نئے سعودی عرب میں وہابیت اور مذہبی طبقے کے لیے کتنی جگہ باقی رہ گئی ہے؟

445

سعودی عرب جس تیزی کے ساتھ تبدیل ہو رہا ہے2015ء سے قبل اس کی کوئی توقع نہیں کرسکتا تھا۔ مملکت کے داخلی روایتی ڈھانچے سے قطع نظر اس کا جغرافیائی تشخص بھی جس تأثر اور امیج کا متقاضی ہے، اسے دیکھتے ہوئے حالیہ وقوع پذیر ہونے والی تبدیلیاں آسان نہیں لگ رہی تھیں۔ لیکن خطے کی مسابقتی صورتحال، مستقبل کے اقتصادی تقاضے، رجعت پسندی کا بین الاقوامی تشخص اور سلطنت کی اندرونی حکومتی کشمکش، چند ایسے عوامل ہیں جن کی بنا پر سعودی عرب کی جوان اور پرجوش قیادت آزادانہ فیصلے کرنے کے لیے کسی بھی دباؤ کو خاطر میں لانے کے لیے تیار نہیں لگتی۔ حتی کہ عربوں کے دیرینہ مسئلے فلسطین کے حوالے سے بھی سعودی عرب کا موقف رفتہ رفتہ نئی مجبوریوں اور نئے تقاضوں کا شکار ہوتا نظر آرہا ہے۔ پچھلے ہفتے اسرائیلی سرمایہ کار تبوک میں زیرتعمیر جدید شہر نیوم میں سرمایہ کاری کے لیے آئے ہیں۔

رواں سال فروری میں محمد بن سلمان نے ایک غیرمعمولی قدم اٹھاتے ہوئے سعودی عرب کے سن تاسیس کو ہی تبدیل کر دیا تھا۔ پہلے یہ 1744ء تھا جب سعودی عرب کے بانی محمد بن سعود اور مشہور مذہبی شخصیت محمد بن عبدالوھاب کی ملاقات ہوئی اور ریاست ومذہب کے مابین ایک ربط قائم ہوا۔ دونوں شخصیات نے ساتھ چلنے کا معاہدہ کیا تھا۔ لیکن رواں سال کے شروع میں محمد بن سلمان نے سعودی عرب کی تاسیس کا سال 1727ء کو قرار دیدیا تھا اور 22 فروری کو اس کی سالانہ یاد منانے کا دن مقرر کیا گیا۔ 1727ء وہ سال ہے جب محمد بن سعود نے درعیہ کے مقام پہ سعودی عرب کی مملکت کی بنیاد رکھی تھی۔ یوم اور سن تاسیس کو تبدیل کرنے کا اعلان دراصل مملکت کی وہابیت کی شناخت کی لگ بھگ تین سوسالہ تاریخ سے راستے جدا کرنے کا باقاعدہ اعلان تھا۔ گویا اب جب مملکت کی تاسیس کی بات ہوگی تو محمد بن عبدالوھاب اور وہابیت کا ذکر نہیں ہوگا۔

اس اعلان کے ساتھ ہی حکومت کی جانب سے تصویر کی صورت ایک علامتی اظہار کا اجراء بھی کیا گیا جس کا مطلب عوام کو بتانا تھا کہ مملکت کا نیا تشخص کیا ہوگا۔ تصویر میں ایک شخص نے جھنڈا اٹھایا ہوا ہے اور اس کے گرد چار شکلیں بنائی گئی ہیں۔ ایک، کھجور کا درخت جو  فروانی اور زندگی کی علامت ہے۔ دوسری، مجلس کی شکل جو ہم آہنگی اور قبائلی اتحاد کی علامت، تیسری گھوڑے کی شکل جو بہادری اور ہمت کی علامت، جبکہ چوتھی شکل بازار کی تھی جو اقتصاد اور معیشت کی علامت تھی۔ لوگو کی طرح کی اس علامتی تصویر میں جو جھنڈا ہے اس پرکلمہ نہیں لکھا گیا۔ مزیدبرآں مذہبی تشخص کو بیان کرنے کے لیے کوئی بھی علامت درج نہیں کی گئی۔

