کراچی عجب شہرِ فسوں ہے کہ اسے مکمل جاننے کا دعویٰ کوئی شاذونادر ہی کرسکتا ہے۔ کئی ایسوں سے واقف ہوں کہ جو اسی شہر میں پیدا ہوئے، اس کی گلیوں میں کھیلتے گھومتے بچپن اور جوانی گزاری، یہیں بڑھاپا کاٹا اوراسی مٹی میں دفن ہو گئے مگر ان ساٹھ ستر سالوں میں آدھا شہر بھی نہیں دیکھ پائے۔ لیاری کے رہنے والے کئی لوگ کبھی ناظم آباد نہیں گئے اور کئی نارتھ کراچی والے کورنگی کی گلیوں میں گم ہو جاتے ہیں۔ ایسے وسیع و عریض اور متنوع الجہات شہر میں جہاں ہر علاقہ جداگانہ حیثیت اور تاریخ رکھتا ہو، اور جس کے موجودہ جغرافیے پر ہی کتابوں کا ایک سلسلہ تصنیف کیا جاسکتا ہو، یہ عارف حسن صاحب کے دل کا زور ہے کہ کراچی شہر کی مکمل تاریخ لکھنے بیٹھ گئے۔
عارف حسن صاحب سے میری واقفیت ایک دلچسپ واقعہ سے شروع ہوئی۔ زمانہ طالب علمی میں ’پاکستان انسٹیٹیوٹ آف انٹرنیشنل افئیرز‘ اکثر جانا ہوتا تھا۔ ایک روز یوں ہی دوستوں کہ ساتھ ٹہلتے ہوئے نکلے تو پچھلی جانب ایک برطانوی طرز تعمیر کی پرانی سے عمارت میں جا نکلے۔ عمارت پر ’وزارتِ سندھ برائے جنگلی حیاتیات‘ کا بورڈ آویزاں تھا۔ دوست احباب اندر جانے سے ذرا کترائے کہ یوں بلا اجازت سرکاری دفتر میں گھسنا کچھ ٹھیک نہیں، پر مجھے پرانی عمارتیں اپنی طرف کھینچتی ہیں تو ضد کر کے اندر چلی گئی۔ سامنے دیکھا تو مٹی میں اٹی ایک پرانی تختی میں’فری میسن سوسائٹی‘ درج تھا۔ قدرتی طور پہ ہم سب نوجوان حیران تھے کہ شہر کہ بیچوں بیچ اس قدر اہم تاریخی عمارت کے بارے میں کوئی نہیں جانتا تھا۔ ہم میں سے کچھ لوگ تصویر کھینچنے لگے تو کہیں سے اچانک ایک چوکیدار آ گیا اور ہمیں منع کر کے باہر نکال دیا۔ ہم نے کچھ بحث کی تو وہ کہنے لگا ابھی کچھ روزقبل اسی طرح بلا اجازت تصویر لینے کے سبب عارف حسن صاحب کو پولیس تھانے جانا پڑا ہے، آپ لوگ کیوں ہمیں پریشان کرتے ہیں، ان پرانی عمارتوں میں اب بھلا رکھا ہی کیا ہے۔ وہاں سے تو ہم نکل آئے، مگر میرے دل میں کھوج بیٹھ گئی کہ یہ عارف حسن کون جنونی ہے کہ پرانی عمارتوں کی تصویر کے لیےتھانے کے چکر لگا آیا۔
