تعلیمِ سندھ: شخصیات اور واقعات کے آئینے میں

ڈاکٹر ناظر محمود

1,091

سندھ کی سرزمین کو اس خطے میں ایک تاریخی حیثیت حاصل رہی ہے جو اسے بالخصوص مذہبی تنوع اور رواداری کے حوالے سے ایک خاص مقام عطا کرتی ہے۔ یہاں شعور و علم کے فروغ کے لیے بھی بہترین کوششیں بروئے کار لائی جاتی رہیں جن میں غیرمسلموں کا بہت زیادہ حصہ رہا۔ زیرِنظر مضمون میں ڈاکٹر ناظر محمود نے سندھ کی معاصرتاریخ میں فروغِ تعلیم کے لیے جدوجہد کرنے والی ان شخصیات اور ان کی خدمات کا تعارف پیش کیا ہے۔ مضمون نگار ماہرِتعلیم، مؤرخ اور انسانی حقوق کے کارکن ہیں، انہوں نے ان حوالوں سے کئی بین الاقوامی اداروں میں پاکستان کی نمائندگی کی ہے۔

سندھ میں تعلیم کے ارتقاء پر بات کی جائے تو گفتگو اسلامی عہد کے آغاز سے بھی شروع کی جاسکتی ہے اور پھر سومرہ، سمّہ، کلہوڑا اور تالپوری ادوار پر بھی نظر ڈالی جاسکتی ہے مگر اس مضمون میں اتنی تفصیل کی گنجائش نہیں، اس لیے ہم مختصراً جدیدعہدکا جائزہ ہی لے سکتے ہیں۔تعلیم کے موضوع پر بات آگے بڑھانے سے قبل سندھ کی جغرافیائی سیاسی صورتحال پر ایک طائرانہ نظر ڈالنا ضروری ہے۔ کیونکہ جدید عہد میں تعلیمِ سندھ کا آغازنگریزوں کی آمد کے بعد ایک مخصوص مرحلے سے ہوتا ہے۔

انگریزوں نے 1758ء میں ٹھٹھہ میں ایک فیکٹری قائم کی تھی جو 1775 ءتک موجود رہی۔ یہ وہ ہی دور تھا جب 1757ء میں انگریزنے بنگال میں سراج الدولہ کے خلاف جنگ پلاسی جیت کر اور 1764ء میں جنگ بکسر میں فتح حاصل کرکے بہار، بنگال اور اڑیسا سے محصولات وصول کرنا شروع کردیے تھے۔انگریزوں نے امیرانِ سندھ سے سب سے پہلا اہم معاہدہ 1809ء میں کیا اور اس کی تجدید 1820ء میں کی۔ پھر 1831ء میں الیگزینڈر برنس نے دریائے سندھ کا سفر کیا۔ 1832ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی دریائے سندھ میں جہاز رانی کی اجازت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی،اس شرط کے ساتھ کہ فوجی سازوسامان نہیں لایا جائے گا۔ 1836ء میں جب مہاراجہ رن جیت سنگھ والئ پنجاب نے کشمیر اور ملتان پر قبضہ کرنے کے بعد سندھ پر حملے کا منصوبہ بنایا تو مشہور تجارتی مرکز شکارپور کو خطرہ لاحق ہوگیا۔ امیرانِ سندھ فوجی لحاظ سے کمزور تھے اس لیے انگریزوں کو مزید مراعات دینے پر مجبور ہوئے۔1838ءمیں حیدرآباد میں ایک’انگریز ریزی ڈنٹ‘ کا قیام عمل میں آیا اور سندھ میں برطانیہ کی باقاعدہ بالا دستی کا آغاز ہوا۔ 1838ء میں ہی انگریزی فوج کراچی کی بندرگاہ پر زبردستی اتر گئی اور امیرانِ سندھ انگریزوں کو پانچ ہزار کی فوج کراچی میں رکھنے کی اجازت دینے پر مجبور ہوئے جس کا خرچ بھی امیروں کو ادا کرنا تھا۔اس کے ساتھ ہی سندھ میں انگریزی سکّہ بھی قابل قبول ہوگیا اور دریائے سندھ میں تجارت پر عائد محصول ختم کردیے گئے۔ یہ معاہدہ 1839ء میں ہوا جس کے بعد کراچی باقاعدہ طور پر انگریزوں کے قبضے میں آگیا۔

جنوری 1843ء سے سندھ میں صرف کمپنی کا سکّہ رائج ہوگیا اور اس پر تمام محصول معاف کردیے گئے۔ ہلکی پھلکی مزاحمت بھی جاری رہی،نتیجتاً فروری 1843 میں جنگ میانی ہوئی اور وادی ملیر کے بلوچ قبائل نے تقریباً دو ماہ تک انگریز سے مقابلہ جاری رکھا۔ میانی کی جنگ کے ہیرو ہوش محمد شیدی تھے جب کہ میرپورخاص کے حاکم میر شیر محمد انگریزوں کے مقابلے میں آئے۔ جنگ میانی میں کوئی بارہ ہزار افراد ہلاک ہوئے۔ مارچ 1843 میں چارلس نیپئر نے فارسی میں اعلان جاری کیا کہ تمام سندھی مزاحمت ختم کردیں اور پھر مئی 1843ء تک مزاحمت مکمل طور پہ ختم ہوگئی، تمام جاگیردار انگریزوں کی خدمت میں سلامی کو حاضر ہوئے۔ بعدازاں امیرانِ سندھ کو ملک بدر کردیا گیا۔

اس صورتحال کے لگ بھگ دس سال بعد انگریزوں نے سندھ کی تعلیم پر توجہ دینا شروع کی۔ نرائن جگن ناتھ واڈیا نامی کونکن کے ایک اعلی تعلیم یافتہ برہمن کو سندھ کا پہلا ڈپٹی ایجوکیشن انسپکٹر مقرر کیا گیا۔ ان کے علاوہ یہاں مرہٹہ استاد اور افسر بھی مقرر کیے جانے لگے۔ چوں کہ اب سندھ کو بمبئی میں شامل کردیا گیا تھا اس لیے وہاں سے تعلیم یافتہ مرہٹے یہاں آنے لگے۔ نرائن جگن ناتھ واڈیا وہی ہیں جن کے نام پر این جے وی ( NJV ) سکول آج تک قائم ہے۔خیال رہے کہ انگریزوں کے قبضے کے وقت صوبہ سندھ میں خاصے مدرسے توموجود تھے، مگر جدید تعلیمی ادارے نہیں تھے۔ بول چال کی زبان سندھی، بلوچی، سرائیکی، مارواڑی وغیرہ تھیں مگر لکھنے پڑھنے کی زبان فارسی تھی۔ سندھ کا کوئی متفقہ رسم الخط موجود نہیں تھا البتہ سندھ کے تاجر اور بنیے دیوناگری حروف اور اعداد استعمال کرتے تھے۔

اس وقت یہ بحث شروع ہوئی کہ سندھی کے لیے دیوناگری رسم الخط اپنایا جائے یا عربی و فارسی۔ رچرڈ برٹن مشہور سیاح،عالم اور عہدے دار تھے جنہوں نے فارسی رسم الخط کی وکالت کی۔ اس سلسلے میں انور جوکھیو صاحب کا کہنا ہے کہ سندھ کے دوسرے چیف کمشنر سر بارٹل فریئر نے دو انگریزوں کی رائے لی۔ رچرڈ برٹن فارسی کے حق میں تھے جب کہ حیدرآباد کے ڈپٹی کلکٹر اسٹیک دیوناگری کے۔پھر فریئر نے ایک کمیٹی بنائی جس میں چار ہندو اور چار مسلمان ارکان تھے اور اس کے چیئرمین ایک انگریز ایلس تھے اس لیے یہ’ ایلس کمیٹی‘ کہلائی۔ اس بارے میں انور جوکھیو صاحب کا ایک مضمون ہے ’’سندھی رسم الخط کی کش مکش‘‘ جس کا حوالہ کتاب ’’ مسلمانانِ سندھ کی تعلیم ‘‘ میں دیا گیا ہے۔ سید مصطفی علی بریلوی کی یہ کتاب ساڑھے چار سو صفحات میں سندھ کی علمی و تعلیمی ترقی کا جائزہ لیتی ہے۔ اُس وقت سندھ میں کئی ہندوؤں نے فارسی رسم الخط کو ترجیح دی،مثلاً سندھ کے اسٹنٹ کلکٹر دیارام گِدّو مل جو خود سندھی زبان کے عالم تھے نے دیوناگری رسم الخط کی مخالفت کی۔ اس وقت کراچی شہر کی سر برآورده شخصیات زیادہ تر غیر مسلم تھیں۔

