آج کا نوجوان مایوسی کا شکار کیوں؟

432

اپنے مقصد اور مستقبل سے بیزار،  آج کا نوجوان مختلف مسائل میں الجھا دکھائی دیتا ہے۔اس کی بنیادی وجہ مادیت کے اس دور میں معاشی چیلنجز سے نبرد آزما ہونا ہے ۔  اس وقت 90فیصد سے زیادہ نوجوانوں کا مقصد پیسے کمانا    یا شہرت اور پاور کی گیم میں داخل ہونا ہے، اور جو 10 فیصد کہیں کوئی بلند مقصد رکھتے بھی ہیں وہ بھی معاشرے کی عدم دلچسپی اور عدم توجہ کی وجہ سے اپنے ارادوں اور مقاصد کو بھول جاتے ہیں۔مستقبل کے لیے باقاعدہ مشاورت (کیریرکونسلنگ)  نہ ہونے کی وجہ سے میٹرک اور پھر انٹر میڈیٹ سے ہی مضامین کے انتخاب میں والدین کے رحم وکرم پر ہوتے ہیں یا اردگرد کے ماحول پر انحصار کرتے ہیں۔انٹر میڈیٹ  کرنے کے بعد  زمانے کی بھیڑ چال کا شکار ہوتے ہیں۔کس شعبہ میں جانا ہے، کون سی ڈگری لینی ہے،  کیوں لینی ہے، اس کا سکوپ کیا ہے، اورسب سے بڑھ کر اس کا مقصد کیا ہے، یہ ایسے سوالات ہیں جن کے بارے میں صرف اس حد تک معلوم ہوتا ہے کہ اس سے اچھی نوکری اور پیسے کمائے جا سکتے ہیں۔

اس لیے اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ڈگریاں لینے ،  والدین کے لاکھوں روپے خرچ کروانے اور سب سے بڑھ کر اپنا قیمتی وقت صرف کرنے کے بعد وہ اچانک پیسہ کمانے کے لیے فیلڈ تبدیل کر لیتے ہیں، اور جو کام وہ میٹرک کے بعد کر سکتے ہیں، وہی کام وہ ماسٹر لیول کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد کرنے پر مجبور ہوتے ہیں یا  خود ہی اس آسان راستہ کا انتخاب  کر لیتے ہیں۔اس طرح وہ ایک وقتی فائدہ حاصل کرنے  اور اپنے معاشی مسائل پر قابو پانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔  یہی وجہ ہے کہ  ایک تعلیم یافتہ نوجوان ایک ان پڑھ نوجوان سے زیادہ مایوسی کا شکار  نظر آ تا ہے۔بہت سارے نوجوان جو کسی وجہ سے تعلیم حاصل نہیں کر پاتے  وہ کوئی نہ کوئی ہنر سیکھ کر یا محنت مزدوری کر کے اپنا معاش کما رہے ہیں ، مگر تعلیم یافتہ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد نوکریوں کے لیے دھکے کھا رہی ہوتی ہے یا اپنے معاش کے لیے نئے مواقع کی تلاش میں نظر آتی ہے۔  سوشل میڈیا  اور جدید ٹیکنالوجی نے   آج کے نوجوان کے لیے پوری دنیا کے ساتھ نیٹ ورکنگ کا راستہ آسان کر دیا ہے۔ بزنس، فری لانسنگ، اور  مختلف مہارتوں کے ذریعے وہ پاکستان میں بیٹھے بیٹھے   اچھی خاصی کمائی کر رہے ہیں۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہماری تعلیم اور ہماری ڈگریاں نیشنل یا انٹرنیشنل مارکیٹ کے مطابق نوجوانوں کو تیارکر رہی ہیں؟ یقینا ہر گز نہیں ، اور یہی وجہ ہے کہ آج کا نوجوان فرسٹریشن کا شکار ہے۔

خوش قسمتی سے پاکستان میں ایسے ماہرین اور ادارے معرض وجود میں آ چکے ہیں جو نوجوانوں کو انٹرنیشنل مارکیٹ سے متعارف کروا رہے ہیں اور انہیں ایسی مہارتیں فراہم کر رہے ہیں جنہیں   آج کا   ایک میٹرک پاس نوجوان ایک   سال میں سیکھ کر اس قابل بن جاتا ہے کہ وہ  اپنی معاشی ضروریات کو باآسانی پوری کر سکتا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا معاشی ضرورت پوری ہونے کے بعد  یہ نوجوان     مایوسی کی اس دلدل سے اپنے آپ کو نکال پائے گا؟  کیونکہ جس معاشرے میں وہ زندگی گزار رہا ہے اس کے حالات کا اس کی زندگی پر گہرا اثر پڑتا ہے، اور  جب تک معاشرے میں افراتفری، ہیجان اور ابہام رہے گا ، یہ نوجوان مایوسی سے نہیں نکل پائے گا۔ قوم کی ترقی اور معاشرے کی بہتری کا دارومدار نوجوانوں پر ہے،اور معاشرہ اس وقت تک بہتر نہیں ہو سکتا جب تک ہم اپنے  نوجوانوں  کو منزل اور مقصد سے  آگاہ نہیں کریں گے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...