زیادہ محنت نہیں لگی، میں تو خیر شہر میں نئی تھی، لیکن باقی زیادہ تر طلبہ نہ صرف عارف حسن سے واقف تھے، بلکہ ان کے تحقیقی جنوں کے بھی معترف تھے۔ ایک معمار، استاد، محقق اور کئی کتابوں کے مصنف ہونے کے ساتھ ساتھ عارف حسن شہری منصوبہ بندی کے کئی بڑے منصوبوں کا حصہ ہیں۔ کراچی یونیورسٹی کی کئی کانفرنسوں میں عارف صاحب کو سنا اور ان کے کئی مقالے نظر سے گزرے۔ کراچی شہر سے ان کا لگاؤ،ان کی گفتگو میں جھلکتا ہے۔ جب بھی کراچی کا ذکر کرتے ہیں خوب محبت سے کرتے ہیں، پر ساتھ ہی اس شہر کے ساتھ حکومت کے نارواسلوک پر شکوہ بھی اکثر زباں پر آ جاتا ہے، البتہ شکوہ ہنس کر کرتے ہیں۔ میں نے جب انہیں مقالے پڑھتے سنا تو ڈھلتی عمر تھی، لیکن شخصیت میں بلا کی پھرتی تھی (اور ہے)۔ ہلالِ امتیاز حاصل کرنے کے بعد بھی مزاج میں علمی رعب نہیں بلکہ ایک کھوجی جیسا تجسس ہے۔ زیرنظر کتاب ان کے اسی کھوج اور شہر سے لگاؤ کا نتیجہ ہے۔
Karachi – Before the British Conquest (کراچی: برطانوی سامراجی عہد سے قبل) عارف صاحب کی زندگی بھر کی تحقیق کا ایک مختصرحوالہ ہے۔ ڈاکٹر جعفر احمد کے زیرِنگرانی تحقیقی ادارے Institute of Historical and Social Research نے اس کتاب کو شائع کیا ہے۔ یہ کتابچہ دراصل ایک کتابی سلسلے کا پہلا باب ہے جس پر عارف صاحب کئی سالوں سے کام کر رہے ہیں مگر تحقیق سے تحریر کا یہ سفر خاصا طویل ہو گیا ہے۔ کتاب کے آغاز میں ہی وہ پڑھنے والوں کو مطلع کر دیتے ہیں کہ یہ ۱۵۰ صفحوں کی کتاب کسی طور اتنے بڑے دور کا احاطہ نہیں کر سکتی اور اسے ایک ’تعارف‘ اور ابتدائیےکے طور پر پڑھا جائے۔
شہرِ کراچی کی تاریخ پر گفتگو کا نقطہ آغاز عموماً ۱۷۲۹ء میں بننے والے قلعے سے ہوتا ہے، تاہم عارف صاحب کی کتاب شہر کراچی میں بسنے والی پہلی بستی کی تلاش سے شروع ہوتی ہے۔
شہرِ کراچی کی تاریخ پر گفتگو کا نقطہ آغاز عموماً ۱۷۲۹ء میں بننے والے قلعے سے ہوتا ہے، تاہم عارف صاحب کی کتاب شہر کراچی میں بسنے والی پہلی بستی کی تلاش سے شروع ہوتی ہے۔ اس تلاش میں کبھی یہ تاریخی کتابوں کے اوراق کھنگالتی ہے، کبھی شہر کے بزرگوں کی یادداشت آزماتی ہے، کبھی مذہبی اسطورہ تو کبھی لوک داستانیں۔ مختلف جگہوں سے جمع کی گئی ان معلومات سے پڑھنے والا کبھی کبھی الجھ جاتا ہے کہ جناب کس کی بات سچ مانی جائے۔ یہ شہر آخر کسی بلوچ قبیلے نے قائم کیا یا رام اور سیتا نے۔ ایک اچھی تحقیق یہی ہے کہ صحیح سوال اٹھیں اور زبردستی سے حتمی نتیجے نہ نکالے جائیں۔ بلکہ جو جواب مل جائیں انہیں بیان کر کے کچھ مزید سوال ہاتھ آ جائیں تاکہ تحقیق کا سفر جاری رہے۔