1882ء میں’ھنٹر تعلیمی‘ کمیشن بنایا گیا۔ اسی دوران دیا رام جیٹھ مل نے ڈی جے کالج قائم کیا جس کا افتتاح 1887 میں بمبئی کے گورنر نے کراچی آ کر کیا۔ اس وقت شمالی سندھ جنوبی سندھ سے زیادہ ترقی یافتہ تھا جہاں تین ہائی سکول بھی تھے اور صنعت و تجارت کے زیادہ تر مراکز بھی وہیں تھے۔ تینوں ہائی سکول شمالی سندھ میں تھے، ایک سكهر میں اور دو شکارپور میں۔ سكهر کا ایک سکول میونسپلٹی کے زیر انتظام تھا،جبکہ شکارپور کا ایک سکول سرکاری اور ایک نجی تھا۔ سكهر کا پہلا سکول 1859ء سے پہلے قائم ہوا تھا جب کہ شکارپور ہائی سکول 1873ء میں بنا اور 1915ء میں یہ شکارپور اکیڈمی بنادیا گیا۔اساتذہ کی تربیت کے لیےپہلا سکول 1868ء میں حیدرآباد میں قائم ہوا جو 1887ء میں تربیتی کالج میں تبدیل ہوگیا۔ 1893ء میں سكهر کا وکٹوریہ جوبلی ٹیکنکل سکول قائم کیا گیا جہاں طلبہ سے فیس نہیں لی جاتی تھی۔ اگرچہ سندھ میں کئی ادارے قائم ہوچکے تھے لیکن تعلیم کے زیادہ تر مسائل بمبئی سے ہی دیکھے جاتے تھے۔

تعلیم کے حوالے سےکراچی میں اس وقت کاایک اہم نام اخوند داد محمد نظر آتاہے۔ اخوند داد محمد نے کراچی اور اس کے نواح میں علم کی شمع روشن کی۔ ان کااہم کار نامہ یہ تھا کہ انہوں نےسفری سکول قائم کیے جن کی تعداد 1892ء میں 33 تک تھی۔ جبکہ حسن اکیڈمی کراچی نے چار ادارے قائم کیے (1) گریس اکیڈمی (2) مدرسہ حسینی (3) شیخ جندرہ ابراہیم گرلز اسکول، اور (4) کراچی اکیڈمی۔

اس وقت تک سندھی زبان کے رسم الخط کا مسئلہ تقریباً حل ہوچکا تھا کیوں کہ فریئر نے کمپنی کی اجازت سے فارسی رسم الخط اپنا لیا تھا اور اسی میں اضافے کے لیے سندھی کے 52 حروف تہجی قبول کرلیے گئے تھے۔

1870ء تک حیدرآباد میں لڑکیوں کے لیے دو سکول تھے۔ کچھ عرصے بعد جے جے مور ایجوکیشن انسپکٹر کے عہدے پر فائز ہوئے تو انہوں نے سکولوں کو تین حصوں میں تقسیم کردیا:(1) ضلع سکول (2) تعلقہ سکول (3) دیسی سکول۔ضلع سکول انگریزی ذریعہ تعلیم کے ادارے تھے جہاں سندھی ایک مضمون کے طور پر پڑھائی جانے لگی۔ تعلقہ اسکول’ ورناکیولر‘ تھے یعنی ان میں مقامی زبان میں تعلیم دی جاتی تھی۔ پھر ملٹن نامی ایجوکیشن انسپکٹر آئے تو انہوں نے نئی درجہ بندی کی۔ چوتھی جماعت تک تعلیم دینے والے ادارے ’ انفیرئیر اسکول‘ اور پانچویں جماعت تک کے ادارے’ سپیریئر اسکول‘ کہلانے لگے جب کہ دیگر ادارے ’برانچ ایلی مینٹری‘ یا ’ویلج سکول‘ بن گئے جہاں صرف گنتی اور بنیادی حساب کتاب کے ساتھ لکھنا پڑھنا سکھایا جاتا تھا۔

1900ء تک مسلمانانِ سندھ کی تعلیمی حالت یہ تھی کہ سرکاری اعداد وشمارکے مطابق مسلمان طلبہ کی تعداد صرف پینتیس ہزار تھی جن میں صرف ساڑھے پانچ سو ثانوی سکولوں میں پڑھ رہے تھے جب کہ ڈی جے کالج میں صرف سات مسلمان طلبہ زیرِ تعلیم تھے جنہیں سر علی مراد اسکالرشپ یا وظیفہ مل رہا تھا۔

1900ء میں حیدرآباد سندھ میں ہائی اسکول کے طلبہ کی تعداد تقریباً دو سو تھی جن میں صرف دس فی صد مسلمان تھے۔ اس وقت شکارپور میں کوئی پچاس طلبہ ثانوی تعلیم پا رہے تھے۔ 1905 ءمیں ریاست خیرپور کے حکمران میر علی نواز تالپور کی سرپرستی میں 60 سرکاری اسکول تھے جن میں دو ہزار بچے زیرِ تعلیم تھے جب کہ امدادی اسکولوں کی تعداد 33 تھی جن میں آٹھ سو سے زیادہ بچے پڑھ رہے تھے۔

یہ عہدحاضر میں سندھ کے اندر تعلیم کی شروعات اور تعلیمی اداروں کے قیام کی مختصر تاریخ تھی۔ اس پس منظر کے بعد اب ہم سندھ کی کچھ اہم شخصیات کا ذکر کریں گے جنہوں نے اس ضمن میں بہت زیادہ خدمات انجام دیں، جو اصل میں شعور کو فروغ دینے والے اصل ہیروز ہیں۔

اخوند داد محمد

اخوند داد محمد نے سندھ کے کوہستانی علاقوں میں تعلیمِ بالغان کی توسیع کے لیے خاصا کام کیا جن کے حوالے ہمیں سرکاری رپورٹوں میں ملتے ہیں۔ آل انڈیا مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کی ’کمال یار جنگ تعلیمی رپورٹ‘ مطبوعہ 1944 ءمیں اخوند داد محمد کا تذکرہ ملتا ہے۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اخوند داد محمد ضلع کراچی کے ویران کوہستانی علاقوں میں بڑی تعداد میں ’ سفری اسکول ‘ قائم کرچکے ہیں جن میں بڑی تعداد میں پہاڑی قبیلوں کے خانہ بدوش لوگ تعلیم حاصل کرتے تھے۔ چوں کہ یہ لوگ مستقل کہیں نہیں رہتے تھے اس لیے سفری اسکول اُن کو جگہ جگہ تعلیمی خدمات فراہم کرتے تھے۔

ناظم تعلیمات بمبئی کی رپورٹوں میں بھی درج ہے کہ اخوند داد محمد نے ’تعلیم بالغان تحریک‘ 1872ء میں ایک گاؤں مصری جاکھریو سے صرف ایک مدرسے کے ساتھ شروع کی جہاں سندھی زبان لکھنے پڑھنے کے ساتھ قرآن کی تعلیم بھی دی جاتی تھی۔ جو لوگ لکھنا پڑھنا سیکھ لیتے اُن پر لازم تھا کہ وہ رضاکارانہ طور پر دیگر لوگوں کو لکھنا پڑھنا سکھائیں۔ پھر انہیں برائے نام نذرانہ بھی دیا جانے لگا۔ صرف بیس سال میں ان اسکولوں کی تعداد تینتیس تک پہنچ گئی جن میں تقریباً دو ہزار طلبہ پڑھتے تھے جو زیادہ تر جوکھیو قبائل سے تعلق رکھتے تھے۔ یہ سب ویران اور سنگ لاخ علاقوں میں رہتے تھے۔ 1900ء تک ان اسکولوں کی تعداد 50 تک پہنچ گئی تھی۔

مولوی صالح محمد

1898ءکی ایک رپورٹ میں ایک اور بزرگ مولوی صالح محمد کا تذکرہ ملتا ہے جنہوں نے ضلع ٹھٹہ کے علاقے جھرک میں تعلیم پھیلانے کا کام کیا اور آٹھ اسکول قائم کیے۔ یہ بھی داد محمد کی طرز پر کئی اسکول چلاتے تھے جو ایسی جھونپڑیوں میں قائم کیے گئے تھے جو ایک دوسرے سے خاصے فاصلے پر ہوں۔ چھوٹے چھوٹے جھونپڑیوں کے جھنڈ میں قائم یہ اسکول سندھی کورس کی کتابیں اور قرآن پڑھاتے تھے۔

کے بی غلام رسول جتوئی

جتوئی صاحب حیدرآباد میں ڈپٹی انسپکٹر سکولز تھے جن کے سکول تعلقہ مورو میں قائم کیے گئے۔ ان کے ساتھ سید اسد اللہ دربیلو والے تھے جنہوں نے دربیلہ خاص اور نوشیرو تعلقے کے دیگر مقامات پر دیہاتوں میں سکول قائم کیے۔

حسن علی آفندی اور مدرسہ تحریک

حسن علی آفندی ایک عظیم انسان تھے جنہوں نے جدید تعلیم کی توسیع کے لیے خاصا کام کیا۔1885ء میں حسن علی آفندی نے علی گڑھ کا سفر کرکے سر سید احمد خان سے ملاقات کی اور پھر علی گڑھ تحریک کی پیروی کرتے ہوئے’ سنٹرل نیشنل محمڈن ایسوسی ایشن‘ کے قائم کردہ سندھ مدرسہ بورڈ کے تحت سندھ مدرسۃ العلوم کی بنیاد رکھی۔ اس ایسوسی ایشن کے قیام کا فیصلہ جسٹس امیر علی کے دورہ سندھ کے موقع پر کیا گیا تھا۔

