ایران کی حجاب کہانی: ایک طویل کشمکش جس میں کئی اُتار چڑھاؤ آئے

754

ایران میں حجاب پہننے یا نہ پہننے کے حوالے سے ایک تاریخی کشمکش رہی ہے جو ایک صدی سے بھی زائد عرصے پر محیط ہے۔ آج ایران کے مذہبی حکام کہتے ہیں کہ ’حجاب دشمن کے خلاف جنگ میں ہماری پہلی ڈھال ہے، اگر یہ ٹوٹ گئی تو باقی تہذیبی محاذوں پر بھی ہار جائیں گے‘۔ لیکن ایران میں یہ تصور مذہبی انقلاب کے بعد کا نہیں ہے، پہلے بھی کچھ ایسی ہی صورتحال رہی ہے۔ تہران میں پہلی بار 1848ء میں ایک خاتون طاہرہ قرۃ العین نے باہر نکل احتجاجاً اپنے چہرے سے نقاب اُتار دیا تھا۔ البتہ یہ کشمکش یکطرفہ نہیں رہی۔ ایک وقت ایسا بھی آیا جب ایران میں حجاب پہننے پر قانونی پابندی عائد کردی گئی تھی اور اس پر احتجاج کرنے پہ 1600 افراد مار دیے گئے تھے۔ یہ رپورٹ ایران میں حجاب کے مسئلے پر تاریخی کشمکش پہ روشنی ڈالتی ہے۔

بیسویں صدی کے آغاز میں جب ایران کے اندر مظفرالدین قاجار کی حکومت تھی تو ملک میں بادشاہ کے اختیارات کو محدود کرنے اور آئینی حقوق متعارف کرانے کے لیے ’دستوری انقلاب‘ کی تحریک چلی۔ یہ ایشیا کا پہلا آئینی انقلاب تھا اور اسے ایران کے کئی شیعہ مراجع کی حمایت بھی حاصل تھی۔ یہ تحریک اگست 1908ء میں کامیاب ہوگئی۔ اس تحریک میں خواتین نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا۔ محترم اسکندری ایران میں حقوقِ نسواں کے ضمن میں ایک بڑا نام ہے جنہوں نے ملک میں خواتین کے حقوق کی پہلی تنظیم ’جمعیت نسوانِ وطنخواہ‘ کی بنیاد رکھی تھی۔ آئینی انقلاب کی تحریک کے دوران وہ تقریبا پندرہ برس کی تھیں۔ ان کے والد انقلاب کے بعد تشکیل پانے والی پارلیمنٹ کے رکن منتخب ہوئے تھے۔ تحریک کی کامیابی سے قبل محترم اسکندری نے اپنے والد کے دوستوں کے درمیان بیٹھے سوال کیا کہ آپ لوگ انقلاب کی کامیابی کے بعد خواتین کے حقوق کے حوالے سے کیا پیش رفت متوقع دیکھتے ہیں؟ ایرانی مصنف مرزا طاہر وہاں موجود تھے انہوں نے سوال سن کر کہا کہ ’تمہیں بس اپنے حجاب کے بارے میں سوچنا چاہیے کیونکہ تم بڑی ہوگئی ہو‘۔

آئینی تحریک کے دوران بہت سی خواتین بھی سڑکوں پر نکلتی رہیں اور اپنے حقوق کے لیے مطالبات کیے، لیکن تحریک کے رہنما مرد ان خواتین سے لاتعلقی کا اظہار کرتے رہے جو لڑکیوں کے لیے تعلیم کی فراہمی اور حجاب کو غیرضروری قرار دیے جانے کے لیے مظاہرے کرتیں۔ 1907ء میں تہران کے اندر خواتین کا ایک گروہ حجاب اُتار کر باہر نکلا اور ’انقلاب زندہ باد‘ کے نعرے لگائے۔ اس پر مرد رہنماؤں نے بیان جاری کیا کہ دستوری تحریک کا ان ’فاحشہ عورتوں‘ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ لادین ہیں اور اس تحریک کو بدنام کرنے کے لیے مخالفین نے اتاری ہیں۔

