پانی کا تنازعہ پاکستان اور بھارت کے لئے کس قدر خطرناک ہے ؟
اگر بھارت کوئی بھی اقدام کرتا ہے تو اس کے تباہ کن اثرات ہو سکتے ہیں کیونکہ یہ علاقہ پہلےہی پانی کی انتہائی کمی کا شکار ہے۔اور اس صورت میں ا سکے اثرات مزید تباہ کن ہو جائیں گے جب دونوں ممالک کے درمیان ایک محدود جنگ چھڑ جائے گی ۔کیونکہ دہشت گردوں کے خلاف سرجیکل سٹرائکس کی بہ نسبت پانی کی بندش کا شکار ایک عام پاکستانی ہو گا ۔
۲۹ ستمبر کو علی الصبح بھارت کی وزارت دفاع نے دعویٰ کیا کہ اس نے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں ’’سرجیکل سٹرائیکس ‘‘ کیں جہاں پر دہشت گردوں کے سات تربیتی کیمپوں کو نشانہ بنایا گیا جس کے نتیجے میں متعدد عسکریت پسند مارے گئے ۔پاکستان نے اس دعوے کو سختی سے رد کیا تاہم اس نے کہا کہ لائن آف کنٹرول پربھارت کے ساتھ جھڑپ میں اس کے دو دفوجی مارے گئے۔بھارتی اقدام کی وجہ سے دونوں ممالک کے تعلقات جو پہلے ہی کشیدہ تھے ان میں مزید آگ لگ چکی ہے ۔بھارت نے سرجیکل سٹرائکس کا دعوی بھارت کے زیر انتظام کشمیرمیں اڑی حملے کے گیارہویں دن کیا جس کے بارے میں کہا گیا کہ ا س کا ذمہ دار پاکستانی دہشت گرد گروپ جیش محمد ہے ۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ دنوں میں کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے ۔بھارتی وزیر داخلہ نے پاکستان کو دہشت گرد ریاست کہا ہے جبکہ پاکستان کے وزیر دفاع نے ایٹمی جنگ کی دھمکی دی ہے ۔۲۲ستمبر کو بھارت کی وزارت خارجہ کے ترجمان وکاس سورپ نے کہا کہ بھارت سندھ طاس معاہدے کو ختم کر سکتا ہےکیونکہ یہ دو طرفہ اعتماد کی بنیاد پر قائم ہے اور اگر یہی نہ ہو تو پھر یہ کیسے چل سکتا ہے ۔
سندھ طاس معاہدہ ۵۶ سالہ پرانا معاہدہ ہے جسمیں یہ طے کیا گیا ہے کہ پانی کے تقسیم کیسے ہو گی ۔ٹینسی ویلی اتھارٹی کے چیئر مین ڈیوڈ لیلنتھل David Lilienthalنے ۱۹۵۱ کو علاقے کا دورہ کیا اس کا مقصد Collier’sمیگزین کے لئے ایک آرٹیکل لکھنا تھا جس میں اس نے کہا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان پانی کا معاہدہ ہونا ضروری ہے تاکہ تقسیم کے بعد جو عداوت دونوں جانب موجود ہے ا س کو کم کیا جا سکے ۔بالخصوص اس لئے بھی کہ سندھ کا دریا کشمیر سے نکلتا ہے ۔اس کی ا س تجویز کو عالمی بنک نے سراہا جس پر بنک نے دونوں ممالک کے درمیان ایک طویل اور صبر آزما مشاورت کی اور بالآخر ۱۹۶۰ میں دونوں ممالک ایک معاہدے پر پہنچ گئے ۔جس پر اس وقت کے امریکی صدر آئیزن ہاور نے اسے ناامیدی کے ماحول میں ایک روشن امید قرار دیا ۔آج تک یہ معاہدہ کچھ مشکلات کے باوجود قائم ہے ۔۲۶ ستمبر کو بھارتی حکومت نے اس پر مشاورت کی اور فیصلہ کیا کہ وہ اس معاہدے کو منسوخ نہیں کرے گی لیکن اس نے مستقبل میں کسی بھی مرحلے پر اس معاہدے کو توڑنے کی دھمکی دے ڈالی ۔مودی نے ایسے ہی ایک اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ خون اور پانی ایک ساتھ نہیں چل سکتے ۔ساتھ ہی حکومت نے دونوں ممالک کے درمیان انڈس کمشنرز کی ملاقاتیں معطل کر دیں ۔یہ ملاقاتیں سال میں دو بار ہوتی ہیں جن میں دو نوں جانب سامنے آنے والے مسائل کا جائزہ لیا جاتا ہے ۔اس صورتحال کا اثر پاکستان پر یہ ہوا کہ اس نے سخت موقف اختیار کیا اور وزیر اعظم نواز شریف کے مشیر برائے خارجہ سرتاج عزیز نے کہا کہ سندھ طاس معاہدے کی کسی بھی خلاف ورزی کو جنگ کا اعلان سمجھا جائے گا ۔پاکستان اس سلسلے میں اقوام متحدہ اور عالمی عدالت انصاف سے بھی رجوع کر سکتا ہے ۔