ڈاکٹر حبیب اللہ صدیقی نے اپنی کتاب ’’ ایجوکیشن ان سندھ : پاسٹ اینڈ پرسنٹ ‘‘ مطبوعہ انسٹی ٹیوٹ آف سندھا لوجی ( 2006 ء) میں تفصیل سے اس دور کا ذکر کیا ہے۔ حسن علی آفندی سرسید احمد خان سے تیرہ برس چھوٹے تھے۔ 1830ء میں پیدا ہوئے اور پینسٹھ سال کی عمر پاکر 1895ء میں فوت ہوئے۔ حسن علی آفندی کی ولادت حیدرآباد سندھ میں ہوئی اور انہوں نے نوشہروفیروز میں ڈپٹی کلکٹر کے دفتر میں منشی گری سے اپنے کام کا آغاز کیا۔ انہوں نے اسی دوران انگریزی، سندھی، عربی اور فارسی زبانوں پر عبور حاصل کیا۔ اس کے بعد ایک کلرک کے طور پر کوٹری میں واقع ایک اسٹیم کمپنی میں ملازم ہوگئے۔ ازاں بعد عدالتی کلرک کے طور پر ملازم ہوئے اور ساتھ ہی قانون کی تعلیم مکمل کرکے وکالت شروع کردی اور غالباً وہ سندھ کے پہلے مسلم وکیل تھے۔ جب کہ ہندو وکیل دیارام جیٹھ مل اور اودھا رام مول چند پہلے ہی وکالت کررہے تھے۔ 1881ءمیں حسن علی آفندی کراچی میونسپلٹی کے کونسلر منتخب ہوئے اور اس کے بعد تین چار سال کے عرصے میں ہی کراچی میں محمڈن ایسوسی ایشن کی شاخ قائم کی۔

سندھ مدرسہ بورڈ کے پہلے صدر حسن علی آفندی اور نائب صدر خان بہادر نجم الدین تھے جب کہ ارکان میں سیٹھ علی بھائی کریم جی، سیٹھ غلام حسین چھا گلہ،سیٹھ صالح محمد ڈوسل اور غلام حسین خالق دینا وغیرہ شامل تھے۔1890ء میں سندھ مدرسہ کے دو شعبے تھے ایک انگریزی اور دوسرے کا تعلق مقامی زبانوں کی تعلیم سے تھا، جس میں چوتھی جماعت تک سندھی، گجراتی اور اردو کی تعلیم دی جاتی تھی،اس کے بعدخواہش مند طلبہ انگریزی شعبے میں منتقل ہوجاتے تھے۔

گو کہ سندھ مدرسہ ہائی اسکول تھا لیکن پرائمری اور مڈل کے بعد بہت سے بچے تعلیم منقطع کردیتے تھے۔ خاص طور پر کاروباری لوگ بچوں کو تعلیم سے ہٹا کر کاروبار میں لگا دیتے۔ 1900ءتک مدرسے میں بچوں کی تعداد پانچ سو کے قریب تھی جن میں کراچی کے طلبہ کی اکثریت تھی جو زیادہ تر مسلم تھے۔ ہندو طلبہ دس فی صد سے بھی کم تھے۔ غالباً اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ اس کا پورا نام’ سندھ مدرسۃ الاسلام‘ تھا۔ اس زمانے میں میٹرک کا امتحان بمبئی یونی ورسٹی کے زیرِ اہتمام ہوتا تھا۔ گجراتی پڑھنے والوں میں ہندو اور مسلم دونوں تھے جن میں خوجے، بوہرے اور میمن ذاتوں سے تعلق رکھنے والےزیادہ تھے۔

دیوان دیا رام جیٹھ مل

حسن علی آفندی کے ساتھ ایک اہم ترین نام دیا رام جیٹھ مل ہے جو 1845ء میں حیدرآباد میں پیدا ہوئے اور صرف بیالیس سال کی عمر میں 1887ء میں کراچی میں سورگ باشی ہوگئے۔ ان کا نام’ ڈی جے سندھ کالج، کراچی‘ کی بدولت امر ہوگیا ہے۔ ان کے والد امیرانِ حیدرآباد کے دربار میں منشی تھے۔ دیا رام نے پہلے ایک مکتب اور پھر ایک ’اینگلو ورناکیولر اسکول‘ میں تعلیم حاصل کی۔ وہ تعلیم میں اچھے تھے مگر اپنی بیماری کے باعث میٹرک کا امتحان نہ دے سکے۔ کم تعلیم کے باوجود ایک نچلی عدالت میں عرضی نویس کی سے سرکاری ملازمت لینے میں کام یاب ہوگئے۔ پھر ضلعی عدالت میں ہیڈ کلرک ہوئے اور نجی طور پر قانون پڑھ کر وکیل بن گئے۔ انہوں نے کراچی میونسپل کے قیام میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کے سماجی کام بے شمار ہیں۔

اڈوانی برادران

ڈاکٹر حبیب اللہ صدیقی نے اپنی کتاب میں ’اڈوانی برادران‘ کا تفصیلی ذکر کیا ہے جنہوں نے سندھ میں تعلیم کے لیے گراں قدر خدمات انجام دیں۔ ان میں سے پہلا نام دیوان نول رائے اڈوانی کا ہے جو 1848ء میں پیدا ہوئے اور صرف پینتالیس سال کی عمر میں (1993ء)میں ہی وفات پاگئے۔ لیکن اس مختصر عمر میں بہت سے سماجی کام کیے۔ تعلیم کے علاوہ حیدرآباد کا مشہور’ لیڈی ڈفرن‘ ہسپتال انہوں نے اپنے نجی سرمائے سے تعمیر کیا تھا۔ دوسرے بھائی رائے بہادر تارا چند اڈوانی تھے جو 1850ء سے 1938ء تک اٹھاسی برس جیے۔انہوں نے سدھار سبھا بناکر لڑکیوں کے کئی اسکول قائم کیے۔ ان دونوں بھائیوں نے خواتین کے لیے تربیتی مراکز بھی قائم کیے۔ ان کے تیسرے بھائی سوامی سادھو ھیرا نند شوکی رام تھے جنہوں نے 1863ء سے 1893ء تک صرف تیس برس کی عمر پائی لیکن اپنے بھائیوں کے ساتھ تعلیم کے فروغ کے لیے سندھ میں خاصا کام کیا۔ انہوں ن’ یونین اکیڈمی اسکول، حیدرآباد‘ قائم کیا اور بگڑے بچوں کو سدھارنے کا بیڑا اٹھایا۔ بعد میں اسی اسکول کا نام’ نول رائے ھیرا نند اکیڈمی‘ کردیا گیا جو اب’ گورنمنٹ ہائی اسکول نمبر 1،حیدرآباد ’کہلاتا ہے۔پہلے اور تیسرے بھائی کم عمری میں طاعون کی وبا میں کام آئے اور منجھلے بھائی نے طویل عمر پائی جو فارسی کے استاد بھی بنے اور تعلیم کے لیے بہت کام کیا۔ لڑکوں کے تربیتی کالج کے نائب پرنسپل بھی رہے۔

شوکی رام اڈوانی 1900ء میں پرنسپل بنے اورایک مجلہ ’اخبارِ تعلیم ‘ جاری کیا جو کالج کا پیشہ وارانہ ماہوار جریدہ تھا۔ وہ اپنے طلبہ کو بھٹائی اور سامی کے ساتھ دیگر شعراء جیسے میراں بائی اور شیخ سعدی وغیرہ کی بھی تعلیم دیتے تھے۔ ان کے مضامین بعد میں ’ جیون پھلواری‘ کے نام سے شائع ہوئے۔ ’اخبارِ تعلیم‘ کے ساتھ انہوں نے 1900ء میں ’ شاہ جو رسالو ‘ کا جراء بھی کیا۔انہوں نے اُس زمانے میں بیس ہزار روپے نیشنل کالج حیدرآباد کو عطیہ کیے تھے اور چھ ہزار روپے کی کتابیں بھی وقف کیں۔ ’ ھیرا نند اکیڈمی‘ کو تین ہزار روپے کا قیمتی سامان خرید کر دیا۔ اس کے علاوہ اپنی ماں شری متی جواہر بائی کے نام پر لڑکیوں کا سکول قائم کیا۔ ’ ہوپ فل ہائی اسکول‘ بھی ان کا قائم کردہ ہے۔ کراچی کے سولجر بازار میں ایک سندھی پرائمری اسکول کی بنیاد رکھی۔ سندھ کے اندر تعلیم کے فروغ میں ان تین ہندو برادران کا بڑا حصہ ہے۔