ایران میں پچھلی ڈیڑھ صدی کے دوران نظام اور قوانین کی اصلاحات کے لیے بہت سی تحریکیں چلیں، لیکن خواتین نے اپنے حقوق کے لیے خود ہی قربانیاں دی ہیں۔ حجاب بھی ایک ایسا ہی مسئلہ ہے۔ سب سے پہلی خاتون جس نے باہر نکل کر احتجاجا اپنے چہرے سے نقاب ہٹایا تھا وہ طاہرہ قرۃ العین تھیں اور یہ 1848ء کا واقعہ ہے۔ زہرہ خانم تاج السلطنہ، ناصرالدین قاجاری کی بیٹی تھیں۔ انہوں نے اپنی یادداشتیں قلم بند کیں، اس کتاب میں خواتین کی صورتحال سے متعلق لکھا ہے:

’’یہ بہت افسوس کی بات ہے کہ ایرانی خواتین انسانی درجے سے نیچے گرا دی گئی ہیں۔ وہ صبح سے شام تک قیدیوں کی طرح اپنے جانوروں کے ساتھ گزارتی ہیں اور شدید ذہنی تکلیف کا شکار رہتی ہیں۔ ایرانی خواتین کی زندگیاں بس دو کپڑوں کا نام ہے، وہ جب بھی باہر نکلتی ہیں ایک سیاہ کپڑے میں خود کو لپیٹتی ہیں جیسے وہ کسی کی موت پہ تعزیت کے لیے نکلی ہوں، اور جب مرتی ہیں تو سفید کفن میں ڈھانپ دی جاتی ہیں۔‘‘

قاجاری عہد میں خواتین کو سات سال کی عمر تک قرآن اور خواندگی کی ابتدائی چند کتب پڑھنے کی اجازت تھی۔ اس کے بعد ان کے تعلیم حاصل کرنے پر پابندی تھی۔ اگر کوئی لڑکی مزید کچھ پڑھنا چاہتی تو وہ گھر میں اپنے والد یا بھائی سے پڑھتی اگر وہ اجازت دیتے۔ آئینی انقلاب کی کامیابی کے بعد جب خواتین کو کچھ نہیں ملا تو وہ اپنے حقوق کے لیے دوبارہ سڑکوں پر نکل آئیں۔ اس میں ان کے دو بڑے مطالبات تھے، ایک تعلیم کے حصول کی اجازت اور خواتین کے لیے مدارس کا قیام، دوسرا حجاب نہ پہننے کی آزادی۔ یہ جدوجہد کئی سال چلی، حتی کہ 1918ء میں حکومت نے پہلی مرتبہ ملک میں خواتین کو تعلیم کی اجازت دی اور اس کے لیے دس مدارس قائم کیے۔ اس دوران خواتین نے اپنی کئی خفیہ تنظیمیں قائم کیں، رسائل شائع کیے اور تعلیم کی مخالفت کرنے والوں کا بھرپور جواب دیا۔ اُس وقت ’ایرانِ نو‘ نامی رسالے میں ایک خاتون نے سید فضل اللہ نوری کو جواب دیتے ہوئے لکھا:

’’آپ ہمیں بتائیں ہم آپ سے کمتر کیسے ہیں۔ کیا یہ ہمارا حق نہیں کہ ہم جانیں اس ملک میں کیا اچھا ہے اور کیا غلط ہے۔ کیا اس کے لیے بہتر ہے اور کیا اس کے مفاد میں نہیں، کون اس سرزمین کا دشمن ہے اور کون دوست۔ ہم یہ جاننا چاہتی ہیں کہ باہر سے آکر اس ملک کے ساتھ کون کھلواڑ کرتا ہے۔ جب ہم ایسی بات کرتی ہیں تو کوئی شیخ اُٹھ کر کہتا ہے کہ تم عورتیں ہو، تمم بس گھرداری دیکھو۔ ہم پوچھتی ہیں کہ کیا گھرداری کے علاوہ ہمیں کچھ نہیں آسکتا۔ ایک ایرانی اور یورپی خاتون کے درمیان سوائے تعلیم کے اور کس چیز کا فرق ہے؟‘‘