اگر بھارت کوئی بھی اقدام کرتا ہے تو اس کے تباہ کن اثرات ہو سکتے ہیں کیونکہ یہ علاقہ پہلےہی پانی کی انتہائی کمی کا شکار ہے۔اور اس صورت میں ا سکے اثرات مزید تباہ کن ہو جائیں گے جب دونوں ممالک کے درمیان ایک محدود جنگ چھڑ جائے گی ۔کیونکہ دہشت گردوں کے خلاف سرجیکل سٹرائکس کی بہ نسبت پانی کی بندش کا شکار ایک عام پاکستانی ہو گا ۔
سندھ طاس معاہدے سے پاکستان کو فائدہ ہے ۔اگرچہ ا سمعاہدے سے تین دریاوں پر بھارت کا اور تین پر پاکستان کا حق تسلیم کیا گیا ہے ۔پاکستان کو تین مغربی دریاوں کا پانی دیا گیا ہے جن میں سندھ ،جہلم اور چناب شامل ہیں جو کہ سندھ طاس کے پانی کا ۸۰ فیصد بنتا ہے ۔مگر اب بھارت اس پر ڈیم بنا رہا ہے تاکہ وہ ا سکا پانی استعمال کر سکے ۔لیکن بھارت کو یہ ڈیم بنانے میں ابھی کئی سال مزید لگیں گے تب ہی کہیں جا کر وہ ا س قابل ہو سکے گا کہ پاکستان کی سمت آنے والے پانی کو روک سکے ۔مگر بھارت پاکستان پر دباو ڈال کر متقبل میں یہی کچھ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے ۔
پاکستان کا انحصار تین مغربی دریاوں پر ہے جن میں سندھ پر سب سے زیادہ ہے جو آبپاشی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے اگر سندھ کا پانی روک لیا جاتا ہے یا اس کے بہاو میں کمی ہو جاتی ہے تو ا س کو اثرات پاکستان کے لئے تباہ کن ہوں گے ۔اس لئے پاکستان کے لئے پانی کا ہتھیار جنگ سے بھی زیادہ تباہ کن ہو گا۔کیونکہ آئی ایم ایف کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان دنیا کے ان ممالک میں سر فہرست ہے جو پانی کی کمی کا شکار ہیں اور جہاں فی کس پانی کی فراہمی سب سے کم ہے جو کہ ۳۵۳۰۰کیوبک فٹ سالانہ ہے ۔اور پاکستان کی زراعت اس سے بری طرح متاثر ہو رہی ہے جس کا ۹۰ فیصد پہلے ہی پانی کی زیر زمین کمی کا شکار ہے ۔دوسرے لفظوں میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان دنیا میں پانی کی کمی کا سب بڑا شکار ہے جہاں پانی خطرناک حد تک کم ہو چکا ہے اور اس کے اثرات اس لئے فی الحال اتنے زیادہ نہیں کیونکہ پاکستان اپنے زیر زمین پانی کے ذخائر سے استفادہ کر رہا ہے ۔ناسا کا وہ ڈیٹا جسے ۲۰۱۵ میں ریلیز کیا گیا ہے ا سکے مطابق سندھ طاس میں پانی کے بہاو میں کمی دنیا کے تمام دریاوں میں سب سے زیادہ دیکھی گئی ہے ۔دنیا میں زیر زمین پانی کو اس وقت استعمال کیا جاتا ہے جب دریاوں میں پانی نہ ہو تاکہ کسی بھی ناگہانی صورتحال میں یہ موجود ہو مگر پاکستان کا معاملہ دوسرا ہے جس نے اس امکان کو بھی خطرے میں ڈال دیاہے ۔اس لئے بھارت کی جانب سے پاکستان کے دریاوں کا پانی روکنا ا سلئے بھی مشکل ہے کہ ایک ایسا ملک جو پہلے ہی پانی کی کمی کا شکار ہے اور جس کی ۲۰ کروڑ آبادی میں سے ۴ کروڑ پانی کی شدید کمی کا شکار ہے ۔اور دوسرا یہ کہ ا سکے پیچھے عالمی بنک ہے جو اس معاہدے کو اپنی کامیابی گردانتا ہے اور اگر بھارت اس سلسلے میں کوئی اقدام کرے گا تو ا س کو عالمی سطح پر رد عمل کا سامنا ہو گا۔