سی پیک میں بہتری کی جانب پیش رفت
پاکستان بالآخرایک درست سفارتی سمت میں واپس آ رہا ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف کے بیجنگ اور ریاض کے کامیاب دورے نے ملک میں معیشت کی بحالی کے لیے ایک امید پیدا کی ہے۔آرمی چیف جنرل قمر باجوہ کی جانب سے لندن اور واشنگٹن کے چینلز کا استعمال کرتے ہوئے مغرب کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کو معمول پر لانے کی کوششیں بیرونی دباؤ کو کم کرنے میں بھی مددگار ثابت ہو رہی ہیں، جو گزشتہ کئی ماہ سے نظر آ رہا تھا۔اس کے علاوہ پاکستان اب فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (FATF) کی ’گرے لسٹ‘ میں سے بھی نکل گیا ہے جو کہ معیشت کے لیے ایک نیک شگون ہے۔
وزیراعظم کے دورہ بیجنگ کے دوران چین نے پاکستان کی معیشت اور مالیاتی صورتحال کو مستحکم کرنے کی کوششوں میں مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے۔صدر شی جن پنگ کے بطور سپریم لیڈر تیسری بار جیتنے کے بعد پاکستانی وزیر اعظم چین کا سفر کرنے والے پہلے غیر ملکی رہنما تھے۔اساعتبار سے اس دورہ کی سیاسی اور تزویراتی اہمیت بھی ہے، جو پاکستان کے معاشی اعتماد کو بڑھانے کے لیے بھی ضروری ہے۔قبل ازیں وزیراعظم کے دورہ ریاض کے دوران سعودی عرب نے پاکستان کے لیے 10 ارب ڈالر کے سرمایہ کاری پیکج کا وعدہ بھی کیا ہے۔اسلام آباد کو امید ہے کہ سعودی حکومت میگا آئل ریفائنری پروجیکٹ کو دوبارہ شروع کرے گی، جو کہ پی ٹی آئی حکومت کے دور میں دونوں ریاستوں کے درمیان پیدا ہونے والی بعض سیاسی پیچیدگیوں کی وجہ سے روک دیاگیا تھا ۔
جنرل باجوہ مغرب کے ساتھ،خاص طور پر امریکہ ،پاکستان کے اعتماد کو بحال کروانے میں بہت حد تک کامیاب رہے ہیں، جو پاکستان کے لیے علاقائی وجغرافیائی سیاسی توازن پیدا کرنے کے لیے ضروری تھا۔یہ وہ مثبت پیش رفت ہیں جنہیں مخلوط حکومت اور اسٹیبلشمنٹ مقامی حمایت حاصل کرنے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں، کیونکہ جاری سیاسی بحران نے دونوں کو دفاعی پوزیشن میں ڈال دیا ہے۔پاکستان گزشتہ چند سالوں میں اپنے خارجہ تعلقات میں توازن کھو چکا تھا۔افغانستان پر طالبان کا قبضہ، اور سابق وزیر اعظم عمران خان کی طرف سےامریکی سائفر پروپیگنڈہ کرنے والا تنازع، یہ وہ دو اہم واقعات تھے جنہوں نے اس عدم توازن کو بڑھایا اور امریکہ اور مغرب کے ساتھ پاکستان کے تعلقات میں تلخی پیدا کی۔
اس کے علاوہ دیگر دو اور عوامل بھی پاکستان کے لیے سفارتی تناؤ کا باعث بنے۔سب سے پہلے، ترکی، ایران اور ملائیشیا کی قیادت میں قلیل المدت متبادل مسلم قیادت کے اقدام میں شامل ہونے کے پاکستان کے فیصلے نے خلیج میں اپنے دوستوں کو ناراض کیا۔دوم، چینی قیادت کو سبکدوش ہونے والی پی ٹی آئی حکومت کی جانب سے CPEC منصوبوں کی لاگت پر دوبارہ مذاکرات اور CPEC اتھارٹی کے قیام کی کوششیں پسند نہیں آئیں۔عمران خان کی حکومت کا یہ خیال تھا کہ CPEC کے زیادہ تر منصوبوں پر بہت کم گفت و شنید ہوئی تھی یا اسے غلط انداز میں کیا گیا تھا۔ اسٹیبلشمنٹ کا بھی یہ خیال تھا کہ وہ چین کو CPEC منصوبوں پر دوبارہ مذاکرات کرنے پر راضی کر سکتا ہے جیسا کہ ملائیشیا نے بھی کیا تھا۔ تاہم، ہماری مقتدر قوتوں نے اس حقیقت کو نظر انداز کر دیا کہ ان منصوبوں میں خودمختار ضمانتیں شامل تھیں۔ اس نئے سرے سے متعلق گفتگو نے CPEC منصوبوں کو سست کر دیا۔
