’’میرجان‘‘ ایک ناول نہیں بلکہ تاریخ ہے جسے ہمیشہ زندہ رہنا ہوتا ہے

گل نوخیز اختر

590

’’میر جان‘‘ ہجرت کے دُکھوں سے بے جان ہوتی ہوئی عورت کی داستان ہے۔ ہمارے ہاں ہجرت سے مراد صرف1947ء کی ہجرت لی جاتی ہے لیکن عامر رانا نے اس ناول میں ایک اور ہجرت کی نشاندہی کی ہے جس سے شائد ہم پنجاب والے بے خبر ہیں۔ یہ ہجرت بلوچستان کے خطے مکران میں وقوع پذیر ہوتی ہے۔ یہ ہجرت مشرقی افریقہ سے ہوتی ہوئی عمان مسقط تک پھیلی ہوئی ہے جس میں دونوں اطراف کے فریقین شامل ہیں۔ مکرانی ہجرت کے اثرات صرف بلوچستان تک محدود نہیں رہے بلکہ ان کا اثر جنوبی پنجاب اور پھر دہلی تک محسوس کیا گیا۔

ناول میں ہجرت کا دکھ پوری قوت کے ساتھ محسوس کیا جاسکتا ہے۔ خصوصاً عورت اس ہجرت میں کس اذیت کا شکار بنتی رہی، وہ عورت جو گھر بناتی ہے اور پھر اسے اپنے محبوب کی طرح پیار کرتی ہے، اسے جب گھر بار چھوڑنا پڑتا ہے تو دل ودماغ کی کیا حالت ہوتی ہے۔

عامر رانا نہایت سلجھے ہوئے ناول نگار ہیں۔ قاری کی نبض پر ہاتھ رکھتے ہیں۔ ان کے ہاں محض تصوراتی کہانی جنم نہیں لیتی، وہ ایسی سچائی تلاش کرتے ہیں جس میں زیب داستاں کی گنجائش ہی باقی نہیں رہتی۔ انسانی حقوق اور عقائد پرستی کے خلاف عامر رانا کی مزاحمت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ امن کی تلاش اور انسان پر جبر کی روایت سے انحراف ان کا بنیادی مقصد ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ واقعات کو بیان کرنے کا جادوئی حسن بھی جانتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا پہلا ناول’سائے‘ ہو یا تازہ ناول ’میرجان‘ قاری کو پڑھتے ہوئے اپنا تسلسل برقرار رکھنے میں کسی خارجی ذریعے کی مدد نہیں لینا پڑتی۔ ناول کی فضا اور الفاظ کا دروبست ایک ایسا ماحول تخلیق کردیتا ہے کہ ناول کو ایک نشست میں پڑھنا لازم ہوجاتاہے۔

ہم نے آج تک انڈو پاک کی تقسیم کی کہانیاں ہی پڑھیں، اسی دکھ کو محسوس کیا اور اسی کو احاطہ تحریر میں لائے۔ لیکن عامر رانا نے ہجرت کو مکرانی پہاڑوں سے دریافت کیا ہے۔ اور سچی بات ہے ناول پڑھتے ہوئے یوں لگتاہے گویا یہ ہجرت اپنے درد کے لحاظ سے پہلی ہجرت سے کہیں زیادہ تکلیف رکھتی ہے۔ ناول کا موضوع ہجرت کے ساتھ ساتھ ان عوامل کی طرف بھی اشارہ کرتاہے جس کے نتیجے میں عقائد اور مسلک کی پیروی نہ کرنے والوں پر زمین تنگ کردی جاتی ہے۔ انتہا پسند گروہ کیسے پروان چڑھتے ہیں اور پھر انہیں کیسے خون کا پیاسا بنا دیا جاتاہے، اس کا بہترین اظہار ’میرجان‘ کی شکل میں سامنے آتاہے۔ میری نظر میں یہ صرف ایک ناول نہیں بلکہ تاریخ ہے جسے ہمیشہ زندہ رہنا ہوتاہے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...