تربت سے گرفتار کی جانے والی مبینہ خودکش بمبار خاتون کون ہے؟ انتظامیہ اور مظاہرین کا موقف

1,211

16 مئی سے سی پیک شاہراہ M8 پر کئی لوگ دھرنا دیے بیٹھے ہیں۔ تربت میں درجہ حرارت اس وقت اوسطاً 45 سے 48 کے درمیان ہے۔ اس تپتی دھوپ میں جس مقام پر دھرنا دیا جارہا ہے وہ ضلع کیچ اور ضلع پنجگور کا درمیانی علاقہ ہوشاپ ہے۔ اس کا مقصد 16 مئی کی علی الصبح ہوشاپ میں سی ٹی ڈی اور حسّاس اداروں کا ایک گھر پر ریڈ اور وہاں سے بظاہر ایک گھریلو خاتون کی جبری گمشدگی ہے جس کا نام نورجان بنت واحد بخش اور شوہر کا نام فضل کریم بتایا گیا ہے۔

دھرنے کی وجہ سے تربت، پنجگور، آواران ،خاران، خضدار، قلات، مستونگ اور کوئٹہ جیسے شہروں کا زمینی رابطہ بند ہے۔ دو دنوں سے سڑک کے دونوں جانب درجنوں گاڑیاں مسافروں کو لے کر کھڑی ہیں جبکہ کچھ مال بردار گاڑیاں بھی اس میں شامل ہیں جو کوئٹہ سے پھل لے کر تربت آنا چاہتی ہیں۔ احتجاج کے دوسرے دن مسافروں کے لیے وہاں ہی کھانے اور پانی کا انتظام کیا گیا اور انہیں سایہ فراہم کرنے کے لیے خیمے لگائے گئے۔ یہ سب انتظامات خود احتجاج کرنے والوں کی طرف سے کیے گئے ہیں۔

خواتین مظاہرین ایک خیمے تلے

نورجان کی گمشدگی ان کے ہمسایوں کے مطابق صبح 5 بجے کے قریب اس وقت ہوئی جب ٹارچ کی روشنی میں کچھ وردی والے اور سادہ لباس اہلکار گاؤں میں ان کے گھر آئے۔ پڑوسیوں کے مطابق انہوں نے چار خواتین اہلکاروں کے ساتھ ہمارے سامنے اس خاتون کو سر کے بالوں سے پکڑا، گھسیٹ کر ایک گاڑی میں ڈالا اور چلے گئے۔ نورجان کے ایک ہمسایہ کے مطابق اس نے نورجان کو مخاطب کرتے ہوئے خاتون اہلکار کی زبان سے یہ سنا کہ ’تم خود کش حملہ آور ہو اور دہشت گردی کا ایک بڑا منصوبہ انجام دینے والی ہو‘۔

اس کے بعد صبح 7 بجے علاقہ مکینوں نے سی پیک شاہراہ پہنچ کر اسے آمدورفت کے لیے بلاک کردیا۔ تب سے لوگ وہاں بیٹھے خاتون کی بازیابی کا مطالبہ کررہے ہیں۔ احتجاج میں شامل تربت سول سوسائٹی کے کنوینر کامریڈ گلزار دوست کہتے ہیں کہ نورجان گھریلو خاتون ہیں اور علاقے میں کشیدہ کاری کرکے پیٹ پالتی ہیں، ان کا شوہر متحدہ عرب امارات میں مزدوری کرتا ہے۔

شاہراہ پر کھڑے پھلوں اور سامان کے ٹرک سڑک کھلنے کے انتظار میں

عوامی احتجاج کے بعد سی ٹی ڈی نے کوئٹہ سے جاری کیے گئے ایک بیان میں نورجان کی گرفتاری کا اعتراف کرتے ہوئے ان پر وہی الزامات لگائے جو گرفتاری کے وقت لیڈی کانسٹیبل کی زبان سے ایک ہمسایہ نے سنے تھے۔ سی ٹی ڈی کے مطابق نورجان نامی خاتون ’بی ایل اے‘ کی ذیلی شاخ مجید بریگیڈ کی خود کش حملہ آور ہے جو سی پیک شاہراہ پر ایک غیرملکی قافلے پر حملے کی منصوبہ بندی کررہی تھی۔ 17 مئی کو سی ٹی سی مکران تھانہ تربت میں خاتون کے خلاف ایف آئی آر نمبر36/2022 درج کی گئی۔ دو صفحات پر مشتمل ایف آئی آر میں خاتون کی گرفتاری اور ان پر الزامات کی تفصیل کے مطابق حساس اداروں نے رپورٹ دی تھی کہ تربت سے 112 کلومیٹر مشرق کی طرف عرضو بازار ہوشاپ میں نورجان دختر واحد بخش اپنے ایک ساتھی جن کا تعلق کالعدم تنظیم ’بی ایل اے‘ کی ذیلی شاخ مجید بریگیڈ سے ہے، وہ اسلحے اور وخودکش جیکٹ کے ساتھ اس وقت ایک مکان میں موجودہیں اور خودکش حملہ کرنے کی منصوبہ بندی کررہی ہیں۔ اس اطلاع پر چھاپہ مار ٹیم تشکیل دی گئی جس میں سی ٹی ڈی، اے ٹی ایف، لیڈی کانسٹیبلان، بم ڈسپوزل ٹیم و حساس ادارے کے اہلکار شامل تھے۔ ٹیم رات 5 بج کر 50 منٹ پر ہوشاپ پہنچی۔ حسب نشاندہی مکان کو گھیرے میں لیا گیا۔ اسی اثناء میں رہائشی کمرے کے اندر سے ایک شخص مسلح کلاشنکوف بہ ہمراہ ایک عورت کے نکل کرباہر آئے جن کوکمرے سے باہر نکلتے ہی لیڈی کانسٹیبلان نے قابو کرلیا۔ مرد نے اپنا نام فضل کریم ولد محمد علی جبکہ عورت نے اپنا نام نورجان دختر واحدبخش زوجہ فضل بتلایا۔ خاتون کی باڈی پر خودکش جیکٹ باندھی ہوئی پائی گئی جو بروقت قابو کرنے کی وجہ سے دھماکہ نہ کرسکی۔ خودکش جیکٹ کو بذریعہ بم ڈسپوزل ٹیم بازو کے ساتھ بندھے ہوئے سوئچ کو ڈی فیوز کرکے اتروایا گیا۔ خود کش جیکٹ میں بارودی مواد نٹ بولٹ اور پریما کارڈ تار موجود تھے جن کا وزن 8 کلو 700 گرام  جبکہ جیکٹ سے علیحدہ کی گئی پریما کارڈ تارکے 4/4 فٹ کے دو ٹکڑے بھی پائے گئے۔