اُس دور میں خواتین خود چندے اکٹھے کیے، زیور بیچے اور لڑکیوں کے لیے نجی تعلیمی ادارے کھولے۔

حجاب نہ پہننے کی آزادی کے لیے بھی حکومت پر بہت دباؤ ڈالا گیا۔ آئے روز مظاہرے کیے جاتے اور تسلسل کے ساتھ اس موضوع پر لکھا جاتا جس کی بہت سی خواتین نے جیل یا ملک بدری کی صورت قیمت چکائی۔ فخر آفاق پاسا ’جھانِ زن‘ رسالے کی مدیر تھیں، ان کے گھر پر حملہ ہوا اور انہیں مشہد سے نکال دیا گیا۔ ’زبانِ زنان‘ مجلے کی مدیر صدیقہ دولت آبادی کو حکومت نے موت کی دھمکی دی۔ ’نامہ ی بانوان‘ کی مدیر شہناز آزاد پر جرمانہ عائد کیا گیا اور رسالہ بند کردیا گیا۔ شہناز آزادی نے 1923ء میں باقاعدہ ایک تنظیم بنائی جس کا نام تھا ’مجمع کشف الحجاب‘ یعنی حجاب اتارنے کی تنظیم۔ ان کے شوہر کو جیل میں ڈال دیا گیا اور تنظیم پر پابندی لگی۔

بیسویں صدی کے اوائل میں خواتین نے اپنے حقوق کے لیے جو مطالبات کیے ان میں سے صرف تعلیم کے حق کو منظور کیا گیا۔ باقی مطالبات جن میں حجاب کی آزادی، ووٹ ڈالنے کا حق، طلاق کا حق وغیرہ شامل تھے ان میں انہیں کامیابی نہیں ملی۔ البتہ اس مرحلے میں خواتین کی بہت سی تنظیمیں قائم ہوئی، ان کے مجلات نکلے اور خواتین میں اپنے حقوق کے ضمن میں آگہی میں اضافہ ہوا۔

لیکن اس تحریک کے چند ہی سال بعد ایران میں اچانک ایک تبدیلی آئی اور لوگ حیران رہ گئے۔ 1934ء میں شاہ رضا شاہ نے ترکی کا دورہ کیا۔ وہاں انہیں لگا کہ ہم ترقی کی دوڑ میں بہت  پیچھے ہیں اور ہمیں جدید دنیا کی اقتدا کرنی چاہیے۔ لہذا 1936ء میں انہوں نے قانون لاگو کردیا کہ خواتین کا حجاب پہننا ممنوع ہے۔ اس کے بعد جو بھی عورت باہر حجاب کے ساتھ نکلتی پولیس اہلکار اس کا حجاب اتار دیتے۔ اس سے ایران میں کافی ہلچل مچی کہ یہ پابندی ٹھیک نہیں ہے۔ اسی کے نتیجے میں مشہد کی مسجد گوہر شاہ کا سانحہ بھی وقوع پذیر ہوا۔ بہت سے لوگ مسجد میں جمع ہوئے اور احتجاج کیا کہ اس پابندی کو واپس لیا جائے۔ حکومت نے مطالبہ مسترد کردیا اور کہا کہ جو لوگ وہاں سے نہیں نکلیں گے ان پر گولی چلا دی جائے گی اور حقیقت میں وہاں 1600 لوگ مار دیے گئے۔

1940ء میں شاہ رضا شاہ کے بعد محمد رضا شاہ پہلوی بادشاہ بنے تو انہوں نے اس قانون میں نرمی کردی اور حجاب پہننے والی خواتین کو اتارنے پر مجبور کرنے کا عمل ختم کردیا گیا۔

محمد رضا شاہ پہلوی کے بعد خواتین کو ایران میں حجاب پہننے نہ پہنے کی آزادی مل گئی۔