صرف عمران خان ان فیصلوں کی غلطیوں کے لیے ذمہ دار نہیں تھے بلکہ یہ طاقت کے اشرافیہ کی طرف سے ایک اجتماعی غلطی تھی جو ملک کی کمزور معیشت اور عالمی معیشت پر CoVID-19 کے متاثر ہونے والے اثرات کے باوجود بہت زیادہ پر اعتماد تھے کہ وہ مشرق اور مغرب میں اپنے اتحادیوں کے ساتھ تعلقات کو جوڑ سکتے ہیں۔اسٹیبلشمنٹ اس منصوبے پر اپنا مکمل کنٹرول چاہتی تھی، اور عمران خان CPEC کے ان منصوبوں سے مسلم لیگ ن کا نام ہٹانے کے ان فیصلوں میں شامل ہوئے۔اقتدار کے اشرافیہ کو جلد ہی خارجہ تعلقات میں اپنی غلط فہمیوں کا احساس ہو گیا، لیکن خان نے پہلے ہی اپنے لیے ایک مختلف راستہ اختیار کر لیا تھا۔ایک طرف اس نےمسلم امہ کا لیڈر بننے کی کوشش کی اور دوسری طرف اس نے مجموعی قومی مفاد کی جگہ اپنے سیاسی مفاد کو ترجیح دی۔ملک اب بحالی کے موڈ میں ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ فوجی قیادت نے مغربی ممالک کے ساتھ ملک کے تعلقات بحال کرنے کے بعد اب موجودہ حکومت کو مشرق میں پاکستان کے دوست ممالک سے تعلقات بہتر بنانے کی طرف توجہ مرکوز رکھنے کو کہاہے ۔یہ منصوبہ کسی نہ کسی طرح ملک کی جیو پولیٹیکل اور جیو اکنامک پالیسیوں میں توازن کو واپس لا رہا ہے۔
پاکستانی معیشت کو اس وقت ساختیاتی اصلاحات کی ضرورت ہے، لیکن عالمی تبدیلیاں ترقی پذیر ممالک کے لیے زیادہ چیلنجنگ ماحول پیدا کرتی ہیں۔ایسا لگتا ہے کہ پاکستان پہلے ہی مستقبل کے چیلنجز کو کم کرنے کے لیے اپنے آپشنز کو صحیح سمت میں استعمال کرنے کی کوشش کر رہا ہے، جس میں افغانستان کے ساتھ سرحدی تجارت اور چینی کرنسی یوآن میں روس سے توانائی خریدنا شامل ہے۔تاہم، اسے اب بھی بھارت اور دیگر جنوبی اور وسطی ایشیائی ممالک پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے مزید متنوع اور عملی انداز اپنانے کی ضرورت ہے۔اگرچہ FATF کی فہرست سے باہر نکلنے سے کچھ راحت ملی ہے، لیکن داخلی سلامتی کو درپیش چیلنج اب بھی پیچیدہ ہے جوچینیوں سمیت تمام غیر ملکی سرمایہ کاروں کو پاکستان آنے سے روکتا ہے۔مختلف عسکریت پسند گروہ، اسلام پسند اور علیحدگی پسند، اب بھی ملک میں سرگرم ہیں اور اپنے اہداف کو متنوع بنا رہے ہیں۔حال ہی میں، سندھ کے انسدادِ دہشت گردی کے محکمے نے ایک مشتبہ دہشت گرد کو گرفتار کیا جو مبینہ طور پر حیدرآباد میں ایک چینی ڈاکٹر کو قتل کرنے کا ارادہ رکھتا تھا اور ستمبر میں کراچی میں دانتوں کے چینی ڈاکٹروں پر اسی طرح کے حملے کے مجرموں سےمنسلک تھا۔ایسے واقعات خواہ کم ہی کیوں نہ ہوں، بڑا اثر پیدا کرتے ہیں اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کے اعتماد کو متزلزل کرتے ہیں۔
افغانستان اور سکیورٹی ، پاکستان کےعالمی برادری کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے دو اہم عنصر رہیں گے۔افغانستان میں امریکہ اور چین کی ترجیحات مختلف ہیں، حالانکہ دونوں ممالک یہ نہیں چاہتے کہ یہ ملک دہشت گرد نیٹ ورکس کو پناہ دے۔ چین کے لیے، افغانستان ایک ہمسایہ ہے اور اس کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ میں ممکنہ شراکت دار ہے۔طالبان حکومت کے ساتھ اپنے پیچیدہ تعلقات کے باوجود، پاکستان اب بھی ایسا کردار اپنانے کی صلاحیت رکھتا ہے جو چین اور امریکہ کے اہداف کے مطابق ہو۔پاکستان کی شرط صرف یہ ہوگی کہ بھارت کا افغانستان میں وسیع کردار نہ ہو۔ چین اس سے اتفاق کرے گا اور امریکہ افغانستان میں اپنی ماضی کی مصروفیات سے سبق سیکھ سکتا ہے۔
پاکستان کو عالمی سطح پر اپنی مرکزی پوزیشن برقرار رکھنے کے لیے افغانستان کے حوالے سے اپنے نقطہ نظر پر نظرثانی کرنی چاہیے۔ایسی حکمت عملی ہو جو سیاسی اور اقتصادی طور پر جامع ہونی چاہیے ،اور افغانستان کے حوالے سے علاقائی روابط پاکستان کی پالیسیوں کا بنیادی مقصد ہونا چاہیے۔افغانستان کے ساتھ مزید باضابطہ تجارت کے لیے مالیات، کسٹم اور بارڈر سکیورٹی سے متعلق ضابطہ کارطے کرنےکی ضرورت ہوگی۔افغانستان کے ساتھ بہتر اقتصادی تعلقات کی بدولت پاکستان اس پوزیشن پر ہو گا کہ وہ افغان طالبان کو دہشت گردی سے متعلق شکایات کو سنجیدگی سے لینے پر مجبور کر سکے ۔خارجہ پالیسی میں بہترین توازن برقرار رکھنے کے لیے تعلقات میں نفاست پسندی اور عالمی اصولوں کے ساتھ ہم آہنگ ایک لچکدار حکمت عملی کی ضرورت ہوتی ہے۔
فیس بک پر تبصرے