افریقہ کے بلوچ، جستجو کھوئے ہوؤں کی
کتاب ‘افریقہ کے بلوچ’ 1999 میں ایک تحقیقی رپورٹ کی شکل میں سامنے آئی تھی جسے یار محمد بادینی نے کراچی سے شائع ہونے والے بلوچ رسالہ ‘بلوچی لبزانک’ کے لیے افریقہ کا تحقیقی دورہ کرنے کے بعد مرتب کی تھی۔ دو دہائیوں بعد اس رپورٹ کو اس کی تحقیقی اہمیت کے پیشِ نظر غلام فارق بلوچ نے کتابی شکل میں اردو میں شائع کی ہے۔
افریقہ کے مشرقی ساحلی علاقے، عرب کا علاقہ عمان اور ایشیا کا علاقہ مکران ایک ہی سیدھ میں بحر ہند کے کناروں پر واقع ہیں۔ عمان اور افریقہ جانے والے اور وہاں آباد ہونے والے بلوچوں کا تعلق اسی مکران کے ساحلی علاقے سے ہے جو آج کل پاکستان اور ایران میں منقسم ہے۔ بلوچوں کے پہلی مرتبہ افریقہ سے روابط کب قائم ہوئے اس بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہا جاسکتا البتہ یہ بات کسی حد تک وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ یہ اؤلین روابط تجارتی نوعیت کے ہوسکتے ہیں۔ اس کتاب میں بلوچوں کا افریقہ سے بڑے پیمانے پر ابتدائی رابطے کا ذکر سترہویں صدی کے ابتدائی سالوں میں بلوچ جنگجو سردار میر شہداد کی قیادت میں مشرقی افریقہ میں پرتگیزوں پر حملے کے حوالے سے ہے۔ میرشہداد سے عمان کے حاکم امام سلطان بن سیف الیربی نے درخواست کی تھی کہ وہ اپنے دستے کے ساتھ مشرقی افریقہ پر حملہ کرکے اس خطے کو پرتگیزوں کی استعماریت سے نجات دلائیں۔ اس سے قبل جب پرتگیزوں نے خود عمان پر چڑھائی کرکے حاکم کو بے دخل کیا تھا تو وہ مکران میں پناہ گزین ہوئے تھے اور یہاں کے مقامی بلوچوں کی مدد سے واپس جاکر اپنی ریاست پرتگیزوں سے واگزار کروائی تھی۔ بلوچ دستوں کے ذریعے مشرقی افریقہ پر قبضہ کرنے کے بعد عمان کے حاکم نے بلوچوں کو وہاں کی حفاظتی فوج کے کمانڈر مقرر کیے۔
بادینی صاحب ہمیں صرف یہی نہیں بتاتے کہ انہوں نے افریقہ میں بلوچوں کو کیسے پایا بلکہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ خود وہاں کے بلوچ اپنے آپ کو افریقہ میں کیسے پاتے ہیں۔
عمان کی فوج میں شامل کئی بلوچ افریقہ میں مستقل طور رہائش پذیر ہوئے اور کچھ واپس لوٹے آئے۔ اس کے بعد سے ان دو خطوں کے بیچ باضابطہ رابطوں کی بنیاد پڑ گئی۔ اُنیسویں صدی تک نقل مکانیوں اور آمدورفت کا یہ سلسلہ جاری رہا۔ پرتگیزوں کے بعد جب یہ علاقے برطانوی استعمار کے زیرِ تسلط چلے گئے تو بہت سارے بلوچ برطانوی فوج کا حصہ بن کر یہاں آئے اور کئی یہیں کے ہوکر رہے۔ افریقہ جانے والے بلوچوں میں اکثریت ایرانی مکران سے تعلق رکھنے والے بلوچوں کی تھی اور مشرقی افریقہ سے یہ لوگ آہستہ آہستہ وسطی افریقہ میں بھی آباد ہوئے۔