لیکن یہ 1979ء تک ایسے چلا۔ اس کے بعد ایران میں مذہبی انقلاب آگیا تو ایک بار پھر قانونی طور پہ حجاب لاگو کردیا گیا۔ جب یہ احکامات صاد کیے گئے تو اس وقت ایران عراق کشمکش شروع ہوچکی تھی جو جنگ میں تبدیل ہوئی اور آٹھ برس تک جاری رہی۔ ایسے میں قانونِ حجاب اور خواتین سے متعلق دیگر قوانین کے خلاف اختلاف رکھنے والی خواتین نے احتجاج تو کیا لیکن کوئی فعال تحریک نہ چلاسکیں۔ اس مرحلے میں مذہبی پولیس کی گرفت تیز تر ہوتی گئی اور خواتین کے لیے بعد میں ایک چیلنج بن گیا۔

لیکن جنگ کے اختتام کے بعد خواتین تسلسل کے ساتھ حجاب اور ایسے دیگر قوانین کے خلاف احتجاج کر رہی ہیں۔ اس کے نتیجے میں کئی خواتین جیلوں میں قید ہیں، کئی ملک بدر ہیں اور کئی دیگر سزاؤں کا سامنا کر رہی ہیں۔

انقلاب کے بعد سے اب تک صدر محمد خاتمی کا دور خواتین کے لیے قدرے نرم رہا ہے۔ انہوں نے اگرچہ حجاب کے حوالے سے تو آزادی نہیں دی لیکن خواتین کو غیرسرکاری تنظمیں بنانے اور کام کرنے کے حوالے سے کچھ آزادیاں فراہم کی تھیں۔

ان کے بعد احمدی نجاد کا دور بہت سخت رہا کہ وہ سخت گیر مذہبی حلقے کی طرف مائل تھے۔ ان کے دوسرے دور حکومت میں ’جنبشِ سبز ایران‘ (Iranian Green Movement) کے نام سے خواتین کے حقوق کی تحریک چلی جسے جبرا دبا دیا گیا۔

حسن روحانی خواتین کے لیے نرمی کے وعدوں کے ساتھ آئے۔ ان سے خواتین کو بہت توقعات وابستہ تھیں لیکن عملا انہوں نے کچھ کیا نہیں۔ البتہ ان کے دور میں سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کی وسیع رسائی نے خواتین کو منظم ہونے میں مدد دی۔ ان کے دور سے اب تک وقتا فوقتا خواتین ایران کی مذہبی حکومت کے لیے مشکلات کھڑی کرتی رہتی ہیں۔

اب ایران میں خواتین ویسا حجاب تو نہیں کرتیں جیسا مذہبی انقلاب کے فورا بعد لاگو کیا گیا تھا۔ اب حجاب کی کئی قسمیں آگئی ہیں اور وہ سامنے کے بال بھی کھلے رکھتی ہیں جسے حکومت پسند تو نہیں کرتی لیکن سماجی دباؤ کافی بڑھ چکا ہے اس لیے اکثر خاموشی اختیار رکھی جاتی ہے۔ لیکن یہ حکومت کے لیے بالکل نارمل نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ابھی مہسا امینی کا واقعہ پیش آیا۔

ایرانی خواتین کے لیے اگرچہ ابھی بھی طویل سفر باقی ہے لیکن انہوں نے کافی کچھ حاصل بھی کیا ہے۔ کئی قوانین ایسے تھے جو امام خمینی کے عہد میں وضع ہوئے لیکن خواتین کی جدوجہد کے ذریعے ان میں تبدیلیاں کی گئیں۔ ان میں سے چند مثالیں یہ ہیں:

۱۔ انقلاب کے بعد لڑکیوں کی شادی کی کم سے کم عمر 9 سال کردی گئی تھی جسے اب 13 سال کردیا گیا ہے۔

۲۔ انقلاب کے بعد طلاق کا حق صرف مرد کو تفویض دیا گیا تھا کہ اس کی مرضی پر منحصر ہوگا۔ اب عورت بھی طلاق کے لیے دعوی دائر کرسکتی ہے۔

۳۔ انقلاب کے بعد قانون لایا گیا کہ عورت کا مرد کی موت کے بعد میراث میں حق نہیں ہوگا، لیکن اب یہ حق وصول کرسکتی ہے۔

رپورٹ: شفیق منصور

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...