کتا ب کے شروع میں ایک مکمل باب شہر میں قائم قدیمی مساجد، مزار اور مندروں سے متعارف کراتا ہے۔ آغاز میں ہی کراچی کے ہندو مت سے خاص تعلق کو مستحکم کر دیا گیا ہے اور ساتھ ہی صوفیا اور اولیا کی کاوشوں کے اس خطے پر اثرات بھی واضح بیان کر دیے گئے ہیں۔ یوں ایک تو شہر کی مذہبی تنوع کی تاریخ آگے چل کر ہندوؤں کی وسیع ترمہاجرت جیسے معاملات کو سمجھنے میں مدد دے گی، دوسرا، مسلمانوں کی اس خطے میں آمد اور اسلام کے پھیلاؤکے بارے میں جو مسخ شدہ تاریخ ہماری درسی کتابوں میں پڑھائی جاتی ہے یہ کتاب اس کا ریکارڈ درست کرنے میں معاون ثابت ہوگی۔
باوجود اختصار کے، یہ کتاب محض سیاسی اور جنگی تاریخ تک محدود نہیں۔ برطانوی سامراج کے قیام سے قبل کے عہد سے متعلقہ شہر کے جغرافیہ، ثقافت، سماجی نظام، اور آمدنی وروزگار کے ذرائع پربھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ شہر میں موجود دریاؤں کے نظام سے لے کر طرزِحکومت کے نظام تک، ایسی تمام تفصیلات بتائی گئی ہیں جو ہمارے ہاں اکثر مؤرخ نظر انداز کر دیتے ہیں۔ عارف صاحب نے نہ صرف باقاعدہ شہر سے ہونے والی درآمدات اور برآمدات کی تفصیلات درج کی ہیں بلکہ موسم اور جغرافیہ کی بنیاد پر شہر کے معاشی نظام کی خوبیاں اور خامیاں بھی بیان کی ہیں۔ وہ تحقیقی مواد سے یہ غلط فہمی بھی دور کرتے ہیں کہ کراچی محض سمندر کے قریب قائم ہونے والی مچھیروں کی ایک بستی تھی، بلکہ اس کے برعکس، اٹھارویں صدی میں جب انگریز یہاں آئے تو یہ ایک اہم شہری مرکز کی شکل اختیار کر چکا تھا۔
کتاب کی سب سے خاص بات اس میں موجود تصاویر اور نقشہ جات ہیں جن کی مدد سے دی گئی تفصیلات کو آپ اپنی آنکھوں کے سامنے محسوس کر سکتے ہیں۔ تقریبا ہر باب میں دو سے تین نقشے ہیں جن میں اہم تاریخی معلومات درج کی گئی ہیں۔ کتاب پڑھنے کے ساتھ ساتھ میں نے کئی دفعہ ان نقشوں کا شہر کے موجودہ نقشے (گوگل ارتھ کی مدد سے) سے موازنہ کیا۔ یقین کیجئے ماضی اور حال کے جڑے رشتے کو دیکھنے کا یہ بڑا مزے دار تجربہ تھا۔ کتاب کے آخر میں ایک گلاسری بھی درج ہے۔ البتہ اشاریوں کی کمی محسوس ہوئی کیونکہ ایسی کتابیں حوالہ جات کے طور پر استعمال ہوتی ہیں۔ امید ہے کہ آنے والی اشاعتوں میں اس کمی کو دور کردیا جائے گا۔
چونکہ یہ کتاب ایک ایسے تاریخی دور کا احاطہ کرتی ہے جس کا زیادہ تر مواد اب مسخ ہو چکا ہے،اس کے باوجود اس قدر حتمی اور درست تفصیلات اکھٹی کرنے پر عارف صاحب کو یقینا بہت وقت اور محنت صرف کرنا پڑے ہوں گے۔ ان کی یہ محنت قابل ستائش ہے اور کسی بھی لکھاری کی اس سے بڑھ کر ستائش ممکن نہیں کہ اس کی کتاب کو پڑھا جائے۔
فیس بک پر تبصرے