سی پیک شاہراہ ایم 8 پر کھڑے کچھ لوگ

ملزم فضل کریم سے ایک کلاشنکوف نمبر 8193 اور 30 دانہ زندہ کارتوس برآمد ہوئے۔ کمرے کو چیک کرنے پر ایک نیلے تھیلے کے اندر سے سفید پلاسٹک میں بارودی مواد، 6 عدد ہینڈ گرنیڈ،  2 عدد آئی ای ڈی اور بیٹری بھی ملے۔

نورجان جن کی عمر 48 سال کے قریب ہے تین بچوں کی والدہ ہیں۔ ان کے دو بچے دو دنوں سے اس احتجاج کا حصہ ہیں جو ان کی والدہ کی بازیابی کے لیے سی پیک شاہراہ پر کیا جا رہا ہے۔ ان کا بڑا بچہ 9 سال کا ہے اور چوتھی جماعت کا طالب علم ہے۔ اس کے مطابق رات دو بجے ہمارے گھر کا محاصرہ کرکے میری والدہ کو نیند سے جگایا گیا اور دو لیڈی اہلکاروں نے والدہ کو کچھ پوچھنے کے لیے ایک کونے پر چلنے کا کہا۔ اس کے مطابق والدہ کے سر پر دو پٹھ بھی نہیں تھا مگر وہ ان کے ساتھ چلی گئی ہم نے دیکھا کہ والدہ کو ایک گاڑی میں ڈال کر وہ لوگ چلے گئے۔ تاہم بچہ اپنے گھر سے کسی فضل نامی مرد کی گرفتاری سے انکاری ہے۔ اس کے مطابق ان کے والد کا نام فضل کریم ہے مگر وہ یو اے ای میں کئی سالوں سے مزدوری کر رہے ہیں اور اس وقت بھی وہ وہیں ہیں۔

گلزار دوست کے مطابق نورجان کے ساتھ گرفتار مرد کا نام واقعی فضل ہے لیکن وہ قریب کے ایک دوسرے گاؤں سے تعلق رکھتا ہے اور اسے حسّاس اداروں نے کچھ روز پہلے لاپتہ کیا تھا۔ اب سی ٹی ڈی کے ذریعے جھوٹ بول کر اسے نورجان کا شوہر ظاہر کیا جارہا ہے۔ گلزار دوست کے مطابق احتجاج خاتون کی بازیابی اور آئندہ خواتین کو گرفتار نہ کرنے کی شرط پر ہی ختم کیا جائے گا۔ ان کے مطابق ضلعی انتظامیہ کے ساتھ مزاکرات کے تین دور ہوئے ہیں مگر وہ نورجان کی حوالگی کے معاملے میں یقین نہیں دلا رہے تھے۔

احتجاج میں بچے بھی شامل ہیں

سی ٹی ڈی نے منگل کو نورجان اور فضل کریم کو انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت کے جج محمد یوسف کاکڑ کے سامنے پیش کیا ہے۔ ایک سنیئر وکیل کے مطابق نورجان نے عدالت میں جج کے سامنے خود پر لگائے تمام الزامات مسترد کیے، البتہ خود پر جسمانی تشدد کی تصدیق تو کی لیکن کسی اور زیادتی سے انکار کیا جس کا سماجی ذرائع ابلاغ کی ویب سائٹس پر ذکر کیا جارہا ہے۔ عدالت میں خاتون کی طرف سے وکلا کی ایک ٹیم سابق ایڈوکیٹ جنرل بلوچستان ناظم الدین ایڈوکیٹ کی سربراہی میں پیش ہوئی جس میں مکران بار ایسوسی ایشن کے سربراہ محراب گچکی ایڈوکیٹ اور کیچ بار ایسوسی ایشن کے سابقہ صدر جاڈین دشتی ایڈوکیٹ جیسے سینئر وکلا شامل تھے۔ انہوں نے سی ٹی ڈی کے الزامات مسترد کرتے ہوئے خاتون کی ضمانت کے لیے درخواست پیش کی۔ عدالت نے خاتون کو دو دن بعد رپورٹ مرتب کرکے دوبارہ پیش کرنے کا حکم دیا۔ ایک سنیئر وکیل کے مطابق جج نے سی ٹی ڈی کو قریبی رشتہ داروں اور وکلا سے ملنے کی اجازت بھی دی۔

زیر حراست خاتون کی رہائی کے لیے ’حق دو تحریک‘ کیچ نے منگل کو تربت میں ریلی نکالی اور مرکزی فدا شھید چوک پر دھرنا دیا۔ جبکہ بدھ 18 مئی کو حق دو تحریک، تربت سول سوسائٹی اور جماعت اسلامی نے تربت شہر میں شٹرڈاؤن ہڑتال کی کال دے رکھی ہے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...