خان بہادر الھندو شاہ

1957ءمیں جب انگریزوں کے خلاف جنگِ آزادی لڑی جارہی تھی اسی سال نوشہرو فیروز کے علاقے کنڈیارو میں دربیلو کے قریب سید الھندو شاہ کی ولادت ہوئی جو سندھی،عربی اور فارسی کے عالم بنے اور تعلیم کے فروغ کےلیے کام کیا۔ اس وقت وسطی سندھ کے بچے تعلیم کے لیے حیدرآباد اور کراچی جاتے تھے جو مقامی لوگوں کے لیے خاصا مشکل کام تھا۔ انہوں نے 1903ء میں ’نوشہرو مدرسہ ہائی اسکول‘ قائم کیا جہاں انگریزی کے ساتھ جدید تعلیم بھی دی جاتی تھی۔ پھر انہوں نے نواب شاہ کے آس پاس کئی پرائمری اور’ اینگلو ورناکیولر‘ سکول کہا جاتا تھا قائم کیے۔ پھر انہوں نے مدرسے کے ساتھ ہاسٹل بھی تعمیر کرایا جہاں وہ خود اپنے گاؤں سے کھانا تیار کرا کر لاتے تھے اور بچوں کو کھلاتے۔ مدرسہ ہائی اسکول نوشہرو فیروز کا یہ ہاسٹل خستہ حالت میں اب بھی موجود ہے جس پر سندھ حکومت کو توجہ دینی چاہیے۔ 1918ء میں اس مدرسے کو ترقی دے کر گورنمنٹ نور محمد ہائی اسکول کا درجہ دے دیا گیا جو اب بھی نوشہرو فیروز میں چل رہا ہے۔ اس کے علاوہ الھندو شاہ نے لڑکیوں کی تعلیم کے لیے بھی کئی اسکول قائم کیے۔ انہوں نے بھی زیادہ طویل عمر نہیں پائی اور صرف 62 سال کی عمر میں 1919ء میں دربیلو میں وفات پاگئے۔ ان کے پوتے سید ظفر حسین شاہ اِس وقت سینیٹر ہیں۔

رائے بہادر کوڑو مل چندن مل کِھل نانی

اس دور کی ایک اور اہم شخصیت چندن مل کِھل نانی تھے جو 1844ء میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق بھی نوشہرو فیروز کے قریب ’بھری یا ‘سے تھا۔ دیوان کوڑو مل سندھ پر کمپنی کے قبضے کے ایک سال بعد پیدا ہوئے۔ انہوں نے جلبانی گاؤں کے مکتب میں ابتدائی تعلیم حاصل کی اور پھر کراچی سے میٹرک کرنے کی کوشش کی مگر ناکام رہے۔ اپنی نجی تعلیم کی بدولت وہ کمشنر کے دفتر میں کلرک لگ گئے اور پڑھانا بھی شروع کردیا اور ترجمے بھی کرنے لگے۔ انہوں نے کئی نصابی کتابیں سندھی میں ترجمہ کیں جس پر انہیں محکمہ تعلیم نے ملازمت دے کر حیدرآباد میں استاد لگا دیا۔وہ سکھر اور شکارپور میں ہیڈ ماسٹر کے عہدے پر بھی فائزہے۔ اُس وقت وہ سندھ میں تعلیمی اداروں کے لیے نصابی کتب تیار کرنے والے سب سے بڑے مترجم اور مصنف تھے۔

چالیس سال کی عمر میں وہ حیدرآباد میں لڑکوں کے تربیتی کالج کے پرنسپل ہوگئے اور لڑکیوں کی تعلیم وتربیت کے لیے بھی سندھی زبان میں کتابیں لکھیں۔ ملازمت سے سبک دوش ہونے کے بعد ممتحن بن گئے۔ بمبئی کے گورنر لارڈ ویلنگ ٹن نے 1916ء میں پونے میں تعلیمی کانفرنس بلائی تو سندھ سے تین ماہرین تعلیم شریک ہوئے جو دیوان کوڑو مل، مرزا قلیچ بیگ اور دیوان بل چند دیا رام تھے۔کوڑو مل نے دیوان گدو مل کے ساتھ مل کر خاصے سماجی کام کیے۔ انہیں سندھی زبان کا پہلا طویل مضمون نگار سمجھا جاتا ہے۔ اس طرح دیوان کوڑو مل جدید سندھی زبان وادب کے بانیوں میں شمار ہوتے ہیں۔ وہ کم ازکم پانچ زبانیں اچھی طرح جانتے تھے۔ انہوں نے بنگالی مصنف بنکم چندر چٹرجی کی کتاب ’رادھا رانی‘ کا سندھی ترجمہ بھی کیا۔ کوڑو مل 1916ء میں سورگ باشی ہوئے۔

سندھ دھرتی متنوع تہذیبوں کا مسکن رہی ہے اور اس کی تعلیم و تصنیف کی عریق تاریخ یہ بتاتی اورتقاضا کرتی ہے کہ اس کی مٹی میں شعور کے جو بیج بڑی محنت اور جانفشانی سے بوئے گئے ان کی آبیاری کی جاتی رہنی چاہیے اور تنگ نظری کو جگہ نہیں دی جانی چاہیے

رئیس شمس الدین بلبل

شمس الدین فروری 1857ء میں میہڑ،ضلع دادو میں پیدا ہوئے اور 1890ء میں حسن علی آفندی کے پاس کراچی چلے آئے اور ’سندھ مدرسہ الاسلام‘ میں خدمات انجام دینے لگے مگر پانچ سال بعد حسن علی آفندی کی وفات کے بعد واپس میہڑ چلے گئے۔ 1906ء میں انہوں نے میہڑ میں’ مدرسۃ الاسلام‘ کی بنیاد رکھی جو اب بھی’ مدرسہ ہائی اسکول میہڑ ‘کے نام سے موجود ہے۔ انہوں نے سندھ میں تعلیمی اداروں میں فارسی زبان کی تعلیم وتدریس جاری رکھنے کے لیے خاص محنت کی اور ساتھ ہی جدید تعلیم پر بھی زور دیتے رہے۔ اس کے ساتھ ہی کئی درسی کتب لکھیں اور ترجمہ کیں۔وہ خود نقش بندی سلسلے کے پیروکار تھے اور مخدوم نظام الدین صدیقی کے مرید تھے۔ انہوں نے صحافی اور محقق کے طور پر بھی کام کیا اور کئی سندھی اخباروں کے مدیر رہے جن میں ہفت روزہ معاون کراچی، کراچی گیزٹ، خیرخواہ لاڑکانہ، سکھر سے الحق اور حیدرآباد سے مسافر شامل ہیں۔ حاجی احمد میمن کے سکھر سے نکلنے والے اخبار’ آفتاب ‘کے بھی مدیر رہے۔ ان کی کتابوں میں ’ صد پند سود مند‘، ’ شمس المکاتب ‘، ’ احسن التواریخ ‘، ’ بہار عشق‘، ’دیوان بلبل ‘، ’ عقل اور تہذیب ‘، ’بہارستانِ بلبل‘، ’قرض جو مرض\‘، ’گنج معرفت  اور ’مسلمان اور تعلیم ‘ شامل ہیں۔ آپ 1919ء میں باسٹھ برس کی عمر میں وفات کر گئے۔

رئیس غلام محمد بھڑگری

ان کے بارے میں ہمیں دو کتابوں سے خاص معلومات حاصل ہوتی ہیں۔ ایک ضخیم کتاب محمد ہاشم لغاری نے تحریر کی ہے جو انگریزی میں غلام محمد بھرگڑی پر قابل قدر تحقیقی کام ہے۔ دوسری کتاب سائیں جی ایم سید کی یاد داشتوں پر مبنی ہے جس کا عنوان ’ میرے دوست، میرے ساتھی ‘ ہے اور جسے نسرین انجم بھٹی نے اردو میں ترجمہ کیا ہے۔ اس میں ایک مضمون غلام محمد بھرگڑی پر ہے جو بیس صفحات پر مشتمل ہے۔ غلام محمد بھرگڑی 1878ء میں میرپورخاص کے قریب کوٹ غلام محمد کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے سندھ مدرسہ اور علی گڑھ یونی ورسٹی سے تعلیم حاصل کی اور پھر انگلستان سے 1908ء میں بیرسٹر کی سند حاصل کی۔ پروفیسر شاداب احمد صدیقی اپنے مضمون میں لکھتے ہیں کہ، غلام محمد بھرگڑی نے سندھی عوام کو تعلیمی پستی سے نکالنے میں نمایاں کردار ادا کیا۔ انہوں نے بے شمار سندھی طلبہ کی تعلیم کے لیے وظائف مہیا کیے اور صحافت کے ذریعے بھی تعلیم کی ترویج میں حصہ لیا۔ اختر حفیظ نے بھی ایک طویل مضمون غلام محمد بھرگڑی کے بارے میں تحریر کیا ہے جس میں وہ بتاتے ہیں کہ انہوں نے ’ مسلم ایجوکیشن سیس بل ‘ پیش کیا جس کے ذریعے اس دور کے زمین داروں کو تعلیمی اخراجات کے لیے پیسے دینے کا کہا گیا، بعد میں یہ بل مسترد کردیا گیا۔ غلام محمد بھرگڑی نمونیا کے مرض میں مبتلا ہوکر 1924ء میں وفات پاگئے۔ اُن کی عمر صرف چھیالیس برس تھی۔