بادینی صاحب نے اس مضمون میں افریقہ میں مقیم بلوچوں کی یہاں آمد کے ساتھ ساتھ اُن کی آبادی، مذہب، معاشی حالات اور ثقافتی اطوار کے بارے میں بھی معلومات فراہم کی ہیں۔ بادینی صاحب کے اس جامع مضمون کے علاوہ کتاب میں خود افریقہ کے مختلف ملکوں میں مقیم بلوچوں کے لکھے ہوئے مضامین اور بدینی صاحب کے ان سے کیے گئے انٹرویوز بھی شامل کیے گئے ہیں۔ بلکہ کتاب میں ان کا حجم بدینی صاحب کے مضمون سے زیادہ ہے۔ یہ کتاب ہمیں افریقہ کے بلوچوں کو صرف چند دنوں کے لیے تحقیق کی غرض سے افریقہ گئے ہوئے محقق ہی کی نہیں بلکہ صدیوں سے وہاں آباد مقامی بلوچوں کی آنکھ سے بھی دیکھنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ بادینی صاحب ہمیں صرف یہی نہیں بتاتے کہ انہوں نے افریقہ میں بلوچوں کو کیسے پایا بلکہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ خود وہاں کے بلوچ اپنے آپ کو افریقہ میں کیسے پاتے ہیں۔
کتاب میں مضامین کے ساتھ ساتھ 11 انٹرویوز بھی شامل ہیں۔ یہ انٹرویوز اُن بلوچوں کے ہیں جو افریقہ میں طویل عرصے سے مقیم ہیں۔ یہ ان کی جگ بیتیاں ہیں۔ ان انٹرویوز میں وہ دیوار پر ایک پردہ سجاتے ہیں اور پھر اس پر برسوں کی کہانی کی فلم چلاتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ وہ یا اُن کے بزرگ اپنا وطن چھوڑ کر سمندر پار اس دیارِ غیر میں کیسے پہنچے اور پھر اس دیارِ غیر کو اپنا وطن بنانے میں کیا کیا مرحلے پیش آئے۔ افریقہ میں آنے والی سیاسی اور سماجی تبدیلیوں اور بحرانوں کے دوران اُنہوں نے کیا کیا دیکھا، خصوصاً یوگنڈہ میں عیدی امین کا پُر آشوپ دورِ حکومت ان پر کیسے بیتا۔ اس کتاب میں وہ ہمیں بتاتے ہیں کہ اُن کا یہاں کے مقامی لوگوں کے ساتھ تعلق کیسا ہے اور خود اُن کے اپنے بیچ اتحاد، اتفاق اور اتصال کس حد تک ہے۔
کسی علاقے میں ایک اقلیتی لسانی، مذہبی، نسلی یا ثقافتی گروہ کے زندگی گزارنے کا تجربہ وہ نہیں ہوتا جو اس علاقے کی اکثریتی آبادی کا ہوتا ہے۔ اس کے محرکات، تقاضے اور تجربات مختلف ہوتے ہیں۔ ایسی کمیونٹی کسی جگہ صدیاں بھی کیوں نہ گزارے مگر اپنا الگ رنگ ڈھنگ برقرار رکھتی ہے۔ نسلوں کی مسافت طے کرنے کے بعد بھی ان کی نظریں اکثر اوقات اپنے اصل وطن کی طرف اُٹھتی رہتی ہیں۔ افریقہ میں بلوچ سمندر پار دوسرے براعظم سے آئی ہوئی ایک کمیونٹی ہے جس کے آبا نے وہاں جنگیں لڑ کر اپنا خون بھی بہایا ہے اور محنت مزدوری اور کاروبار کرکے اپنے پسینہ بھی۔ اُن کی نسلیں وہاں پھلی پھولیں اور اُن کے بزرگوں کی قبریں وہاں بن گئی ہیں۔ وہ وہاں کے سماجی اور سیاسی ماحول میں گھل مل گئے ہیں لیکن اس کے باوجود اُن کی رہن سہن، طور اطوار، دلوں اور اجتماعی یاد داشت میں ایک بلوچ گوشہ ہمیشہ آباد رہا ہے۔ اس کتاب میں اس بلوچ گوشے کی عکاسی دیکھنے کو ملتی ہے۔
