اوڑی حملہ اور دوطرفہ تعلقات میں کشیدگی

762

حملے کے بعد انڈیا کی طرف سے پاکستان کو دہشت گرد ریاست کہا گیا جبکہ پاکستان نے خود پر لگنے والے الزام کو بے بنیاد قراردیتے ہوئے کہا کہ یہ الزام بغیر تحقیقات کے لگایا گیا ہے۔

انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیرمیں اڑی سیکٹر میں فوج کے اڈے پر اتوار کی صبح مبینہ طور پر چار حملہ آوروں نے دھاوا بولا ،جس میں اطلاعات کے مطابق سترہ فوجی ہلاک جبکہ تیس سے زائد زخمی ہوئے ہیں ۔حملے کے فوری بعد انڈین وزیرِ داخلہ راج ناتھ سنگھ نے ردِ عمل دیتے ہوئے کہا کہ ”پاکستان ایک دہشت گرد ریاست ہے ،اس کی شناخت دہشت گرد ریاست کے طورپر ہونی چاہیے اور عالمی سطح پر پاکستان کو الگ تھلگ کرنے کی ضرورت ہے“دوسری طرف دونوں ممالک کے ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز(ڈی جی ایم اوز)کے مابین ہاٹ لائن پر رابطہ ہوا ،جس میں حملے کی صورتِ حال پر بات چیت کی گئی ۔جس میں پاکستانی ڈی جی ایم اونے یہ بھی کہا کہ بھارت جو الزامات لگا رہا ہے ،اُس ضمن میں اگر کوئی ٹھوس ثبوت ہیں تو مہیا کیے جائیں اور اطلاعات پاکستان سے شیئر کی جائیں ۔

واضح رہے کہ ماہِ جولائی سے انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں حالات انتہائی کشیدگی کا شکار چلے آرہے ہیں ،برہان وانی کی ہلاکت کے بعد اب تک میڈیا کی اطلاعات کے مطابق ایک سو پانچ نہتے شہری اپنی زندگیاں گنوا چکے ہیں اور کئی ہزار زخمی بھی ہیں ۔یہ حملہ ایک ایسے وقت میں ہوا جب پاکستان کے وزیرِ اعظم امریکہ میں ہیں جہاں اُنہوں نے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اکہترویں اجلاس میں شرکت کرنی ہے ،جس میں وہ کشمیر کے مسئلے کو عالمی سطح پر اُٹھائیں گے۔جنرل اسمبلی کے اجلاس میں نریندر مودی کی جگہ سُشما سوراج شرکت کریں گی۔اس حملے کے بعد انڈیا کی طرف سے پاکستان کو دہشت گرد ریاست کہا گیا جبکہ پاکستان نے خود پر لگنے والے الزام کو بے بنیاد قراردیتے ہوئے کہا کہ یہ الزام بغیر تحقیقات کے لگایا گیا ہے ۔

اب تک کی صورتِ حال یہ ہے کہ دونوں ممالک کے مابین حالات کشیدگی اختیار کر چکے ہیں ۔یہ کون نہیں جانتا کہ اَمن دونوں ہمسائیوں کی اشد ضرورت ہے۔ہر دَو کی بقا اَمن سے مشروط اور وابستہ ہے۔لیکن جیسے ہی دونوں ملکوں کے مابین اَمن و اَمان کی کوششیں ہوتی ہیں تو اُس کے فوری بعد حالات کشیدگی کی طرف چلے جاتے ہیں ۔یوں اَمن کی ساری کوششیں ایل او سی پر چلنے والی ایک گولی کی بدولت غارت ہوجاتی ہیں ۔یہ پہلو دوطرفہ اَمن کے لیے انتہائی پریشان اور مایوس کن ہے۔ضرورت اس اَمر کی ہے کسی بھی ایسے واقعہ کے فوری بعد تند و تیز الزامات کی بجائے معاملات کو مذاکرات اور باہمی تعاون سے نمٹایا جانا چاہیے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...