی۔
‘غیر یکساں’ موازنہ
ملک اور خاص طور پر خیبر پختونخواہ میں پولیس دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائن پر ہے اور اس کا خمیازہ انہیں بھگتنا پڑتا ہے۔ پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیز کے اعداد و شمار کے مطابق پولیس کو 2006 سے اب تک 1,116 دہشت گرد حملوں کا سامنا کرنا پڑا ہے اور صرف خیبر پختونخواہ پولیس نے ان میں سے 650 حملوں کا سامنا کیا ہے جن میں افسران سمیت 538 اہلکار ہلاک ہوئے ہیں۔ افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد، ٹی ٹی پی نے کے پی صوبہ میں پولیس کے خلاف 83 دہشت گردانہ حملے کیے ہیں، جو اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ پولیس ان کے اولین اہداف میں شامل ہے۔
سی ٹی ڈی کے محکمے عسکریت پسندوں کے لیے انتہائی اہم ہدف بنے ہوئے ہیں کیونکہ وہ بنیادی طور پر ان کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے، چھاپے مارنے اور پوچھ گچھ کرنے کے ذمہ دار ہیں۔ درحقیقت دہشت گردوں نے گزشتہ سات سالوں میں 17 مرتبہ سی ٹی ڈی کے احاطے کو نشانہ بنایا۔
پنجاب میں سی ٹی ڈی وسائل کے انتظام سے لے کر تربیت کی بہتر سہولیات کی فراہمی تک صحیح وجوہات کے لیے اچھا کام کر رہی ہے اور جدید آلات سے پوری طرح لیس ہے۔اس کے باوجود، جان کی حفاظت، مدت کا تحفظ، اور دیگر مراعات سی ٹی ڈی کو زیادہ مؤثر قوت بنا سکتے ہیں۔پورے ملک میں CTDs کو اس سلسلے میں ایک جیسے چیلنجز کا سامنا ہے کیونکہ وہ انتہائی سخت حالات میں کام کرتے ہیں۔انہیں جس چیز کا سب سے زیادہ خوف ہے وہ یہ ہے کہ سی ٹی ڈی میں مدت ملازمت کے بعد اہلکاروں کو عموماً دور دراز علاقوں میں منتقل کر دیا جاتا ہے، جہاں وہ دہشت گردوں کا آسان ہدف بن جاتے ہیں۔اس طرح کی ٹارگٹ کلنگ اب خاص طور پر خیبر پختونخواہ میں بڑھ رہی ہے، اور صوبائی حکومت کو دہشت گردی کے خلاف اپنی ذمہ داریوں کو اب زیادہ سنجیدگی سے لینا ہوگا۔
تاہم، صوبہ پنجاب اور خیبر پختونخواہ کے درمیان موازنہ درست نہیں ہے، کیونکہ دونوں صوبوں کو مختلف پیمانے پر دہشت گردی کے خطرات کا سامنا ہے اور زیادہ تر معاملات میں خطرے کی نوعیت مختلف ہو سکتی ہے۔
خیبر پختونخواہ کا صوبہ افغانستان کے حالات کے بعد سے زیادہ متاثر ہوا ہے اور یہ بنیادی طور پر فوج ہے جو سرحد کی حفاظت سے لے کر سرحد کے دوسری جانب سے آنے والے دہشت گردوں سے نمٹنے تک سب کچھ سنبھالتی ہے۔ وہاں سی ٹی ڈی کبھی بھی فیصلہ سازی کے عمل میں شامل نہیں رہی ہے اور ہمیشہ اعلیٰ سیکورٹی اداروں کی طرف دیکھتی ہے جو اس حوالے سے احکامات جاری کرتے ہیں پھر فوج یا تو عسکریت پسندوں کو مذاکرات میں مشغول کرتی ہے یا ان کے خلاف زبردستی اقدامات کرنے کا حکم صادر کرتی ہے، اس سے نیم فوجی دستوں اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں میں ابہام پیدا ہوتا ہے۔
صوبہ خیبر پختونخواہ میں سی ٹی ڈی کی اصلاح ضروری ہے، لیکن سب سے اہم یہ ہے کہ وہ بھی غیر ضروری مداخلت کے بغیر اپنے فرائض سرانجام دیں۔ سویلین حکومت کو پارلیمنٹ میں اور عوامی فورمز پر ان مسائل پر بحث کرنی چاہیے جس سے ابہام دور کرنے اور ان خطرات سے نمٹنے والے اہلکاروں کے حوصلے بلند کرنے میں مدد ملے گی۔
فیس بک پر تبصرے