دیوان دیا رام گِدّو مل

1857ءمیں پیدا ہونے والے گِدّو مل پیشے کے اعتبار سے، تھے تو سیشن جج لیکن انہوں نے تعلیمی اور دیگر سماجی کام بہت کیے۔ میٹھا رام ٹرسٹ کے ذریعے میٹھا رام ہاسٹل بنوایا اور تعلیمی اداروں کی بڑی لگن کے ساتھ معاونت کی۔ بے شمار طلبہ وطالبات کو وظائف و وسائل مہیا کیے تاکہ وہ تعلیم حاصل کر سکیں۔ پرائمری سے لے کر اعلیٰ تعلیم تک کے فروغ کے لیے گِدّو مل کے لطف وکرم کی داستانیں پھیلی ہوئی ہیں۔ کراچی میں میٹھا رام ہاسٹل اور ہال سے نہ صرف طلبہ وطالبات بل کہ اساتذہ اور دیگر لوگ بھی ایک صدی سے زیادہ عرصہ فائدہ اٹھا چکے ہیں۔ اس کے علاوہ گِدّو مل نے کئی تعلیمی ادارے اور کتب خانے بھی تعمیر کرائے اور اُن کے چلانے کے لیے وسائل مہیا کیے تھے۔ کراچی کی مرکزی لائبریری اور ہومیوپیتھک لائبریری کے علاوہ’ ٹی بی سینی ٹو ر يم‘ اور یتیم خانوں میں تعلیم اور کتب کی فراہمی کا انتظام کرتے رہے۔ حیدرآباد کی ھیرا چند اکیڈمی اور حیدرآباد ایجوکیشن سوسائٹی کو مسلسل مالی امداد دیتے رہے۔ لڑکیوں کی تعلیم کے لیے فنڈ قائم کیا اور حیدرآباد کے نیشنل کالج کے قیام میں اہم کردار ادا کیا۔ وہ اپنا کچھ وقت بمبئی میں بھی گزارتے تھے اور وہیں آندھیری کے علاقے میں 1927ء میں ستر برس کی عمر میں سورگ باشی ہوئے۔ ان کا نام بھی سندھ میں تعلیم کے فروغ کے لیے سنہرے حروف سے لکھا جاتا ہے۔

شمس العلماء مرزا قلیچ بیگ

سائیں جی ایم سید نے اپنی یاد داشوں میں مرزا قلیچ بیگ کا سنِ پیدائش 1853ء درج کیا ہے جب کہ ڈاکٹر حبیب اللہ صدیقی نے اپنی کتاب ’ ایجوکیشن اِن سندھ ‘ میں اُن کی ولادت 1855ء درج کی ہے۔ مرزا قلیچ بیگ کے والد دراصل جارجیا یا گرجستان کے رہنے والے تھے۔ مرزا قلیچ بیگ کی پوتی مہر افروز مرزا حبیب نے ’ جارجین ساگا ‘ کے نام سے کتاب لکھی ہے جس میں مرزا قلیچ بیگ کے خاندان کی صرف ایک نسل پہلے جارجیا سے سندھ آمد کا تفصیلی بیان ہے۔ ان کے مطابق مرزا قلیچ بیگ کا سنِ ولادت 1853ء ہے اور وہ حیدرآباد کے قریب ٹنڈو ٹھوڑو میں پیدا ہوئے۔ ڈاکٹر قاسم بگھیو نے قلیچ بیگ چیئر کے ڈائریکٹر ہوتے ہوئے مرزا صاحب کی تقریروں اور تحریروں کا مجموعہ شائع کیا جو خاصہ کار آمد ہے۔ مرزا قلیچ بیگ اخوند ولی محمد کے مکتب میں سادھو ہیرا نند اور دیوان گدو مل کے ہم جماعت تھے۔ مرزا صاحب اپنے دور کی سب سے بڑی سندھی علمی شخصیت کے طور پر ابھرے۔ انہوں نے 140 سے زیادہ کتابیں لکھیں۔انہوں نے کم عمری سے ہی دوسروں کو تعلیم دینا شروع کردی تھی اور ابھی اسکول میں تھے کہ لوگ اُن سے فارسی پڑھنے آنے لگے۔ پھر انہوں نے ’الفنٹن کالج بمبئی‘ میں پڑھتے ہوئے وہاں درس وتدریس کا سلسلہ بھی شروع کردیا۔

وہ سندھی، فارسی، ترکی اور انگریزی میں مہارت سے لکھتے پڑھتے تھے اور ایک شاعر، ماہر تعلیم اور معلم کے طور پر سندھ میں اُن کا بڑا مقام ہے۔ جی ایم سید لکھتے ہیں کہ ’ انہیں تنگ نظری اور تعصب سے مرزا قلیچ بیگ نے نکالا‘۔مرزا صاحب نے ہی پہلی سندھی ادبی کانفرنس لاڑکانہ میں منعقد کرائی۔ اگر کتابوں کے ساتھ اُن کے کتابچے بھی شامل کرلیے جائیں تو انہوں نے اپنی پچاس سالہ زندگی میں ساڑے چار سو سے زائد تصانیف اور تراجم چھوڑے ہیں۔ اُن میں عربی،بلوچی،انگریزی، فارسی،سندھی، سرائیکی،ترکی اور اُردو زبان میں تحریریں شامل ہیں۔انہوں نے سندھی عوام کو تاریخ اور لطیفیات کی تعلیم پر تنقید اور سائنس کی تحریروں سے روشناس کرایا۔انہوں نے ’ زینت ‘ کے نام سے پہلا سندھی ناول لکھا اور ابتدائی سندھی ڈراموں میں سے ایک ’ خورشید ‘ بھی تحریر کیا۔ انہوں نے ہی اب سب سے پہلے ’چچ نامہ ‘ کا فارسی سے انگریزی ترجمہ کیا جس کا 1900ء میں شائع ہونے والا ایک نسخہ راقم کے پاس موجود ہے۔

حاجی خان سیال نے اپنے ایک مضمون میں مرزا قلیچ بیگ کو سندھ کا شیکسپئر کہا ہے اور کہا ہے کہ مرزا قلیچ بیگ نے 32 ڈرامے تحریر کیے جن میں تاریخی،سماجی مسائل کے علاوہ عشقیہ اور مزاحیہ موضوعات کو بھی شامل کیا ہے۔ 1880ءمیں انہوں نے پہلا ڈرامہ لیلی مجنوں ہندی سے سندھی میں ترجمہ کیا، اس وقت اُن کی عمر تیئس سال کی تھی۔ جب کہ آخری ڈرامہ ’ موہنی ‘ تھا جس کا 1924ء میں ہندی سے سندھی میں ترجمہ کیا۔ لیاقت راجپر نے بھی مرزا قلیچ بیگ پر ایک اچھا مضمون تحریر کیا ہے۔ مرزا صاحب 1929ء میں وفات پاگئے مگر اُن کے ادبی، علمی اور تعلیمی کام کی قدر صدیوں برقرار رہے گی۔ مرزا قلیچ بیگ کے ناول ’ زینت ‘ کا انگریزی ترجمہ زنیرہ یوسف نے کیا ہے جب کہ اُن کی آپ بیتی’” برگ سبز یا قرطاس سیاہ ‘ کا اُردو ترجمہ شہناز شورو نے کیا ہے۔ زیب سندھی نے اُن کے بارے میں مضامین اور انٹرویو زکی کتاب تالیف کی ہے۔

ڈاکٹر ہوت چند مول چند گربخشانی

گربخشانی 1883ء میں پیدا ہوئے اور وہ سندھ میں ’ شاہ جو رسالو ‘ کے پہلے ایڈیٹر کے طور پر پہچانے جاتے ہیں۔ ان کی تعلیمی خدمات کی فہرست طویل ہے۔ وہ بمبئی کے ولسن کالج میں فارسی پروفیسر رہے اور بعد میں لندن سے پی ایچ ڈی کی۔ اس کے بعد ڈی جے سندھ کالج کراچی کے پرنسپل مقرر ہوئے۔ اُن کے شاگردوں میں ڈاکٹر داؤد پوتا،ایوب کھوڑو،میران محمد شاہ اور دیگر شامل ہیں۔ ڈاکٹر گربخشانی سندھی کے بڑے اسکالر تھے اور انہوں نے تاریخی ناول ’ نورجہاں ‘ بھی تحریر کیا۔ اس کے وعلاوہ ’ مقدمہ لطیفی ‘، ’ روح رہاٹ ‘ اور شاہ لطیف کی شاعری کی تالیف و تدوین ہے جو انہوں نے بخوبی انجام دی۔ ڈاکٹر گربخشانی نے چونسٹھ سال کی عمر میں فروری 1947ء میں وفات پائی اور تقسیم ھند کے نتیجے میں ہونے والے فسادات سے قبل ہی دنیا سے کوچ کرگئے۔ تعلیمِ سندھ کے لیے اُن کی خدمات بھی لازوال رہیں گی۔

شمس العلماء ڈاکٹر عمر بن داؤد پوتا

سائیں جی ایم سید نے اپنی یاد داشتوں میں ڈاکٹر داؤد پوتا کے بارے میں دس صفحات پر مشتمل مضمون لکھا ہے جس سے ہمیں اُن کے بارے میں تفصیلی معلومات ملتی ہیں۔ جی ایم سید اُن کا سنِ پیدائش 1897ء لکھتے ہیں جب کہ ڈاکٹر حبیب الله صدیقی نے 1896ء تحریر کیا ہے۔

