مکران میں طالبان کی آمد
مذہبی شدت پسندی پاکستان کا ایک ایسا دیرینہ مسئلہ ہے جو کم ہونے کے بجائے وقت کے ساتھ پھیلتا جارہا ہے۔ بلوچستان میں دیگر اکائیوں کی نسبت مذہبی شدت پسندی بالعموم بلوچ علاقوں میں نہ ہونے کے برابر دیکھی گئی ہے خصوصاً مکران بیلٹ میں اس کے آثار توانا صورت میں کبھی نظر نہیں آئے۔ تاہم ان علاقوں میں جہاں بلوچ قوم پرست سیاست کی اثر پزیری زیادہ ہے مذہبی ذہنیت کے حامل جمہوری سیاسی کارکنوں کی موجودگی رہی ہے۔ مکران میں ضلع پنجگور اور ضلع کیچ میں نائن الیون کے بعد جہاں مدارس کی تعداد میں اچانک خاطر خواہ اضافہ دیکھنے کو ملا وہی جمعیت علما اسلام جیسی بنیاد پرست سیاسی جماعتوں کو سیاسی طور پر قدم جمانے کا ماحول بھی فراہم کیا گیا۔ سنہ 2000 کے بعد جب بلوچ قوم پرست تحریک نئی ہئیت کے ساتھ مزاحمتی شکل میں سامنے آئی تو مکران ڈویژن میں دینی مدارس جو اس سے قبل بہت کم پیمانے پر موجود تھے اور مقامی لوگوں کے چندے پر چل رہے تھے ان کی تعداد میں اضافہ ہوا۔ اس کے ساتھ مدارس البنات جہاں صرف لڑکیوں کو دینی تعلیم دی جاتی ہے بھی پہلی بار دھڑا دھڑ قائم ہونا شروع ہوگئے۔ اب مکران ڈویژن کے تینوں اضلاع میں شہری علاقوں کے ساتھ ساتھ دیہی علاقوں میں بھی ایسے مدارس کی اچھی خاصی تعداد دیکھنے کو مل رہی ہے۔ ان کو چلانے اور مدارس کے منتظمین کا خرچہ کہاں سے آتا ہے اس پر کبھی غور نہیں کیا گیا یا جان بوجھ کر اس اہم مسئلے کو نظرانداز کردیا گیا۔
مکران میں تحریک طالبان
مکران میں تحریک طالبان یا کسی شدت پسند مذہبی گروہ کی براہ راست آمد یا موجودگی کا فی الوقت امکان بہت کم ہے البتہ مذہبی رجحانات کے حامل افراد جو نظریاتی طور پر طالبان سوچ سے قریب ہیں ضلع کیچ اور پنجگور میں کافی عرصے سے موجود ہیں۔ افغانستان میں امریکہ کے خلاف کیچ ضلع سے تعلق رکھنے والے درجنوں نوجوان جہاد کے نام پر مارے گئے اور جب افغانستان پر طالبان کی حکومت قائم ہوئی تو ان کے والدین کی دستار بندی باقاعدہ ایک تقریب منعقد کرکے کی گئی۔ اس کے علاوہ 2016 کو احمد وال نوشکی میں طالبان کے دوسرے طاقت ور ترین لیڈر یا امیر ملا اختر منصور کی ہلاکت اور تربت میں 2020 میں پولیس کے ہاتھوں جیش العدل سے تعلق رکھنے والے ملا عمر ایرانی کی ہلاکت بلوچستان اور مکران ڈویژن میں مذہبی شدت پسندوں کی موجودگی کو ظاہر کرتی ہے۔
تین اضلاع پر مشتمل مکران ڈویژن میں ضلع پنجگور، کیچ اور گوادر کی نسبت ہمیشہ مذہبی رجحانات کے حوالے سے رجعت پسند مذہبی حلقے کے لیے موزوں رہا ہے۔ جہاں بنیاد پرست مذہبی سیاسی جماعت جمعیت علماء اسلام کے کارکنوں کی ایک اچھی خاصی تعداد موجود ہے اور اس کے علاوہ وہاں کیچ کی نسبت مدارس کی قابل ذکر تعداد نائن الیون سے پہلے موجود رہی ہے۔
بلوچستان کے دوسرے بلوچ علاقوں کے برعکس چونکہ مکران ڈویژن قوم پرست نظریات کے حامل ایک سیاسی سماج کے طور پر اپنی الگ پہچان رکھتی ہے اور یہاں ہمیشہ قوم پرست رجحان کے حامل سیاست کی بالادستی رہی ہے اس لیے یہ امکان کم ہے کہ مکران مستقبل قریب میں طالبانائزیشن سے متاثر ہوسکتی ہے، البتہ سی پیک منصوبہ اور گوادر پورٹ جیسی اہمیت کے حامل پروجیکٹ اس خطے میں عالمی چپقلش کا سبب بن رہے ہیں۔ سعودی عرب اور ایران بھی مذہبی نظریات کی بنیاد پر خطے میں اثر انداز ہونے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ اس تناظر میں یہاں کوئی ہلچل انہونی بات نہیں ہوگی۔
گوادر دوسروں کے لیے شاید قسمت کی ایک مہربان دیوی بن جائے مگر یہ خطہ اپنے باسیوں کے لیے ایٹم بم بن سکتا ہے۔ یہ جغرافیائی اعتبار سے اتنا اہم ہے جتنا اس کے باسیوں نے کبھی سوچا تک نہیں ہوگا۔
قوم پرست سیاست پر گرفت
طاقت ور قوتوں کی کوشش ہوگی کہ ان کے مفادات کی راہ میں حائل خطے کی خالص قوم پرستانہ سیاست کو مذہبی سوچ سے پراگندہ بنائیں جیسا کہ گوادر میں مولانا ہدایت الرحمن کی صورت میں لیڈر کا ابھرنا یا اب طالبان کے ساتھ مسلح گروہ کا اتحاد وغیرہ۔ لیکن یہ سوچ مکمل طور پر کامیاب نہیں ہوسکتی۔ یہاں بی ایس او کی سیاسی تربیت آج بھی اپنی جگہ منظم اور مستحکم ہے۔ اسے آسانی سے شکست نہیں دی جاسکتی۔ اس سے پہلے بھی کچھ ایسی کوششیں کی گئیں جو کارگر نہ ہوئیں۔ 1990 کی دہائی کے وسط میں نیشنلزم کے خلاف فرقہ وارانہ تنازعہ ذکری اور سنی تنازعہ کی صورت پیدا کیا گیا لیکن مضبوط قوم پرست سیاسی سوچ کے سامنے یہ کوشش ناکام ہوئی۔ مذہبی سیاست کو پروان چڑھانے کے لیے کئی سالوں سے سخت محنت ڈھکی چھپی بات نہیں۔ اب اسے نیشنل ازم کے خلاف کھل کر استعمال کیا جا رہا ہے۔ مکران میں یہ کتنی قبولیت پائے گی ابھی واضح نہیں مگر اب اس کے لیے تادیر انتظار نہیں کرنا پڑے گا۔
فیس بک پر تبصرے