یہ لمحہ بلاشبہ  سعودی عرب کی تاریخ کا غیرمعمولی لمحہ تھا، اور اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جدید مملکت کے خدوخال کیا ہوں گے۔

سعودی عرب میں وہابیت کو ریاست نے پہلے کبھی بھی نظرانداز نہیں کیا تھا۔ نصاب کی کتب میں ایک باب ’دعوۃ الشیخ محمد بن عبدالوھاب‘ کے عنوان کے تحت ہمیشہ رہا ہے۔ حتی کہ جب جمال عبدالناصر کے عہد میں اخوانی قیادت سعودی عرب منتقل ہوئی اور وہ نصاب پر اثرانداز ہوئے تب بھی  وہابیت کی نظریاتی مرکزیت باقی رہی۔ یہ ایک ایسی شناخت رہی جسے چھیڑنے کا کبھی تصور بھی نہیں کیا گیا تھا۔ مملکت کے دستور میں بھی شروع میں محمد بن سعود اور محمد بن عبدالوجاب کے معاہدے کا ذکر تھا۔

حالانکہ جب سے تیل دریافت ہوا اس وقت سے مملکت کا سیاسی عضو یعنی شاہی خاندان بہت زیادہ طاقتور ہوگیا اور اسے سماجی و سیاسی رسوخ کے اعتبار سے مذہبی طبقے پر برتری حاصل ہوگئی، اس کے باوجود بھی وہابیت اپنے دائرے میں کافی حد تک فعال رہی۔

نئے نصاب سے محمد بن عبدالوہاب کی دعوت اور مملکت میں وہابیت کے کردار کا ذکر ختم کردیا گیا ہے

لیکن اب معاملات بدل رہے ہیں۔ نصاب میں بھی تبدیلیاں کی جارہی ہیں اور اب محمد بن عبدالوھاب کا ذکر ختم کیا جا رہا ہے۔ حیران کن طور پہ ذرائع ابلاغ میں نام لے کر وہابیت پر تنقید کی جاتی ہے۔ امربالمعروف ونہی عن المنکر کا شعبہ عملاََ غیرفعال بنایا جاچکا ہے اور اس کی جگہ 2019ء میں ایک نیا شعبہ ’لائحۃ الذوق العام‘ تشکیل دیا گیا ہے، یہ دراصل سیاحت کی ضرریات کے تحت بنایا گیا ہے، تاکہ یقینی بنایا جائے کہ عوامی مقامات پر کسی کو کوئی تکلیف یا پریشانی کا سامنا نہ ہو، یعنی کہ لوگوں کی آزادی کو تحفظ دیا جائے۔ حال ہی میں سعودی عرب نے یہ عندیہ بھی دیا تھا کہ وہ قومی جھنڈے کو تبدیل کردیں گے۔

اگرچہ سعودی عرب میں مذہبی طبقے کے کردار کو محدودتر بنانے کا عمل 2015ء کے بعد شروع ہوا جب محمد بن سلمان نے اقتدار میں اپنا رسوخ مضبوط کرنا شروع کیا۔ لیکن سعودی عرب میں مذہبی طبقے کے بنیادپرست پہلو کو کمزور کرنے کی کوششیں 2003ء-4 کے بعد اس وقت شروع ہوئیں جب القاعدہ نے مملکت میں کچھ حملے کیے تھے۔ اس کے بعد دہشت گردی اور شدت پسندی کے قلع قمع کی غرض سے مبالغہ آمیز حد تک اقدامات کیے گئے اور یہ واضح کیا گیا کہ ریاستی مفادات کے خلاف کوئی بھی قول فعل برداشت نہیں کیا جائے گا۔ اس کے لیے نہ صرف یہ کہ انتظامی دائرے میں اقدامات کیے گئے بلکہ نصاب میں اعتدال پسندی اور رواداری کے موضوعات پر مواد شامل کیا گیا۔ اس کے علاوہ حکومتی سطح پہ نوجوانوں کے لیے تعلیمی اداروں میں ان سے باہر تربیتی شعبے قائم کیے گئے تاکہ شدت پسندانہ فکر کا مقابلہ کیا جاسکے۔ سعودی عرب کے اس ضمن میں اقدامات بین الاقوامی معیار کے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب میں امن وامان کی فضا تشکیل پاگئی ہے اور لوگ اس کے حق میں ہیں۔ بالخصوص عرب بہار کے بعد کچھ ممالک میں تلخ تجربات کے بعد عوام ریاست کے حق میں ہیں اور اس کی پالیسیوں کو سراہتے ہیں۔