عمر بن داؤد پوتا نے’ سندھ مدرسہ‘ اور پھر ’دیا رام جیٹھ مل سندھ آرٹ کالج‘ سے فارسی میں فرسٹ کلاس سے فارغ التحصیل ہوئے۔ اس کے بعد بمبئی یونی ورسٹی میں فارسی اور عربی میں ایم اے کی اسناد لیں۔ بعدازاں ڈی جے کالج میں پروفیسر ہوگئے۔ 1927ء میں جب کیمبرج یونی ورسٹی سے پی ایچ ڈی کر کے واپس آئے تواس وقت ان کی عمر تیس سال تھی۔واپسی پر انہیں سندھ مدرسے کے پرنسپل کا عہدہ ملا جس پر وہ 1930 ءتک فائزرہے۔ اس کے بعد آندھیری بمبئی میں اسماعیل کالج میں عربی کے پروفیسر بن گئے جہاں انہوں نےتقریباً دس سال خدمات انجام دیں۔ ڈاکٹر داؤد پوتا بمبئی یونی ورسٹی کی سینیٹ کے رکن بھی رہے۔ اس دوران انہوں نے ’ تاریخ معصومی ‘، ’ چچ نامہ ‘، ’ بیان العارفین ‘ اور ابیاتِ سندھی کی شرح کے ساتھ ’سرھاگل‘ وغیرہ جیسی کتابیں بھی لکھیں۔1940ءسے 1950ء تک وہ سندھ سرکار کی طرف سے ڈائریکٹر پبلک انسٹرکشن کے عہدے پر فائزرہے۔ اس دوران انہوں نے سندھ میں لازمی تعلیم کے اجرا کے لیے کوشش کیں۔ تعلیمِ بالغان کا انتظام کیا اور پرائمری اسکولوں کا نظم ونسق بہتر کرنے کی کوشش کی۔انہوں نے سندھ یونی ورسٹی کے قیام میں بھی کردار ادا کیا۔ ڈاکٹر داؤد پوتا 1958ء میں باسٹھ سال کی عمر میں فوت ہوئے۔

خان بہادر نور الدین غلام علی نانا

1880ءمیں پیدا ہونے والے غلام علی نانا نے حیدرآباد میں ابتدائی تعلیم حاصل کی،پھر ’سندھ مدرسہ الاسلام‘ سے میٹرک کیا اور ڈی جے سندھ کالج سے بیچلرز کی سند لی۔ اس کے بعد خیرپور میرس کے مڈل اسکول کے ہیڈ ماسٹر ہوگئے جو بعد میں ناز ہائی اسکول کے نام سے مشہور ہوا۔ بعد میں وکٹوریا ہائی اسکول خیر گڑھ کے ہیڈ ماسٹر رہے۔ سندھ میں تعلیم کی ترویج میں غلام علی نانا کا بھی اہم حصہ ہے اور سندھ کے ایجوکیشن انسپکٹر کے طور پر انہوں نے شان دار خدمات انجام دیں جس پر انہیں ’خان بہادر‘ کا خطاب ملا۔وہ سندھ میں روایتی کے مقابلے میں جدید تعلیم کے بڑے علمبردار تھے اور نوجوانوں کو مغربی تعلیم حاصل کرنے کی جانب راغب کرتے تھے۔

علامہ آئی آئی قاضی

ان کا پورا نام امداد امام قاضی تھا۔ وہ 1886ء میں پاٹ کے گاؤں میں پیدا ہوئے۔ابتدائی تعلیم کے بعد اعلی تعلیم کے لیے برطانیہ گئے جہاں سے قانون کی تعلیم لی اور واپسی پہ حیدرآباد اور خیرپور میں جج بنے۔ بیرونِ ملک تعلیمی سفر کے دوران جرمنی بھی گئے جہاں انہوں نے ایلسا سے شادی کرلی جو بعد میں ایلسا قاضی کے نام سے مشہور ہوئیں۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ آئی آئی قاضی قیام پاکستان کے بعد انگلستان چلے گئے تھے جہاں انہوں نے چار برس گزارے،پھر دوستوں کے اصرار پر واپس آئے۔انہوں نے 1951ء میں سندھ یونی ورسٹی کے وائس چانسلر کا عہدہ سنبھالا۔ اس یونی ورسٹی کی تعمیر و ترقی میں قاضی صاحب کا بڑا حصہ ہے۔ پہلے یہ صرف امتحانی ادارہ تھی لیکن قاضی صاحب نے اسے تعلیمی ادارہ بنایا۔

پاکستان میں مارشل لاء کے نفاذ کے بعد مئی 1959ء میں قاضی صاحب نے آٹھ سال سندھ یونی ورسٹی کو دینے کے بعد اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ اس کے بعد وہ زیادہ تر تصنیف و تالیف کے کاموں میں مصروف رہے۔ تعلیم کے شعبے میں اُن کا سب سے بڑا کام سندھ یونی ورسٹی کو ایک اعلیٰ تعلیمی ادارے کے طور پر کھڑا کرنا تھا۔ ان کے دور میں یکے بعد دیگرے کئی شعبے قائم ہوئے۔ راشد حمید اور صفدر رشید کی مثالی اساتذہ پر کتاب ’ روشنی کے سفیر ‘ مطبوعہ ادارہِ فروغ قومی زبان، میں آئی آئی قاضی کے بارے میں ڈاکٹر ظفر حسین نے مضمون لکھا ہے جس میں وہ ہمیں بتاتے ہیں کہ،علامہ قاضی نے سندھ یونی ورسٹی کو الگ ٹاؤن اور کیمپس دلانے میں اہم کردار ادا کیا۔اور ایجوکیشن، تقابلِ ادیان اور اسلامی کلچر کے شعبہ جات بھی شروع کیے۔ انہوں نے قابل ترین اساتذہ بھرتی کیے،ان کے دور میں طلبہ کی تعداد دو ہزار سے چھ ہزار تک پہنچ گئی اور الحاق شدہ کالجوں کی تعداد پانچ سے بیس تک لے گئے اور پہلی بار یونی ورسٹی میں پرائیویٹ امیدواروں کے لیے امتحان دینے کا نظام بھی متعارف کرایا۔ پاکستان میں یونی ورسٹی ٹاؤن کا تصور بھی پہلی بار علامہ آئی آئی قاضی نے پیش کیا جو بعد میں تمام جامعات میں شامل ہوا۔ انہوں نے شہر سے دور یونی ورسٹی کے لیے بڑے رقبے کے حصول پر زور دیا کیوں کہ اسی طرح ہی ایک بڑی جامعہ پروان چڑھ سکتی ہے۔ علامہ آئی آئی قاضی سندھ میں تعلیم کا بڑا نام رہیں گے۔

ہوشنگ نادر شاہ ادولجی ڈنشا

سندھ میں تعلیم کی ترقی کے لیے پارسی افراد نے بھی بڑا کام کیا ہے اُن میں ایک عظیم نام ہوشنگ نادر شاه کا بھی ہے۔ جن کے والد نادر شاه ادولجی ڈنشا کے نام پر ’این ای ڈی یونی ورسٹی‘ آج بھی قائم ہے۔ یہ لوگ انیسویں صدی میں پُونے سے نقل مکانی کر کے کراچی میں آباد ہوئے اور تجارت میں نام کمایا۔ہوشنگ نادر شاه 1884 ءمیں حیدرآباد دکن میں پیدا ہوئے اور کراچی کے این جے وی اسکول اور ڈی جے کالج سے تعلیم حاصل کی۔تقریباً تیس سال کراچی میونسپلٹی کے رکن رہے۔ انہوں نے اپنے بھائیوں منوچہر، فریدوں اور رستم کے ساتھ مل کر اپنے والد نادر شاه کے نام پر کراچی میں انجینئرنگ کالج کھولا جس کا نام ’این ای ڈی کالج‘ رکھا گیا۔ یہ کالج 1922ء میں قائم ہوا۔ اب یہ ایک بڑی جامعہ ہے۔ انہوں نے دیگر کئی تعلیمی اداروں اور ہسپتالوں کے لیے بھی بے شمار عطیات دیے۔

جمشید نسروانجی مہتا

1886ءمیں پیدا ہونے والے جمشید مہتا 1921 ءسے 1933ء تک کراچی میونسپلٹی کے صدر یا میئر کے عہدے پرفائز رہے اور اس عرصے میں کراچی کی تعلیم و ترقی کے لیے بہت کام کیے۔ کراچی کے پارسی خاندانوں میں مہتا خاندان کا بھی بڑا نام تھا جو اپنے سماجی کاموں کی بدولت عزت و احترام سے دیکھے جاتے تھے۔کئی تعلیمی اداروں کی سرپرستی کرنے اور سینکڑوں طلبہ وطالبات کو وظیفے عطا کرنے کے بعد جمشید نسروانجی مہتا 1952ء کو چھیاسٹھ برس کی عمر میں اس دنیا سے سدھار گئے مگر سندھ میں تعلیمی اور فلاحی طور پر گہرےنقوش چھوڑ گئے۔