بھارت کے پانی کے امور کے ماہر اشوک سوائیں کا کہنا ہے کہ اڑی حملے کے نتیجے میں بھارت کو جو نفسیاتی برتری پاکستان پر حاصل ہوئی تھی اسے بھارت نے سندھ طاس معاہدے کو ختم کرنے کی دھمکی دے کر خاک میں ملادیا کیونکہ عالمی بنک نے بھی کہا کہ اگر پاکستان ا س سلسلے میں عالمی عدالت انصاف جائے گا تو عالمی بنک ا سکی حمایت کرے گا ۔دوسرا یہ کہ اگر پاکستان کا پانی روکا جائے گا تو اس کا بہاو کشمیر اور پنجاب کے بڑے شہروں کی طرف بڑے گا جہاں سیلاب کی صورتحال ہو جائے گی ا سلئے بھارت کے لئے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ سندھ طاس کا پانی روک سکے ۔اس لئے ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت اسلام آباد پر دباو بڑھاتا رہے تاکہ وہ سندھ سمیت دیگر دریاوں کے پانی پر ڈیم بنا نے میں کامیاب ہو جائے اور اس سلسلے میں اسے قانونی مدد مل جائے ۔لیکن ا س بارے میں جان برسسکوئیJohn Briscoe جو کہ جنوبی ایشیا میں پانی کے امور کے سب سے بڑے ماہر جانے جاتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ اگر بھارت بڑے ڈیم بناتا ہے تو سندھ طا س میں پانی کا بہاو اتنا کم ہوجائے گا کہ پاکستان میں فصلوں کی کاشت کے لئے دستیاب پانی میسر نہیں ہو گا۔ دوسرا یہ کہ اگر بھارت اپنے سے نیچے واقع پاکستان کا پانی روکے گا تو اس سے پاکستان کے اتحادی چین کو بھی موقع مل جائے گا کہ وہ بھارت کا پانی روک سکے کیونکہ چین اور بھارت میں ایسا کوئی معاہدہ ہی موجود نہیں ہے اور چین پہلے ہی درجنوں ڈیم بنانے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے ۔ بھارتی ریاست ارونا چل پردیش پر دونوں ممالک میں جھگڑا موجو دہے اور یہاں سے گزرنے والے دریائے برہما پترا کا پانی چین سے ہی آ رہا ہے ۔ اس لئے اگر اس کا پانی روکا گیا یا کم کیا گیا تو ا سکے اثرات بھارتی ریاست آسام تک جائیں گے ۔دوسرا یہ کی چین سندھ کا پانی بھی روک سکتا ہے جس کا آغاز تبت سے ہو رہا ہے ۔
ایک اور بات کی اگر بھارت نے پاکستان کا پانی روکا تو ا س سے لشکر طیبہ کو اپنے پراپیگنڈا پھیلانے میں مدد ملے گی جو پہلے ہی بھارت پر پانی چوری کا الزام عائد کرتی ہے ۔اور یہ بھارت پر مزید حملے بھی کر سکتی ہے ۔
اگرچہ انڈیا یہ کہہ سکتا ہے کہ معاہدے کی رو سے وہ سندھ طاس کا صرف ۲۰ فیصد پانی استعمال کر سکتا ہے مگر ا سمعاہدے کی وجہ سے وہ کشمیر میں کوئی ایسا ڈیم نہیں بنا سکتا جو ۲۰ فیصد سے زیادہ پانی روکتا ہو ۔ ایک رپورٹ کے مطابق بھارت دنیا کی آبادی کا ۲۰ فیصد ہے مگر ا س کے پا س پانی صرف ۴ فیصد ہے ۔۳۰ کروڑ بھارتی شہری پانی کی شدید کمی کا شکار ہیں ۔ملک میں جاری قحط سالی گزشتہ ۲۰ سالوںمیں تین لاکھ لوگوں کو نگل چکی ہے اس لئے انڈیا ان ممالک میں سرفہرست جو اپنے زیر زمین پانی کو سب سے زیادہ استعمال کر رہے ہیں ۔اس لئے اگر انڈیا اس معاہدے پر نظر ثانی کا مطالبہ کرے تو ا سکی یہ حکمت عملی زیادہ کامیاب ہو سکتی ہے ۔ بجائے اسکے کہ وہ ا س معاہدے سے ہی منکر ہو جائے جس کے نتائج دونوں ممالک کے لئے تباہ کن ہوں گے ۔
( بشکریہ فارن پالیسی ،تلخیص و ترجمہ : سجاد اظہر )
فیس بک پر تبصرے