ایسا نہیں ہے کہ محمد بن سلمان مکمل طور پہ مملکت میں علماء کو نظرانداز کرنا چاہتے ہیں، انہیں علما کی ضرورت ہے۔ ان کے البتہ دو مقاصد ہیں۔ ایک یہ کہ مذہبی طبقہ ریاستی امور میں حائل نہ بنے۔ اور دوسرا یہ کہ بنیادپرست پہلو کو ترک کردیا جائے۔ اسی لیے روایتی علما کی جگہ ریاست اپنے ہم خیال علما کو آگے لارہی ہے، تاکہ یہ تأثر نہ بنے کہ وہ مذہبی تشخص یا مذہبی طبقے کے خلاف ہے۔ محمد بن سلمان نے ریاستی علما کی طاقتورترین کمیٹی ’ہیئۃ کبارالعلماء‘ میں تبدیلیاں کی ہیں جو ہمیشہ وہابی نظیات کی حامل رہی تھی۔ اب اس میں چار ایسے علما کو شامل کیا گیا جو معتدل اور ترقی پسند خیال کیے جاتے ہیں، ان میں سلمان ابوالخیل اور محمد العیسی بھی ہیں جنہوں نے خواتین کو وکالت کے شعبے میں کام کرنے کی اجازت کا فتوی دیا تھا اور یہ سیاسی اسلام کے سخت ناقد ہیں۔

مملکت کے مفادات اور ریاستی رِٹ وہ سرخ پٹی ہے جسے عبور کرنے کی کوئی گنجائش باقی نہیں رکھی گئی۔ نہ اس کے خلاف عوامی جذبات کو اکسانے کی رعایت رکھی گئی ہے۔ وہابیت اگرچہ بطور ادارہ سخت گیر سمجھی جاتی رہی ہے، لیکن وہ مجموعی طور پہ کبھی مملکت کے اندر ریاست کے مقابل نہیں کھڑی ہوئی، نہ اس کی سیاسی فیصلوں میں اعلانیہ ناقدانہ رائے دینے کی تاریخ ہے۔ البتہ اب اس عنصر میں ریاستی اقدامات کے خلاف ناگواری کا سخت احساس پایا جاتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود اس کے پاس سیاسی تحرک کا موقع یا گنجائش نہیں۔ مرکزی دھارے کے نمائندہ وہابی عنصر کے برعکس مملکت میں سیاسی میلان رکھنے والے علما کا ایک گروہ ایسا تھا کہ جن کے لاکھوں کی تعداد میں پرستار تھے اور یہ خیال موجود تھا کہ وہ جب چاہیں حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرسکتے ہیں۔ ’علماءالصحوہ‘ (انقلابی علما) کے نام سے مشہور، سلمان العودہ، شیخ العریفی، عائض القرنی اور ناصر العمر جیسے کرشماتی شخصیت کے حامل درجنوں علما تھے جو اب یا تو جیلوں میں بند ہیں، گھروں میں نظربند ہیں، یا خاموشی اختیار کرچکے ہیں یا ریاست کے ہمنوا بن گئے ہیں۔ جب سیاسی میلان رکھنے والے ان علما کے خلاف کاروائیاں شروع کی گئی تھیں تو بہت شور مچا تھا اور لگتا تھا کہ حکومت دباؤ میں آجائے گی، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ مملکت نے چند ہی سالوں میں جتنے اقدامات کیے اور جس طرح دباؤ کو خاطر میں لائے بغیر ہر قدم اٹھایا، اس کے نتیجے میں اب صورتحال یہ ہے کہ ریاست کو مذہبی طبقے سے کوئی بڑا چیلنج درپیش ہونے کا خوف نہیں رہا۔