ڈاکٹر نبی بخش بلوچ

ڈاکٹر نبی بخش بلوچ تعلیم و تحقیق کے حوالے سے سندھ کا ایک بڑا نام ہیں جنہوں نے سندھی زبان وادب کے حوالے سے گراں قدر خدمات انجام دیں۔ چاہے وہ سندھ کی لوک کہانیاں ہوں یا لغات جیسا عرق ریزی کام نبی بخش ہمیشہ سرگرم رہے۔ ان کے بارے میں ڈاکٹر قاسم بگھیو اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ بڑے بڑے صدور، وزراء اور افسر ڈاکٹر نبی بخش بلوچ سےجھک کر ملتے تھے۔

وہ 1917ء میں سنجھورو سندھ میں پیدا ہوئے اور 94 سال کی عمر میں حیدرآباد میں فوت ہوئے۔ اُن کے موضوعات تاریخ اور تعلیم سے لے کر لوک ادب، آثاریات، بشریات، موسیقی،ثقافت اور تمدن تک پہلے ہوئے تھے۔ اُن کی تحریریں انگریزی، عربی، فارسی، اُردو اور سندھی زبانوں میں شائع ہوئیں۔ وہ شیخ ایاز سے قبل تین سال یعنی 1973ء سے 1976ء تک سندھ یونی ورسٹی کے وائس چانسلر رہے اور پھر تیرہ سال وفاقی حکومت کے ’محکمہ ثقافت‘ وغیرہ میں کام کرتے رہے۔اس سے قبل سندھ یونی ورسٹی میں شعبہ سندھی کے اور لینگویج اتھارٹی کے بھی پہلے سربراہ رہے۔سندھ میں ان کا پائے کے ماہر تعلیم اور ماہر لسانیات کی حیثیت سے اعلی مقام ہے۔ تعلیم کے موضوع پر اُن کی تحریریں اور تقریریں بھی بے مثال ہیں۔ انہوں نے سندھی کے اساسی شعراء پر تحقیق اور تنقید کو ایک نئی جہت عطا کی۔ سندھی زبان کی جامع لغات تیار کیں اور سندھی زبان و ادب کے ساتھ ’شاہ جو رسالو‘ کی ترتیب اور لغت کی تیاری پر بہت کام کیا۔ آپ کی تصانیف کی تعداد درجنوں میں ہے۔وہ 2011ء میں فوت ہوئے اور سندھ یونی ورسٹی میں ان کی تدفین ہوئی۔

پیر حُسّام الدین راشدی

جدید سندھ کے دو راشدی برادران تھے، پیر علی محمد راشدی اور پیر حُسّام الدین راشدی۔ لاڑکانے سے تعلق رکھنے والے دونوں بھائی تعلیمی اداروں کی اسناد سے عاری تھے لیکن خود اپنے مطالعے اور مشاہدے کے بل پر اعلی علمی مقام تک پہنچے۔

بڑے بھائی علی محمد راشدی اسکالر بھی تھے اور سیاست دان بھی، جب کہ پیر حُسّام الدین راشدی خالصتاً محقق اور اسکالر تھے۔ 1911ء میں لاڑکانے کے قریب پیدا ہوئے اور ذاتی مطالعے اور محنت کی بنیاد پر پاکستان کے چوٹی کے ادیبوں اور عالموں کی صف تک پہنچے اور تاریخ و ادب کے ماہرین میں شمار ہونے لگے۔ پیر حُسّام الدین کے کتب خانے میں ہزاروں کتابیں تھیں اور وہ صحافت اور تعلیم دونوں شعبوں میں کام کرتے رہے۔ سندھی ادبی بورڈ کے رکن بنے اور انجمن ترقی اُردو میں مولوی عبدالحق کے شریک کار رہے۔ اُردو ڈویلپمنٹ بورڈ کی بنیاد رکھی۔ لیاقت نیشنل لائبریری کےمشاورتی بورڈمیں شامل رہے۔ نیشنل میوزیم بنانے والے بانی ارکان میں سے ایک تھے۔ 1957 ءمیں کراچی یونی ورسٹی اکیڈمک کونسل میں انہیں رکن بنایا گیا اور سندھ یونی ورسٹی سینیٹ کے بھی رکن رہے۔ پنجاب یونی ورسٹی کی ریسرچ سوسائٹی آف پاکستان میں بھی ان کا نام نمایاں رہا۔ ان کی تصانیف کی تعداد پچاس سے زیادہ ہے اوروہ بین الاقوامی طور پر اعلی ترین جامعات میں بھی لیکچر دیتے رہے۔ پیر حُسّام الدین نےاکہتر برس کی عمر میں 1982ء میں وفات پائی۔

علامہ غلام مصطفیٰ قاسمی

1916ءمیں لاڑکانہ کے قریب ایک گاؤں میں پیدا ہونے والے علامہ قاسمی بھی سندھ کے ایک بڑے معلم رہے ہیں۔ انہوں نے ایک مدرسے سے تدریس کا آغاز کیا۔ وہ دالعلوم دیوبند سے فارغ التحصیل تھے اور مولانا حسین احمد مدنی کے شاگرد رہ چکے تھے۔

معلم ہونے کے ساتھ علامہ قاسمی ایک تربیت یافتہ حکیم بھی تھے اور مولانا عبیداللہ سندھی کی قربت میں مذہبی فلسفے پر عبور حاصل کرچکے تھے۔ کچھ عرصہ’ سندھ مدرسہ الاسلام ‘میں عربی پڑھانے کے بعد سندھ مسلم کالج کراچی میں اسلامیات کے استاد مقرر ہوئے جہاں انہوں نے 1963 ءتک خدمات انجام دیں۔ ازاں بعد وہ شاہ ولی اللہ اکیڈمی حیدرآباد کے ڈائریکٹر ہوگئے۔ 1977ءسے 1989 ءتک وہ سندھی ادبی بورڈ کے چیئرمین رہے اور تین علمی وادبی جریدے جاری کیے: سندھی زبان کا جریدہ ’ الرحیم ‘، اُردو کا’ الولی‘اور انگریزی میں ’الحکمت‘۔ سندھ یونی ورسٹی میں وزیٹنگ پروفیسر اور پی ایچ ڈی گائیڈ کے طور پر انہوں نے بے شمار طالبانِ علم کی رہ نمائی کی۔ اُن کے شاگردوں میں غلام علی الانہ، عبدالجبار جونیجو، عبدالکریم سندیلو، عبدالمجید سندھی، ایاز قادری اور حبیب الله صدیقی شامل تھے۔ انہوں نے ستائیس طلبہ کی پی ایچ ڈی تقابل ادیان میں، دو کی مسلم تاریخ میں، تین کی عربی میں،تین کی فارسی میں اور دو کو اُردو میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری لینے میں رہ نمائی اور معاونت کی۔ علامہ قاسمی 2003ء میں ستاسی برس کی عمر میں وفات پاگئے۔

ڈاکٹر غلام مصطفی خان

جبل پور سی پی میں 1912ء میں پیدا ہونے والے غلام مصطفیٰ خان تقسیم کے بعد حیدرآباد سندھ آگئے اور ترانوے برس کی عمر پاکر 2005ء میں فوت ہوئے۔ علیگڑھ مسلم یونی ورسٹی سے ایم اے اُردو اور ایم اے فارسی کے بعد ایل ایل بی اور پی ایچ ڈی کی اسناد حاصل کیں۔ ڈاکٹر آف لٹریچر (ڈی لٹ) کی ڈگری ناگپور یونی ورسٹی سے حاصل کی۔ کراچی کے اسلامیہ کالج، اُردو کالج اور جامعہ کراچی میں تدریس کرتے رہے۔ 1956ءمیں علامہ آئی آئی قاضی کے اصرار پر سندھ یونی ورسٹی کے شعبہ اُردو کے سربراہ بن گئے۔ 1985 ءتک یعنی تقریباً تیس سال سندھ یونی ورسٹی میں اُردو کے پروفیسر رہنے کے بعد ریٹائر ہوئے۔

غلام مصطفیٰ خان پاکستان کی جامعات میں پہلے ڈی لٹ پروفیسر تھے اور فارسی شعراء پر اُن کی بہت وسیع تحقیق تھی۔ اُن کے درجنوں مضامین اسلامی انسائی کلو پیڈیا میں شائع ہوئے۔ بہرام شاہ کی تاریخ انگریزی میں لکھی اور انگریزی میں ہی ’ برصغیر کے فارسی ادب کی تاریخ‘ بھی تحریر فرمائی۔ اس طرح اُن کی تصنیفات کی مجموعی تعداد سو کے قریب ہے۔ جن میں ’ فارسی پر اُردو کا اثر ‘، ’ حالی کا ذہنی ارتقا‘، ’ علمی نویش ‘، ’اقبال اور قرآن ‘، ’ مطالعہ القرآن ‘، ’جامع القواعد ‘، ’معارف اقبال ‘ اور دیگر کتابیں اور تالیفات شامل ہیں۔ انہوں نے ڈاکٹر این اے بلوچ کے ساتھ مل کر دو ضخیم لغات ’ اُردو سندھی لغت ‘ اور ’سندھی اردو لغت ‘ بھی مرتب کیں۔ انہوں نے پاکستان میں تحقیق کے موضوع پر اولین مضامین لکھے، فنِ تحقیق کو نصاب میں شامل کرایا اور فنِ تحقیق کے اصول بھی مرتب کیے۔ اقبالیات کو بطور مضمون متعارف کرانے کا سہرا بھی ان کے سر ہے۔