داغستانی شاعر رسول حمزہ توف کا کہنا ہے، “کسی ایسی ندی کو جو سمندر تک پہنچ چکی ہو پہاڑوں کے گود میں موجود اس معمولی چشمے کو فراموش نہیں کرنا چاہیے جس نے اُسے جنم دیا ہے اور نہ ہی اس طویل تنگ اور پتھریلے راستے کو بھولنا چاہیے جسے اُسے طے کرنا پڑا ہے۔” کتاب پڑھ کر محسوس ہوتا ہے کہ افریقہ کے بلوچ پہاڑوں کے گود میں موجود اس چشمے کو نہیں بھولے ہیں جس نے ان کو جنم دیا ہے۔ البتہ فرق یہ ہے کہ یہ کوئی معمولی چشمہ نہیں ہے بلکہ کتاب میں بعض جگہ یہ لگتا ہے جیسے جس بلوچستان سے وہ نکلے تھے دراصل وہی ان کے لیے سمندر تھا۔ یوسف درّا نصیر خان کے انٹرویو کے آخر میں یہ احساس شدت سے سامنے آتا ہے جب ان سے پوچھا جاتا ہے کہ آپ بلوچوں کو کیا پیغام دیں گے۔ اُن کا جواب ہوتا ہے کہ میری دعا ہے کہ یہاں بسنے والے بلوچ اپنے مادرِ وطن جائیں کیوں کہ اس وقت یہاں حالات بہت خراب ہیں۔ اپنے وطن میں کوئی آپ پر ہاتھ نہیں اٹھا سکتا۔ اگر کوئی وفات پائے تو لوگ اس کو قبر میں اتاریں گے۔ مجھے اپنے اصل وطن جانے کی شدید خواہش ہے۔ یہ گفتگو 1999 کی ہے۔ اس سے پہلے افریقہ میں ان پر کچھ تلخ حالات گزرے تھے۔ عیدی امین کے فوجی ایک دفعہ ان کے بیٹے کو اٹھاکر کر لے گئے تھے۔ انہیں اپنے خاندان سمیت یوگنڈہ سے نکل کر ممباسا جانا پڑا تھا۔ اس اقتباس سے ایک افسوس ناک سوال ذہن میں ضرور اُٹھتا ہے کہ آج بلوچوں کے ساتھ ایران اور پاکستان میں ان کے اپنے وطن میں جو کچھ ہورہا ہے کیا ان حالات میں بھی یوسف درّا اپنے وطن کی طرف اسی احساسِ تحفظ سے دیکھ لیتا؟ جب اسے معلوم ہوتا کہ اس کے اپنے وطن میں اتنے لوگ جبری طور پر اٹھائے گئے ہیں، اتنے لاپتہ ہیں، اتنے لوگوں کی لاشوں کو کفن دفن نصیب نہیں ہوا اور اتنے لوگوں کو خود ساختہ جلاوطنی اور دربدری کی صعوبتیں اُٹھانی پڑیں، تو کیا وہ پھر بھی کہتا کہ بلوچو! اپنے وطن واپس جاؤ جہاں کوئی تم پر ہاتھ نہیں اُٹھائے گا، کوئی وفات پائے تو لوگ اس کو قبر میں اُتاریں گے۔ زندہ ضمیروں کے لیے یہ ایک چُھبتا ہوا سوال ہے۔
یہ کتاب پاکستانی اور ایرانی بلوچوں کے مشرقی اور وسطی افریقہ کے بلوچوں کے ساتھ رشتوں کی کھوج لگاتی شاید پہلی مستند دستاویز ہے جس میں مختلف جغرافیائی اورسیاسی اکائیوں میں بٹی بلوچ قوم کی تاریخی وحدت کو پیش کیا گیا ہے۔ یہ کتاب یہاں کے بلوچوں کی یادداشت میں تاریخ کے کچھ بھولے بسرے ابواب پر پڑی گرد جھاڑ کر انہیں یاد دلائے گی کہ انہی کے قبیلے کے کچھ لوگ مکران کے ساحل سے اُٹھ کر افریقہ کے سبزہ زاروں میں جا بسے تھے۔ آپ تو شاید انہیں بھول چکے ہوں مگر وہ آپ کو نہیں بھولے۔ اُن کے دل آج بھی آپ کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔
فیس بک پر تبصرے