مملکت نوجوانوں کی ذہن سازی اور اسے اپنی جانب مائل کرنے کے لیے بہت سے اقدام کیے۔ نصاب و تعلیم کے شعبے سمیت کئی دیگر خطوط پر کوششیں بروئے کار لاکر ان کی فکری تنقیح کی گئی تاکہ وہ روایتی اور رجعت پسند فکر کا شکار نہ بن سکیں۔ حیران کن طور پہ یہ محض دو دہائیوں کا عمل ہے۔ لیکن اس کے لیے بہت سنجیدگی دکھائی گئی۔

اگر مستقبل میں معاشی سطح پہ کوئی مسائل جنم لیتے ہیں یا حکومت کسی بڑے بحران سے دوچار ہوتی ہے تو بلاشبہ یہ کمزور کیے گئے مذہبی حلقے سیاسی تحرک کو فعال بنا سکتے ہیں اور  محمد بن سلمان کے لیے کہیں نہ کہیں بہرحال مشکلات پیدا کرسکتے ہیں

روایتی مذہبی حلقے کے رسوخ کو کم کرنے اور شاہی خاندان میں ایک گروہ کو ناراض کرنے کے بعد ملک کے اندر عوامی، بالخصوص نوجوانوں کی حمایت حاصل کرنا ناگزیر ہوجاتا ہے۔ اس لیے محمد سلمان نے اپنی توجہ کا مرکز نوجوانوں کو بنا رکھا ہے۔ ان کی ذہن سازی ہو، ان کی معاشی و روزگار ضروریات کا خیال ہو یا تفریحی ضرورتوں کو پورا کرنا، اس سب کے لیے بہترین اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ شہزادے کو یہ بھی علم ہے کہ مذہبی میلان رکھنے والا نوجوان اب چاہے سلمان العودہ جیسے علما کے لیے محبت کے جذبات رکھتا ہو، بہرحال وہ ان کے لیے جان تو قربان نہیں کرے گا۔ کیونکہ اب حالات پہلے جیسے نہیں رہے۔ محمد بن سلمان اپنے خطابات اور تقریروں میں بھی نوجوانوں سے مخاطب ہوتے ہیں۔

سعودی عرب میں مذہبی تناظر میں دو طبقات ہیں جو موجودہ حکومت اور اس کی پالیسیوں سے نالاں ہیں۔ ایک مرکزی دھارے کا روایتی وہابی حلقہ، اور دوسرا سیاسی اسلام کی جانب میلان رکھنے والا طبقہ جسے وہاں ’علماء الصحوہ‘ انقلابی علما، کہا جاتا ہے جو سلمان العودہ جیسے علماء پر مشتمل ہے۔ علما اور مذہبی طبقے کے ایک نئے گروہ کے آگے آنے کے باوجود اوپر ذکر کیے گئے دو طبقات کمزور سہی مگر ختم نہیں ہوں گے۔

آنے والے وقت میں واضح ہوگا کہ سعودی عرب کے حالات کیسے رہتے ہیں۔ اگر مستقبل میں معاشی سطح پہ کوئی مسائل جنم لیتے ہیں یا حکومت کسی بڑے بحران سے دوچار ہوتی ہے تو بلاشبہ یہ کمزور کیے گئے مذہبی حلقے سیاسی تحرک کو فعال بنا سکتے سکتے ہیں اور  محمد بن سلمان کے لیے کہیں نہ کہیں بہرحال مشکلات پیدا کرسکتے ہیں۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...