ڈاکٹر حمیدہ کھوڑو

حمیدہ کھوڑو 1936ء میں لاڑکانہ کہ ایک گاؤں میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد ایوب کھوڑو تحریک پاکستان اور مسلم لیگ سندھ کے قائدین میں شامل تھے۔ حمیدہ کھوڑو نے صرف تیس سال کی عمر میں لندن یونی ورسٹی سے پی ایچ ڈی کی سند لی اور پھر تین برس آکسفورڈ یونی ورسٹی کی فیلو رہیں۔پانچ سال کراچی یونی ورسٹی میں پڑھانے کے بعد ڈاکٹر حمیدہ کھوڑو 1973ء میں سندھ یونی ورسٹی کے شعبہ تاریخ میں پروفیسر ہوگئیں۔ سندھ یونی ورسٹی میں ’پاکستان اسٹڈی سینٹر‘ قائم کیا اور ریسرچ جرنل نکالے۔ کئی کانفرنسوں کا انعقاد کیا۔ لیکن پھر وہ سیاست میں آگئیں، سندھ کے حقوق اور صوبائی خودمختاری کی سیاست کی اور جی ایم سید کے فلسفے کو اپنایا۔ سندھ نیشنل الائنس کے تحت محترمہ نصرت بھٹو کے خلاف الیکشن لڑا مگر ناکام رہیں۔ 1990ءمیں جام صادق علی کی سندھ میں نگران حکومت نے انہیں نگران وزیر تعلیم مقرر کیا۔ اسی دوران صرف چار مہینے میں انہوں نے سندھ میں بے روزگاروں کو بڑی تعداد میں استاد کی ملازمتیں دیں۔ پھر مسلم لیگ نواز میں شامل ہوگئیں۔ 2002ء کے بعد صدر مشرف کے دور میں سندھ کی وزیر تعلیم بنیں اور پانچ سال اسی عہدے پر فائزرہیں۔

انیتا غلام علی

1934ءمیں کراچی میں جسٹس غلام علی کے گھران کی ولادت ہوئی۔ پچیس سال کی عمر میں جامعہ کراچی سے حیاتیات میں ایم ایس سی کیا اور سندھ مسلم سائنس کالج میں پہلےاستاد اور پھر شعبہ حیاتیات کی صدر بنیں۔ 1997ء میں نگران وزیر تعلیم بنیں۔ انیتا غلام علی کے دادا جسٹس غلام علی ان کے بے حد قریب تھے اس لیے انہوں نے اپنے والد فیروز نانا کی بجائے دادا غلام علی کا نام اپنایا۔ 1950ء سے 1970ء تک ریڈیو پاکستان سے انگریزی میں خبریں بھی پڑ ھیں۔ پھر پاکستان ٹیچرز ایسوسی ایشن یا انجمن اساتذہ کی صدر بنیں اور پولیس کی لاٹھیاں بھی کھائیں۔ 1985ء میں سندھ ایجوکیشن فاؤنڈیشن کی بانی سربراہ بنیں۔ 2014ء میں 80 سال کی عمر میں وفات پائی۔

ابراہیم جویو

1915ءمیں جام شورو میں پیدا ہوئے اور بمبئی سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد’ سندھ مدرسہ حیدرآباد‘ میں نائب استاد مقرر ہوئے۔ 1960ء کے عشرے میں ٹیکسٹ بک بورڈ لاھور، کراچی، کوئٹہ اور حیدرآباد میں تعینات رہے۔ پانچ سال اعزازی سیکریٹری سندھی ادبی بورڈ رکے منصب پر فائز رہے۔ ون یونٹ کے خاتمے کے بعد انہیں ڈائریکٹوریٹ آف ایجوکیشن حیدرآباد میں تعینات کیا گیا۔زاپنے طویل تعلیمی سفر میں ابراہیم جویو’ سندھ ٹیکسٹ بک کے رکن, بیورو آف کری کولم ‘کے ڈائریکٹر اور پھر سیکریٹری سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ رہے۔ان کی تصانیف کی تعداد بھی درجنوں میں ہے اور سندھ میں اُن کی علمی وادبی قد وقامت کے لوگ بڑی قدر و منزلت سے دیکھے جاتے ہیں۔

ڈاکٹر مبارک علی

1942ءمیں راجستھان میں پیدا ہوئے اور تقسیم کے بعد حیدرآباد میں سکونت اختیار کی۔ سندھ یونی ورسٹی سے تاریخ میں ایم اے کرنے کے بعد وہیں پہ تاریخ کا مضمون پڑھانے لگے۔ پھر جرمنی سے پی ایچ ڈی مکمل کی اور واپس آکردوبارہ سندھ یونی ورسٹی میں ہی پڑھانے لگے۔ پاکستان اور سندھ کی تاریخ پر اُن کا بڑا کام ہے۔ اُن کی تصنیفات،تالیفات اور ترجموں کی تعداد سو سے زیادہ ہے۔ انہوں نے پاکستان میں تاریخ کی تعلیم کو ایک نیا رخ دیا اور سرکاری بیانیوں سے ہٹ کر طالب علموں کو پڑھنے اور سیکھنے کا ڈھنگ سکھایا۔ ان کی تاریخ نویسی ہر قسم کے قومی،لسانی اور مذہبی یا فرقہ وارانہ تعصبات سے پاک ہے۔ انہیں بلاشبہ پاکستان میں تاریخ کی تعلیم کو ایک نیا رخ دینے کا سہرا جاتا ہے۔

ڈاکٹر ابواللیث صدیقی

1916ءمیں آگرہ میں پیدا ہونے والے ابوللیث صدیقی نےعلی گڑھ یونی ورسٹی سے ’ لکھنو کا دبستان شاعری ‘ کے موضوع پر پی ایچ ڈی کی۔ ملکی اور بین الاقوامی سطح پر اعلی ترین تعلیمی اداروں میں تدریس کے فرائض انجام دے کر ہزاروں طالب علموں کو اپنے علم سے فیض یاب کیا۔ 1956ء سے 1976ء تک، بیس سال کراچی یونی ورسٹی میں پڑھا کر پروفیسر ایم ری طس بن گئے۔ اُردو لغت بورڈ سے وابستہ رہے اور چھ جلدوں میں اُردو لغت مرتب کی، نصابی نوعیت کی کئی ادبی تصانیف تخلیق کیں جن میں آج کا اُردو ادب، تاریخ زبان وادب اُردو، روایت اور تجربے،غزل اور متغز لین،مصحفی اور اس کا عہد،جرأت اور اس کا عہد، نظیر اکبر آبادی اور اس کا عہد، شامل ہیں۔

ڈاکٹر ذکی حسن

ڈاکٹر حسن پاکستان میں طب کے شعبے سے وابستہ بے مثال اساتذہ میں شمار کیے جاسکتے ہیں۔ ذکی حسن نے 1927ء میں آنکھ کھولی اور حیدرآباد دکن میں ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد نیورو لوجی اور نفسیات میں اعلی تعلیم حاصل کی۔ وہ بیس سال یعنی 1967ء سے 1987ء تک جناح ہسپتال اور اس سے ملحقہ کالج میں پڑھاتے رہے۔ نیو رو سائی کیٹری کے شعبے میں انہوں نے سینکڑوں نوجوان طلبہ وطالبات کی رہ نمائی کی۔ نرسنگ سکول میں پڑھایا اور کراچی یونی ورسٹی کے نفسیات،عمرانیات اور سماجی اُمور کے شعبوں میں بھی تعلیم دیتے رہے۔ وہ ایک اعلی پائے کے محقق بھی تھے، مرگی کے ساتھ شی زو فرینیيا جیسے دماغی امراض پر خاصی تحقیق کی۔بلاشبہ سندھ میں تعلیم کے شعبے میں ان کا بڑا نام اور کام ہے جو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

یہ جدید عہد میں سندھ کے اندر تعلیم سے جڑی شخصیات اور ان کے کام کی مختصر تاریخ ہے۔ اس پر ایک نظر ڈالنے سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس خطے میں تعلیم کا ارتقائی سفر کیسا رہا اور سب سے اہم یہ کہ یہاں تعلیم کو فروغ دینے والوں میں کتنے ہی بڑے نام غیرمسلموں کے ہیں جنہوں نے تقسیم سے قبل یہاں کے لوگوں میں علم وشعور کی شمع جلانے کے لیے بہترین ادارے قائم کیے اور انہیں کامیاب بنانے کے لیے انتھک جدوجہد کی۔سندھ دھرتی متنوع تہذیبوں کا مسکن رہی ہے اور اس کی تعلیم و تصنیف کی عریق تاریخ یہ بتاتی اورتقاضا کرتی ہے کہ اس کی مٹی میں شعور کے جو بیج بڑی محنت اور جانفشانی سے بوئے گئے ان کی آبیاری کی جاتی رہنی چاہیے اور تنگ نظری کو جگہ نہیں دی جانی چاہیے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...